گمنام صارف
"عبد اللہ شاہ غازی" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbasi م (←وفات) |
imported>Abbasi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 23: | سطر 23: | ||
منصور عباسی نے عبد اللہ کی موجودگی کی خبر پا کر هشام بن عمرو بن بسطام تغلبي کو حکومت سندھ کا لالچ دے کر عبد اللہ کے قتل کیلئے سندھ روانہ کیا۔ | منصور عباسی نے عبد اللہ کی موجودگی کی خبر پا کر هشام بن عمرو بن بسطام تغلبي کو حکومت سندھ کا لالچ دے کر عبد اللہ کے قتل کیلئے سندھ روانہ کیا۔ | ||
===اولاد=== | ===اولاد=== | ||
انساب و تاریخ کی کتب میں عبد اللہ اشتر کا ایک بیٹا مذکور ہے<ref>عمدة الطالب - ابن عنبة - ص 105۔تاريخ طبري - طبري - ج 6 - ص 291</ref> اس کی والدہ ام ولد یعنی کنیز تھی، اس کا نام محمد | انساب و تاریخ کی کتب میں عبد اللہ اشتر کا ایک بیٹا مذکور ہے<ref>عمدة الطالب - ابن عنبة - ص 105۔تاريخ طبري - طبري - ج 6 - ص 291</ref> اس کی والدہ ام ولد یعنی کنیز تھی، اس کا نام محمد اور کنیت ابو الحسن<ref>تاريخ الطبري - الطبري - ج 6 - ص 291</ref> تھی نیز اسی محمد کی مناسبت سے عبد اللہ اشتر کو '''ابو محمد'''<ref>عمدة الطالب - ابن عنبہ - ص 105</ref> بھی کہا گیا ہے۔انساب کی کتب میں تصریح ہوئی ہے کہ اسی عبد اللہ اشتر کے بیٹے محمد سے محمد نفس زکیہ کی نسل چلی ہے۔<ref>عمدة الطالب - ابن عنبہ - ص 105۔الدر النظيم - إبن حاتم العاملي - ص 520۔العدد القويہ - علي بن يوسف الحلي - ص 357</ref> بعض نے اس بیٹے کی جائے ولادت کابل ذکر کی ہے۔<ref>عمدة الطالب - ابن عنبة - ص 105</ref> عبد اللہ اشتر کے قتل کے بعد اس کے بیٹے محمد اور اس کی والدہ کنیز کو کو منصور کے پاس بھیجا گیا۔ منصور نے انہیں والیے مدینے کے نام ایک خط کے ہمراہ مدینہ روانہ کیا جس کے میں لکھا تھا کہ آل ابی طالب کو جمع کر کےان کے سامنے اس کے نسب کی تصدیق کرو اور انہیں ان کے حوالے کر دو۔<ref>تاريخ الطبري - الطبري - ج 6 - ص 291</ref> | ||
==وفات== | ==وفات== | ||
عبداللہ شاہ غازی کی وفات کے | عبداللہ شاہ غازی کی وفات کو مؤرخین نے 151 ہجری قمری کے ذیل میں ذکر کیا ہے لیکن تاریخ و مہینے کے حوالے سے کوئی معلومات مذکور نہیں ہے بلکہ اس کی وفات میں درج ذیل اقوال پائے جاتے ہیں: | ||
'''پہلا قول''': سندھ کی جانب فرار کے بعد کابل کے نزدیک '''علج''' نامی پہاڑ پر قتل ہوئے اور ان کا سر منصور عباسی کو بھیجا گیا۔ حسن بن زيد بن حسن بن علی نے ان کا سر لیا۔<ref>عمدة الطالب - ابن عنبة - ص 105</ref> | '''پہلا قول''': سندھ کی جانب فرار کے بعد کابل کے نزدیک '''علج''' نامی پہاڑ پر قتل ہوئے اور ان کا سر منصور عباسی کو بھیجا گیا۔ حسن بن زيد بن حسن بن علی نے ان کا سر لیا۔<ref>عمدة الطالب - ابن عنبة - ص 105</ref> | ||
سطر 32: | سطر 32: | ||
'''دوسرا قول''':سندھ میں هشام بن عمرو بن بسطام نے اسے قتل کرنے کے بعد سر منصور عباسی کو بھیجا۔<ref>مقاتل الطالبيين - أبو الفرج الأصفهانى - ص 207 - 208۔عمدة الطالب - ابن عنبة - ص 106</ref> | '''دوسرا قول''':سندھ میں هشام بن عمرو بن بسطام نے اسے قتل کرنے کے بعد سر منصور عباسی کو بھیجا۔<ref>مقاتل الطالبيين - أبو الفرج الأصفهانى - ص 207 - 208۔عمدة الطالب - ابن عنبة - ص 106</ref> | ||
'''تیسرا قول''':سندھ میں مہران کی ایک نہر کے کنارے ہشام بن عمرو کے بھائی قتل ہوا | '''تیسرا قول''':سندھ میں مہران کی ایک نہر کے کنارے ہشام بن عمرو کے بھائی سفنجا اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور سر منصور عباسی کو بھیجا گیا ایک قول کے مطابق قتل کے بعد سر جدا کئے بغیر نہر میں بہا دیا گیا۔<ref>تاريخ الطبري - الطبري - ج 6 - ص 291</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |