ولایت فقیہ

علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


ولایت فقیہ شیعہ فقہ میں ایک نظریہ ہے جس کے مطابق ان کے بارہویں امام، امام مہدیؑ کی غیبت کے دوران لوگوں پر حکومت کرنے کا حق صرف اور صرف جامع الشرائط مجتہد کو حاصل ہے۔ تیرہویں صدی ہجری کے مرجع تقلید، ملا احمد نراقی کو پہلے فقیہ سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے ولایت فقیہ کو ایک فقہی مسئلے کی شکل میں پیش کیا اور اسے پروان چڑھایا۔

ولایت فقیہ کے نظریے کے مطابق اسلامی معاشرے کے تمام اختیارات ولی فقیہ کو حاصل ہے۔ شیخ جعفر کاشف الغطاء، صاحب جواہر اور امام خمینی اس نظرئے کے حامی ہیں جبکہ شیخ انصاری، آخوند خراسانی اور آیت‌اللہ خوئی اس نظرئے کے مخالفوں میں سے شمار ہوتے ہیں۔

مقبولہ عمر بن حَنظَلہ نامی حدیث ولایت فقیہ کے قائلین کی نقلی دلائل میں سے ایک ہے۔ اس حدیث کے مطابق تنازعات میں صرف ایسے شخص کو حَکَم اور قاضی قرار دیا جا سکتا ہے جو اہل بیتؑ سے حدیث نقل کرتا ہو اور اسلامی احکام سے آشنا ہو۔ جبکہ معاشرے میں اسلامی احکام نافذ کرنے کے لئے ایک عادل اور عالم حاکم کے وجود کا ضروری ہونا ولایت فقیہ کے قائلین کی طرف سے پیش کی جانے والی عقلی دلیلوں میں سے ہے۔

ولایت فقیہ کے بارے میں متعدد کتابیں اور مقالات تحریر ہوئے ہیں۔ امام خمینی کی کتاب ولایت فقیہ، حسین علی منتظری کی کتاب، دراساتٌ في ولايۃ الفقيہ و فقہ الدولۃ الإسلاميۃ، آیت اللہ جوادی آملی کی کتاب، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت اور نعمت اللہ صالحی نجف آبادی کی ولایت فقیہ، حکومت صالحان نامی کتابیں اس بارے میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے ہیں۔

معنی و مفہوم

فقہاء کی تعریف کے مطابق ولایت فقیہ، سرپرستی، دوسروں کے امور میں جامع الشرائط مجتہد کا تسلط و تصرف،[1] اور دوسرے الفاظ میں اسلامی احکام کے نفاذ کے لئے اسلامی معاشرے کی مدیریت اور اسلامی اقدار کو معاشرے میں نافذ کرنا ہے۔[2]

شیعہ فقہ سیاسی میں ولایت فقیہ ایک نظریہ ہے جس کے مطابق امام زمانہ کی غیبت کے دوران اسلامی معاشرے کی حکومت، جامع الشرائط فقیہ کے ذمے ہوگی۔[3]

تاریخچہ

ملا احمد نراقی (متوفی1245ھ)، ولایت فقیہ کو ایک فقہی مسئلے کی صورت میں بیان کرنے اور اس پر عقلی اور نقلی دلیل قائم کرنے والے پہلے فقیہ سمجھے جاتے ہیں۔[4] انہوں نے پہلی بار اسلامی حاکم اور ولی فقیہ کی ذمہ داریوں اور اختیارات کو کتاب عوائد الایام میں جمع کیا۔[5]

البتہ ان سے پہلے بھی بعض شیعہ علما نے ائمہ کے بعض اختیارات، فقہاء کو حاصل ہونے کی بات کی ہے۔ جیسے چوتھی اور پانچویں صدی کے شیعہ عالم شیخ مفید نے اپنی کتاب المُقنِعہ میں لکھا ہے: شیعہ ائمہؑ نے حدود کے نفاذ کو فقہا کے لیے تفویض کیا ہے۔[6] اسی طرح معاصر مورخ رسول جعفریان کا کہنا ہے کہ دسویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین، محقق کَرکَی کا نظریہ یہ تھا کہ فقہا کو ائمہ معصومین کے حکومتی اختیارات حاصل ہیں۔ [7]

ملا احمد نراقی کے بعد جعفر کاشف الغطا[8] اور ان کے شاگرد محمد حسن نجفی نے بھی نظریہ نصبِ فقہا اور ان کی ولایت اور اختیارات کو بیان کیا ہے۔[9]اور جس بادشاہ یا سلطان کو مجتہد کی اجازت نہ ہو اس کی حکومت کو غیر مشروع قرار دیا ہے۔ اور قائل تھے کہ اگر کسی فقیہ کے لیے حکومت کرنے کی شرائط فراہم ہوں تو حکومت کی تشکیل اس پر واجب ہے۔[10]

شیخ مرتضی انصاری (سنہ 1214ھ-سنہ 1281ھ) کی طرف سے فقہا کیلئے سیاسی ولایت میں تردید کے بعد فقہا کی ولایت اور اختیارات کے مباحث کی توسیع رک گئی؛[11]یہاں تک کہ سنہ 1969ء میں امام خمینی نے حوزہ علمیہ نجف میں فقہ کے اپنے درس خارج میں ولایت فقیہ کے نظرئے کو بیان کیا [12] اور اسلامی حکومت کی تاسیس ضروری ہونے پر زور دیا۔[13] ان کے نظریات 1298ء کو ولایت فقیہ نامی کتاب میں چھپ گئے۔[14]

طرفداروں کے دلائل

ولایت فقیہ کے نظریے کے طرفدار فقہا نے اسے ثابت کرنے کے لیے عقلی اور نقلی دلائل سے استناد کیا ہے۔[15] مَقبولہ عُمر بن حَنظَلہ اور توقیع امام زمان، نقلی دلائل میں سے ہیں۔ مقبولہ عمر بن حنظلہ امام صادقؑ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق ایسے شخص کو حَکَم کے طور پر انتخاب کرنا چاہیے جو اہل بیتؑ کی احادیث کو بیان کرتا ہے اور دینی احکام سے آشنا ہے۔[16] امام خمینی نے اسی روایت سے استناد کرتے ہوئے معاشرے میں حکم جاری کرنے کے لیے حکومت اور قدرت کو ضروری قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، حکومت فقیہ کے ہاتھ میں ہونی چاہیے تاکہ قضاوت کرسکے اور حکم جاری کرے۔[17]

توقیع امام زمان میں «الحَوادثُ الواقِعَۃ» (حادثات) کے بارے میں بات ہوئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اہل بیت سے احادیث نقل کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کیا جائے۔[18] امام خمینی نے اسی توقیع سے استناد کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے تمام امور کی باگ ڈور فقہاء کے سپرد کی جائے۔[19]

عقلی دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کی معاشرتی زندگی اور فردی و معنوی کمال کے لئے الہی قانون، خطا اور نقصان سے محفوظ ہونے کے علاوہ ایک عادل اور عالم حاکم کی بھی ضرورت ہے۔ ان دو ارکان کے بغیر معاشرتی زندگی میں خلل آجاتا ہے اور تباہی کے دھانے تک پہنچ جاتا ہے۔ اور یہ ہدف انبیاء اور ائمہ کے دور میں انہی ہستیوں کے ذریعے ہی محقق ہوتا تھا اور امام زمانہؑ کی غیبت کے دور میں ولی فقیہ کے ذریعے محقق ہوگا۔[20]

ولایت فقیہ کا انتصابی‌ یا انتخابی ہونا

ولایت فقیہ کے نظریے کے طرفداروں کے درمیان ولایت فقیہ کی مشروعیت کے باے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اسے انتصابی منصب سمجھتے ہیں اور بعض اسے انتخابی منصب قرار دیتے ہیں:

ولایت فقیہ کا انتصابی‌ ہونا

اس نظرئے کے مطابق، ولایت فقیہ کا سیاسی امور میں مشروعیت کی علت یہ ہے کہ ائمہؑ نے دینی اور معاشرتی امور نیز معاشرے کی سیاسی مدیریت، فقہاء کے لئے تفویض کی ہے اور اس میں عوام کے ووٹ اور رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔[21] امام خمینی،[22] عبداللہ جوادی آملی، محمد مؤمن قمی اور محمدتقی مصباح یزدی اس نظرئے کے طرفداروں میں سے ہیں۔[23]

ولایت مطلقہ فقیہ

ولایت فقیہ کو انتصابی سمجھنے والوں میں سے بعض، فقیہ کیلئے ولایت مطلقہ کے قائل ہیں؛ یعنی حکومت اور سیاسی امور میں فقیہ کو وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جو پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کو حاصل ہیں؛ کیونکہ ہدف اور مقصد، شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے اور اس میں حاکم کے درمیان فرق رکھنا معقول نہیں ہے۔[24]اسی طرح انسانی طے شدہ قوانین بھی ولی فقیہ کی طرف سے تنفیذ ہونا شرط ہے۔ قانون، ولی فقیہ کو محدود یا مقید نہیں کرسکتا ہے اور ولی فقیہ کے احکامات قانون کے زمرے میں آتے ہیں۔[25]

کہا جاتا ہے کہ اس نظرئے کو سب سے پہلے امام خمینی نے بیان کیا ہے۔[26]

ولایت فقیہ کا انتخابی ہونا

اس نظرئے کے مطابق عوامی رائے عامہ ولایت فقیہ کی مشروعیت کی علت کی بنا پر ضروری سمجھتے ہیں؛ یعنی وہ حاکم مشروع ہے جو فقیہ، عادل، زمان شناس، مدیر، مدبر ہونے کے علاوہ سب لوگ یا لوگوں کی اکثریت نے انہیں رہبری کے لیے انتخاب کیا ہو۔[27] اس نظرئے کے مطابق فقیہ کی ولایت کا مطلق ہونا مخدوش ہوتا ہے۔[28] شہید بہشتی، شہید مطہری، حسین علی منتظری اور نعمت‌اللہ صالحی نجف‌آبادی اس نظرئہ کے طرفداروں میں سے ہیں۔[29]

مخالفین

شیخ انصاری، آخوند خراسانی،[30] میرزای نائینی اور آیت‌اللہ خوئی[31] کو ولایت فقیہ کے نظرئے کے مخالفین میں شمار کیا جاتا ہے۔[32] شیخ انصاری کے فتوے کے مطابق عصر غیبت میں فتوا دینے اور قضاوت کرنے کی ذمہ داری فقیہ کے ذمے ہے،[33] لیکن لوگوں کی جان اور مال پر ولایت صرف پیغمبر اکرم اور ائمہؑ کے ساتھ خاص ہے۔[34]

انہوں نے ولایت فقیہ کی اثبات پر قائم کی جانے والی دلائل منجملہ مقبولہ عمر بن حنظلہ اور توقیع امام زمان سے استناد کو صحیح نہیں سمجھا ہے۔[35]ان کا کہنا ہے کہ یہ احادیث صرف فقیہ کا لوگوں کیلئے شرعی احکام بیان کرنے کی ذمہ داری بیان کرتی ہیں اور خمس و زکات جیسے امور پر فقیہ کی ولایت ہونے پر دلالت نہیں کرتی ہیں۔[36]

فقہی یا کلامی مسئلہ

بعض کا کہنا ہے کہ ولایت فقیہ، کلامی مسئلہ ہے جبکہ بعض کے مطابق یہ فقہی مسئلہ ہے۔[37] جوادی آملی ولایت فقیہ کو علم کلام سے مربوط سمجھتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ علم کلام کا موضوع اللہ تعالی کا فعل ہے اور ولایت فقیہ اللہ کے فعل سے مرتبط ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے یہ معین کیا ہے کہ عصر غیبت میں معاشرے پر فقیہ کی ولایت ہو۔[38]ان کے مقابلے میں حسین علی منتظری کا کہنا ہے کہ ولایت فقیہ کی بحث فقہ سے مربوط ہے اسی لئے بہت سارے فقہا نے اسے فقہی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔[39]

ایران میں ولایت فقیہ

ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ولایت فقیہ کو اس ملک کے آئین میں شامل کیا گیا۔ اس آئین کے آرٹیکل 57 میں یوں ذکر ہوا ہے کہ «جمہوری اسلامی ایران میں موجود حاکم ادارے، عدلیہ، مقننہ اور مجریہ، ولایت مطلقہ امر اور امامت کے زیر سائے اس قانون کے مطابق عمل کریں گے۔»[40]

ایران میں امام خمینی اور ان کے بعد سید علی خامنہ ای ولی فقیہ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔[41]

کتاب‌یات

دراسات فی ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الاسلامیہ، تالیف: حسین علی منتظری

کاظم استادی نے اپنی کتاب «کتاب‌شناسی حکومت و ولایت فقیہ» میں ولایت فقیہ اور اسلامی حکومت کے بارے میں 700 سے زیادہ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے اکثر ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد لکھی گئی ہیں۔[42] ولایت فقیہ کے بارے میں لکھی جانے والی بعض اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: شیخ انصاری،‌ المکاسب المحرمہ، ۱۴۱۵ق، ج۳، ۵۴۵.
  2. مراجعہ کریں: منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۱؛ جوادی آملی، ولایت فقیہ، ۱۳۷۸ش، ص۱۲۹.
  3. فیرحی، نظام سیاسی و دولت در اسلام، ۱۳۸۶ش، ص۲۴۲و۲۴۳.
  4. کدیور، نظریہ ہای دولت در فقہ شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۷.
  5. ملاحظہ کریں: نراقی، عوائدالایام، ۱۴۱۷ق، ص۵۲۹.
  6. مفید، المقنعہ، ۱۴۱۳ق، ص۸۱۰.
  7. جعفریان، دین و سیاست در دورہ صفوی، ۱۳۷۰ش، ص۳۲، ص۳۱۲.
  8. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۲۰۷؛ فیرحی، قدرت دانش مشروعیت در اسلام، ۱۳۹۴ش، ص۳۱۳.
  9. مراجعہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۲۱، ص۳۹۵-۳۹۶؛ ج۲۲، ص۱۵۵، ص۱۹۵.
  10. منتظری، مبانی فقہی حکومت اسلامی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۷-۴۸.
  11. علی محمدی، سیر تحول اندیشہ ولایت فقیہ در فقہ سیاسی شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۶۳-۲۷۲.
  12. کدیور، نظریہ ہای دولت در فقہ شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱و۲۲.
  13. کدیور، نظریہ ہای دولت در فقہ شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۴.
  14. ملاحظہ کریں: امام خمینی، ولایت فقیہ، ۱۴۲۱ق، ص۱.
  15. منتظری، نظام الحکم فی الاسلام، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳، ص ۱۶۶؛ جوادی آملی، ولایت فقیہ ۱۳۷۸ش، ص۱۵۰؛ کدیور، حکومت ولایی، ۱۳۷۸ش، ص۳۸۹ـ۳۹۲.
  16. کلینی، الکافی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۱۶۹.
  17. امام خمینی، کتاب البیع، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۶۳۸-۶۴۲.
  18. شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۸۴.
  19. ملاحظہ کریں: امام خمینی، کتاب البیع، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص ۶۳۵؛ امام خمینی، ولایت فقیہ، ۱۳۷۴ش، ص۷۸-۸۲.
  20. جوادی آملی، ولایت فقیہ، ۱۳۷۸ش، ص۱۵۱.
  21. نراقی، عوائد الایام، ص۱۸۵؛ امام خمینی، کتاب البیع، ۱۴۲۱ھ۔ ج۲، ص ۶۲۲.
  22. کدیور، نظریہ ہای دولت در فقہ شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۷.
  23. فیرحی، فقہ و سیاست در ایران معاصر، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۴۲۴.
  24. امام خمینی، کتاب البیع، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۶۲۶.
  25. امام خمینی، صحیفہ امام، ۱۳۷۸ش، ج‏۱، ص۱۷.
  26. کدیور، نظریہ ہای دولت در فقہ شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۴.
  27. منتظری، نظام الحکم فی الاسلام، ۱۳۸۵ش، ص۱۶۶-۱۶۹؛ صالحی نجف‌آبادی، ولایت فقیہ، ۱۳۷۸ش، ص۶۸، ۷۲.
  28. مطہری، پیرامون جمہوری اسلامی، ۱۳۶۸ش، ص ۱۴۹-۱۵۶؛ منتظری، نظام الحکم فی الاسلام، ۱۳۸۵ش، ص۲۱۴-۲۲۴.
  29. فیرحی،‌ فقہ و سیاست در ایران معاصر، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۳۸۰؛ کدیور، نظریہ‌ہای دولت در فقہ شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۴۱.
  30. کدیور، نظریہ‌ہای دولت در فقہ شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۳۶.
  31. کدیور، نظریہ‌ہای دولت در فقہ شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۳۶.
  32. فیرحی، «شیعہ و دموکراسی مشورتی در ایران»، ص۱۳۹و۱۴۱.
  33. شیخ انصاری، مکاسب المحرمہ، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۴۵.
  34. شیخ انصاری، مکاسب المحرمہ، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۴۶.
  35. شیخ انصاری، مکاسب المحرمہ، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۵۱تا۵۵۳.
  36. شیخ انصاری، مکاسب المحرمہ، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۵۳.
  37. مؤمن قمی، جایگاہ احکام حکومتی و اختیارات ولی فقیہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۵.
  38. جوادی آملی، ولایت فقیہ، ۱۳۷۸ش، ص۱۴۳.
  39. منتظری، نظام الحکم فی الاسلام، ۱۳۸۰ش، ص۱۲.
  40. «قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران»، مجلس شورای اسلامی کی تحقیقاتی ویب سائٹ، تاریخ مشاہدہ ۳ شہرویر ۱۳۹۸.
  41. ولایتی، «خامنہ‌ای، آیت‌اللہ سیدعلی»، ص۶۸۹.
  42. استادی، کتاب‌شناسی حکومت و ولایت فقیہ، مقدمہ.

مآخذ

  • استادی، کاظم، کتاب‌ شناسی حکومت و ولایت فقیہ، قم، کتابخانہ آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۳۹۰شمسی ہجری۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، کتاب البیع، قم، انتشارات اسماعیلیان، ۱۳۶۳ شمسی ہجری۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، ولایت فقیہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۳شمسی ہجری۔
  • جعفریان، رسول، دین و سیاست در عصر صفوی، قم، انتشارات انصاریان، ۱۳۷۰شمسی ہجری۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، قم: مرکز نشر اسراء، ۱۳۷۸شمسی ہجری۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، قم، کتاب فروشی مفید، ۱۴۰۰ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، المکاسب المحرمہ، قم، کنگرہ شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ھ۔
  • شیخ مفید، المقنعہ، قم، مؤسسہ انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
  • صالحی نجف آبادی، نعمت اللہ، ولایت فقیہ حکومت صالحان، تہران، انتشارات امید فردا، ۱۳۸۲ شمسی ہجری۔
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۹۵ھ۔
  • فیرحی، داوود، «شیعہ و دموکراسی مشورتی در ایران»، مجلہ دانشکدہ حقوق و علوم سیاسی دانشگاہ تہران، ش۶۷، ۱۳۸۴ شمسی ہجری۔
  • فیرحی، داوود، فقہ و سیاست در ایران معاصر، تہران، نشر نی، ۱۳۹۳ شمسی ہجری۔
  • فیرحی، داوود، قدرت دانش مشروعیت در اسلام، تہران، نشر نی، ۱۳۹۶ شمسی ہجری۔
  • فیرحی، ٰداوود، نظام سیاسی و دولت در اسلام، تہران، انتشارات سمت، ۱۳۸۶ شمسی ہجری۔
  • «قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران»، وبگاہ مرکز پژوہش‌ہای مجلس شواری اسلامی، تاریخ بازدید ۳ شہرویر ۱۳۹۸.
  • کاشف الغطاء، جعفر بن خضر، كشف الغطاء عن مبہمات الشريعۃ الغراء، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۲۲ھ۔
  • کدیور، محسن، حکومت ولایی، تہران، نشر نی، ۱۳۷۸ شمسی ہجری۔
  • کدیور، محسن، نظریہ‌ہای دولت در فقہ شیعہ، تہران، نشر نی، ۱۳۸۷شمسی ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • گلپایگانی، سید محمد رضا، الہدایۃ الی من لہ الولایۃ، بہ تقریر: احمد صابری ہمدانی، قم، دفتر نشر نوید اسلام، ۱۳۷۷ شمسی ہجری۔
  • مطہری،‌ مرتضی، پیرامون جمہوری اسلامی، تہران، نشر صدرا، ۱۳۶۸شمسی ہجری۔
  • منتظری، حسین علی، بدر الظاہر فی صلوۃ الجمعۃ و المسافر، تقریر ابحاث سید محمد حسین بروجردی، قم، دفتر آیت اللہ العظمی منتظری، ۱۴۱۶ھ۔
  • منتظری، حسین علی، دراسات فی ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الاسلامیہ، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۴۰۸ھ۔
  • منتظری، حسین علی، مبانی فقہی حکومت اسلامی، مترجم محمود صلواتی، ابوالفضل شکوری، تہران، کیہان، ۱۳۶۷ شمسی ہجری۔
  • منتظری، حسین علی، نظام الحکم فی الاسلام، تہران، نشر سرایی، ۱۳۸۵ شمسی ہجری۔
  • مؤمن قمی، محمد، جایگاہ احکام حکومتی و اختیارات ولی فقیہ، قم، نشر معارف، ۱۳۹۳ شمسی ہجری۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، بیروت، دار الاحیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔
  • نراقی، احمد بن محمد مہدی، عوائد الأيام، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ھ۔
  • ولایتی، علی‌ اکبر، «خامنہ‌ای، آیت‌اللہ سیدعلی»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۲۱، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۲ شمسی ہجری۔