بقعہ مبارکہ

ویکی شیعہ سے
(وادی طوی سے رجوع مکرر)

بقعہ مبارکہ یا وادی مقدس طوی یا وادی ایمن، وہ مقام ہے جہاں خداوند عالم نے حضرت موسیؑ سے کلام کیا۔ بقعہ مبارکہ، مبارک خطہ زمین کے معنی میں ہے جس کی طرف قرآن مجید میں اشارہ ہوا ہے۔ اکثر مفسرین اس مقام کے مبارک ہونے کا سبب جناب موسی سے پروردگار عالم کے تکلم کو قرار دیتے ہیں۔ اس مقام کے مقدس ہونے کی وجہ سے خداوند عالم نے حضرت موسی کو حکم دیا کہ وہ اپنی نعلین اتار لیں۔

اجمالی تعارف

بقعہ مبارکہ، با برکت قطعہ زمین کے معنی میں ایک قرآنی اصطلاح ہے جس کی طرف قرآنی مجید میں فقط ایک بار اشارہ کیا گیا ہے۔[1]

جب حضرت موسیؑ رات کے وقت مدین سے مصر کی طرف محو سفر تھے تو طور سینا کی طرف سے بلند ہونے والی ایک آگ نے ان کی توجہ جلب کی اور انہوں نے اس سمت میں حرکت کی۔[2]

سورہ قصص کی ۳۰ ویں آیت کے مطابق، جب وہ اس (آتش) کے قریب پہچے تو وادی کی دائیں طرف سے (یا وادی ایمن کی طرف سے) اس مقدس مقام درخت سے صدا بلند ہوئی اے موسی، میں عالمین کا پروردگار ہوں، یہی وہ موقع تھا جب خداوند عالم نے حضرت موسی کو رسالت الہی کے لئے منتخب کیا اور انہیں معجزہ عصا و ید بیضا عطا کیا۔[3]

بعض شیعہ متون روائی میں پیغمبر اکرم (ص)[4] و ائمہ معصومین[5] (ع) کے محل دفن کو بقعہ مبارکہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے کربلا[6] کو بقعہ مبارکہ کہا گیا ہے۔

محل وقوع یا موقعیت

حضرت موسی سے خداوند عالم کا تکلم کرنا، قرآن کریم میں کئی دیگر مقامات پر ذکر ہوا ہے۔ سورہ طہ و سورہ نازعات میں جناب موسی نے جس مقام پر ندائے الہی کو سنا، اسے وادی مقدس طوی کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔[7] وہ جگہ جسے مقدس ہونے کی وجہ سے خداوند عالم نے فرمایا: اپنی نعلین اتار دو۔[8] اسی سبب سے مفسرین نے بقعہ مبارکہ و وادی مقدس طوی جو وہی وادی ایمن ہے، کو ایک قرار دیا ہے۔[9] یہ مقام صحرائے سینا کے جنوب میں واقع ہے اور مدین سے مصر کی طرف جاتے ہوئے کوہ طور کے داہنی طرف میں پڑتا ہے۔[10]

البتہ بعض روایات میں بقعہ مبارکہ سے سر زمین کربلا کو تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ روایات جو کامل الزیارات[11] و تہذیب الاحکام[12] میں نقل ہوئی ہیں، ان میں آیت میں شاطی الوادی الایمن سے مراد فرات اور بقعہ مبارکہ سے مراد کربلا کو ذکر کیا گیا ہے۔ فیض کاشانی نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔[13] البرہان فی تفسیر القرآن[14] و بحار الانوار[15] میں بھی ذکر ہوئی ہے۔ بعض محققین نے اس نظریہ کو صراحت قرآن کے خلاف قرار دیا ہے۔[16] ائمہ معصومین ؑ کے بعض زیارت ناموں میں ان کے مرقد کو بقعہ مبارکہ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔[17]

بقعہ کا مبارک ہونا

اکثر شیعہ سنی مفسرین بقعہ کے مبارک ہونے کا سبب خداوند عالم سے حضرت موسی کے تکلم اور ان کے رسالت کے لئے انتخاب کو قرار دیتے ہیں۔[18] علامہ طباطبائی کا ماننا ہے کہ اس بقعہ کے مبارک ہونے کا سبب حضرت موسی سے پروردگار عالم کا تکلم کرنا ہے۔ اس چیز کی وجہ سے اس مقام نے شرافت کسب کی ہے۔[19] البتہ بعض نے اس مقام پر درختوں اور پھلوں کی کثرت کو اس جگہ کے مبارک ہونے کا سبب قرار دیا ہے۔[20] شیخ طبرسی کہتے ہیں: یہ مقام وہی بقعہ ہے جہاں خدا نے موسی کو حکم دیا کہ وہ اپنی نعلین اتار کر وارد ہوں۔[21] علامہ طباطبائی کے بقول اس بقعہ کی شرافت و قداست کا سبب خداوند عالم کا حضرت موسی کو حکم ہے کہ وہ نعلین اتار کر اس میں داخل ہوں۔[22] شیخ طوسی مولف التبیان فی تفسیر القرآن، امام علیؑ سے منقول روایت کی بنیاد پر خدا کے موسی کو حکم کی دلیل، اس بقعہ کے حضرت موسی سے برکت دریافت کرنے کو قرار دیتے ہیں۔[23] بہرحال نعلین اتارنے کو پیغام و رسالت الہی کے اخذ کے سلسلہ میں نہایت تواضع کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔[24]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. حیدری، «بقعہ مبارکہ»، ج۵، ص۶۱۲.
  2. نگاه کریں: مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۳۶۰ش، ج۱، ص۳۱۵.
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۶، ص۷۵ـ۷۷.
  4. ابن مشهدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۵۵.
  5. شهید اول، المزار، ۱۴۱۰ق، ص۳۴، ۶۵؛ ابن مشهدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۵۵۵.
  6. ابن قولویہ قمی، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۴۹؛ ابن مشهدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۱۱۵.
  7. سوره طہ، آیہ۱۱ـ۱۲، سوره نازعات، آیہ ۱۶.
  8. سوره طہ، آیہ۱۲.
  9. فیض کاشانی، الاصفی فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۹۰۲.
  10. حیدری، «بقعہ مبارکہ»، ج۵، ص۶۱۳.
  11. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۴۸ـ۴۹.
  12. شیخ طوسی، تهذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۳۸.
  13. فیض کاشانی، الاصفی فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۹۲۷.
  14. بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۲۶۵.
  15. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، ص۲۵.
  16. حیدری، «بقعہ مبارکہ»، ج۵، ص۶۱۴.
  17. حیدری، «بقعہ مبارکہ»، ج۵، ص۶۱۴.
  18. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۷، ص۳۹۲؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۳۹۲؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۲؛ ابن جوزی، زادالمسیر، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۳۸۳.
  19. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۲.
  20. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۷، ص۳۹۲.
  21. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۳۹۲.
  22. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۲.
  23. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۷، ص۱۶۴.
  24. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۱۶۸.

مآخذ

  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، زاد المسیر، بیروت، دار الکتب العربی، ۱۴۲۲ھ۔
  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد، تصحیح: عبد الحسین امینی، کامل الزیارات، نجف، دار المرتضویہ، ۱۳۵۶شمسی ہجری۔
  • ابن مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، تصحیح:‌ جواد قیومی اصفہانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۹ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ھ۔
  • حیدری، حسن، «بقعہ مبارکہ» در دائرة المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۲شمسی ہجری۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، المزار، تصحیح:‌ محمد باقر موحد ابطحی اصفہانی، قم، مدرسہ امام مہدی علیہ السلام، ۱۴۱۰ھ۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علیمہ قم، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۷۲شمسی ہجری۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌ تا.
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • فیض کاشانی، ملا محسن، الاصفی فی تفسیر القرآن، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۱۸ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، ۱۳۶۰شمسی ہجری۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴شمسی ہجری۔