مصر

ویکی شیعہ سے
مصر
عام معلومات
سرکاری دیناسلام
کل آبادیتقریباً دس کروڑ
رقبہ1001449 مربع کلومیٹر
حکومتجمہوریت
دار الحکومتقاہرہ
ادیاناسلام و مسیحیت
اسلام
مسلم آبادی90٪ مسلمان اور 10٪ عیسائی
شیعوں کی تعداد
ملکی آبادی کے تناسب سے فیصد
مسلم آبادی کے تناسب سے فیصدسات لاکھ سے 20 لاکھ تک
تشیع کی تاریخ
حکومتیںفاطمیون اسماعیلی مذہب (297-567 ھ)
پارٹیاں اور شیعہ گروہ
فرقےاسماعیلیبارہ امامی
شیعہ مراکز
زیارتگاہیںرأس الحسینمقام حضرت زینبمقبره سیدہ نفیسہ • مقام سر زید بن علی
شیعہ شخصیات
مذہبیحسن شحاتہصالح الوردانی


مصر، افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ایک اسلامی ملک ہے جس کا دار الخلافہ قاہرہ ہے۔ اس ملک میں شیعوں کی آبادی اقلیتی تعداد میں ہے۔ یہ سر زمین سنہ 20 ہجری میں عمرو بن عاص کی سربراہی میں فتح ہوئی۔ فتح مصر میں ابوذر غفاری، ابو ایوب انصاری اور مقداد بن اسود جیسے امام علی کے اصحاب کی موجودگی اس ملک میں شیعہ کلچر کی بنیادیں فراہم ہونے کا سبب بنی۔ اسماعیلی شیعہ 358ھ کے بعد تین سو سال تک یہاں کے حاکم رہے اور انہوں نے اپنے بعد یہاں کافی آثار چھوڑے ان میں سے مسجد جامع الازہر اور شہر قاہرہ ہیں جس میں سے قاہرہ کا سنگ بنیاد فاطمیوں نے اپنے دور حکومت میں رکھا۔ اذان میں حی علی خیر العمل کا کہنا، عاشورا کی عزاداری فاطمیوں کی دیگر یادگاروں میں سے ہے۔ دور حاضر میں اہل بیتؑ سے لگاؤ مصری معاشرے میں پایا جاتا ہے یہاں تک کہ مصر کے صوفیوں میں محبت اہل بیتؑ ایک ضروری امر اور اہل بیتؑ سے بغض کو دین سے انحراف سمجھا جاتا ہے۔

مصر میں خاندان اہل بیت سے منسوب مقامات اور امام زادوں کے مزار مصریوں کی نگاہ میں اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے مقام رأس الحسین، مقام حضرت زینب اور مقبرہ سیدہ نفیسہ قابل ذکر ہیں۔ دور حاضر میں وہاں سے موصولہ خبروں کے مطابق مصری شیعہ کافی دباؤ میں زندگی بسر کر رہے ہیں جیسے مذہبی رسومات ادا کرنے میں آزاد نہیں اور اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ مصر میں شیعہ مذہب کو آئینی طور ہر تسلیم کروانے کیلئے شیعہ اور سنی علما کی کوششوں سے دار التقریب کے نام سے ایک ادارہ سنہ 1947ء میں تاسیس ہوا لیکن ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی اور فلسطین کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے اختلافات نے یہاں کے شیعوں کیلئے زندگی کو مزید سخت کر دیا اور بالآخر جمعیت آل البیت جیسے فرہنگی اداروں کی مانند اسے بھی اپنا کام روکنا پڑا۔

مصر کے معروف ترین شیعہ چہروں میں سے روزنامہ نویس صالح وردانی ہیں جو سنہ 1981ء میں شیعہ ہوئے اور انہوں نے شیعہ مذہب کے تعارف میں بہت سے آثار تالیف کئے نیز اسی طرح شیعہ خطیب حسن شحاتہ جنہوں نے جامعۃ الازہر سے تعلیم حاصل کی، پچاس سال کی عمر میں شیعہ مذہب اختیار کیا اور آخرکار شدت پسند سلفیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ مصر میں شیعہ تالیفات کو طبع کرنے والے پہلے اداروں میں سے دار النجاح ہے جبکہ دار البدایہ کے نام سے ادارے کو ایران کے ساتھ تعاون کرنے کے جرم میں بند کر دیا گیا۔

تعارف

مصر افریقہ کے شمال شرق میں واقع ایک اسلامی ملک ہے جس کی ہمسائیگی میں لیبیا، فلسطین اور سوڈان واقع ہیں۔[1] ایک طرف شمال میں یہ بحیرہ روم اور مشرق میں بحیرہ احمر تک پھیلا ہوا ہے۔[2] مصر، اس ملک کی مساحت دس لاکھ کلومیٹر پر مشتمل ہے۔[3] آخری رپورٹس کے مطابق اس ملک میں 100 میلین افراد زندگی بسر کرتے ہیں جن میں سے نوے فیصد (90٪) مسلمان اور دس فیصد (10٪) عیسائی ہیں۔[4] شیعہ آبادی اقلیت میں ہے اور اس کے متعلق درست معلومات نہیں ہے۔[5]

مصر کے آئین کے مطابق ملک کا کوئی قانون اسلامی شریعت کے مخالف نہیں ہونا چاہئے۔[6] ازہر یونیورسٹی کے نام سے مصر میں موجود یونیورسٹی مسلمانوں کی قدیمی ترین درسگاہوں میں شمار ہوتی ہے نیز مسلمان اس کے علمی اور فکری آثار سے بہت زیادہ متاثر رہے ہیں۔[7] اسکندریہ میں موجود آرتھودکس قبطی کا کلیسا (Coptic Orthodox Church of Alexandria) دنیا میں موجود 15 میلین مسیحی برادری کے لئے رہبری کے فرائض انجام دیتا ہے۔[8]

مصر کا لفظ پانچ مرتبہ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔[9] چار مقامات پر اس سے مقصود وہ مصر کا علاقہ ہے جہاں فرعون بادشاہ رہا۔[10] اس کے علاوہ مذکورہ مقامات پر مصر کا معنی شہر سے بھی کیا گیا ہے۔[11]

قرآن کريم میں مصر کے دیگر جغرافیائی عوامل کی طرف بھی اشارے موجود ہیں مثلا زمین مصر کے خزانے اور ذخائر،[12] اسی طرح مصر میں موجود دریائے نیل کی طرف بھی قرآن کريم میں چند مرتبہ اشارہ ہوا ہے؛ جیسے دریا میں حضرت موسی کو بچپنے میں پھینکنا اور دریائے نیل سے نکلنے والی شاخوں کے نظم و نسق پر فرعون کا فخر و مباہات کرنا۔[13]

مصر کا نقشہ

اسلامی دور حکومت

سنہ 20 ہجری میں عمرو بن عاص کی سپاہ سالاری میں مسلمانوں نے مصر فتح کیا۔[14] مصر میں اسلام کے فروغ اور وہاں عرب قبیلوں کی آمد کے ساتھ آہستہ آہستہ رائج یونانی ثقافت اسلامی ثقافت میں تبدیلی ہو گئی نیز عربی زبان وہاں کی زبان بن گئی۔[15] صدر اسلام سے لے کر بنو امیہ کی خلافت اور عباسیوں کی ابتدائی صدیوں تک مصر اسلامی خلافت کے ماتحت علاقوں میں سے ایک تھا جس کا حاکم مرکز کی طرف سے مقرر ہوتا تھا؛ یہاں تک کہ سنہ 254 ہجری میں پہلی مستقل حکومت کا قیام عمل میں آیا۔[16]

ابن طولون جو عباسی خلیفہ معتز کے زمانے میں پہلی مرتبہ مصر کا حاکم بنا کر بھیجا گیا، اور وہ مصر کو ادارہ کرنے میں خود مختار بن گیا اور مصر کے علاوہ شامات کے علاقے بھی اپنی حکمرانی میں شامل کر لئے۔[17] ابن طولون کی وفات کے بعد 270 ہجری میں اس کا بیٹا تخت نشین ہوا یہاں تک کہ 292 ہجری میں دوبارہ عباسیوں نے مصر پر غلبہ حاصل کیا۔[18] محمد بن طغج، معروف بہ اخشید، دوسرا حاکم تھا جس نے مصر کو مستقل حیثیت عطا کی۔ وہ سنہ 323ھ میں عباسی فرمانروا کے عنوان سے مصر میں وارد ہوا تھا۔[19] سنہ 334 ہجری میں اخشید کے مرنے کے بعد اسکے بیٹے ابو المِسک کافور نے ابتدائی طور پر اخشید کے بیٹوں کا سرپرست بنا اور پھر مستقل طور پر مصر کا حاکم بنا اور مرتے دم سنہ 357 ہجری تک حاکم رہا۔[20]

اسماعیلی‌ مذہب کے فاطمیوں نے مصر میں آنے سے پہلے افریقہ کے ملک تیونس میں مضبوط حکومت قائم کی ہوئی تھی۔ انہوں نے 358 ہجری کو مصر پر غلبہ حاصل کیا۔[21] ان کی حکومت کا سلسلہ دو سو سال تک جاری رہا اور آخرکار 567 ہجری میں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس حکومت کا خاتمہ ہوا۔[22] ایوبیوں کے زیر فرمان مصر و شام کی حکومتیں 648 ہجری میں سلطنت مملوک حکومت کے ہاتھوں اپنے اختتام کو پہنچیں۔[23] حکومت ممالک کی حکومت 923 ہجری میں سلطان سلیم عثمانی کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوئی اور یوں مصر عثمانیوں کے زیر فرمان آ گیا۔[24]

اٹھارھویں صدی عیسوی کے آخر تک مصر کے حکام ایسے نائب السلطنہ تھے جو عثمانیوں کی جانب سے مقرر ہوتے تھے لیکن بہت حد تک وہ خود مختار تھے۔[25] انیسویں صدی عیسوی میں عثمانی بادشاہت کی سر نگونی کے ساتھ [26] فرانسیسی فوج 1798ء کو نپولین بونا پارٹ کی قیادت میں مصر وارد ہوئی۔[27] اور 1801ء میں اس نے مصر کو چھوڑ دیا۔[28] فرانسیسیوں کے اس تین سالہ دور میں مصر کے حالات بہت زیادہ دگرگوں رہے۔[29] البانی 1811 عیسوی میں مصر کے حاکم بنے اور 140 سال تک مصر پر حاکم رہے[30] یہاں تک کہ 1952ء میں فاروق اس خاندان کا آخری فرد تھا۔ یہ جمال عبد الناصر (1918-1970ء) کے مصر میں انقلاب کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچا اور اسے ایک جمہوری ریاست قرار دیا۔[31]

تاریخچہ تشیع

مصر می شیعیت کے آثار مسلمانوں کے ہاتھوں اس کی فتح کے موقع سے ہی پائے جاتے ہیں کیونکہ حضرت امام علی کے محب صحابہ ابوذر غفاری، ابو ایوب انصاری اور مقداد بن اسود وغیرہ اس جنگ میں نفس نفیس موجود تھے نیز فتح مصر کے بعد تیسری خلافت کے دوران عمار یاسر یہاں مقیم تھے۔[32] اس کے باوجود شیعیوں کا بنیادی اور نمایاں کردار اس وقت ظاہر ہوا جب شیعوں میں سے نفس زکیہ کے بیٹے علی بن محمد نے خلافت عباسی کے خلاف مصر میں قیام کیا۔[33]

امام علیؑ نے اپنے دور خلافت میں پہلے قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر کا والی بنایا لہذا حضرت عثمان کے اکثر افراد نے حضرت علی(ع) کی بیعت کی۔[34] کچھ عرصہ بعد امام علیؑ نے محمد بن ابی بکر کو قیس بن سعد کی جگہ مصر کی حکومت کیلئے منصوب کیا۔[35] لیکن اسی زمانے میں لشکر معاویہ نے عمرو‌عاص کی قیادت میں مصر پر حملہ کیا اور محمد بن ابی بکر کو قتل کرنے کے بعد یہاں پر قبضہ کر لیا۔[36]

خلافت بنو امیہ اور بنو عباس

مصر میں بنو امیہ کی حکومت کے باوجود یہاں سے شیعت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔[37] مصر میں علویت اور تشیع سے لگاؤ اور مرکز خلافت سے دور ہونے کے باعث قیام کرنے والے بعض علویوں نے یہاں کا رخ کیا۔[حوالہ درکار] علویوں کی طرف سے مصر میں ہونے والوں میں سے نفس زکیہ کے بیٹے علی بن محمد کا قیام ہے جو 145 ہجری میں شکست سے دوچار ہوا،[38] قیام احمد بن ابراہیم بن عبداللہ بن طباطبا جو 254 ہجری کو صعید میں ہوا،[39] احمد بن محمد بن عبداللہ بن طباطبا کا قیام سنہ 255 ہجری میں اسکندریہ[40] کے پاس ہوا اور اسی طرح امام علی کی نسل میں سے قیام ابراہیم بن محمد مشہور بنام ابن صوفی ہے جو سنہ 256 ہجری میں مصر پر طولونیان کی مصر پر حکومت کے دوران صعید کے علاقہ میں ہوا۔[41]

مصری مؤرخ مقریزی (766-845 ھ) اپنی کتاب المواعظ و الاعتبار میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے:

350 ھ کے روز عاشورا شیعہ حضرات امام صادق کی نسل سے کلثوم کے مزار پر اکٹھا ہوئے اور انہوں نے یہاں امام حسین ؑ کی عزاداری منانا شروع کی، اموی سپاہیوں نے ان پر حملہ کیا اور بہت سوں کو قتل کیا اور اس کے بعد اموی حکومت نے شعیوں پر اپنا دباؤ بڑھا دیا؛ حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ اس سوال خال المؤمنین کون ہے؟ کے جواب میں معاویہ کے علاوہ اگر کسی اور کا نام لیا جاتا اسے سزا دی جاتی کیونکہ وہ معاویہ کے متعلق خال المومنین کے معتقد تھے۔[42] مقریزی کے بقول اس زمانے میں جمعہ کے دن جامع عتیق میں منادی آواز دیتے تھے کہ معاویہ خال المومنین ہے اور اس کے فضائل بیان کئے جاتے تھے۔[43]

خلافت فاطمیہ

تفصیلی مضمون: فاطمی حکمران

فاطمی حکمران شیعہ مسلک کے اسماعیلی‌مذہب مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے 301 ھ،[44] مصر پر حملوں کا سلسلہ شروع اور آخر کار 358 ھ میں مصر پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور دو صدیوں تک حاکم رہے۔[45] مصر میں موجودہ قاہر کی موجودہ تعمیر ان کا پہلا اچھا اقدام شمار ہوتا ہے۔[46] فاطمیوں نے منابر اور سکہوں سے عباسیوں کے نام کو حذف کر دیا اور حی علی خیر العمل کو اذان میں کہنا شروع کیا۔[47] نیز انہوں نے عاشورا کے روز عزادرای کا سلسلہ شروع کیا۔[48] تاریخی روایات کے مطابق فاطمی حاکم بامراللہ نے 404 ھ میں قاہرہ میں روز عاشورا روٹی کے تندوروں کے علاوہ تمام بازاروں کے بند کرنے کا دستور دیا۔[49]

اسماعیلی مذہب کی تعلیمات کی ترویج کیلئ مسجد جامع الازہر کی تاسیس 359 ھ کی گئی۔[50] نیز دار الحکمہ یا دار العلم کے نام سے 395 ہجری میں عمارت تعمیر کی گئی جسے ایک کتاب خانہ اور جامعہ (یونورسٹی) کی حیثیت دینا فاطمیوں کے دیگر قابل تحسین کاموں میں سے ہے۔[51]

اہل بیتؑ سے لگاؤ

مصری معاشرے میں صوفیت کا نفوذ، احترام اور صوفیت کا اہل بیت سے لگاؤ عوام کے اہل بیت اور مذہب جعفری سے محبت کا باعث بنا؛[52] یہاں تک کہ مصر میں موجود بعض صوفی مکاتب فکر پر تصوف اور شیعہ مسلک کی طرف جھکاؤ جیسے الزامات لگائے گئے بلکہ انہیں مصر اور جہان اسلام میں تشیع کے وردو کا باب سمجھا گیا ہے۔[53] صوفیوں کے درمیان اہل بیت سے محبت ایک ضروری امر اور ان سے بغض کو دین سے انحراف سمجھا جاتا ہے۔[54] امام حسینؑ کو صوفیوں کے بعض فرقوں میں شہید حق کہا جاتا ہے۔[55] قبور اہل بیتؑ کی زیارت، اہمیت صحیفہ سجادیہ، پیامبر اور ائمہؑ کے ایام ولادت پر جشن منانا صوفیوں کی مذہب شیعہ سے مشابہت رکھنے والے امور ہیں۔[56]

زیارت

مصر میں خاندان اہل بیتؑ سے منسوب مقامات اور صوفی اولیا کی زیارت کرنا بہت زیادہ رائج ہے۔[57] مصر میں ؒاندان اہل بیتؑ سے منسوب یا اصحاب ائمہؑ کے مزارت بہت زیادہ شیعوں اور عام لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں ان میں سے مشہور ترین مقامات مقام راس الحسین،[58] مقام حضرت زینب،[59] امام حسن کی اولاد میں سے سیدہ نفیسہ کا مزار [60] ہیں۔

مہاجرت سادات

علویوں اور اصحاب ائمہ کی مصر کی طرف ہجرت اہل بیت(ع) سے محبت اور تشیع کی رجحان کے عوامل سے میں سے گنے جاتے ہیں۔[61] علوی کبھی اپنے ارادہ و اختیار سے تبلیغ دین کیلئے مصر کا سفر کرتے اور کبھی زمانے کے حاکموں جیسے مامون و متوکل وغیرہ کی سختیوں سے فرار اختیار کرنے کیلئے یہاں کا رخ کرتے۔[62]

خاندان ابو طالب کے اسّی افراد کے نام منتقلۃ الطالبیۃ میں منقول ہیں کہ جنہوں نے مصر ہجرت کی۔[63] متوکل عباسی نے 236 ہجری میں شیعوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کربلا میں مرقد امام حسین(ع) کے مسمار کرنے کے علاوہ مصر سے علویوں کو نکالنے کا دستور صادر کیا۔[64] بعض محققین اس دستور کا سبب مصر میں علویوں کے مصر میں نفوذ کو سمجھتے ہیں۔[65] کہا جاتا ہے کہ 252 ھ سے لے کر 270 ھ تک مصر کے علویوں کی تحریکیں ان پابندیوں کے ردعمل میں شروع ہوئیں کہ جو شیعوں پر لگائی گئی تھیں۔[66]

شیعوں کی حالت

مصر میں شیعوں کی درست تعداد کا علم نہیں ہے؛[67] اکانومیسٹ مجلے کی سائٹ کے مطابق 2011 عیسوی کے مصری تحولات کے بعد شیعہ حضرات کو پہلے کی نسبت اپنی مذہبی تبلیغات کرنے کا بہتر موقع میسر آیا اور یہی سائٹ مصر می شیعوں کی تعداد ایک ملین تک ذکر کرتی ہے۔[68] دیگر مآخذ میں اس تعداد کا اندازہ 8 لاکھ سے لے کر ایک ملین کے درمیان لگایا گیا۔[69] امریکہ میں مذہبی آزادی کے متعلق ہونے والی کانفرنس کے توسط سے نشر ہونے والی خبر کے مطابق بعض ممالک جیسے مصر وغیرہ میں شیعہ لوگ دباؤ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں اور وہ اپنے جائز حقوق سے محروم ہیں۔[70]

مصری شیعہ مختلف علاقوں جیسے شمال مصر کے منصورہ اور طنطا نیز جنوب کے جیسے اسوان اور قنا صعید کے منطقہ میں اسنا، ارفو، ارمنت اور قفطا جیسے شہروں میں آباد ہیں۔[71]

دارالتقریب

مصر میں شیعوں کا نمایاں کردار اور فعالیت کا زمانہ دور حاضر کو کہا جاتا ہے کہ جس کا سبب مذاہب اسلامی کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی تحریک کے آغاز کو سمجھا جاتا ہے۔[72] مذاہب کی باہمی نزدیکی نے شیعوں اور مصری جامع الازہر کے بزرگوں کے درمیان قریبی تعلقات ایجاد کئے۔ شیخ محمد تقی قمی ان جملہ علما میں سے ہیں جو 1947 عیسوی میں دار التقریب بین المذاہب الاسلامی کی تاسیس میں حصہ دار رہے نیز قم میں آیت اللہ بروجردی کی سرپرستی بھی انہیں حاصل تھی۔[73] محمد جواد مغنیہ، محمد حسین کاشف الغطاء، سید طالب حسینی رفاعی اور سید مرتضی رضوی ان دیگر علما میں سے ہیں جو مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے سرگرم اراکین میں سے تھے۔ نیز اہل سنت علما میں سے اس سوچ کے سرگرم کارکنوں میں سے محمد مصطفی مراغی، شیخ محمود شلتوت اور شیخ عبدالمجید سلیم کے اسما قابل ذکر ہیں۔[74]

جامع الازہر کے اسوقت کے رئیس شیخ محمود شلتوت نے 1959 عیسوی میں فقہ جعفری کی پیروی کے جواز کا فتوا بھی دیا۔ یہ جواز کا فتوا ان حالات میں دیا گیا کہ جب کئی سال پہلے جامع الاظہر میں ایوبیوں نے جامع الاظہر میں شیعہ علوم کے پڑھانے پر ممانعت کا حکم صادر کیا تھا،[75] نیز اس نے جامعۃ الاظہر میں شیعہ مذہب کی تعلیم دینے کے متعلق اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا لیکن اسکی یہ خواہش شرمندہ تعبیر نہ ہو سکی۔[76] لیکن اس نے فقہ مقارن میں شیعہ فقہ کی تعلیم دینے کے راستے کو کھول دیا۔[77] شیعہ عالم دین فضل بن حسن طبرسی کی تفسیر مجمع البیان کی طباعت اس سلسلے کی ہی ایک کڑی تھی جس کے ابتدا میں جامعۃ الاظہر کے محمود شلتوت سمیت بعض علما کے مقدموں کا اضافہ بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس کتاب کی طباعت کو اسلامی مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کا ایک نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ 1368 ہجری سے لے کر 1392 ہجری کے دوران دار التقریب نے رسالۃ الاسلام کے نام سے 60 شمارے نکالے جس میں سنی اور شیعہ علما کے مضامین چھپتے تھے۔[78]

شیعت پر شدید دباؤ

ایران میں انقلاب اسلامی کے آنے اور مسائل فلسطین کے مسئلے پر دونوں حکومتوں کے درمیان مخاصمت پر منتہی ہونے والے اختلافات کی وجہ سے مصر کے شیعہ بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہوئے۔ اس زمانے میں شیعوں کے خلاف کتابیں لکھی گئیں من جملہ کتب میں سے «المخطوط العرضۃ لدین الشیعہ» کہ تالیف محب الدین خطیب کی تھی۔ تشیع کو اسلام سے ایک مختلف دین سمجھا گیا[79] اسی زمانے میں مصری حکومت نے 1988ء میں ایک گروہ کو ایران سے تعلقات رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا۔[80]

مصر کے صدر حسنی مبارک کے 2011 عیسوی[81] میں جانے کے بعد اگرچہ اسلامی تحریکوں پر نافذ پابندیوں میں نرمی آئی لیکن شیعوں پر دباؤ بدستور جاری رہا۔مصر میں شیخ طلعت عفیفی کی وزرت کے دوران شیعہ مذہب کی ترویج پر پابندی کا لگا دینا اس کا ایک عملی نمونہ ہے نیز مساجد میں ہر طرح کی مذہبی سرگرمی کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔[82] اسی طرح مصر کی بعض معروف شیعہ شخصیات پر صحابہ پیامبرؐ کی توہین، جاسوسی اور دہشت گردوں کی مدد جیسے اتہامات لگائے یا بعضوں کو عدالتوں میں پیش کیا گیا۔[83] حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد مصری حکومت کی شیعوں کے ساتھ وہی پہلے والی دینی حکوموتوں کے رویہ کا تسلسل کہا گیا ہے۔[84]

حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد سلفی شدت پسندوں کی سرگرمیوں کے اضافے کے باعث شیعوں پر دہشت گردی کے حملوں میں بھی اضافہ ہوا اور مصر میں حفظ منافع ایران کے دفتر پر حملہ، عزاداری عاشورا برپا کرنے والوں پر حملہ اور شیعہ مسلک کے خلاف کانفرنسوں کا قیام من جملہ شیعہ مخالف اقدامات میں سے ہے۔[85] مصر سے آنے والی رپورٹس کے مطابق مصری شیعہ ضروری تعلیم حاصل کرنے کے باوجود حکومتی اداروں میں ملازمتیں حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر شیعہ حضرات تجارت اور کھیتی باڑی کرتے ہیں۔[86] اسی طرح شیعہ قانونی طور پر اپنی کوئی جماعت بنانے، امام بارگاہیں بنانے اور اسمبلی میں اپنا کوئی نمائندہ پہنچانے سے محروم ہیں۔[87]

جمعیت آل البیت

جمعیت آل البیت کے نام سے ادارے نے مصر میں 1973 عیسوی میں اپنی فعالیت کا آغاز کیا۔[88] اس کے بنیادی راکین میں سے سید طالب رفاعی تھے۔[89] حقانیت تشیع کے اثبات میں المراجعات ہے جس کے مؤلف سید عبدالحسین شرف الدین تھے، خلافت امام علی ؑ کے اثبات میں کتاب علی لاسواہ، تالیف محمد رضی رضوی اور سید محمد باقر الصدر کی "التشیع ظاہرۃ طبیعیۃ فی اطار الدعوۃ الاسلامیۃ " اس ادارے کے توسط سے چاپ ہونے والی کتابیں تھیں۔[90]

ایرانی تقویم کے شمسی سال 1357 میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد مصر اور ایران کے باہمی اختلافات کی وجہ سے یہ ادارہ بند ہو گیا۔ [91]

معروف شخصیات

شیخ حسن شحاتہ(مصر)

مصر کی معروف سماجی، مذہبی شیعہ شخصیات میں درج ذیل نام قابل ذکر ہیں:

  • صالح وردانی: یہ ایک مصری اخبار نویس تھے جو 1952 عیسوی میں پیدا ہوئے اور 1981 عیسوی میں شیعہ ہوئے۔[92] اس نے 20 سے زیادہ کتابیں مذہب شیعہ اور اہل سنت مذہب پر تنقید کرتے ہوئے لکھیں؛ان میں سے «عقائد السنّة وعقائد الشيعة»، «الشيعة في مصر من الإمام عليّ حتى الإمام الخميني»، «الحركة الاسلامية والقضية الفلسطينية» کے نام قابل ذکر ہیں۔[93] صالح وردانی کو مصر کے شیعہ طباعتی ادارے بنام: دارالبدایۃ اور اسی طرح دارالہدف کے بانیوں میں سے اسے سمجھا جاتا ہے۔[94] صالح وردانی کی بعض کتابوں کے ترجمے فارسی، ترکی اور کردی زبانوں میں ہوئے ہیں۔[95]
  • حسن شحاتہ: (1946 ء) مصر کے مشہور شیعہ خطیب تھے کہ جو جامع الازہر کے تعلیم یافتہ تھے۔ پچاس سال کی عمر میں شیعہ مذہب اختیار کیا اور مصر میں اہل بیتؑ کے ماننے والوں کے رہبر مانے جاتے تھے۔[96] حسن شحاتہ 23 جون 2013 ء کو مصر کے صوبے الجیزہ میں ولادت امام زمان کی مناسبت سے برقرار جشن میں شہید کر دiئے گئے۔[97] سلفیوں کے ایک شدت پسند گروہ کو ان کا قاتل کہا گیا ہے۔[98]

شیعہ ناشر

مصر میں موجود شیعہ ناشر شیعہ مذہب کی کتب کی طباعت کرتے ہیں۔[99] ان اداروں میں سے چند کے اسما:

  • دار النجاح: 1952 ء میں مصر میں پہلا شیعہ طباعتی ادارہ تاسیس ہوا جس کی تاسیس کا عمل سید مرتضی رضوی کے ہاتھوں اناجام پایا۔ اس ادارے نے بعض شیعہ کتب جیسے تفسیر القرآن الکریم، تالیف سید شبر، وسائل الشیعہ، مصادر الحدیث عند الامامیہ، اصل الشیعۃ و اصولہا، شیعہ و فنون الاسلام و شیعہ فی التاریخ، تالیف محمد زین کی طباعت کی۔[100]
  • دارالبدایہ: 1986 عیسوی میں صالح وردانی کی اس کی بناد رکھی اور البعث الاسلامی و المجتمع الاسلامی تالیف سید محمد مدرسی، کتاب کیف نقہر الخوف، تالیف شیخ حسن صفار اور دیگر کتب کی طباعت اس ادارے نے کی۔ کچھ عرصے کے بعد اس ادارے کو سلفی گروہوں کا مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور آخرکار مصری شیعوں پر سختی کے زمانے میں ایران کے ساتھ تعاون کی تہمت کی وجہ سے یہ ادارہ بند ہو گیا۔[101]

حوالہ جات

  1. روحانی، آشنایی با کشورہای اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۱۴۹.
  2. روحانی، آشنایی با کشورہای اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۱۴۹.
  3. روحانی، آشنایی با کشورہای اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۱۵۲.
  4. «world fact book».
  5. «Shi’a of Egypt».
  6. روحانی، آشنایی با کشورہای اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۱۵۰.
  7. روحانی، آشنایی با کشورہای اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۱۵۲.
  8. روحانی، آشنایی با کشورہای اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۱۵۲.
  9. سورہ بقرہ، آیہ ۶۱؛ سورہ يوسف، آیہ ۲۱؛ سورہ يوسف، آیہ ۹۹؛ سورہ يونس، آیہ ۸۷؛ سورہ زخرف، آیہ ۵۱؛ دیکھیں: قرشی بنابی، قاموس قرآن، ۱۳۹۴ق، ج۶، ص۲۶۰.
  10. قرشی بنابی، قاموس قرآن، ۱۳۹۴ق، ج۶، ص۲۶۰.
  11. قرشی بنابی، قاموس قرآن، ۱۳۹۴ق، ج۶، ص۲۶۰.
  12. سورہ دخان، آیہ ۲۵ـ۲۶؛ سورہ زخرف، آیہ ۵۱.
  13. سورہ قصص، آیہ ۷؛ سورہ زخرف، آیہ ۵۱.
  14. بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸ ع، ص۲۱۰.
  15. آزادی، «زمینہ‌ہای عرب شدن مصر در صدر اسلام»، ص۳۱.
  16. محمد حسن، مصر و الحضارة الإسلاميہ، ۲۰۱۳م، ص۹.
  17. براقی، تاریخ کوفہ، ۱۳۸۱ش، ص۳۰۶؛ تقی‌ زادہ داوری، تصویر شیعہ در دائرة المعارف امریکانا، ۱۳۶۴ش، ص۳۶۴؛ ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۷۳.
  18. ابن خلدون، تاریخ، ۱۹۸۸ ع، ج۴، ص۴۰۲.
  19. ابن تغری بردی، النجوم الزاہرة، [۱۳۸۳ق]، ج۳، ص۲۵۱.
  20. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۹۶۵ ع، ج۸، ص۴۵۷.
  21. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۰.
  22. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، ۱۳۸۱ش، ص۱۵۵.
  23. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، ۱۳۸۱ش، ص۱۵۸ و ۱۶۱.
  24. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی، ۱۳۸۱ش، ص۱۶۳.
  25. منسفیلد، تاریخ خاورمیانہ، ۱۳۸۸ش، ص۳۷.
  26. گلاب، سربازان مزدور، ۱۳۸۶ش، ص۵۲۸.
  27. گلاب، سربازان مزدور، ۱۳۸۶ش، ص۵۲۹.
  28. گلاب، سربازان مزدور، ۱۳۸۶ش، ص۵۳۲.
  29. گلاب، سربازان مزدور، ۱۳۸۶ش، ص۵۳۳.
  30. گلاب، سربازان مزدور، ۱۳۸۶ش، ص۵۳۳.
  31. منسفیلد، تاریخ خاورمیانہ، ۱۳۸۸ش، ص۵۶.
  32. ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۷۰؛ جلیلی، «گرایشہای شیعی در مصر تا میانہ سدہ سوم ہجری»، ص۶۸؛ پاک‌آیین، «مودة آل البیت(ع) فی مصر»، ص۲۱۸؛ ہمچنین ببینید: ابن تغری بردی، النجوم الزاہرة، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۲۲.
  33. ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۷۰.
  34. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۲، ص۳۸۹.
  35. الطبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۴، ص۵۵۴-۵۵۵؛ ابن تغری بردی، النجوم الزاہرة، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۱۰۷.
  36. ابن تغری بردی، النجوم الزاہرة، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۱۰۷-۱۱۱.
  37. وردانی، شیعہ در مصر، ۱۳۸۲ش، ص۱۷۱.
  38. مقریزی، المواعظ و الاعتبار، ۱۴۲۴ق، ج۴، ص۳۸۵.
  39. مقریزی، المواعظ و الاعتبار، ۱۴۲۴ق، ج۴، ص۳۸۵.
  40. مقریزی، المواعظ و الاعتبار، ۱۴۲۴ق، ج۴، ص۳۸۶.
  41. ابن خلدون، تاریخ، ۱۹۸۸م، ج۴، ص۳۹۲.
  42. مقریزی، المواعظ و الاعتبار، ۱۴۲۴ق، ج۴، ص۳۸۷.
  43. مقریزی، المواعظ و الاعتبار، ۱۴۲۴ق، ج۴، ص۳۸۷.
  44. ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۷۹-۸۰.
  45. ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۸۰.
  46. ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۸۰.
  47. ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۸۰.
  48. ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۸۴.
  49. ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۸۷.
  50. ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۸۳ و ۱۳۵-۱۳۶.
  51. ناصری طاہری، فاطمیان در مصر، ۱۳۷۹ش، ص۸۶ و ۱۳۹-۱۴۰.
  52. قاسمی، «صوفیہ مصر و نقاط ہمگرایی و واگرایی با شیعیان»، ص۱۲۱.
  53. قاسمی، «صوفیہ مصر و نقاط ہمگرایی و واگرایی با شیعیان»، ص۱۳۴.
  54. قاسمی، «صوفیہ مصر و نقاط ہمگرایی و واگرایی با شیعیان»، ص۱۳۵.
  55. قاسمی، «صوفیہ مصر و نقاط ہمگرایی و واگرایی با شیعیان»، ص۱۳۵.
  56. قاسمی، «صوفیہ مصر و نقاط ہمگرایی و واگرایی با شیعیان»، ص۱۳۵.
  57. قاسمی، «صوفیہ مصر و نقاط ہمگرایی و واگرایی با شیعیان»، ص۱۳۵؛ الوردانی، «مصر، نگاہ از درون»، ص۱۳.
  58. پاک‌آیین، تاریخچہ محبت اہل بیت در افریقا و اروپا، ۱۳۹۰ش، ص۸۳-۸۴.
  59. پاک‌آیین، تاریخچہ محبت اہل بیت در افریقا و اروپا، ۱۳۹۰ش، ص۸۳-۸۴.
  60. حسام السلطنہ، سفرنامہ مکہ، ۱۳۷۴ش، ص۲۵۸؛ پاک‌آیین، تاریخچہ محبت اہل بیت در افریقا و اروپا، ۱۳۹۰ش، ص۸۳-۸۴.
  61. جلیلی، «گرایشہای شیعی در مصر تا میانہ سدہ سوم ہجری»، ص۸۲-۸۳.
  62. جلیلی، «گرایشہای شیعی در مصر تا میانہ سدہ سوم ہجری»، ص۸۳.
  63. ابن طباطبا، منتقلۃ الطالبیۃ، ۱۳۸۸ق، ص۲۹۱-۳۰۶.
  64. جلیلی، «گرایشہای شیعی در مصر تا میانہ سدہ سوم ہجری»، ص۷۷.
  65. جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۱۰۷.
  66. جلیلی، «گرایشہای شیعی در مصر تا میانہ سدہ سوم ہجری»، ص۷۹-۸۱.
  67. «Shi’a of Egypt».
  68. «Egypt’s Shia come out of hiding».
  69. «Shi’a of Egypt».
  70. «Religious Freedom for Shia Populations».
  71. حسینی، «شیعیان مصر؛ ‌گذشتہ و حال»، ص۲۸؛ التشیع فی افریقیا، ۲۰۱۱م، ص۶۳۶.
  72. «شیعیان مصر در گذر زمان».
  73. امیر دہی، «پیشگامان تقریب»، ص۱۱۳.
  74. ہویدی، تجربہ التقریب بین المذاہب، ص۸۹.
  75. میر علی، «نقش سید جمال در تغییر نظام آموزشی الازہر...»، ص۱۳۴.
  76. «آراء و احادیث»، ص۲۳۹.
  77. «آراء و احادیث»، ص۲۳۹.
  78. آذرشب، «التقریب فی القرن الماضی»، ص۷۲-۷۳؛ «رسالۃ الإسلام».
  79. «شیعیان مصر در گذر زمان».
  80. وردانی، شیعہ در مصر، ۱۳۸۲ش، ص۱۷۱.
  81. صفوی، مصر، ۱۳۹۵ش، ص۸۸.
  82. صفوی، مصر، ۱۳۹۵ش، ص۹۳-۹۴
  83. «The Shias: Egypt's forgotten Muslim minority».
  84. صفوی، مصر، ۱۳۹۵ش، ص۹۴ و ۹۷.
  85. صفوی، مصر، ۱۳۹۵ش، ص۱۱۲.
  86. صفوی، مصر، ۱۳۹۵ش، ص۱۲۸.
  87. صفوی، مصر، ۱۳۹۵ش، ص۱۲۹.
  88. وردانی، شیعہ در مصر، ۱۳۸۲ش، ص۲۰۱.
  89. وردانی، شیعہ در مصر، ۱۳۸۲ش، ص۲۰۲.
  90. وردانی، شیعہ در مصر، ۱۳۸۲ش، ص۲۰۲.
  91. وردانی، شیعہ در مصر، ۱۳۸۲ش، ص۲۰۳.
  92. «د. صالح الورداني - مصر - شافعي».
  93. «د. صالح الورداني - مصر - شافعي».
  94. وردانی، شیعہ در مصر، ۱۳۸۲ش، ص۹-۱۰.
  95. «السيرۃ الذاتيۃ».
  96. «شہادت مظلومانہ شیخ حسن شحاتہ»، ص۷۲-۷۳؛ زارع خورمیزی، نسل‌ کشی سادات و مسلمانان شیعہ، ص۶۲۹-۶۳۰.
  97. «شہادت مظلومانہ شیخ حسن شحاتہ»، ص۷۲.
  98. «شہادت مظلومانہ شیخ حسن شحاتہ»، ص۷۴.
  99. التشیع فی افریقیا، ۲۰۱۱م، ص۶۳۹-۶۴۱.
  100. «شیعیان مصر در گذر زمان».
  101. وردانی، شیعہ در مصر، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۶.

مآخذ

  • آذرشب، محمد علی، «التقریب فی القرن الماضی»، در مجلہ رسالۃ التقریب، شمارہ ۴۶، دی ۱۳۸۶ش.
  • «آراء و احادیث»، در مجلہ الازہر، ش۱۲، صفر ۱۳۷۹ق.
  • آزادی، فیروز، و سید اصغر محمود آبادی، «زمینہ‌ہای عرب شدن مصر در صدر اسلام (۲۱ تا ۶۴ ہجری»، در مجلہ پژوہش‌ہای تاریخی، ش۱۲، زمستان ۱۳۹۰ش.
  • ابن اثیر، عز الدین علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۹۶۵م.
  • ابن تغری بردی، یوسف، النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصر والقاہرۃ، ج۱، [قاہرہ]، المؤسسۃ المصریۃ العامۃ، ۱۳۸۳ق/۱۹۶۳م.
  • ابن تغری بردی، یوسف، النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصر والقاہرۃ، ج۳، [قاہرہ]، [المؤسسۃ المصریۃ العامۃ]، [۱۳۸۳ق/۱۹۶۳م].
  • ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ: دیوان مبتدا و الخبر فی تاریخ العرب، تحقیق خلیل شحادہ، دارالفکر، ۱۹۸۸م.
  • ابن طباطبا، ابراہیم بن ناصر، منتقلۃ الطالبیۃ، تحقیق محمد مہدی خرسان، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، ۱۳۸۸ق/۱۹۶۸م.
  • امیردہی، ع.ر، «علامہ شیخ محمد تقی قمی: ہمزیست دار التقریب»، در مجلہ اندیشہ تقریب، ش۱۶، پاییز ۱۳۸۷ش.
  • باسورث، کلیفورد ادموند، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید: راہنمای گاہشماری و تبار شماری، ترجمہ فریدون بدرہ‌ای، تہران، مرکز بازشناسی اسلام و ایران، ۱۳۸۱ش.
  • براقی نجفی، حسین، تاریخ کوفہ، ترجمہ سعید راد رحیمی، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی، ۱۳۸۱ش.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، ۱۹۹۶م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، ۱۹۸۸م.
  • پاک‌ آیین، محسن، تاریخچہ محبت اہل بیت در افریقا و اروپا، تہران، فرہنگ سبز، ۱۳۹۰ش.
  • پاک‌ آیین، محسن، «مودۃ آل البیت(ع) فی مصر»، ترجمہ عباس الاسدی، در مجلہ رسالہ الثقلین، شمارہ ۱۳، ۱۳۷۴ش.
  • التشیع فی افریقیا: تقریر خاص باتحاد علماء المسلمین، [ریاض]، مرکز نماء للبحوث و الدراسات، ۲۰۱۱م.
  • تقی‌ زادہ داوری، محمود، تصویر شیعہ در دائرۃ المعارف امریکانا: ترجمہ و نقد مقالات شیعی در دائرۃ المعارف امریکانا، تہران، مؤسسہ انتشارات امیر کبیر، ۱۳۸۲ش.
  • حسام السلطنہ، سلطان مراد، سفرنامہ مکہ، بہ کوشش رسول جعفریان، [تہران]، مشعر، ۱۳۷۴ش.
  • جباری، محمد رضا، سازمان وکالت و نقش ان در عصر ائمہ، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، ۱۳۸۲ش.
  • جلیلی، مہدی، «گرایشہای شیعی در مصر تا میانہ سدہ سوم ہجری»، در مجلہ مطالعات اسلامی، شمارہ ۵۵، بہار ۱۳۸۱.
  • حسینی، مطہرہ، «شیعیان مصر؛ گذشتہ و حال»، در مجلہ جستارہای سیاسی معاصر، ش۲، ۱۳۸۹ش.
  • «د. صالح الورداني - مصر - شافعي»، در سایت الشیعۃ، تاریخ بازدید: ۲ دی ۱۳۹۷ش.
  • «رسالۃ الإسلام»، سایت بنیاد پژوہش‌ ہای اسلامی آستان قدس رضوی، تاریخ بازدید: ۱۷ آذر ۱۳۹۷ش.
  • روحانی، حسن، آشنایی با کشورہای اسلامی، تہران، مشعر، ۱۳۸۷ش.
  • زارع خورمیزی، محمد رضا، نسل‌ کشی سادات و مسلمانان شیعہ، تہران، مشعر، ۱۳۹۵ش.
  • «السيرۃ الذاتيۃ»، در سایت رسمی صالح الوردانی، تاریخ بازدید: ۲ دی ۱۳۹۷ش.
  • «شیعیان مصر در گذر زمان»، سایت الکوثر، تاریخ بازدید: ۸ دی ۱۳۹۷ش.
  • «شہادت مظلومانہ شیخ حسن شحاتہ عالم بزرگ شیعہ در مصر»، در مجلہ مکتب اسلام، ش۶۲۷، مرداد ۱۳۹۲ش.
  • صفوی، سید حمزہ، مصر، تہران، سازمان انتشارات جہاد دانشگاہی، ۱۳۹۵ش.
  • الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، بی‌نا، بی‌تا.
  • قاسمی، بہزاد، «صوفیہ مصر و نقاط ہمگرایی و واگرایی با شیعیان»، در مجلہ مطالعات راہبردی جہان اسلام، ش۵۸، تابستان ۱۳۹۳ش.
  • قرشی بنابی، علی اکبر، قاموس قرآن، ج۶، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۹۴ق/۱۳۵۳ش.
  • گلاب، جان باگت، سربازان مزدور: سرگذشت ممالیک، ترجمہ مہدی گلجان، تہران،‌ امیر کبیر، ۱۳۸۶ش.
  • محمد حسن، زکی، مصر و الحضارۃ الإسلاميۃ، قاہرہ، مؤسسۃ ہنداوي للتعليم والثقافۃ، ٢٠١٣م.
  • مقریزی، احمد بن علی، المواعظ و الاعتبار فی ذکر الخطط و الاثار، لندن، موسسہ الفرقان للتراث الاسلامی، ۱۴۲۲ق.
  • منسفیلد، پیتر، تاریخ خاورمیانہ، ترجمہ عبد العلی اسپہبدی، تہران، علمی و فرہنگی، ۱۳۸۸ش.
  • میر علی، محمد علی، «نقش سید جمال در تغییر نظام آموزشی الازہر و تأثیر آن بر تحولات سیاسی اجتماعی مصر»، در مجلہ معرفت فرہنگی اجتماعی، ش۲۶، بہار ۱۳۹۵ش.
  • ناصری طاہری، عبداللہ، فاطمیان در مصر، قم، پژوہشکدہ حوزہ و دانشگاہ، ۱۳۷۹ش.
  • وردانی، صالح، شیعہ در مصر، ترجمہ عبد الحسین بینش، قم، موسسہ دائرۃ‌ المعارف فقہ اسلامی، ۱۳۸۲ش.
  • الوردانی، صالح، «مصر نگاہ از درون»، در مجلہ کیہان فرہنگی، ش۲۰۵، آبان ۱۳۸۲ش.
  • ہویدی، فہمی، تجربہ التقریب بین المذاہب، در مجلہ رسالۃ التقریب، شمارہ ۲۹، مہر ۱۳۷۹ش.