ہاشم مرقال

ویکی شیعہ سے
(ہاشم بن عتبہ سے رجوع مکرر)
ہاشم مرقال
کوائف
مکمل نامہاشم بن عتبی بن ابی وقاص
لقبہاشم مرقال
محل زندگیمدینہ، کوفہ
اقاربعتبہ و سعد بن ابی وقاص
وفات37ھ جنگ صفین
دینی معلومات
اسلام لانافتح مکہ
جنگوں میں شرکتیرموک، فتح عراق، جمل، صفین
وجہ شہرتپیغمبر اکرم (ص) و حضرت علی (ع) کے صحابی،
دیگر فعالیتیںجنگ صفین میں حضرت علی کے پرچم دار


ہاشِم بن عُتْبہ بن اَبی‌ وَقَّاص، لقب ہاشم مِرقال (شہادت ۳۷ ق، جنگ صفین)، پیغمبر اکرم (ص) اور امام علی (ع) کے اصحاب میں سے ہیں۔ فتح مکہ کے روز اسلام قبول کیا اور جنگ صفین میں شہید ہوئے۔

خلیفہ دوم کے دور میں فتح عراق میں ہاشم مرقال کا کردار رہا ہے اور بعض شہروں کی فتوحات ان کے ہاتھوں انجام پائی ہیں اور اہل کوفہ کے حضرت علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں وہ تاثیر گزار تھے۔

نسب

ہاشم بن عُتْبَہ بن مالک بن وُہیْب (اہیب) بن عبد مناف بن زہره، قبیلہ قریش کے طایفہ بنی زہرہ تعلق رکھتے تھے۔[1] ان کی کنیت ہاشم، اباعمرو اور لقب مِرقال تھا۔ مورخین نے انہیں نیکی کے ساتھ یاد کیا ہے اور انہیں شجاع، فاضل اور سخی انسان ذکر کیا ہے۔ ہاشم بن عتبہ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔[2]

ہاشم کا باپ عتبہ بن مالک،[3] عتبہ بن ابی وقاص کے نام سے مشہور، سعد بن ابی وقاص کا بھائی[4] اور پیغمبر اکرم (ص) کے سر سخت دشمنوں میں سے تھا۔ نقل ہوا ہے کہ اس نے جنگ احد میں آنحضرت (ص) کے دندان مبارک کو شہید کیا اور فتح مکہ سے قبل کفر کی حالت میں اس دنیا سے گیا۔[5] ہاشم کا بھائی نافع بھی جنگ احد میں اپنے باپ کے ساتھ تھا لیکن فتح مکہ میں وہ مسلمان ہو گیا۔[6]

خلفاء کا زمانہ

ہاشم بن عتبہ جنگ یرموک میں شریک تھے اور اس جنگ میں انہوں نے اپنی ایک آنکھ سے ہاتھ دھویا۔[7] خلیفہ دوم نے انہیں یرموک سے قادسیہ بھیجا۔ جنگ قادسیہ میں وہ اشعث بن قیس اور اشتر نخعی کے ہمراہ سعد بن ابی وقاص کے لشکر سے ملحق ہوئے، سعد نے انہیں لشکر کے میسرہ کی کمان سونپی۔[8] عراق کے بعض شہر جیسے جلولاء سن ۱۷ یا ۱۹ ق میں ان کے ہاتھوں فتح ہوا۔[9]

عثمان بن عفان کی خلافت کے دور میں سعید بن عاص ان کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا۔ ہاشم مرقال نے ماہ مبارک رمضان میں آخر ماہ چاند کا مشاہدہ کیا اور اپنا روزہ افطار کر لیا، جب خبر سعید کو پہچی تو اس نے ہاشم سے اس کی علت دریافت کی، ہاشم نے ہلال ماہ کے رویت کی بات کہی تو سعید نے کہا: کیا تمام لوگوں میں سے صرف ایک تم نے ہی اپنی ایک آنکھ سے اسے دیکھا ہے؟ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ ان پر حد جاری کریں۔ نقل ہوا ہے کہ عثمان بن عفان کی موت کے بعد حضرت علی (ع) نے کوفہ کی حکومت کو ہاشم مرقال کے حوالہ کیا اور انہوں نے سعید بن عاص سے قصاص لیا۔[10]

حضرت علی (ع) کی حکومت

ہاشم بن عتبہ لوگوں سے حضرت علی (ع) کے لئے بیعت لینے کی کوشش کرتے تھے۔ جس وقت عثمان بن عفان کے قتل اور لوگوں کے حضرت علی (ع) سے بیعت لینے کی خبر کوفہ والوں تک پہچی، اس وقت ابو موسی اشعری کوفہ کے حاکم تھا اور حضرت سے بیعت کرنے میں ٹال مٹول کر رہا تھا۔ ہاشم مرقال نے ان سے چاہا کہ وہ حضرت کی بیعت کریں لیکن ابو موسی نے کہا: جلدی نہ کریں۔ ہاشم نے اپنے بائیں ہاتھ کو حضرت کے داہنے ہاتھ پر رکھ کر ان کی بیعت کی[11] اور ابو موسی سے کہا: کیا ڈرتے ہو کہ اگر حضرت علی سے بیعت کر لی اور عثمان زندہ ہو گئے تو وہ تمہاری سرزنش کریں گے[12] اور پھر یہ اشعار پڑھے:

[13]
أبایع غیر مکترث علیاو لا أخشی أمیرا أشعریا
أبایعه و أعلم أن سأرضیبذاک الله حقّا و النّبیا

ان کا ایسا کرنا سبب بنا کہ ابو موسی اشعری اور دوسروں نے حضرت علی (ع) کی بیعت کر لی۔[14]

جنگ جمل

ہاشم بن عتبہ جنگ جمل میں شریک تھے۔[15] جس وقت اہل بصرہ کی طلحہ و زبیر کے ساتھ بیعت کی خبر حضرت علی (ع) تک پہچی، آپ نے ہاشم مرقال کو ربذہ یا ذی قار سے خط دیکر انہیں ابو موسی اشعری کے پاس کوفہ روانہ کیا اور ان سے چاہا کہ وہ لوگوں میں جوش پیدا کریں۔ ہاشم نے جب مشاہدہ کیا کہ ابو موسی اشعری لوگوں کو جنگ کی ترغیب میں بہانے سے کام لے رہا ہے تو وہ امام کے پاس لوٹ آئے۔ حضرت نے ابن عباس اور محمد بن ابی بکر کو کوفہ بھیجا تا کہ ابو موسی کو کوفہ کی امارت سے عزل کر دیں۔[16]

جنگ صفین

جنگ صفین سے پہلے حضرت علی (ع) نے اپنے بعض اصحاب اور ہاشم بن عتبہ سے معاویہ بن ابو سفیان سے جنگ کے سلسلہ میں مشورہ کیا۔ اس نشست میں ہاشم نے بنی امیہ کے اس جنگ کا مقصد دنیا پرستی ذکر کیا اور قتل عثمان کو عوام کو فریب دینے کا ذریعہ قرار دیا۔[17]

ہاشم بن عتبہ جنگ صفین میں حضرت علی (ع) کے سپہ سالاروں میں سے تھے اور اس جنگ میں حضرت نے ان کے ہاتھوں میں ایک بڑا علم دیا تھا[18] اور وہ قیس بن سعد بن عبادہ کے ساتھ بصرہ کی پیادہ سپاہ کے سردار تھے۔[19] اس جنگ میں وہ حارث بن منذر تنوخہ کے ہاتھ شہید ہوئے۔[20] ان کی شہادت کے بعد حضرت نے پرچم ان کے بیٹے عتبہ بن ہاشم کے حوالے کیا۔[21] ہاشم جبکہ ان کا پیر کٹ چکا تھا جو بھی ان نزدیک ہوتا اسے قتل کر دیتے اور کہتے تھے:

  • الفحل یحمی شوله معقولا[22]

نقل ہوا ہے کہ وہ جنگ صفین میں یہ رجز پڑھ رہے تھے:

أعور یبغی أهله محلاقد عالج الحیاة حتی ملا
لا بدّ أن یفل أو یفلا[23]

حضرت علی (ع) کے کلام میں

جس وقت محمد بن ابی بکر، مصر کے گورنر کی شہادت کی خبر حضرت تک پہچی، آپ نے قسم کھائی کہ میں مصر کی حکومت کے لئے ہاشم مرقال کو بھیجنا چاہتا تھا، اگر ہاشم وہاں چلے گئے ہوتے تو وہ عمرو عاص کو مصر والوں پر مسلط نہیں ہونے دیتے۔[24]

ہاشم مرقال کی شہادت کے بعد حضرت ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سرہانے آئے اور ان سب کے حق میں دعا کی اور فرمایا:

[25]
جزی الله خیراً عصبة أسلمیةصباح(حسان) الوجوه صُرِّعوا حول هاشم

ترجمہ: اللہ گروہ اسلمیاں کو جزائے خیر دے کہ وہ سب اپنے نورانی چہروں کے ساتھ ہاشم کے اطراف میں خاک پر پڑے ہوئے ہیں۔

ابو طفیل نے ان کے سلسلہ میں کہا ہے:

[26]
یا هاشم الخیر جزیت الجنّهقاتلت فی الله عدوّ السّنّة

کربلا میں

قدیم تاریخی منابع کے مطابق، ہاشم مرقال جنگ صفین میں شہید ہوئے ہیں۔[27] لیکن بعض متاخر منابع نے ہاشم بن عتبہ نامی شخص کا ذکر واقعہ کربلا میں کیا ہے کہ جو روز عاشورا شہید ہوئے ہیں۔ شہید مطہری کربلا میں ان کی شہادت کو واقعہ کربلا کے لفظی تحریفات کا سلسلہ خیال کرتے ہیں۔[28] بعض دوسرے افراد نے اس نام کی دو شخصیتوں کا ذکر کیا ہے کہ جن میں ایک صفین میں اور دوسرے کربلا میں شہید ہوئے ہیں۔

اولاد

نقل کے مطابق، ہاشم کے ایک بیٹے کا نام عبد اللہ تھا، جنہیں معاویہ کے حکم پر زیاد بن ابیہ نے زنجیروں میں باندھ کر شام بھیجا تھا[29] اور وہاں ان کی عمرو عاص کے ساتھ شدید بحث ہوئی۔[30]

حوالہ جات

  1. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۲، ص۶۰۶-۶۰۷
  2. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۴، ص۱۵۳۶
  3. ابن اثیر، اسد الغابه، ج۳، ص۴۶۷
  4. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۲، ص۶۰۹
  5. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۴، ۱۴۹۰؛ ابن حجر، الاصابه، ج۵، ص۱۹۷؛ ابن اثیر، اسد الغابه، ج۳، ص۴۶۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۳۱۹
  6. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۴، ۱۴۹۰
  7. دینوری، اخبار الطوال، ص۱۲۰
  8. دینوری، اخبار الطوال، ص۱۲۱
  9. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۴، ص۱۵۳۶
  10. بلاذری، انساب الاشراف، ج۱۰، ص۲۷
  11. ابن حجر، الاصابه، ج۶، ص۴۰۵
  12. ابن اعثم، الفتوح، ج۲، ص۴۳۹
  13. ابن حجر، الاصابه، ج۶، ص۴۰۵-۴۰۶
  14. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۲۱۳؛ ابن اعثم، الفتوح، ج۲، ص۴۳۹
  15. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۴، ص۱۵۳۶
  16. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۲۱۳، ۲۳۵
  17. منقری، وقعة الصفین، ص۹۲
  18. دینوری، اخبار الطوال، ص۱۷۱
  19. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۰۳
  20. دینوری، اخبار الطوال، ص۱۸۳
  21. دینوری، اخبار الطوال، ص۱۸۴
  22. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۴، ص۱۵۴۷
  23. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۴، ص۱۵۴۷
  24. طبری، تاریخ، ج۵، ص۱۱۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۴۰۴
  25. مسعودی، مروج الذهب، ج۲، ص۳۸۳؛ ابن حجر، الاصابه، ج۴، ص۴۰۵
  26. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۴، ص۱۵۴۷
  27. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۴، ص۱۵۴۷
  28. مطهری، حماسه حسینی، ج۱ص۷۰
  29. سیره معصومان، ج‌۵، ص۴۱
  30. زندگانی حسن بن علی (ع)، ج‌۲، ص۴۷۲

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، أسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ ع
  • ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق: علی شیری، دار الأضواء، بیروت، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱ ع
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ ع
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبد الله، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، تحقیق: علی محمد البجاوی، دار الجیل، بیروت، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ ع
  • امین، سید محسن، سیره معصومان، مترجم علی حجتی کرمانی، سروش، تہران، ۱۳۷۶ ش، چاپ دوم
  • بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب ‌الأشراف، تحقیق: سہیل زکار و ریاض زرکلی، دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶ ع
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف (ج۲)، تحقیق: محمد باقر محمودی، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، بیروت، ۱۹۷۴م/۱۳۹۴ ق
  • دینوری، احمد بن داوود، الأخبار الطوال، تحقیق: عبد المنعم عامر مراجعه جمال الدین شیال، منشورات الرضی، قم، ۱۳۶۸ ش
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد أبو الفضل ابراهیم، دار التراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ ع
  • قرشی، باقر شریف، زندگانی حسن بن علی علیہما السلام/ترجمہ مترجم فخر الدین حجازی، بنیاد بعثت، تہران، ۱۳۵۲ ش
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج‌ الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، قم، دارالہجرة، چ دوم، ۱۴۰۹ ق
  • مطہری، مرتضی، حماسہ حسینی، انتشارات صدرا، ۱۳۷۹ ش
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعہ صفین، تحقیق: عبد السلام محمد ہارون، القاہرة، المؤسسہ العربیہ الحدیثہ، الطبعة الثانیہ، ۱۳۸۲ق، افست قم، منشورات مکتبہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ ق