مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>E.musavi
سطر 297: سطر 297:


=== نزول ===
=== نزول ===
نزول قرآن سے مراد ۔۔۔۔۔۔۔ مختلف (یعنی تدریجا اور مرحلہ وار یا قدم بقدم) [[وحی]] کا اترنا مراد ہے [[بعثت]] کے پہلے سال کی [[لیلۃ القدر]] (یعنی ماہ [[رمضان المبارک|مبارک رمضان]] کے تیسرے عشرے کی کسی طاق رات) سے لے کر وصال [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] سے کچھ دیر قبل تک کے  23 سالہ عہد [[رسالت]] کے دوران، مصدر وحی (یعنی خداوند متعال) کی طرف سے، "مہبط وحی" (یعنی قلب [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] پر۔ قرآن مجید میں چونکہ نزول [[وحی]] کو خداوند متعال سے منسوب کیا جاتا ہے اسی لئے اس کو "انزال" اور "تنزیل" کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلی سورت [[سورہ علق]] (اقرأ) ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سورت کی پہلی 5 آیتیں نازل ہوئی ہیں اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ ابتداء میں جو مکمل سورت نازل ہوئی تھی وہ [[سورہ فاتحہ|سورہ حمد]] ہے۔<ref>التمهید، ج 93/1-98؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج 2، ص 1634۔</ref>
نزول قرآن سے مراد ۔۔۔۔ مختلف (یعنی تدریجا اور مرحلہ وار یا قدم بقدم) [[وحی]] کا اترنا مراد ہے [[بعثت]] کے پہلے سال کی [[لیلۃ القدر]] (یعنی ماہ [[رمضان المبارک|مبارک رمضان]] کے تیسرے عشرے کی کسی طاق رات) سے لے کر وصال [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] سے کچھ دیر قبل تک کے  23 سالہ عہد [[رسالت]] کے دوران، مصدر وحی (یعنی خداوند متعال) کی طرف سے، "مہبط وحی" (یعنی قلب [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] پر۔ قرآن مجید میں چونکہ نزول [[وحی]] کو خداوند متعال سے منسوب کیا جاتا ہے اسی لئے اس کو "انزال" اور "تنزیل" کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلی سورت [[سورہ علق]] (اقرأ) ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سورت کی پہلی 5 آیتیں نازل ہوئی ہیں اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ ابتداء میں جو مکمل سورت نازل ہوئی تھی وہ [[سورہ فاتحہ|سورہ حمد]] ہے۔<ref>التمهید، ج 93/1-98؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج 2، ص 1634۔</ref>


قرآن کی سب سے آخری سورت [[سورہ نصر]] ہے، تاہم بعض قرآنی محققین کا کہنا ہے کہ قرآن مجید پورا کا پورا [[لیلۃ القدر]] کو "جملۃ واحدہ" کی صورت میں (یعنی یکبارگی سے) [[لوح محفوظ]] سے (چوتھے آسمان میں) [[بیت العزہ]] یا [[بیت المعمور]] پر نازل ہوا ہے؛ اور پھر نجوماً یا منجماً یعنی مختلف حصوں میں اور رفتہ رفتہ اور مختلف صورتوں میں، 23 سال کے عرصے کے دوران تفصیلی صورت میں نازل ہوا ہے۔<ref>بحار الانوار، ج 253/18-254؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه، ج 2، ص 1634۔</ref> [[ملامحسن فیض کاشانی]] نے کہا ہے کہ نزول [کی ان دو کیفیات] سے مراد "قلب [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول(ص)]] پر قرآن کے معانی کا نزول، ہے... اور اس کے بعد 23 سال کے عرصے میں ـ جب بھی [[جبرائیل]] آپ(ص) کے سامنے ظاہر ہوئے ہیں اور وحی لائے ہیں اور الفاظ کو آپ(ص) کے لئے پڑھتے رہے ہیں، قرآن کے اجزاء آپ(ص) کے باطن قلب سے آپ(ص) کی زبان پر ظاہر ہوتے رہے ہیں۔<ref>مقدمه نهم از [[تفسیر صافی]]؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج 2، ص 1634۔</ref>
قرآن کی سب سے آخری سورت [[سورہ نصر]] ہے، تاہم بعض قرآنی محققین کا کہنا ہے کہ قرآن مجید پورا کا پورا [[لیلۃ القدر]] کو "جملۃ واحدہ" کی صورت میں (یعنی یکبارگی سے) [[لوح محفوظ]] سے (چوتھے آسمان میں) [[بیت العزہ]] یا [[بیت المعمور]] پر نازل ہوا ہے؛ اور پھر نجوماً یا منجماً یعنی مختلف حصوں میں اور رفتہ رفتہ اور مختلف صورتوں میں، 23 سال کے عرصے کے دوران تفصیلی صورت میں نازل ہوا ہے۔<ref>بحار الانوار، ج 253/18-254؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه، ج 2، ص 1634۔</ref> [[ملامحسن فیض کاشانی]] نے کہا ہے کہ نزول [کی ان دو کیفیات] سے مراد "قلب [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول(ص)]] پر قرآن کے معانی کا نزول، ہے... اور اس کے بعد 23 سال کے عرصے میں ـ جب بھی [[جبرائیل]] آپ(ص) کے سامنے ظاہر ہوئے ہیں اور وحی لائے ہیں اور الفاظ کو آپ(ص) کے لئے پڑھتے رہے ہیں، قرآن کے اجزاء آپ(ص) کے باطن قلب سے آپ(ص) کی زبان پر ظاہر ہوتے رہے ہیں۔<ref>مقدمه نهم از [[تفسیر صافی]]؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج 2، ص 1634۔</ref>
گمنام صارف