محمد بن عمر کشی

ویکی شیعہ سے
محمد بن عمر کشی
کوائف
مکمل ناممحمد بن عمر بن عبد العزیز کشی
لقب/کنیتکشی، ابو عمرو
تاریخ وفاتتقریبا 340 ھ
علمی معلومات
اساتذہعیاشی
اجازہ روایت ازمحمد بن قولویہ قمی
تالیفاتمعرفۃ الناقلین عن الائمۃ الصادقین
خدمات


ابو عمرو محمد بن عمر بن عبد العزیز کشی کشی کے لقب سے معروف، چوتھی صدی ہجری کے شیعہ علماء اور ماہرین علم رجال میں سے ہیں۔ معرفۃ الناقلین عن الائمۃ الصادقین ان کی تالیف ہے۔ شیخ طوسی نے اس کتاب کی تلخیص کی ہے۔

سوانح حیات

ابو عمر محمد بن عمر بن عبد العزیز کا لقب کشی ہے۔ ان کا تعلق کش (ما وراء النہر کا ایک شہر جو نخشب سے نزدیک اور سبز کے نام سے مشہور ہے) سے ہے۔[1] یہ علاقہ اس وقت ریاست ازبکستان کے جنوب میں واقع ہے۔

چوتھی صدی ہجری کے نیمہ اول میں کشی شیخ کلینی کے معاصر ہیں اور ان کے اور شیخ کلینی کے بہت سے اساتذہ اور تلامذہ مشترک ہیں۔[2] ان کی وفات 340 ہجری کے قریب ذکر کی گئی ہے۔[3]

نقل حدیث میں مقام

شیعوں کی رجالی کتب اور منابع میں کشی کو ایک ثقہ و معتبر راوی، روایات اور علم رجال سے آگاہ اور صاحب علم کثیر ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ ان سب کے باوجود اس بات پر بھی تاکید کی گئی ہے کہ انہوں نے ضعیف راویوں سے بھی روایات نقل کی ہیں۔[4]

مذہب

علمائے رجال نے کشی کے مسلک کے بارے "حسن الاعتقاد" اور "مستقیم المذہب" جیسی تعبیرات استعمال کی ہیں جو ان کے شیعہ ہونے کو بیان کرتی ہیں۔[5] نجاشی کہتے ہیں: کشی نے عیاشی کے گھر میں علم حاصل کیا ہے جو شیعوں کی رفت و آمد کا مقام تھا۔[6]

مشایخ و اساتذہ

کشی کے استاد کے طور پر فقط عیاشی کا نام ذکر کیا گیا ہے[7] اور ان کے دوسرے اساتذۃ کے نام کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ البتہ ان کے بعض مشایخ، جن سے انہوں نے روایات نقل کی ہیں، کا شمار ان کے استادوں میں کیا جا سکتا ہے۔ ان میں بعض وہ جن کے اسما خود رجال کشی میں ذکر ہوئے ہیں، ذیل الذکر ہیں:

تالیف

کشی معرفۃ الناقلین عن الائمۃ الصادقین نامی کتاب کے مولف ہیں۔ جس میں رجال شیعہ و غیر شیعہ کو جمع کیا گیا ہے اور شیخ طوسی نے اس کا خلاصہ اختیار معرفۃ الرجال کے نام سے کیا ہے۔ اس وقت صرف وہی خلاصہ موجود ہے اور اصل کتاب دسترسی میں نہیں ہے۔[8]

حوالہ جات

  1. «کش»، لغت‌ نامہ دهخدا
  2. اختیار معرفت الرجال، مقدمہ، ص4
  3. حسینی دشتی، معارف و معاریف، ج8، ص516؛ نقل از تنقیح المقال و اعلام زرکلی
  4. الفہرست، طوسی، ص141؛ رجال شیخ طوسی، ص497خلاصہ الاقوال، حلی، ص146؛ رجال نجاشی، ص372، نقل از منتهی المقال، ابو علی حائری، ج6، ص144
  5. الفہرست، طوسی، ص141؛ رجال شیخ طوسی، ص497 خلاصہ الاقوال، حلی، ص146 نقل از منتہی المقال، ابو علی حائری، ج6، ص144
  6. رجال نجاشی، ص372، نقل از منتہی المقال، ابو علی حائری، ج6، ص144
  7. رجال نجاشی، ص372؛ رجال شیخ طوسی، ص497خلاصہ الاقوال، حلی، ص146 نقل از منتہی المقال، ابو علی حائری، ج6، ص144
  8. الامین، اعیان الشیعo، ج10، ص 27-28.

مآخذ

  • الامین، السید محسن، اعیان الشیعہ، ج10، حققہ واخرجہ: حسن الامین، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، 1406ھ-1986ء۔
  • حسینی دشتی، سید مصطفی، معارف و معاریف: دایرة المعارف جامع اسلامی، تهران: مؤسسہ فرهنگی آرایہ، 1379ہجری شمسی۔
  • ابو علی حائری، منتهی المقال، اول، موسسہ آل البیت، قم، 1416ھ۔
  • طوسی، اختیار معرفت الرجال، مقدمہ حسن مصطفوی، دانشگاه مشهد، 1348ہجری شمسی۔