مندرجات کا رخ کریں

"حدیث قسیم النار و الجنہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>Mudabbirhusainrizvi
imported>Mudabbirhusainrizvi
سطر 33: سطر 33:
==مفہومِ حدیث==
==مفہومِ حدیث==
علمائے اسلام کے اعتبار سے عبارتِ «قسیم ِجنت وجہنم» کی دو تفسیر پائی جاتی ہے:
علمائے اسلام کے اعتبار سے عبارتِ «قسیم ِجنت وجہنم» کی دو تفسیر پائی جاتی ہے:
* ایک یہ کہ حضرت علیؑ کے چاہنے والے ہدایت یافتہ اور وارد بہشت ہونگے اور ان کے دشمن گمراہ اور داخل جہنم ہوں گے۔<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۱۹، ص۱۳۹؛ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ھ، ج۱۱، ص۲۸۹ وج۱۲،‌ ص۱۷۲؛ مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۹، ص۲۱۰؛ حمویی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج۱، ص۳۲۶</ref> جب کسی نے [[احمد بن حنبل]] (متوفی 241ھجری قمری) کے سامنے اس روایت (میں قسیم جہنم ہوں) کا انکار کیا تو ابن حنبل نے پیغمبر اکرمؐ کی روایت جو حضرت علیؑ کے بارے میں ہے کہ (اے علی آپ کا چاہنے والا مؤمن اور آپ کا دشمن منافق ہوگا) اور جنت میں مؤمن کا مقام اور جہنم میں منافق کا مقام سے استدلال کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ حضرت علیؑ ہی قسیم جہنم ہیں۔۔<ref>ابن ابی‌یعلی، طبقات الحنابلہ، دارالمعرفۃ، ج۱، ص۳۲۰</ref>
* ایک یہ کہ حضرت علیؑ کے چاہنے والے ہدایت یافتہ اور وارد بہشت ہوں گے اور ان کے دشمن گمراہ اور داخل جہنم ہوں گے۔<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۱۹، ص۱۳۹؛ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ھ، ج۱۱، ص۲۸۹ وج۱۲،‌ ص۱۷۲؛ مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۹، ص۲۱۰؛ حمویی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج۱، ص۳۲۶</ref> جب کسی نے [[احمد بن حنبل]] (متوفی 241ھجری قمری) کے سامنے اس روایت (میں قسیم جہنم ہوں) کا انکار کیا تو ابن حنبل نے پیغمبر اکرمؐ کی روایت جو حضرت علیؑ کے بارے میں ہے کہ (اے علی آپ کا چاہنے والا مؤمن اور آپ کا دشمن منافق ہوگا) اور جنت میں مؤمن کا مقام اور جہنم میں منافق کا مقام سے استدلال کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ حضرت علیؑ ہی قسیم جہنم ہیں۔<ref>ابن ابی‌یعلی، طبقات الحنابلہ، دارالمعرفۃ، ج۱، ص۳۲۰</ref>
* دوسری یہ کہ حضرت علیؑ قیامت کے دن واقعی جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں اور لوگوں کو جنت یا جہنم میں بھیجیں گے۔۔<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۱۹، ص۱۳۹؛ ابن مغازلی، مناقب الامام علی بن ابی‌طالب(ع)، ۱۴۲۴ھ، ص۱۰۷؛ مجلسی،‌ بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۹، ص۲۱۰</ref>
* دوسری یہ کہ حضرت علیؑ قیامت کے دن واقعی جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں اور لوگوں کو جنت یا جہنم میں بھیجیں گے۔<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۱۹، ص۱۳۹؛ ابن مغازلی، مناقب الامام علی بن ابی‌طالب(ع)، ۱۴۲۴ھ، ص۱۰۷؛ مجلسی،‌ بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۹، ص۲۱۰</ref>


یہ دو مضمون بعض روایات میں بھی وارد ہوئے ہیں۔۔<ref>شیخ صدوق،‌ عیون اخبار الرضا(ع)، ۱۳۷۸ھ، ج۲، ص۸۶؛‌ شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۱۶۲؛‌ ابن‌ابی‌یعلی، طبقات الحنابلہ، دارالمعرفۃ، ج۱، ص۳۲۰۔</ref>
یہ دو مضمون بعض روایات میں بھی وارد ہوئے ہیں۔<ref>شیخ صدوق،‌ عیون اخبار الرضا(ع)، ۱۳۷۸ھ، ج۲، ص۸۶؛‌ شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۱۶۲؛‌ ابن‌ابی‌یعلی، طبقات الحنابلہ، دارالمعرفۃ، ج۱، ص۳۲۰۔</ref>
  بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ چونکہ حضرت علیؑ مقام [[امامت]] پر فائز ہیں لہذا ان کا قول و فعل حجت ہے۔ اس اعتبار سے ان کی پیروی کرنے والے جنت اور دشمن جہنم میں جائیں گے۔۔<ref>حسینی تہرانی، امام‌شناسی، ۱۴۲۶ھ، ج۱،‌ ص۱۵۰۔</ref>
  بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ چونکہ حضرت علیؑ مقام [[امامت]] پر فائز ہیں لہذا ان کا قول و فعل حجت ہے۔ اس اعتبار سے ان کی پیروی کرنے والے جنت اور دشمن جہنم میں جائیں گے۔<ref>حسینی تہرانی، امام‌شناسی، ۱۴۲۶ھ، ج۱،‌ ص۱۵۰۔</ref>


==اعتبار و سند ==
==اعتبار و سند ==
گمنام صارف