طُور سِیناءمصر میں موجود ایک پہاڑی سلسلے کا نام ہے جس کا ذکر قرآن مجید اور توریت میں آیا ہے۔ طور سینا میں مختلف واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں حضرت موسی کا اللہ تعالی سے ہمکلام ہونا، چالیس دن کا میقات، بنی اسرائیل کے 70 لوگوں کے ساتھ میقات پر جانا اور حضرت موسیؑ کی وفات شامل ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ نے طور سینا کے تقدس کی علت کے موارد میں سے ایک حضرت موسیؑ کا وہاں پر اللہ سے ہمکلام ہونے کو قرار دیا ہے۔
محل وقوع
طور سینا صحرائے سینا کے جنوب میں واقع ہے جبکہ صحرائے سینا مصر کے شمال مشرق میں فلسطین، اردن اور سعودی عرب کے بارڈر پر واقع ہے۔ اس سمت میں بہت سارے پہاڑ ہیں جن میں سے ایک طور سینا ہے۔[1] ابن منظور نے طور سیناء کو شام میں موجود ایک پہاڑ کا نام قرار دیا ہے۔[2]
بعض کا کہنا ہے کہ طور سیناء ایک پہاڑی سلسلے کا نام تھا اور طور سیناء کے بارے میں مختلف واقعات اسی پہاڑی سلسلے میں رونما ہوئے ہیں۔[3]
اسی طرح قرآن مجید میں «سیناء» و «سینین» کی تعبیر بھی اسی نکتے کی طرف اشارہ ہے اور طور سینین، طور سیناء کا ایک حصہ ہے۔[4]
صحرائے سینا کے جنوب میں ایک پہاڑ کا نام «کوہ سیناء» ہے جس کے دامن میں سینٹ کیتھرین خانقاہ واقع ہے۔[5]
نام
قرآن مجید میں «طور سیناء» کا لفظ ایک ہی مرتبہ آیا ہے جو وہاں پر اگنے والے ایک درخت کے لئے استعمال ہوا ہے جس سے تیل نکالا جاتا ہے۔[6] اسی طرح اللہ تعالی نے طور سینین کی قسم کھائی ہے[7] جسے بعض مفسروں نے وہی طور سیناء مراد لیا ہے۔[8]بعض دوسری آیات میں بھی «الطور» کا لفظ استعمال ہوا ہے جسے مفسرین نے طور سیناء مراد لیا ہے۔[9]
شیخ صدوق نے ابن عباس سے ایک حدیث نقل کیا ہے جس میں طور کو سیناء کا نام دینے کی وجہ وہاں پر موجود ایک درخت کو قرار دیا ہے۔[10]
تقدس
طور سینا وہ مقام ہے جہاں حضرت موسیؑ اللہ تعالی سے ہم کلام ہوئے: سورہ طہ کی 12ویں آیت کے مطابق وہاں پر اللہ تعالی نے کلیم اللہ کو جوتے اتارنے کا حکم دیا کیونکہ «إِنَّک بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوی؛تم طویٰ کی مقدس وادی میں ہو»۔[11] بعض نے اس آیت سے طور سیناء کے تقدس کو ثابت کیا ہے۔[12]اسی طرح سورہ طور میں اللہ تعالی نے اس پہاڑ کی قسم کھائی ہے۔[13]
پیغمبر اکرمؐ سے طور سیناء کے تقدس کی علت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں منقول ہوا ہے:
«کیونکہ اس وادی میں ارواح تقدیس ہوتے ہیں، وہاں پر فرشتے صف میں کھڑے رہتے ہیں نیز اللہ تعالی نے وہاں پر حضرت موسیؑ سے بات کی ہے»۔[14]
طور کے واقعات
آیات اور روایات کے مطابق حضرت موسیؑ اور بنی اسرائیل پر طور سیناء میں کچھ واقعات رونما ہوئے:
مصر کی جانب حرکت اور پہلی وحی کا نزول؛ حضرت موسیؑ کا مدین میں حضرت شعیبؑ کے ساتھ انجام شدہ معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد بیوی بچوں سمیت مصر روانہ ہوئے، اور راستہ گم ہوگیا[15] پہاڑ پر آگ نظر آگئی تو وہاں چلے گئے[16] تو وحی نازل ہوئی اور یہی حضرت موسیؑ کی بعثت کا آغاز تھا[17]قرآن میں اس واقعے کے محل وقوع کو «الطور»[18] و «طُوی»[19]سے تعبیر کیا ہے۔ بعض مفسروں نے «الطور» سے وہی طور سیناء مراد لیا ہے جس کے دامن میں «طوی» کی وادی تھی۔[20] آٹھویں صدی ہجری کے شاعر سیف فرغانی نے بھی اپنے اشعار میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے:
علامہ اقبال نے بھی اپنے مختلف اشعار میں طور و طور سینا کا تذکرہ کرتے ہوئے طور پر اللہ سے کلام کرنے کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طُور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا
حُسنِ کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں، خود نما کیونکر ہوا۔[22]
چالیس روزہ میقات؛ بنی اسرائیل کا مصر سے نکلنے کے بعد حضرت موسیؑ پہاڑ پر چڑھ گیا اور چالیس دن تک وہیں رہا۔ وہیں پر الواح توریت ان پر نازل ہوئے۔[23] بعض مفسروں نے اس چالیس روز کے میقات کی جگہ طور سیناء قرار دیا ہے۔[24]توریت میں یوں ذکر ہوا ہے:
«سویرے تیار ہو جاؤ۔ سویرے کوہ سینی (سینا) پر آکر وہاں اس کی چوٹی پر رک جاؤ»۔[25]
بنی اسرائیل کے 70 لوگوں کے ساتھ میقات پر جانا؛ حضرت موسیؑ، اپنے وصی حضرت یوشع سمت[26] 70 لوگوں کے ہمراہ میقات پر گئے[27] اور بعض واقعات کے پیش نظر اللہ تعالی نے پہاڑ (یا پہاڑ کا کچھ حصہ) ان کے سر کے اوپر لے آیا، وہ لوگ تسلیم ہوئے اور یوں ان پر عذاب نازل نہیں ہوا۔[28]امام صادقؑ کی ایک روایت میں اس واقعے کا مکان طور سیناء ذکر ہوا ہے۔[29]
بعض روایات کے مطابق حضرت موسیؑ کی وفات طور سیناء پر واقع ہوئی ہے۔[30]