حر بن یزید ریاحی

ویکی شیعہ سے
حر بن یزید ریاحی
کربلا میں حر بن یزید ریاحی کا حرم
کربلا میں حر بن یزید ریاحی کا حرم
کوائف
نام:حُرّ بْن یَزید ریاحی
نسببنی تمیم
مقام سکونتکوفہ
شہادتروز عاشورا 61ھ
مقام دفنکربلا
اصحابامام حسینؑ
سماجی خدماتواقعہ کربلا میں امام حسین کی نصرت


حُرّ بْن یَزید ریاحی کے نام سے معروف حضرت امام حسین ؑ کے جانثار ہیں جن کا مکمل نام حُرّ بْن یَزید بْن ناجیہ تَمیمی یَرْبوعی ریاحی، ہے۔واقعہ کربلا سے پہلے ایک سپہ سالار کی حیثیت سے ابن زیاد کی جانب سے حضرت امام حسین ؑ کے کارواں کو کوفہ آنے سے روکنے کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔لہذا وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے ایک ہزار افراد پر مشتمل لشکر کے ساتھ عازم سفر ہوا۔

عاشورا کے روز حر بن یزید نے جب دیکھا کہ کوفیان امام حسین ؑ کے قتل کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں تو لشکر کو چھوڑ کر حضرت امام حسین ؑ سے مل گئے۔بالآخر انکی معیت میں جنگ کرتے ہوئے شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ندامت کی وجہ سے کوفی لشکر کو چھوڑ کر حضرت امام حسین سے ملحق ہونے کی وجہ سے شیعہ ان کی نہایت عظمت و احترام کے قائل ہیں۔اسی وجہ سے شیعہ حضرات امید ،قبولیت توبہ اور کامیابی کے نمونے کے طور حضرت حر کو پہچانتے ہیں۔

نسب

حرّ بن یزید بن ناجیہ بن قَعْنَب بن عَتّاب بن حارث بن عمرو بن ہَمّام بن بنو ریاح بن یربوع بن حَنْظَلَہ قبیلہ تمیم کی شاخ سے منتسب ہیں [1] اسی وجہ سے انہیں ریاحی، یربوعی، حَنظَلی و تمیمی کہا جاتا ہے .[2] خاندان حرّ کا خاندان زمانۂ جاہلیت اور اسلام کے دور میں بزرگ گنا جاتا تھا.[3]

عاشورا سے پہلے

حر کوفہ کے مشہور ترین جنگی دلاوروں میں سے تھے[4] بعض منابع نے اشتباہ کی وجہ سے انہیں عبید اللہ بن زیاد کے شُرطہ ہونے کے عنوان سے ذکر کیا ہے [5] پس اس بنا پر وہ صاحب شرطہ کے عنوان سے نہیں بلکہ وہ ایک فوجی منصب کے حامل تھے اور انہیں عبیداللّه بن زیاد کی طرف سے تمیم و ہمْدان کے جوانوں پر مشتمل فوج کی سپہ سالاری کے فرائض کے ساتھ امام حسین(ع) کو روکنے کیلئے مامور کیا گیا[6][7]

آپکے فوجی عہدے دار ہونے کے احتمال کی مزید تقویت اس بات سے ہوتی ہے کہ کوفہ کی 60 سالہ زندگی میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی کا ذکر نہیں آیا ہے اور وہ سیاست سے کسی قسم کا سروکار نہیں رکھتے تھے ۔ صرف بلعمی نے ایک مردد روایت کے سہارے کی بنا پر اسے شیعہ کہا کہ جس نے اپنے مذہب کو چھپا کر رکھا ہوا تھا[8]

محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


سپاہ کوفہ کی سپہ سالاری

عبیدالله بن زیاد جبامام حسین(ع) کی کوفہ کی طرف روانگی سے آگاہ ہوا۔اس نے کوفہ بزرگوں اور رؤسا میں سے حرکو طلب کیا اور انہیں 1000 افراد کی سپہ سالاری کے ساتھ حضرت امام حسین کو روکنے کیلئے روانہ کیا .

دیگر روایات کی بنا پر عبیدالله بن زیاد نے حصین بن نمیر تمیمی کو چار ہزار کی نفری کے ساتھ قادسیه اعزام کیا تا کہ وہ قادسیہ سے خفّان تک اور قُطقُطانیہ سے لَعلَع تک کے علاقے کو اپنے زیر نظر رکھیں اس طرح وہ اس علاقے میں آنے جانے والوں سے آگاہ رہ سکیں اور حر اور اسکے ہزار سپاہی اسی ۴۰۰۰ افراد کا حصہ تھے کہ جو حصین بن نمیر کی سرکردگی میں مامور ہوئے تھے .

غیبی آواز کا سننا

خود حر روایت کرتے ہیں کہ جب میں قصر ابن زیاد سے باہر نکلا تا کہ حسین کو روکنے کیلئے سفر کا آغاز کروں تو میں نے تین بار اپنے پیچھے سے ایک غیبی ندا سنی کہ جو مجھے کہہ رہی تھی:

اے حرّ! تہیں جنت کی بشارت مبارک ہو.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کسی کو اپنے پیچھے نہ پایا اور میں نے اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہا : یہ کیسے جنت کی بشارت ہو سکتی ہے جبکہ میں امام حسین سے جنگ کرنے کیلئے جا رہا ہوں ۔

اس نے اس بات کو ذہن نشین کیا یہاں تک کہ اس نے اس بات کو حضرت امام حسین کے سامنے بیان کیا تو امام نے کہا :تو نے حقیقت میں نیکی اور خیر کی راہ کو پا لیا ہے [9][10]

امام حسین کے روبرو

امام حسین(ع) ذی حُسم کے مقام پر حر کے روبرو ہوئے.[11] تاریخی منابع کی تصریح کے مطابق حرّ جنگ کیلئے اعزام نہیں ہوئے تھے بلکہ صرف امام حسین کو ابن زیاد کے پاس لانے کیلئے مامور تھے اسی وجہ سے انہوں امام حسین کی قیام گاہ کے سامنے صف آرائی کی .[12] کس طرح سے سپاہ حر امام حسین کے سامنے آئے اس کی کیفیت کو ابومخنف نے حضرت امام حسین کےساتھ ہمراہی کرنے والے بنی اسد قبیلے کے افراد سے یوں نقل کیا ہے:

جب کاروان امام حسین(ع) نے شراف سفر کا آغاز کیا تو انہوں نے دور سے دشمن کے لشکر کا مشاہدہ کیا تو امام(ع) اپنے ساتھیوں سے استفسار کیا:
یہاں نزدیک کوئی پناہ گاہ ہے جہاں ہم پناہ لیں اور انہیں اپنے پشت سر قرار دیں تا کہ ایک طرف سے انکے ساتھ مقابلہ کر سکیں ؟انہوں نے جواب دیا ہاں !بائیں طرف ایک منزل بنام ذو حُسمہے۔
پس امام نے بائیں طرف سفر کا آغاز کیا جبکہ دشمن نے بھی اسی طرف کا رخ کیا لیکن امام حسین ان سے پہلے اس مقام پر پہنچ گئےاور انہوں نے اپنے خیام نصب کر دئے ۔
حر بن یزید ریاحی اور اسکے ساتھی ظہر کے وقت پیاس کے عالم میں وہاں پہنچے اور انہوں نے امام حسین ؑ کے سامنے خیام نصب کئے اور انکے سامنے صف آرائی کی ۔ انکے اس دشمنانہ رویے کے باوجود امام حسین ؑ نے ان سے صلح آمیز رویہ اپنایا۔امام نے اپنے ساتھیوں کے حکم دیا کہ انہیں پانی پلائیں ۔حر نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی آپ نے اسے قبول فرمایا ۔حر نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا ۔امام نے اسے بتایا کہ مجھے کوفہ کے اہالیان نے دعوت دی ہے میں انکے بلانے پر یہاں آیا ہوں نیز کوفیوں کے مسلسل لکھے ہوئے خطوط سے آگاہ کیا اور انکی پریشانی کا بتایا کہ وہ اپنے کئے پر نادم ہیں ۔
حر نے بتایا کہ وہ ان خطوط سے بے خبر ہے۔وہ اور اسکے ساتھ آنے والوں میں کوئی آپکو خطوط لکھنے والوں میں سے نہیں ہے ۔ہمیں کہا گیا ہے کہ آپکو کوفے کے حاکم پاس لے کر جائیں۔ امام نے جب اپنے اصحاب کے ساتھ سفر شروع کرنے کا ارادہ کیا تو حر کوفے جانے اور آپکے واپس حجاز جانے میں رکاوٹ بنا ۔ حر نے امام کو تجویز دی کہ وہ کوفے اور مدینے کے علاوہ کسی اور راستے کا انتخاب کریں تا کہ وہ اس سلسلے میں ابن زیاد سے نئے دستور کو طلب کر سکے ۔حر نے امام سے کہا: آپ سے جنگ کرنا میرا وظیفہ نہیں ہے لیکن مجے کہا گیا ہے کہ میں آپ سے کسی صورت میں جدا نہ ہوں یہانتک کہ میں آپ کو کوفہ لے کر جاؤں۔پس اگر آپ میری ہمراہی سے گریزاں ہیں تو آپ ایسا راستہ اختیار کریں جو آپ کو نہ کوفہ لے کر جائے اور نہ مدینہ ہی لے کر جائے ۔جب تک میں عبید اللہ بن زیاد کو خط لکھتا ہوں اگر آپ چاہتے ہیں تو یزید بن معاویہ کو خط لکھیں تا کہ یہ معاملہ صلح پر ختم ہو جائے ۔میرے خیال میں یہ میرا اپنے آپ کو جنگ و جدال میں ملوث کرنے کی نسبت زیادہ بہتر ہے ۔
اس کے بعد امام حسین ؑ نے اپنے اصحاب کے ساتھ عُذیب الہجانات اور قادسیہ کا راستہ اختیار کیا نیز ::حر بن یزید امام کے ساتھ رہا ۔[13]

حر اگرچہ حر بن یزید ریاحی امام سے جنگ کرنے کیلئے مامور نہیں تھا لیکن وہ شروع سے ہی امام حسین ؑ کو ممکنہ جنگ کی تنبیہ کرتا رہا یہانتک کہ کہتے ہیں کہ اس نے امام کو تنبیہ کی کہ اگر جنگ ہوئی آپ یقینا قتل ہو جائیں گے ۔ جب موقع ملتا پاتا تو امام سے خدا کیلئے آپ اپنی جان کی حفاظت کریں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ نے جنگ کی تو آپ کا قتل ہونا یقینی ہے ۔لیکن امام نے اسے اس شعر میں جواب دیا:خدا کی راہ میں موت سے کوئی ڈر و خوف نہیں ہے ۔

عذیب کے مقام پر کوفہ سے چار افراد آپ سے ملحق ہونے کیلئے آئے ۔حر نے انہیں گرفتار کرنے یا انہیں کوفہ واپس بھیجنے کا ارادہ کیا لیکن امام اس ارادے میں مانع بنے ۔انہوں نے کوفے کے غیر معمولی حالات اور آپ کے سفیر قَیس بن مُسَهَّر صیداوی کے شہید ہونے کی خبر دی نیز آپ سے جنگ کرنے کیلئے کوفے میں ایک بہت بڑے لشکر کی تیاری خبر دی ۔[14]

دو محرم کو حر کی امام کے ساتھ ہمراہی اختتام کو پہنچی۔[15]دونوں گروہ نینوا نامی جگہ پر پہنچے تھے کہ عبید اللہ کا نامہ حر بن یزید ریاحی کو ملا جس میں اسے دستور دیا کہ امام حسین سے سختی کے ساتھ پیش آئے اور اسے کسی صحرا اور بیابان میں پڑاؤ ڈالنے پر مجبور کرے[16] ابن زیاد نے حر کو لکھا:جیسے ہی تمہیں میرا نامہ ملے تم حسین کے ساتھ سخت گیری سے پیش آؤ اور اسے ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے پر مجبور کرو جہاں پانی وغیرہ نہ ہو۔میں نے اپنے قاصد کو حکم دیا ہے کہ وہ مسلسل تمہارے ساتھ رہے تا کہ وہ مجھے تمہاری بارے میں خبر دے کہ تم نے میرے دستور کے مطابق عمل کیا ہے۔والسلامحر نے یہ خط امام کی خدمت میں پڑھ کر سنایا۔امام نے کہا ہمیں نینوا یا غاضریہ میں پڑاؤ ڈالنے دو۔

عبید اللہ بن زیاد کی جاسوسی کی وجہ سے حر بن یزید ریاحی سختی میں تھا لہذا اس نے امام کو روک دیا اور امام کی درخواست کے باوجود انہیں نینوا کے پاس پڑاؤ ڈالنے سے منع کیا ۔امام نے مجبور ہو کر کربلا کے میں اپنے خیام نصب کئے ۔ بعض روایات کی بنا پر عقر گاؤں کے پاس فرات کے قریب خیام نصب کیے ۔ [17] زہیر بن قین نے امام سے کہا :خدا کی قسم ! جیسا میں دیکھ رہا ہوں کہ اس گروہ کے بعد آنے والوں کی نسبت اس گروہ سے ہمارے لیے جنگ کرنا آسانترہے ۔اپنی جان کی قسم!انکے بعد آنے والوں کے ساتھ ہم میں جنگ کرنے کی سکت نہیں ہے ۔ امام نے جواب دیا ہاں درست کہہ رہے ہو لیکن میں جنگ میں پہل نہیں کرنے والا نہیں ہونگا۔

حضرت امام حسین حر کے ساتھ چلتے ہوئے کربلا پہنچے تو حر کے لشکر کے ان کا راستہ روک لیا اور یہیں فرات کے کنارے پڑاؤ ڈالیں۔ امام نے کہا اس جگہ کا نام کیا ہے ؟کہا : کربلا۔ امام نے یہیں پڑاؤ ڈال دیا ۔حر کے ساتھیوں نے ایک طرف خیام نصب کر دیے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام کے پڑاؤ ڈالنے پر حر نے ابن زیاد کو خط لکھا اور ان کے کربلا میں ٹھہرنے کی خبر دی ۔

توبہ

حر بن یزید ریاحی کے حرم نقاشی کا نمونہ

حر نے احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ سخت اقدام کیا تھا۔حتاکہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ کی عزت و احترام کی جانب اشارہ کیا۔[18] عاشور کے عمر بن سعد نے اپنے لشکر کو آراستہ کیا اور لشکر کے سپہ سالار مقرر کیے۔ اس نے حر بن یزید ریاحی کو بنی تمیم اور بنی ہمدان کی سپہ سالاری دی۔لشکر امام حسین ؑ سے جبگ کیلئے تیار ہو گیا۔حر نے جب لشکر کو امام حسین ؑ سے جنگ کیلیے بالکل مصمم دیکھا تو وہ عمر بن سعد کے پاس آیا اور اس سے کہا: کیا تو اس شخص حسین بن علی سے جنگ کا ارادہ رکھتا ہے ؟عمر بن سعد نے جواب میں کہا: ہاں، خدا کی قسم ! اس جنگ کی آسان ترین صورت صورت سروں کا گرنا اور ہاتھوں کا کٹنا ہو گی۔حر نے کہا: مگر تمہاری تجویزیں تو خوش آیند نہ تھیں؟عمر بن سعد نے جواب دیا : اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں قبول کر لیتا لیکن تمہارے امیر نے اسے قبول نہیں کیا۔

یہ سننا تھا کہ حر عمر کے لشکر کو چھوڑ کر لشکر کے ایک طرف کھڑا ہوگئے اور آہستہ آہستہ امام حسین ؑ کی فوج کی طرف آنا بڑھنے لگے۔لشکر عمر بن سعد کے ایک شخص مہاجر بن اوس نے کہا :اے حر!حملہ کرنا چاہتے ہو؟حر نے کپکپاتےجسم کے ساتھ کوئی جواب نہیں دیا۔مہاجر حر کی یہ حالت دیکھ کر شک میں پڑ گیا اور حر سے یوں مخاطب ہوا:خدا کی قسم!میں نے کبھی کسی جنگ میں تمہارا یہ حال نہیں دیکھا ۔ مجھ سے کوئی پوچھتا کہ کوفے کا شجاع ترین شخص کون ہے تو میں تمہارا نام لیتا ۔میں تمہارا کیا حال دیکھ رہا ہوں؟

حر نے جواب دیا : میں اپنے آپ کو جنت اور دوزخ کے درمیان دیکھ رہا ہوں۔حر نے یہ کہہ کر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور امام حسین ؑ کے خیمہ کی طرف چلے گئے۔کہتے ہیں کہ وہ بہت پریشانی کے عالم میں امام حسین ؑ سے ملحق ہوئے اور اسےاس بات یقین نہیں تھا کہ کوفی معاملے کو جنگ تک لے جائیں گے وہ معافی کا طلبگار ہوئے۔امام نے اس کیلئے استغفار کی اور فرمایا تو اس دنیا اور آخرت میں آزاد ہو۔[19]

توبہ کی وجوہات

ابن زیاد کے لشکر کیلئے حضرت حر کا امام حسین ؑ سے ملحق ہونا حیران کن تھا۔ بعض حر کے ملحق ہونے کی وجہ غیبی صدا کے سننے یا سچے خواب کو قرار دیتے ہیں۔[20]کسی بھی سبب سے قطع نظر یہ انکے انتخاب (یعنی امام حسین سے ملحق ہوجانے کی) قدر و قیمت کو کم نہیں کرتی ہے ۔[21] بعض نے اسکی اس گفتگو میں اپنے آپ کو جنت و جہنم کے درمیان دیکھ رہا ہوں اور خدا کی قسم!مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا آگ میں جلا دیں میں بہشت کے انتخاب سے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا ۔ [22]

لشکر سے خطاب

حر نے توبہ کرنے کے بعد لشکر کے سامنے کو ان الفاظ میں نصیحت کی:

امام حسین نے جو تجاویز تمہیں دیں اس بات کا باعث نہیں بنیں کہ خدا تمہیں اس جنگ سے دور رکھے؟ حر نے اسی بات کی عمر بن سعد دوبار کہی تو عمر نے کہا :میں حسین سے جنگ کیلئے تیار ہوں اگر اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہوتا میں اسے اختیار کرتا ۔یہ سن کر حر لشکر کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا:
اے اہل کوفہ! تمہاریں مائیں تمہارے غم میں روئیں!اس نیک شخص کو دعوت دی اور اسے کہا کہ ہم تمہاری رکاب میں جنگ کریں گے.
اب جب وہ تمہارے پاس آ گیا ہے تو اب اس کی مدد سے تم نے ہاتھ کھینچ لیا ہے ۔اسکے سامنے جنگ کیلئے صف باندھے کھڑے ہو اور اس کے قتل کے در پے ہو،اسے گھیرے میں لے لیا ہے، اس کے نفس کو محبوس کردیا ہے اور تم نے اس قدر وسیع و عریض زمین پر کہیں جانے سے اسے روک دیا ہے، اسے اس طرح نرغے میں لے لیا ہے کہ وہ نہ تو اپنی مرضی سے کسی چیز کو انجام دے سکتا ہے اور نہ اپنے ضرر کو اپنے آپ سے دور کرنے کی قدرت رکھتا ہے،اس فرات کا پانی اس پر ،اسکے خاندان اور اصحاب پر بند کر دیا ہے جس سے یہود ،نصارا اور مجوسی پانی رہے ہیں،خنزیر اور کتے پانی پر(کھیل رہے )ہیں ۔انکی تشنگی کا یہ عالم ہے کہ تشنگی نے انہیں بے حال کر دیا ہے۔تم نے محمد اور اسکے خاندان کی کیا پاسداری کی ہے؟پیاس کے دن(قیامت کے روز) خدا تمہیں سیراب نہ کرے!۔یہ سننا تھا کہ لشکر نے اسکی جانب تیر اندازی شروع کر دی۔ حر پیچھے ہٹے اور امام حسین کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔

شہادت

حر کی توبہ کو زیادہ وقت نہیں گزرا ۔روایت کی بنا پر اس نے امام حسین ؑ سے تقاضا کیا چونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے امام پر خروج کیا لہذا اسے جنگ کی اجازت دی جائے اور آپکے قدموں میں اپنی جان نچھاور کر دے۔[23]

پس وہ توبہ کے بعد بلا فاصلہ راہی میدان ہوئے۔عمر بن سعد اور اسکے لشکر کو دوبارہ نصیحت کرنے اور جواب میں انکی طرف سے بد اخلاقانہ رفتار دیکھ کر بالآخر چند مرتبہ حملہ آور ہوئے اور درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔[24]

حر نے بڑی بہادری سے جنگ کی ۔ان کا گھوڑا زخمی ہوگیا۔ ان کے کانوں اور پیشانی سے خون جاری تھا لیکن وہ مسلسل رجز خوانی کرتے ہوئے دشمن پر حملے کر رہے تھے یہانتک کہ انہوں نے 40 افراد کو قتل کیا۔ پیادہ لشکر نے مل کر ان پر حملہ کیا اور انہیں شہید کر دیا ۔کہا گیا ہے کہ ایوب بن مسرح اور ایک کوفی سوار ان کی شہادت میں شریک تھے۔

لیکن بعض نے کہا ہے کہ ظہر سے کچھ پہلے حبیب بن مظاہر کی شہادت کے بعد زہیر بن قین اور حر بن یزید ریاحی اکٹھے میدان جنگ میں گئے دونوں ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے جب ایک دشمن کے نرغے میں آجاتا تو دوسرا اسے چھڑانے کیلئے مدد کو آتا لیکن دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہے یہانتک کہ حضرت حر شہید ہوئے اور زہیر بن قین واپس لوٹ آئے ۔ اصحاب امام حسین ؑ اسکے جنازے کو لائے تو امام حسین ؑ انکی میت کے سرہانے بیٹھ گئے اور اسکے چہرے سے خون کو صاف کرتے ہوئے فرما رہے تھے :حر! تو تو اسی طرح آزاد ہو جیسے تمہاری ماں نے تمارا نام حر رکھا تھا بلکہ تم دنیا اور آخرت میں آزاد ہو۔

امام حسین ؑ نے رومال سے اس کے سر کو باند دیا۔

بھائی اور اولاد

بعض جدید منابع میں مذکور ہے کہ حر کے بیٹے ،بھائی اور غلام بھی امام حسین سے ملحق ہوئے اور وہ بھی واقعۂ کربلا میں شہید ہوئے [25]۔لیکن قدیمی منابع میں اسکی جانب کوئی اشارہ موجود نہیں ہے لہذا یہ قابل اعتبار نہیں ھے ۔

نسل حر

حر کی نسل کے متعلق اشارہ موجود ہے ۔طول تاریخ میں قزوین کا مستوفی خاندان[26] حمد اللہ مستوفی اس خاندان کا معروف تاریخ نگار ہے ۔[27][28]اور دوسرا خاندان آل حر کے نام سے لبنان میں جبل عامل میں پایا جاتا ہے جن میں سے مشہور ترین وسائل الشیعہ کے مصنف شیخ حر عاملی ہیں ۔ [29]

مقبرہ

تفصیلی مضمون:مقبرۂ حر

سید محسن امین عاملی[30] کے بقول شہدائے کربلا کے دفن کے موقع پر بنی اسد کے افراد اور حر کے قبیلے کے لوگ حضرت حر کے جسد کو باقی شہدا سے دور لے گئے اس جگہ پرانے زمانے میں نواویس[31] کہا جاتا تھااور انہیں وہیں دفن کر دیا گیا۔ پس اس نقل کے مطابق حضرت حر حضرت امام حسین علی السلام سے ایک میل کے فاصلے پر دفن ہیں۔ان کا مقبرہ اس وقت شہر کربلا کے مغرب میں تقریبا 7کلومیٹر کے فاصلے ہر واقع ہے۔

زیارت الشہدا میں حضرت حر کو ان الفاظ سے یاد کیا گیا ہے :اَلسَّلامُ عَلی الحُرِّ بْنِ الرِّیاحِی[32]

حوالہ جات

  1. ابن‌كلبی، ج۱، ص۲۱۳، ۲۱۶؛ دواداری، ج۴، ص۸۷، ۸۹ نے اسکا نام جَریر بن یزید، یافعی، ج۱، ص۱۰۸ نے حارث‌ بن یزید اور ابن‌عماد، ج۱، ص۶۷.
  2. رجوع کریں: بلاذری، ج۲، ص۴۷۲، ۴۷۶، ۴۸۹؛ دینوری، ص۲۴۹؛ طبری، ج۵، ص۴۲۲
  3. رجوع کریں:سماوی، ص۲۰۳.
  4. رجوع کریں: طبری، ج۵، ص۳۹۲، ۴۲۷؛ ابن‌كثیر، ج۸، ص۱۹۵.
  5. رجوع کریں:ابن جوزی، ج۵، ص۳۳۵؛ ابن‌وردی، ج۱،(ص).۲۳۱
  6. طبری، ج۵، ص۴۲۲.
  7. رجوع کریں: بلاذری، ج۲، ص۴۷۳؛ دینوری، ص۲۵۲؛ طبری، ج۵، ص۴۰۲ـ۴۰۳.
  8. ج ۴، ص۷۰۴
  9. مثیرالاحزان، ص۴۴
  10. نفس المہموم، ص۲۳۱
  11. بلاذری، ج۲، ص۴۷۲؛ طبری، ج۵، ص۴۰۰؛ مفید، ج۲، ص۶۹، ۷۸؛ اخطب خوارزم، ج۱، ص۳۲۷، ۳۳۰.
  12. رجوع کریں: بلاذری، ج۲، ص۴۷۳؛ دینوری، ص۲۴۹ـ۲۵۰؛ مفید، ج۲، ص۸۰؛ اخطب خوارزم، ج۱، ص۳۳۲.
  13. بلاذری، ج۲، ص۴۷۲ـ۴۷۳؛ دینوری، ص۲۴۹ـ۲۵۰؛ طبری، ج۵، ص۴۰۲ـ۴۰۳؛ مفید، ج۲، ص۷۸ـ۸۰.
  14. رجوع کریں: بلاذری، ج۲، ص۴۷۳ـ۴۷۴؛ طبری، ج۵، ص۴۰۳ـ۴۰۶؛ اخطب خوارزم، ج۱، ص۳۳۱ـ۳۳۳
  15. قیس دینوری، ص:۲۵۳ اول محرّم
  16. دینوری، ص۲۵۱؛ طبری، ج۵، ص۴۰۸ـ ۴۰۹؛ مفید، ج۲، ص۸۱ـ۸۴؛ قس اخطب خوارزم، ج۱، ص۳۳۴.
  17. دینوری، ص۲۵۱ـ۲۵۲؛ طبری، ایضا؛ مفید، ج۲، ص۸۴؛ اخطب خوارزم، ایضا.
  18. بلاذری، ج۲، ص۴۷۵ـ۴۷۶، ۴۷۹؛ طبری، ج۵، ص۳۹۲، ۴۲۲، ۴۲۷ـ۴۲۸؛ مفید، ج۲، ص۱۰۰ـ۱۰۱؛ اخطب خوارزم، ج۲، ص۱۲ـ۱۳
  19. بلاذری، ج۲، ص۴۷۵ـ۴۷۶، ۴۷۹؛ طبری، ج۵، ص۳۹۲، ۴۲۲، ۴۲۷ـ۴۲۸؛ مفید، ج۲، ص۱۰۰ـ۱۰۱؛ اخطب خوارزم، ج۲، ص۱۲ـ۱۳، قس ص۱۴،آخری جملے کو جنگ کے بعد سمجھتا ہے
  20. ابن بابویہ، ص۲۱۸؛ ابن نما، ص۵۹؛ حائری خراسانی، ص۹۶.
  21. بیضون، ج۱، ص۶۷۸ـ ۶۷۹،اس راستے کے انتخاب میں پرورش کو مؤثرتتین عامل سمجھتا ہے .
  22. بلاذری، ایضا؛ مفید، ج۲، ص۹۹؛ اخطب خوارزم، ج۲، ص۱۲.
  23. ابن اعثم کوفی، ج۵، ص۱۰۱؛ اخطب خوارزم، ج۲، ص۱۳.
  24. بلاذری، ج۲، ص۴۷۶، ۴۸۹، ۴۹۴، ۵۱۷؛ طبری، ج۵، ص۴۲۸ـ۴۲۹، ۴۳۴ـ۴۳۵، ۴۳۷، ۴۴۰ـ ۴۴۱؛ مفید، ج۲، ص۱۰۲ـ۱۰۴.
  25. اخطب خوارزم، ج۲، ص۱۳؛ کاشفی، ص۲۸۱ـ۲۸۲؛ حائری خراسانی، ص۱۲۰ـ ۱۲۷؛ قس شمس الدین، ص۸۴ـ۸۵
  26. حمدالله مستوفی، تاریخ گزیده، ص۸۱۱، به نقل از دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ص۳۱۴-۳۱۵
  27. تاریخ‌گزیده، متن، ص:۸۱۲
  28. تاریخ‌گزیده، متن، ص:۷۹۴
  29. احمد حسینی، مقدمہ بر امل الآمل حر عاملی، ج۱، ص۸-۱۰، منقول از دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ص۳۱۴-۳۱۵
  30. ج ۱، ص۶۱۳
  31. ابن کلبی، جَمْہرة النسب، ج۱، ص۲۱۶.
  32. اقبال ج۳، ص۷۹. و بحارالانوار ج۴۵، ص۷۱.

مآخذ

  • ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، چاپ محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸.
  • ابن کلبی، جَمْہرة النسب، ج۱، چاپ ناجی حسن، بیروت ۱۴۰۷/۱۹۸۶.
  • ابن نما، مُثیرُالاحزان، قم ۱۴۰۶.
  • ابن وردی، تاریخ ابن الوردی، نجف ۱۳۸۹/۱۹۶۹.
  • بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، چاپ محمود فردوس العظم، دمشق ۱۹۹۶ـ۲۰۰۰.
  • بیضون لبیب، موسوعہ کربلاء، بیروت ۱۴۲۷/۲۰۰۶.
  • حائری خراسانی ہادی، القول السدید بشأن الحرّ الشہید، چاپ محمدتقی حسینی جلالی، نجف ۱۳۹۴/۱۹۷۴.
  • حسینی، احمد، مقدمہ بر امل الآمل حر عاملی، بغداد، ۱۳۸۵ق.
  • خوارزم موفق بن احمد اخطب، مقتل الحسین علیه‌السلام للخوارزمی، چاپ محمد سماوی، (قم) ۱۳۸۱ش؛
  • دواداری، ابوبکربن عبداللّہ، کنزالدرر و جامع الغرر، ج۴، چاپ گونہیل گراف و اریکاگلاسن، بیروت ۱۴۱۵/۱۹۹۴.
  • دائرة المعارف بزرگ اسلامی، زیر نظر کاظم موسوی بجنوردی، تہران، چاپ اول، ۱۳۸۹،
  • دینوری احمدبن داوود، الاخبار الطِّوال، چاپ عبدالمنعم عامر، مصر (۱۳۷۹/ ۱۹۵۹)، چاپ افست بغداد (بی‌تا.)
  • سماوی محمد، اِبصارالعین فی انصارالحسین علیہ السلام، چاپ محمدجعفر طبسی، (قم) ۱۳۷۷ش.
  • طبری، تاریخ، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،‌دار التراث، ط الثانیہ، ۳۸۷
  • شمس الدین محمدمہدی، انصار الحسین: دراسۃ عن شہداء ثورۃالحسین، الرجال و الدلالات، (بیروت) ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
  • محمدبن محمد مفید، الارشاد فی معرفہ حجج اللّہ علی العباد، قم ۱۴۱۳.
  • مستوفی، حمدالله، تاریخ برگزیده، تحقیق عبد الحسین نوائی، تہران، امیر کبیر، چ سوم، ۱۳۶۴ش.
  • یافعی، عبداللّه بن اسعد، مرآةالجنان و عبرةالیقظان، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۷.

بیرونی روابط