مندرجات کا رخ کریں

"عجب" کے نسخوں کے درمیان فرق

36 بائٹ کا اضافہ ،  21 جنوری 2018ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{زیر تعمیر}}
{{زیر تعمیر}}
{{اخلاق-عمودی}}
{{اخلاق-عمودی}}
'''عٌجب'''ایک اخلاقی رذیلت ہے، جس کا معنی اپنے نیک اعمال سے خوش ہونا اور انہیں بڑا سمجھنا ہے، حالانکہ انہیں یہ اپنی طرف سے سمجھے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے. علم اخلاق میں کچھ امور جیسے کہ قدرت، خوبصورتی، نسب اور کثرت اولاد کو عٌجب کے عنوان سے یاد کیا ہے اور اس کا نتیجہ نیک اعمال کا برباد ہونا، تکبر اور عقل کا ختم ہونا ہے.
'''عٌجب'''ایک اخلاقی رذیلت ہے، جس کا معنی اپنے نیک اعمال سے خوش ہونا اور انہیں بڑا سمجھنا ہے، حالانکہ انہیں یہ اپنی طرف سے سمجھے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے. علم اخلاق میں کچھ امور جیسے کہ قدرت، خوبصورتی، نسب اور کثرت اولاد کو عٌجب کے عنوان سے یاد کیا ہے اور اس کا نتیجہ نیک اعمال کا برباد ہونا، [[تکبر]] اور [[عقل]] کا ختم ہونا ہے.


اخلاق کے علماء کی نگاہ میں، عٌجب، جہل سے نشئت لیتا ہے اور معرفت و علم سے اس کا علاج کیا جاتا ہے. اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ اس اخلاقی رذیلت کا علاج اس کے اسباب اور علت سے ممکن ہے.
اخلاق کے علماء کی نگاہ میں، عٌجب، جہل سے نشئت لیتا ہے اور معرفت و علم سے اس کا علاج کیا جاتا ہے. اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ اس اخلاقی رذیلت کا علاج اس کے اسباب اور علت سے ممکن ہے.


==لغوی یا اصطلاحی معنی==
==لغوی یا اصطلاحی معنی==
عٌجب یعنی اپنے نیک اعمال سے خوش ہونا اور اسے اپنی نگاہ میں بڑا سمجھنا، اور یہ بھول جائے کہ یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے، بلکہ اسے اپنی طرف سے سمجھے اور اس کے برباد اور ختم ہونے کے بارے میں نہ ڈرے. <ref> فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۶، ص۲۷۶.</ref>البتہ ملا احمد نراقی کی نگاہ میں، عٌجب اپنے آپ کو بڑی شخصیت، اور صاحب کمال فرض کرنا ہے. <ref> نراقی، معراج السعاده، ۱۳۷۸ش، چودہویں صفت عجب و خودبزرگ‌بینی و مذمت آن.</ref>
عٌجب یعنی اپنے نیک اعمال سے خوش ہونا اور اسے اپنی نگاہ میں بڑا سمجھنا، اور یہ بھول جائے کہ یہ سب کچھ [[خدا]] کی طرف سے ہے، بلکہ اسے اپنی طرف سے سمجھے اور اس کے برباد اور ختم ہونے کے بارے میں نہ ڈرے. <ref> فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۶، ص۲۷۶.</ref>البتہ ملا احمد نراقی کی نگاہ میں، عٌجب اپنے آپ کو بڑی شخصیت، اور صاحب کمال فرض کرنا ہے. <ref> نراقی، معراج السعاده، ۱۳۷۸ش، چودہویں صفت عجب و خودبزرگ‌بینی و مذمت آن.</ref>


==تکبر اور ادلال سے نسبت==
==تکبر اور ادلال سے نسبت==
سطر 18: سطر 18:
روایات میں عٌجب کے آثار اور نتائج بیان ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں:
روایات میں عٌجب کے آثار اور نتائج بیان ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں:


* نیک اعمال کا برباد ہونا، پیغمبر اسلام(ص) سے نقل ہوا ہے کہ عٌجب انسان کے ستر سال کے اعمال کو ختم کر دیتا ہے. <ref> پاینده، نہج‌الفصاحہ، ۱۳۸۲ش، ص۲۸۵.</ref> امام صادق(ع) سے نقل کی گئی روایت کے مطابق، دو شخص، ایک فاسق اور ایک عابد مسجد میں داخل ہوئے، لیکن جب مسجد سے نکلنے لگے تو، فاسق عابد اور عابد فاسق ہو گیا تھا کیونکہ عابد مسجد میں عٌجب کا شکار ہو گیا تھا اور اپنی عبادت پر فخر محسوس کر رہا تھا، لیکن فاسق توبہ کی فکر میں تھا، اور استغفار کرتا رہا. <ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۱۴.</ref>
* نیک اعمال کا برباد ہونا، پیغمبر اسلام(ص) سے نقل ہوا ہے کہ عٌجب انسان کے ستر سال کے اعمال کو ختم کر دیتا ہے. <ref> پاینده، نہج‌الفصاحہ، ۱۳۸۲ش، ص۲۸۵.</ref> امام صادق(ع) سے نقل کی گئی روایت کے مطابق، دو شخص، ایک فاسق اور ایک عابد [[مسجد]] میں داخل ہوئے، لیکن جب مسجد سے نکلنے لگے تو، فاسق عابد اور عابد فاسق ہو گیا تھا کیونکہ عابد مسجد میں عٌجب کا شکار ہو گیا تھا اور اپنی [[عبادت]] پر فخر محسوس کر رہا تھا، لیکن فاسق توبہ کی فکر میں تھا، اور [[استغفار]] کرتا رہا. <ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۱۴.</ref>
* تکبر، عٌجب کی نشئت اور اسباب کو تکبر کہا گیا ہے.<ref> فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ص۲۷۵؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۳۲۵.</ref>
* تکبر، عٌجب کی نشئت اور اسباب کو تکبر کہا گیا ہے.<ref> فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ص۲۷۵؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۳۲۵.</ref>
* گناہوں کو چھوٹا سمجھنا یا بھول جانا.
* گناہوں کو چھوٹا سمجھنا یا بھول جانا.
* اپنے اعمال اور عبادات کو بڑا سمجھنا، اور اللہ تعالیٰ پر احسان کرنا. <ref>فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ص۲۷۵؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۳۲۵.</ref>
* اپنے اعمال اور عبادات کو بڑا سمجھنا، اور اللہ تعالیٰ پر احسان کرنا. <ref>فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ص۲۷۵؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۳۲۵.</ref>
روایات میں عقل کا ختم ہونا، <ref> تمیمی آمدی، غررالحکم، ۱۴۱۰ق، ص۳۸۸.</ref><ref> ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۳۶۳ق، ص۷۴؛ نہج البلاغه، ۱۴۱۴ق، ص۳۹۷.</ref>، ہلاکت <ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۱۳.</ref> اور تنہائی <ref> ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۳۶۳ق، ص۶.</ref> عٌجب کے نتائج ہیں، اسی طرح عٌجب علم حاصل کرنے، <ref> مجلسی، بحارالانوار،۱۴۰۳ق، ج۶۹، ص۱۹۹.</ref> اور کمال تک پہنچنے میں رکاوٹ ہے. <ref> نہج البلاغہ، ۱۴۱۴ق، ص۸۱۷.</ref>  
[[روایات]] میں عقل کا ختم ہونا، <ref> تمیمی آمدی، غررالحکم، ۱۴۱۰ق، ص۳۸۸.</ref><ref> ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۳۶۳ق، ص۷۴؛ نہج البلاغه، ۱۴۱۴ق، ص۳۹۷.</ref>، ہلاکت <ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۱۳.</ref> اور تنہائی <ref> ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۳۶۳ق، ص۶.</ref> عٌجب کے نتائج ہیں، اسی طرح عٌجب علم حاصل کرنے، <ref> مجلسی، بحارالانوار،۱۴۰۳ق، ج۶۹، ص۱۹۹.</ref> اور کمال تک پہنچنے میں رکاوٹ ہے. <ref> نہج البلاغہ، ۱۴۱۴ق، ص۸۱۷.</ref>  


نہج البلاغہ میں جو روایات ذکر ہوئی ہیں ان کے مطابق، جو گناہ انسان کو پریشان کر دے اور اسے معذرت خواہی کرنے پر مجبور کرے وہ اس نیک کام سے بہتر ہے جو اسے عٌجب میں مبتلا کر دے. <ref> نہج البلاغہ، ۱۴۱۴ق، ص۴۷۷.</ref>
نہج البلاغہ میں جو روایات ذکر ہوئی ہیں ان کے مطابق، جو گناہ انسان کو پریشان کر دے اور اسے معذرت خواہی کرنے پر مجبور کرے وہ اس نیک کام سے بہتر ہے جو اسے عٌجب میں مبتلا کر دے. <ref> نہج البلاغہ، ۱۴۱۴ق، ص۴۷۷.</ref>


==علاج==
==علاج==
فیض کاشانی کی نگاہ میں عٌجب ایک بیماری ہے جس کا سبب جہل اور نادانی ہے اور جہاں تک وہ ہر بیماری کا علاج اس کے مدمقابل سے کرتے ہیں، معتقد ہیں کہ عٌجب کا علاج بھی علم و معرفت کے ذریعے ہی ممکن ہے. <ref> فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ص۲۷۷.</ref> فیض اور اخلاق کے بعض دیگر علماء معتقد ہیں کہ عٌجب کے علاج کے لئے، اس کے اسباب اور علت کو دیکھنا چاہیے، اگر عٌجب کی وجہ اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت من جملہ خوبصورتی، طاقت اور کثرت اولاد ہے تو انسان اس نکتے کی طرف توجہ رکھے کہ وہی خدا جس نے یہ نعمات دی ہیں وہ ایک پلک جھپکنے میں سب کچھ لے سکتا ہے جیسے کہ ہمیشہ سے ایسے لوگوں کی مثال ہمارے پاس موجود ہے کہ جن کے پاس تمام نعمتیں تھیں لیکن ان کے صحیح استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ان سے محروم ہو گئے، ایسی مثالوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے. اور اگر عٌجب کی وجہ قدرت اور توانائی ہے، تو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بزرگی کی طرف توجہ کرنی چاہیے، اور اسی طرح انسان اپنی خلقت کے مراحل کی طرف توجہ کرے کہ وہ کس چیز سے خلق کیا گیا ہے. اور اگر اس کے عٌجب کی وجہ اس کی فکر اور سوچ ہے تو ہمیشہ اپنی سوچ کی مذمت کرے مگر یہ کہ قرآن یا روایات سے کوئی قطعی دلیل اس کی صحت کی گواہی دیں، اسی طرح اس کو صاحب نظر افراد پر پیش کیا جائے. <ref> فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ص۲۸۲-۲۸۹؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۳۲۶-۳۴۴.</ref>
[[فیض کاشانی]] کی نگاہ میں عٌجب ایک بیماری ہے جس کا سبب جہل اور نادانی ہے اور جہاں تک وہ ہر بیماری کا علاج اس کے مدمقابل سے کرتے ہیں، معتقد ہیں کہ عٌجب کا علاج بھی علم و معرفت کے ذریعے ہی ممکن ہے. <ref> فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ص۲۷۷.</ref> فیض اور اخلاق کے بعض دیگر علماء معتقد ہیں کہ عٌجب کے علاج کے لئے، اس کے اسباب اور علت کو دیکھنا چاہیے، اگر عٌجب کی وجہ اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت من جملہ خوبصورتی، طاقت اور کثرت اولاد ہے تو انسان اس نکتے کی طرف توجہ رکھے کہ وہی خدا جس نے یہ نعمات دی ہیں وہ ایک پلک جھپکنے میں سب کچھ لے سکتا ہے جیسے کہ ہمیشہ سے ایسے لوگوں کی مثال ہمارے پاس موجود ہے کہ جن کے پاس تمام نعمتیں تھیں لیکن ان کے صحیح استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ان سے محروم ہو گئے، ایسی مثالوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے. اور اگر عٌجب کی وجہ قدرت اور توانائی ہے، تو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بزرگی کی طرف توجہ کرنی چاہیے، اور اسی طرح انسان اپنی خلقت کے مراحل کی طرف توجہ کرے کہ وہ کس چیز سے خلق کیا گیا ہے. اور اگر اس کے عٌجب کی وجہ اس کی فکر اور سوچ ہے تو ہمیشہ اپنی سوچ کی مذمت کرے مگر یہ کہ قرآن یا روایات سے کوئی قطعی دلیل اس کی صحت کی گواہی دیں، اسی طرح اس کو صاحب نظر افراد پر پیش کیا جائے. <ref> فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ص۲۸۲-۲۸۹؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۳۲۶-۳۴۴.</ref>


امام باقر(ع) کا جابر بن یزید جعفی کو وصیت کرنا، کہ نفس کی پہچان سے عٌجب کا راستہ بند کیا جا سکتا ہے. <ref> ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۳۶۳ق، ص۲۸۵.</ref>
[[امام باقر(ع)]] کا جابر بن یزید جعفی کو وصیت کرنا، کہ نفس کی پہچان سے عٌجب کا راستہ بند کیا جا سکتا ہے. <ref> ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۳۶۳ق، ص۲۸۵.</ref>


==متعلقہ مضامین==
==متعلقہ مضامین==
گمنام صارف