ہشام بن سالم جوالیقی

ویکی شیعہ سے
(ہشام بن سالم جوالقی سے رجوع مکرر)
ہشام بن سالم
کوائف
مکمل نامہشام بن سالم جوالیقی جعفی
لقب/کنیتعلاف
نسبابو محمد
علمی معلومات
اساتذہابو بصیر • ابو حمزہ ثمالی • ابو خالد کابلی • ابن ابی یعفور • ابان بن تغلب • ابان بن عثمان • زرارہ و ...
شاگردابن ابی عمیرابن محبوبابن مسکانبزنطی • حماد بن عثمان • صفوان بن یحیی و ...
تالیفاتحج، تفسیر اور معراج کے موضوع پر
خدمات


ہشام بن سالم جوالیقی جعفی، امام جعفر صادقؑ اور امام موسی کاظمؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ علم کلام میں ان کی مہارت فقہ سے زیادہ تھی۔ امام صادقؑ بعض کلامی مسائل جیسے توحید میں ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتے تھے۔ انہوں نے ان دونوں اماموں سے روایات بھی نقل کی ہیں۔ علماء و ماہرین علم رجال انہیں ثقہ تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا نام شیعہ حدیثی کتب میں 663 روایات کے سلسلہ سند میں ذکر ہوا ہے۔ امام صادقؑ کی شہادت کے بعد ہشام نے امام کاظمؑ کی امامت کی ترویج کے سلسلہ میں اپنا کردار ادا کیا۔ وہ صاحب تالیف بھی ہیں ان کی مشہور ترین کتاب معراج کے بارے میں ہے۔ اہل سنت نے مسئلہ توحید کے سلسلہ میں بعض مخصوص نظریات کی نسبت ان کی طرف دی ہے۔

تعارف

ہشام بن سالم کا تعلق اصالتا ریاست خراسان کے شہر بلخ کے نواحی علاقہ جوزجان سے تھا۔ بعض کتب نے ان کا شمار اسراء میں کیا ہے لیکن اس بات کے مد نظر کہ جوزجان کا علاقہ سن 33 ہجری میں فتح ہوا تھا،[1] ان کے جد یا والد کا تعلق اسیروں میں سے ہونا چاہئے۔ ہشام سن 183 ہجری تک زندہ تھے۔[2] وہ مدینہ میں بشر بن مروان کے خادم تھے۔[3] ان کی کنیت ابو محمد ہے[4] اور انہیں غلام جعفی[5] جوالیقی اور علاف بھی کہا جاتا تھا۔[6] وہ امام صادق و امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے تھے۔[7] علم کلام کے مباحث پر تسلط رکھتے تھے اور ان کا نام راویان حدیث میں بھی شمار ہوا ہے۔

مقام علمی

علم کلام کے مباحث پر تسلط

فتحیہ سے امام کاظمؑ کی امامت کا دفاع

روایت کے مطابق جس وقت امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے بعد عبد اللہ افتح نے امامت کا دعوی کیا۔ ہشام بن سالم اور مومن الطاق نے اس سے زکات کے بارے میں سوال کیا اور اس کے جواب سے شک و تردید کا شکار ہو گئے۔ امام موسی کاظمؑ سے ملاقات کے بعد ہشام کا شک دور ہو گیا اور انہوں نے امام صادق کے خاص اصحاب کے درمیان آپ کی امامت کی تبلیغ شروع کر دی۔ ان کے ایسا کرنے سے لوگوں نے عبد اللہ سے دوری اختیار کر لی اور عبد اللہ نے بعض لوگوں کو مقرر کیا کہ وہ انہیں ماریں۔[8]

دوسرے فرقوں کے ساتھ مناظرہ

ایک شامی مرد اور امام صادقؑ کے درمیان مناظرہ ہونے لگا تو امام ہر بحث کے سلسلہ میں اپنے اصحاب میں سے کسی کی طرف رجوع کرنے کو کہا اور توحید کی بحث میں ہشام بن سالم کا نام لیا۔[9] ہشام نے بعض مناظرات جو انہوں نے بشیریہ فرقہ کے رہنما محمد بن بشیر اور دوسروں کے ساتھ انجام دیئے ہیں، ذکر ہوئے ہیں۔[10] وہ امامت[11] اور فقہ کے موضوع پر خاص مہارت رکھتے تھے۔

امام صادق و امام کاظمؑ سے نقل روایت

ہشام نے امام جعفر صادقؑ[12] اور امام موسی کاظمؑ[13] سے روایات نقل کی ہیں اور ان کا نام شیعہ حدیثی کتب میں 663 روایات کے سلسلہ سند میں ذکر ہوا ہے۔[14] انہوں نے ابو بصیر، ابو حمزہ ثمالی، ابو خالد کابلی، ابن ابی یعفور، ابان بن تغلب، ابان بن عثمان اور زرارہ[15] سے روایات نقل کی ہیں۔ انہوں نے سلیمان بن خالد سے 99 روایت نقل کی ہے[16] اور ابن ابی عمیر[17]، ابن محبوب، ابن مسکان، بزنطی، حماد بن عثمان و صفوان بن یحیی نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔[18] نجاشی نے ان کے لئے ثقہ ثقہ کی تعبیر ذکر کی ہے۔[19] آیت اللہ خوئی نے ان روایات کو جن میں ان مذمت ہوئی ہے، سند کے اعتبار سے ضعیف کہا ہے۔[20]

بحث انگیز نظریات پیش کرنا

بعض اہل سنت مصنفین نے ان کی طرف بغیر کسی معتبر سند و منبع کے خاص نظریات کی نسبت دی ہے۔ ان سے منسوب بعض نظریات یہاں ذیل میں ذکر کئے جا رہے ہیں:

خدا کے لئے صورت قرار دینا: سمعانی و ابو الحسن اشعری نے ہشامیہ نامی فرقہ کی نسبت ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کی طرف دی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہشام بن سالم خداوند عالم کو انسان کی صورت میں تصور کرتے تھے۔ البتہ نور کی شکل میں جو چمک رہا ہو اور جس کے حواس پنجگانہ ہوں۔[21]

استطاعت: ابو الحسن اشعری، ہشام بن سالم کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ وہ استطاعت کو عمل سے پہلے اور اسے انسانی جسم اور اس کا جزء خیال کرتے تھے۔[22]

تدوین کتب

ہشام بن سالم کے ایک اصل موجود تھی جس کے بارے میں بعض گروہ نے نقل کیا ہے۔ ابن ابی عمیر نے اس کے سلسلہ میں خبر دی ہے۔[23] اسی طرح سے حج، تفسیر اور معراج کے موضوع پر ان کی تالیفات ذکر ہوئی ہیں۔[24] نقل ہوا ہے کہ ان کی مشہور ترین کتاب معراج کے بارے میں ہے۔[25]

حوالہ جات

  1. ابن جوزی، المنتظم، ج۵، ص ۱۹
  2. اعیان الشیعه، ج۱۰، ص۲۶۶
  3. نجاشی، رجال، ص۴۳۴؛ کشی، رجال، ص۲۸۱.
  4. طوسی، رجال، ص۳۱۸.
  5. طوسی، رجال، ص۳۱۸.
  6. کشی، رجال، ص۲۸۱.
  7. طوسی، رجال، ص۳۱۸ و ۳۴۵.
  8. کشی، رجال، ص۲۸۲-۲۸۳.
  9. کشی، رجال، ص۲۷۶.
  10. کشی، رجال، ص۴۷۸.
  11. کشی، رجال، ص۲۸۱.
  12. طوسی، رجال، ص۳۴۵؛ کشی، ص۱۱۹.
  13. نجاشی، رجال، ص۴۳۴.
  14. خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱۹، ص۳۰۱.
  15. کشی، رجال، ص۱۳۳.
  16. خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱۹، ص۳۰۲.
  17. کشی، رجال، ص۱۱۹، ۱۳۳
  18. خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱۹، ص۳۰۳.
  19. نجاشی، رجال، ص۴۳۴.
  20. معجم رجال الحدیث، ج ۱۹، ص۳۰۱.
  21. سمعانی، الانساب، ج۱۳، ص۴۱۴؛ اشعری، مقالات الإسلامیین، ج۱، ص۳۴.
  22. اشعری، مقالات الإسلامیین، ج۱، ص۴۳.
  23. طوسی، الفہرست، ص۴۹۳.
  24. نجاشی، رجال، ص۴۳۴.
  25. شفیعی، مکتب حدیثی شیعہ، ص۱۸۰.

مآخذ

  • اشعری، علی بن حسین، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین۔
  • خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، مرکز نشر آثار شیعہ، قم، ۱۴۱۰ق/۱۳۶۹ش۔
  • سمعانی، عبد الکریم بن محمد، الأنساب، تحقیق عبد الرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدر آباد، مجلس دائرة المعارف العثمانیة، ط الأولی، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۲ع۔
  • شفیعی، سعید، مکتب حدیثی شیعہ در کوفہ (تا پایان قرن سوّم هجری)، سازمان چاپ و نشر دار الحدیث، قم، ۱۳۸۹ش۔
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قیومی اصفہانی، جواد، مؤسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجامعہ المدرسین، قم، ۱۳۷۳ش۔
  • طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعہ و أصولہم و أسماء المصنّفین و أصحاب الأصول، مصحح: طباطبائی، عبد العزیز، مکتبہ المحقق الطباطبائی، قم، ۱۴۲۰ق۔
  • کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی- إختیار معرفہ الرجال، مصحح: طوسی، محمد بن الحسن / مصطفوی، حسن، مؤسسہ نشر دانشگاه مشہد، مشہد، ۱۴۰۹ق۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، مؤسسہ النشر الاسلامی التابعه لجامعہ المدرسین، قم، ۱۳۶۵ش۔