مندرجات کا رخ کریں

"افضلیت امام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 37: سطر 37:
* جب افضل غلام ہو یا کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ [[حدود]] الہی اور [[جہاد]] وغیرہ کو قائم نہ کر سکتا ہو،  
* جب افضل غلام ہو یا کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ [[حدود]] الہی اور [[جہاد]] وغیرہ کو قائم نہ کر سکتا ہو،  
* افضل شخص [[قریش|قریشی]] نہ ہو جبکہ مفضول قریشی ہو۔<ref>نگاہ کنید بہ: قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۲۰، بخش اول، ص۲۲۷-۲۳۰۔</ref>
* افضل شخص [[قریش|قریشی]] نہ ہو جبکہ مفضول قریشی ہو۔<ref>نگاہ کنید بہ: قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۲۰، بخش اول، ص۲۲۷-۲۳۰۔</ref>
====دلائل====<!--
====دلائل====
[[اہل‌سنت]] دلایلی برای جواز [[امامت]] مفضول ارائہ کردہ‌اند از جملہ:
[[اہل‌ سنت]] مفضول کی [[امامت]] کے جائز ہونے پر کچھ دلائل پیش کرتے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
# [[اجماع]] علماء بر انعقاد امامت مفضول پس از [[خلفای راشدین]] با وجود شخص افضل
# [[خلفائے راشدین]] کے بعد افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت پر تمام علماء کا [[اجماع]]؛
# [[عمر بن خطاب]] امامت را بہ [[شورای شش نفرہ]] واگذار کرد؛ در حالی کہ میان آنہا [[علی(ع)]] و [[عثمان]] از دیگران برتر بودند۔
# [[عمر بن خطاب]] نے امامت کے انتخاب کو [[چھ رکنی کمیٹی]] کے سپرد کیا؛ حالانکہ ان کے درمیان [[حضرت علیؑ]] اور [[عثمان]] دوسروں سے افضل تھے۔
# افضلیت امری پنہان است و شناخت آن مشکل و محل اختلاف است۔<ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۷۔</ref>
# افضلیت ایک باطنی امر ہے جس کی پہچان نہایت مشکل ہے اور ہمیشہ اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔<ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۷۔</ref>


==افضلیت اخروی امام==
==آخرت میں امام کی افضلیت==
برای اثبات افضلیت امام در برخورداری از پاداش اخروی بہ دلایل متعددی استدلال شدہ است<ref>نگاہ کنید بہ: محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵ و ۲۰۶؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶ و ۲۸۷؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۲؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۲۰۳-۲۰۸۔</ref> از جملہ:
آخرت میں خدا کی طرف سے دیئے جانے والے انعام و اکرام یعنی ثواب کے مستحق ہونے میں بھی امام کو دوسروں سے افضل ہونے کو متعدد دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵ و ۲۰۶؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶ و ۲۸۷؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۲؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۲۰۳-۲۰۸۔</ref> من جملہ وہ دلائل یہ ہیں:
* '''عصمت''': [[واجب]] است امام، [[عصمت امامان|معصوم]] باشد۔ ہر کسی کہ [[عصمت]] دارد، بہ‌لحاظ پاداش اخروی ہم برتر از دیگران است؛<ref>محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶۔</ref> زیرا امام بہ‌دلیل معصوم بودن، ظاہر و باطنش ہماہنگ است۔ ازاین‌رو افزون بر افضلیت ظاہری، از افضلیت باطنی نیز برخوردار است و از پاداش اخروی بیشتری بہرہ‌مند خواہد بود۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۲۰۴۔</ref>
* '''عصمت''': امام کا [[عصمت ائمہ|معصوم]] ہونا [[واجب]] ہے۔ جو شخص [[عصمت]] کے مقام پر فائز ہو گا وہ آخرت میں ثواب کے مستحق ہونے میں بھی دوسروں پر مقدم هو گا؛<ref>محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶۔</ref> کیونکہ امام معصوم ہونے کی بنا پر اس کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہوگا۔ پس دنیا میں ظاہری طور پر افضل ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت میں باطنی طور پر بھی امام دوسروں سے افضل اور برتر ہونگے۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۲۰۴۔</ref>
* '''تکلیف سنگین‌تر و پاداش بیشتر''': امام بہ جہت تحمل بار [[امامت]]، تکلیفش سنگین‌تر و بیشتر از دیگران است۔ بہ ہمین جہت [[ثواب]] و پاداش او بیشتر است۔<ref> محقق حلی، المسلک فی أصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۲۔</ref>
* '''جس قدر ذمہ داری سنگین ہوگی ثواب بھی زیادہ ملے گا''': امام [[امامت]] کی ذمہ داری اٹھانے کی بنا پر دوسروں سے زیادہ مشقت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر آخرت میں امام زیادہ [[ثواب]] اور انعام و اکرام کا بھی مستحق قرار پائے گا۔<ref> محقق حلی، المسلک فی أصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۲۔</ref>
* '''حجت بودن امام''': امام ہمچون [[پیامبر(ص)]]، حجت [[خدا|الہی]] است و ہمچنان کہ پیامبر(ص) در پاداش و ثواب الہی برتر از دیگران است، امام نیز ہمچون او دارای پاداش بیشتر و برتر است۔<ref>محقق حلی، المسلک فی أصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۶؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۷۔</ref>
* '''امام دوسروں پر حجت ہیں''': امام [[پیغمبر اکرمؐ]] کی طرح امت پر [[خدا]] کی حجت ہیں بنابر این جس طرح پیغمبر اکرمؐ دوسروں سے زیادہ ثواب کے مستحق قرار پاتے ہیں امام بھی دوسروں سے زیادہ ثواب کے مستحق قرار پائیں گے۔<ref>محقق حلی، المسلک فی أصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۶؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۷۔</ref>


==افضلیت امامان شیعہ==
==شیعہ ائمہ کی افضلیت==<!--
{{اصلی|برتری اہل بیت(ع)}}
{{اصلی|برتری اہل بیت(ع)}}
علمای شیعہ بر این باورند کہ پس از پیامبر اسلام(ص)، [[امامان شیعہ(ع)]] افضل و برتر از دیگران(اعم از [[پیامبران]]، [[ملائکہ]] و سایر مردم) ہستند۔<ref>نگاہ کنید بہ: صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ص۹۳؛ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۷۰ و ۷۱؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹۔</ref> [[روایات]] دال بر افضلیت ائمہ(ع) بر جمیع مخلوقات، [[مستفیض]] و بلکہ [[متواتر]] دانستہ شدہ است۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹۔</ref> [[علامہ مجلسی]] معتقد است ہر کس در روایات تحقیق کند بدون تردید بہ افضلیت پیامبر(ص) و ائمہ(ع) اعتراف می‌کند و تنہا جاہل بہ روایات، افضلیت آنان را انکار می‌کند۔ از نظر وی اخبار در این باب بیش از آن است کہ قابل شمارش باشد۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷ و ۲۹۸۔</ref>
علمای شیعہ بر این باورند کہ پس از پیامبر اسلام(ص)، [[امامان شیعہ(ع)]] افضل و برتر از دیگران(اعم از [[پیامبران]]، [[ملائکہ]] و سایر مردم) ہستند۔<ref>نگاہ کنید بہ: صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ص۹۳؛ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۷۰ و ۷۱؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹۔</ref> [[روایات]] دال بر افضلیت ائمہ(ع) بر جمیع مخلوقات، [[مستفیض]] و بلکہ [[متواتر]] دانستہ شدہ است۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹۔</ref> [[علامہ مجلسی]] معتقد است ہر کس در روایات تحقیق کند بدون تردید بہ افضلیت پیامبر(ص) و ائمہ(ع) اعتراف می‌کند و تنہا جاہل بہ روایات، افضلیت آنان را انکار می‌کند۔ از نظر وی اخبار در این باب بیش از آن است کہ قابل شمارش باشد۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷ و ۲۹۸۔</ref>
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم