مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  22 اپريل 2017ء
م
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 1,140: سطر 1,140:
'''مفصل مضمون: ''[[مصحف عثمانی]]'''''
'''مفصل مضمون: ''[[مصحف عثمانی]]'''''


[[عثمان بن عفان|عثمان]] کو سنہ 24 ہجری میں عہدہ خلافت ملا۔ اس دور میں مسلمانوں کو حیرت انگیز فتوحات نصیب ہوئیں اور قرآن تازہ مفتوحہ سرزمینوں تک بھی پہنچ گیا اور کلمات قرآن کی قرائت کے سلسلے میں شدید مشکلات اور اختلافات ظہور پذیر ہوئے۔ یہ صورت حال [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی کہ وہ جمع و تدوین قرآن کا ناقص کام کسی نتیجے پر پہنچانے کا اہتمام کریں اور قرآن اور اسلامی معاشرے کو اتنشار سے تحفظ فراہم کریں۔ [[عثمان بن عفان|عثمان]]  نے اس کام کے لئے [[زید بن ثابت]]، [[سعید بن عاص]]، عبداللہ بن زبیر]] اور [[عبدالرحمن بن حارث]] پر مشتمل انجمن تشکیل دی۔ اس انجمن نے اپنا کام [[قریش]] اور [[انصار]] کے 12 افراد کے تعاون سے شروع کیا۔ اس کام میں [[حضرت علی علیہ السلام|حضرت علی(ع)]] ایک لحاظ سے ناظر و نگران کا کردار ادا کررہے تھے اور ان افراد کو واضح نویسی کی ترغیب دلا رہے تھے۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص423؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔</ref> ان افراد نے قرآن کے قطعی اور حتمی نسخے کی کتابت کا آغاز کیا۔ ان افراد نے سب سے پہلے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے دور کے تمام صحیفوں اور مکتوبات قرآنی کو جمع کیا؛ اس کے بعد [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کے زمانے میں [[زید بن ثابت]] کے جمع کردہ نسخہ ـ جو [[حفصہ بنت عمر]] کے پاس محفوظ تھا ـ امانتاً اخذ کیا۔ طے یہ پایا تھا کہ ہرگاہ انجمن کے تین افراد نے کسی لفظ یا کلمے کی کتابت میں اختلاف کیا، اس کلمے کو [[قریش]] کے لہجے کے مطابق تحریر کیا جائے۔ یوں حتمی تدوین کا کام [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے دور سے باقیماندہ صحیفوں، اور افراد کے مخصوص نسخوں، [[حفصہ بنت عمر|حفصہ]] کے پاس رکھے [[زید بن ثابت|زيد]] کے تدوین کردہ مجموعے، نیز [[زید بن ثابت|زید]] کے مخصوص صحیفے، حفاظ کے حفظ اور شاہدوں کی شہادت کے سہارے آگے بڑھا اور یوں [[مصحف امام]] (یعنی) باضابطہ اور حتمی نسخہ ـ جو [[مصحف عثمانی]] کے نام سے مشہور ہوا، 4 سے 5 سال (سنہ 24 ہجری کے بعد سے سنہ 30 ہجری سے قبل تک) کے عرصے میں مکمل ہوا اور اس مصحف سے نسخہ برداری کرتے ہوئے 5 یا 6 مزید نسخے تیار کیا گئے جن میں دو نسخے [[مدینہ]] اور [[مکہ]] میں رہے اور 3 یا چار نسخوں میں سے ہر ایک کو، ایک حافظ قرآن کے ہمراہ اہم اسلامی مراکز (یعنی) "[[بصرہ]]، "[[کوفہ]]"، "[[شام]]" اور "[[بحرین]]" بھجوایا گیا۔ اس کے بعد [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے حکم پر تمام کتبے اور مکتوبات، کھالوں، سفید رنگ کے نازک پتھروں، ہڈیوں، چمڑوں، حریروں وغیرہ کو ـ جنہیں حتمی نسخے کی تدوین کے لئے صحابہ سے اخذ کیا گیا تھا ـ پانی اور سرکے میں ابال کر محو کیا گیا۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ ان منتشر آثار کو آگ لگا کر جلا دیا گیا یہ پھر کسی اور روش سے مٹا دیا گیا تا کہ اختلاف کی جڑ اکھڑ جائے اور اصطلاحاً "توحید نصّ"  کا امکان میسر ہو [یعنی  مصحف امام = مصحف عثمانی کو ہی پورے عالم اسلام میں واحد حتمی نسخے کے طور پر تسلیم کیا جائے]۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص407-431؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔</ref>
[[عثمان بن عفان|عثمان]] کو سنہ 24 ہجری میں عہدہ خلافت ملا۔ اس دور میں مسلمانوں کو حیرت انگیز فتوحات نصیب ہوئیں اور قرآن تازہ مفتوحہ سرزمینوں تک بھی پہنچ گیا اور کلمات قرآن کی قرائت کے سلسلے میں شدید مشکلات اور اختلافات ظہور پذیر ہوئے۔ یہ صورت حال [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی کہ وہ جمع و تدوین قرآن کا ناقص کام کسی نتیجے پر پہنچانے کا اہتمام کریں اور قرآن اور اسلامی معاشرے کو اتنشار سے تحفظ فراہم کریں۔ [[عثمان بن عفان|عثمان]]  نے اس کام کے لئے [[زید بن ثابت]]، [[سعید بن عاص]]، عبداللہ بن زبیر]] اور [[عبدالرحمن بن حارث]] پر مشتمل انجمن تشکیل دی۔ اس انجمن نے اپنا کام [[قریش]] اور [[انصار]] کے 12 افراد کے تعاون سے شروع کیا۔ اس کام میں [[حضرت علی علیہ السلام|حضرت علی(ع)]] ایک لحاظ سے ناظر و نگران کا کردار ادا کررہے تھے اور ان افراد کو واضح نویسی کی ترغیب دلا رہے تھے۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص423؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔</ref> ان افراد نے قرآن کے قطعی اور حتمی نسخے کی کتابت کا آغاز کیا۔ ان افراد نے سب سے پہلے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے دور کے تمام صحیفوں اور مکتوبات قرآنی کو جمع کیا؛ اس کے بعد [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کے زمانے میں [[زید بن ثابت]] کے جمع کردہ نسخہ ـ جو [[حفصہ بنت عمر]] کے پاس محفوظ تھا ـ امانتاً اخذ کیا۔ طے یہ پایا تھا کہ ہرگاہ انجمن کے تین افراد نے کسی لفظ یا کلمے کی کتابت میں اختلاف کیا، اس کلمے کو [[قریش]] کے لہجے کے مطابق تحریر کیا جائے۔ یوں حتمی تدوین کا کام [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے دور سے باقیماندہ صحیفوں، اور افراد کے مخصوص نسخوں، [[حفصہ بنت عمر|حفصہ]] کے پاس رکھے [[زید بن ثابت|زيد]] کے تدوین کردہ مجموعے، نیز [[زید بن ثابت|زید]] کے مخصوص صحیفے، حفاظ کے حفظ اور شاہدوں کی شہادت کے سہارے آگے بڑھا اور یوں [[مصحف امام]] (یعنی) باضابطہ اور حتمی نسخہ ـ جو [[مصحف عثمانی]] کے نام سے مشہور ہوا، 4 سے 5 سال (سنہ 24 ہجری کے بعد سے سنہ 30 ہجری سے قبل تک) کے عرصے میں مکمل ہوا اور اس مصحف سے نسخہ برداری کرتے ہوئے 5 یا 6 مزید نسخے تیار کیا گئے جن میں دو نسخے [[مدینہ]] اور [[مکہ]] میں رہے اور 3 یا چار نسخوں میں سے ہر ایک کو، ایک حافظ قرآن کے ہمراہ اہم اسلامی مراکز (یعنی) "[[بصرہ]]، "[[کوفہ]]"، "[[شام]]" اور "[[بحرین]]" بھجوایا گیا۔ اس کے بعد [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے حکم پر تمام کتبے اور مکتوبات، کھالوں، سفید رنگ کے نازک پتھروں، ہڈیوں، چمڑوں، حریروں وغیرہ کو ـ جنہیں حتمی نسخے کی تدوین کے لئے صحابہ سے اخذ کیا گیا تھا ـ پانی اور سرکے میں ابال کر محو کیا گیا۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ ان منتشر آثار کو آگ لگا کر جلا دیا گیا یا پھر کسی اور روش سے مٹا دیا گیا تا کہ اختلاف کی جڑ اکھڑ جائے اور اصطلاحاً "توحید نصّ"  کا امکان میسر ہو [یعنی  مصحف امام = مصحف عثمانی کو ہی پورے عالم اسلام میں واحد حتمی نسخے کے طور پر تسلیم کیا جائے]۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص407-431؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔</ref>


یہ مصحف ابتدائی شکل کے خط کوفی میں لکھا گیا تھا اور اعراب اور حروف کی حرکات کے علائم کا اندراج تو در کنار، اس کے حروف پر نقطے تک نہيں لگے تھے اور بعد کی دو صدیوں کے دوران، اس مصحف سے نسخہ برداری شدہ نسخوں میں حروف نے نقطے پا لئے۔ (مزید تفصیل مصحف امام یا مصحف عثمانی کے ساتھ ساتھ دیگر نسخوں ـ منجملہ [[امام علیہ السلام|حضرت علی(ع)]] سے منسوب مصحف، ابن مسعود اور دیگر صحابہ کے اختصاصی نسخوں ـ کی کیفیت جاننے، اور عثمان کی کاوش کی صحت و درستی اور ان کے اس عمل کی [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین(ع)]] کی طرف سے تصدیق و تائید نیز [[ائمہ معصومین علیہم السلام]] کی طرف سے مصحف عثمانی کو تسلیم کئے جانے کے بارے میں مزید اطلاعات کے لئے رجوع کریں: [[قرآن کی تحریف ناپذیری]])۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔</ref>
یہ مصحف ابتدائی شکل کے خط کوفی میں لکھا گیا تھا اور اعراب اور حروف کی حرکات کے علائم کا اندراج تو در کنار، اس کے حروف پر نقطے تک نہيں لگے تھے اور بعد کی دو صدیوں کے دوران، اس مصحف سے نسخہ برداری شدہ نسخوں میں حروف نے نقطے پا لئے۔ (مزید تفصیل مصحف امام یا مصحف عثمانی کے ساتھ ساتھ دیگر نسخوں ـ منجملہ [[امام علیہ السلام|حضرت علی(ع)]] سے منسوب مصحف، ابن مسعود اور دیگر صحابہ کے اختصاصی نسخوں ـ کی کیفیت جاننے، اور عثمان کی کاوش کی صحت و درستی اور ان کے اس عمل کی [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین(ع)]] کی طرف سے تصدیق و تائید نیز [[ائمہ معصومین علیہم السلام]] کی طرف سے مصحف عثمانی کو تسلیم کئے جانے کے بارے میں مزید اطلاعات کے لئے رجوع کریں: [[قرآن کی تحریف ناپذیری]])۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔</ref>
گمنام صارف