خواجہ نصیر الدین طوسی

ویکی شیعہ سے
(نصیر الدین طوسی سے رجوع مکرر)
خواجہ نصیر الدین طوسی
خواجہ نصیر الدین طوسی
کوائف
مکمل ناممحمد بن محمد بن حسن طوسی
لقب/کنیتاستاد البشر، عقل حادی عشر
تاریخ ولادت11 جمادی الاول 597 ھ
آبائی شہرطوس
تاریخ وفات18 ذی الحجہ 672 ھ، کاظمین
علمی معلومات
تالیفاتاساس الاقتباس، تجرید الاعتقاد، شرح اشارات، قواعد العقائد، تحریر اصول اقلیدس، ...
خدمات
سماجیحکیم، متکلم اور ریاضی دان


خواجہ نصیر الدین طوسی (597-672 ھ)، ساتویں صدی ہجری کے شیعہ فلسفی اور متکلم تھے۔ انہوں نے اخلاق، منطق، فلسفہ، کلام، ریاضیات اور نجوم جیسے مختلف علوم میں قلم فرسائی کی ہے۔ اخلاق ناصری، اوصاف الاشراف، اساس الاقتباس، شرح الاشارات، تجرید الاعتقاد، جامع الحساب، زیج ایلخانی اور تذکرۃ فی علم الہیئۃ ان کے اہم ترین آثار شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ایران کے ایک شہر مراغہ میں ایک رصد خانہ اور 4 لاکھ سے زیادہ کتابوں پر مشتمل کتب خانہ کی بھی بنیاد رکھی۔

نصیر الدین طوسی کو فلسفہ کا احیا کنندہ اور شیعہ علم کلام میں فلسفی طریقہ کار کا مبتکر شمار کیا جاتا ہے۔ بعض بزرگ شیعہ علماء جو ان کے شاگرد رہ چکے ہیں ان میں علامہ حلی، ابن میثم بحرانی اور قطب الدین شیرازی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

سوانح حیات

محمد بن محمد بن حسن جو خواجہ نصیر الدین طوسی کے نام سے مشہور ہیں۔ 11 جمادی‌الاول سنہ 597ھ کو شہر طوس میں پیدا ہوئے اسی مناسبت سے آپ طوسی کے لقب سے مشہور ہیں۔[1] آپ نے قرآن، صرف، نحو اور آداب کی تعلیم بچپن میں حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے والد کی ہدایات پر ریاضیات کے مقدمات کمال الدین محمد سے حاصل کئے۔ اسی طرح فقہ اور حدیث کی تعلیم اپنے والد اور دادا سے حاصل کی جو خود بھی اپنے زمانے کے فقہاء میں سے تھے۔[2] آپ کے دیگر اساتید میں آپ کے ماموں نور الدین علی بن محمد شیعی بھی تھے، بعض مورخین کے مطابق منطق اور حکمت کی تعلیم آپ نے اپنے ماموں سے حاصل کی۔[3]

اپنے والد کی وفات کے بعد طوس سے نیشابور ہجرت کی جو اس وقت علماء اور طالب علموں کا مرکز مانا جاتا تھا۔[4] فلسفہ میں انہوں نے ابو علی سینا کی کتاب اشارات فرید الدین داماد اور طب میں کتاب قانون قطب‌ الدین مصری کے پاس پڑھی۔[5] اسی طرح آپ سراج‌ الدین قمری، ابو السعادات اصفہانی اور دوسرے علماء کے دروس میں شرکت کرتے تھے۔[حوالہ درکار] اسی طرح آپ نے نیشاپور میں فرید الدین عطار سے ملاقات کی۔[6] اس کے علاوہ آپ نے کمال الدین بن یونس موصلى کی شاگردی بھی اختیار کی جو اکثر علوم خاص کر ریاضى میں اپنی مثال آپ تھے۔ سالم بن بدران مازنى مصرى جو امامیہ فقہاء میں سے تھے، کے پاس آپ نے علم اصول میں ابن زہرہ کی کتاب الغنیۃ پڑھی۔[7]

اسماعیلی قلعے میں

مغلوں کے حملوں کے بعد ایران خاص کر خراسان میں پیدا ہونے والی افرا تفری میں خواجہ نصیر الدین طوسی کچھ مدت کے لئے مختلف شہروں میں سرگردان رہے یہاں تک کہ خراسان میں موجود اسماعیلی قلعوں کے فرمانروا ناصر الدین کی دعوت پر قہستان چلے گئے[8] اور وہاں پر ناصرالدین کی درخواست پر ابو علی مسکویہ رازی کی کتاب تہذیب الاخلاق و تطہیر الاعراق کا فارسی میں ترجمہ اور بعض مطالب کا اضافہ کیا اور اسے ناصر الدین کے نام پر اخلاق ناصری نام رکھا۔ اس کتاب کی تاریخ تصنیف 630 سے 632ھ ہے۔[9] اسی طرح آپ نے وہاں پر علم ہیئت میں بھی ایک کتاب تحریر کی جس کا نام ناصر الدین کے فرزند معین الدین کے نام پر الرسالۃ المعینیۃ نام رکھا۔[10] مغلوں کے حملوں میں صرف اسماعلی قلعوں نے مقاومت کی۔ حالانکہ خراسان اور نیشابور کے تقریبا تمام علاقے مغلوں کے قبضے میں آ گئے تھے مگر ان قلعوں نے سالہا سال مغلوں کے مقابلے میں مقاومت کی اور تسلیم نہیں ہوئے۔[11]

اسماعیلیوں کے رہنما علاء الدین محمد کو جب ناصرالدین کے یہاں خواجہ نصیر الدین کی موجودگی کی خبر ملی تو انہوں نے خواجہ کو اپنے پاس بلا لیا جس پر آپ ناصرالدین کے ساتھ قلعہ میمون دز علاء الدین کے پاس چلے گئے جہاں پر آپ کا زبردست استقبال کیا گیا۔ خواجہ نصیر الدین طوسی مغلوں کے دوسرے حملے میں علاء الدین محمد کے فرزند رکن الدین کے تسلیم ہونے تک قلعہ اَلَموت میں ان کے یہاں رہے۔[12]

ایران کے محکمہ ڈاک کا جاری کردہ ڈاک ٹکٹ

بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ خواجہ نصیر الدین کی اسماعیلی قلعوں میں حاضری اور وہاں مقیم رہنا ان کی اپنی مرضی سے نہیں تھا بلکہ آپ کو اس کام پر مجبور کیا گیا تھا۔[13] لیکن اس کے باوجود آق سرائی، مسامرۃ الاخبار اس بات کے معتقد ہیں کہ خواجہ طوسی اسماعیلیوں کے یہاں مکمل اختیار کے حامل تھے اور آپ کا مقام اس قدر ان کے یہاں بلند تھا کہ آپ کو خواجہ کائنات کا لقب دیا گیا تھا۔[14] جو لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ خواجہ اسماعیلیوں کے یہاں مجبورا قیام پذیر تھے اور ان کے قلعوں میں محبوس تھے، شرح اشارات کے آخر میں خواجہ نصیر کے شکوہ آمیز جملات کی طرف استناد کرتے ہیں جس میں آپ نے اپنی زندگی کی کیفیت پر شکوہ کیا ہے۔[15]

خواجہ اور ہلاکو خان

ہلاکو خان کی قیادت میں مغلوں کے دوسرے حملے اور اسماعیلیوں کے تسلیم ہونے کے بعد خواجہ نصیر الدین طوسی ہلاکو خان کے دربار میں پہنچ گئے۔[16] سید محسن امین کے مطابق خواجہ طوسی مجبور ہو کر ہلاکو خان کے ساتھ رہے لیکن ایک ایسے حالات میں جہاں نہ لوگوں کی طرف سے اور نہ حکومت کی طرف سے حملہ آوروں کے خلاف کوئی مقاومت دیکھنے میں آتی تھی، آپ نے اسلامی میراث جو نابودی کے دہانے پر تھی، کی حفاظت کی اور یہ آپ کی کوششوں کا ثمرہ تھا کہ کچھ مدت کے بعد مغولوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔[17] سنہ 655 ہجری کو ہلاکو خان کی طرف سے بغداد پر ہونے والے حملے میں خواجہ طوسی بھی ان کے ہمراہ تھے۔[18]

رصدخانہ اور کتب خانہ مراغہ کی تأسیس

ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کے فتح کے بعد خواجہ نصیر نے ہلاکو خان کو یہ کہہ کر ایک رصد خانہ بنانے کی تجویز دی کہ اس رصد خانے کے ذریعے میں ستاروں کی حرکت کی روشنی میں سلطان کو آئندہ رونما ہونے والے واقعات، سلطان کی عمر اور اولاد کے بارے میں باخبر کرونگا۔[19] ہلاکو خان نے اس تجویز کو قبول کیا یوں سنہ 657ھ میں اس رصد خانے کی تعمیر کا آغاز ہوا۔[20] سید محسن امین کے مطابق خواجہ نصیر نے رصدخانہ مراغہ کے ذریعے اس زمانے کے دانشمندوں کو ایک جگہ جمع کیا اور انہیں ہلاکو خان کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لیا اس کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں کتب کی جمع آوری اور ان کی حفاظت کی۔[21] رصدخانہ کی تعمیر آپ کی عمر کے آخری لمحات تک جاری رہی اور اس رصد خانے کے توسط سے حاصل ہونے والے زیج (جدول) کو زیج ایلخانی کے نام سے شایع کیا۔[22]

اسی طرح خواجہ نصیر الدین مذکورہ رصدخانہ کے ساتھ ایک بہت بڑی لائبریری کا قیام بھی عمل میں لائے اور ہلاکو خان کے حکم سے بہت ساری نفیس اور مفید کتابیں جو بغداد، دمشق، موصل اور خراسان‌ سے غارت‌ ہو چکی تھیں، اس لائبریری میں منتقل کیا۔ اس کے علاوہ خود خواجہ مختلف شہروں میں افراد کو بھیجتے تھے تاکہ جہاں کہیں کوئی علمی سرمایہ ملے اسے خریدا جائے۔ اسی طرح آپ خود بھی جہاں کہیں جاتے وہاں موجود نفیس اور مفید کتابوں کو خریدتے تھے۔[23] بعض مورخین‌ کے مطابق تقریبا 4 لاکھ کتابیں کتب خانہ مراغہ میں موجود تھیں۔[24] کتابخانہ مراغہ میں چینی، مغولی، سنسکریت، آشوری اور عربی زبان میں مختلف کتابیں موجود تھیں جن کا فارسی میں ترجمہ ہوا اور علم کے متلاشیوں کے اختیار میں دیا گیا۔ یہ رصد خانہ حقیقت میں ایک علمی مرکز تھا جہاں اس وقت کے مختلف علوم جیسے ریاضیات، نجوم اور طبیعیات پر تحقیق اور تدریس کی جاتی تھی۔[25]

وفات

خواجہ نصیر نے 18 ذی الحجہ سنہ 672 ھ میں ایسے وقت میں وفات پائی جب آپ اوقاف اور دانشمندوں کے امور کی دیکھ بھال کے لئے بغداد گئے ہوئے تھے۔ آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق حرم کاظمین میں دفن کیا گیا۔[26] اسی طرح آپ کی وصیت تھی کہ ان کی قبر پر ان کے علمی مقام و مرتبے کی طرف اشارہ کئے بغیر صرف یہ جملہ "و کَلبُهُم باسِطٌ ذِراعَیهِ بِالوَصید"[27] لکھا جائے۔[28]

مذہب‌

خواجہ نصیر الدین طوسی کے شیعہ اثنی عشری ہونے کے بہت سے تاریخی شواہد موجود ہیں؛ من جملہ یہ کہ انہوں نے اپنی اکثر کلامی کتابوں جیسے تجرید الاعتقاد میں بارہ اماموں پر اعتقاد رکھنے اور ان کی عصمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔[29] اسی طرح انہوں نے اس حوالے سے بعض مخصوص رسالے بھی تحریر کئے ہیں جن میں الفرقۃ الناجیۃ، رسالۃ فی‌ حصر الحق‌ بمقالۃ الامامیۃ، الاثنی عشریۃ، رسالۃ فی الإمامۃ کا نام لیا جا سکتا ہے۔[30] ان تمام باتوں کے باوجود خواجہ نصیر الدین سے منسوب کتابوں کی فہرست میں بعض کتابیں اور رسالے پائے جاتے ہیں جو مذہب اسماعیلیہ کی تعلیمات سے مطابقت رکھتے ہیں۔[حوالہ درکار] اکثر شیعہ علماء مذکورہ آثار کی خواجہ کی طرف نسبت کو رد کرتے ہیں لیکن بعض محققین اور مستشرقین اسماعیلیوں کے یہاں قیام کے دوران خواجہ نصیر کے مذہب کی تبدیلی کا احتمال دیتے ہیں۔[31] بعض مذکورہ آثار کی بنا پر اس بات کے معتقد ہیں کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے اسماعیلی قلعوں میں پناہ لینے کے بعد موقتاً ان کے مذہب کو قبول کیا ہے اس کے بعد دوبارہ شیعہ اثنی عشری مذہب کی طرف لوٹ آئے ہیں۔[32]

بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی ایک شیعہ بارہ امامی ہونے کے اعتبار سے تقیہ سے کام لیتے تھے اور اپنی جان کی حفاظت کی خاطر اسماعیلی قلعوں میں کتابوں اور رسائل کی تألیف میں مشغول رہے ہیں۔[33] عبداللہ نعمۃ اسماعیلیوں کے قلعوں کے خراب ہوتے ہی خواجہ نصیر الدین کا شیعہ اثنی‌ عشری مذہب کے اعلان کو مذکورہ احتمال پر تأئید قرار دیتے ہیں۔[34]

فتح بغداد میں آپ کا کردار

اہل سنت عالم دین ابن تیمیہ (661-728ھ) مدعی ہیں کہ بغداد کے خلیفہ کو خواجہ نصیر الدین طوسی کے حکم پر قتل کیا گیا؛[35] لیکن بعض مورخین ابن تیمیہ سے پہلے والے منابع کی چھان بین اور ان میں مذکورہ مطلب کے موجود نہ ہونے پر اس بات کو نادرست اور خواجہ پر تہمت قرار دیتے ہیں اور یہ احتمال دیتے ہیں کہ ابن تیمیہ کے بعد والے منابع نے ان کی پیروی میں مذکورہ مطالب نقل کئے ہیں۔[36]

بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ خواجہ نصیر الدین طوسی کا بغداد کے فتح کے موقع پر مغلوں کے ساتھ ہونا بے گناہ لوگوں کو قتل عام ہونے سے بچانے کے لئے تھا اور آپ کی حمایت کی وجہ سے بہت سارے علماء کو موت سے نجات ملی تھی۔[37]

علمی مقام و مرتبہ

خواجہ نصیرالدین طوسی کو علم میں بوعلی سینا کا ہم پلہ قرار دیا جاتا ہے؛ اس تفاوت کے ساتھ کہ ابن سینا طب میں سرآمد تھے جبکہ خواجہ نصیر ریاضیات میں استاد تھے۔[حوالہ درکار] بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ خواجہ نصیر الدین طوسی کا اشارات کی شرح میں فخر رازی کے اعتراضات کے مقابلے میں ابن سینا کا دفاع کرنا اس زمانے میں فلسفہ کے احیاء کا سبب بنا۔[38] اسی طرح خواجہ نصیر شیعہ علم کلام میں فلسفی طریقہ کار کے مبتکر مانے جاتے ہیں۔[39] شہید مطہری کے مطابق خواجہ نصیر الدین کے بعد کے تمام کلامی آثار کتاب تجرید الاعتقاد سے متأثر ہیں۔[40] بعض معاصر محققین کے مطابق خواجہ نصیر الدین طوسی ایک طرف سے اپنے سے پہلے والے فلاسفہ اور دانشمندوں کے شارح اور مکمّل تھے اور دوسری طرف سے اپنے بعد والے دانشمندں کے لئے آپ ایک بہترین نمونہ عمل تھے۔[41]

بہت سارے مسلمان دانشور اور مستشرقین نے خواجہ نصیر الدین کی تعریف و تمجید کی ہیں۔[42]

شاگردان

خواجہ نصیر الدین طوسی کے بعض معروف شاگرد درج ذیل ہیں:

  1. شیعہ بلند پایہ فقیہ اور متکلم علامہ حلی (متوفی 726 ھ)، جنہوں نے حکمت کی تعلیم آپ سے حاصل کی[43] اور خواجہ نصیر می کتاب تجرید الاعتقاد کی شرح کشف المراد کے نام سے لکھی۔ یہ کتاب، تجرید الاعتقاد کی سب سے مشہور شرح ہے۔[44]
  2. ابن میثم بحرانی، مصباح السالکین کی مصنف جو حکیم، ریاضی‌ دان، متکلم اور فقیہ تھے جنہوں نے بھی حکمت کی تعلیم کے لئے خواجہ کی شاگردی اختیار کی جبکہ فقہ میں آپ خواجہ کے استاد تھے۔[45]
  3. قطب الدین شیرازی (متوفی 710 ھ)، جب خواجہ ہلاکو خان کے ساتھ قزوین گئے تو آپ بھی خواجہ کے ہمراہ تھے اور ان کے ساتھ مراغہ چلے گئے اور علم ہیئت، ریاضی، فلسفہ اور طب میں خواجہ کی شاگردی اختیار کی۔ خواجہ انہیں قطب فلک الوجود کہا کرتے تھے۔[46]
  4. سید رکن الدین (حسن بن محمد بن شرف شاہ علوی) بھی خواجہ کے شاگردوں میں سے تھے جنہوں نے خواجہ کی بعض کتابوں کی شرح لکھی ہیں۔[47]
  5. کمال الدین عبد الرزاق شیبانی بغدادی (642ـ723ھ) ابن الفُوَطی کے نام سے معروف، ساتویں صدی کے مورخین اور معجم الآداب اور الحوادث الجامعہ جیسی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے کتب خانہ مراغہ اور کتب خانہ مستنصریہ کی ذمہ داری سنبھالی۔[48]
  6. عماد الدین حربوی (643ـ728ھ) ابن الخوّام کے نام سے معروف تھے، حساب اور طب میں اپنے زمانے میں اپنی مثال آپ تھے، فوائد بہائیہ فی قواعد حسابیہ اور مقدمہ‌ای در طب نامی کتابیں ان کی علمی میراث میں سے ہیں۔[49]

علمی آثار

مختلف موضوعات میں خواجہ نصیر الدین طوسی کی کتابوں اور علمی رسالوں کی تعداد 184 تک بتائی گئی ہے۔[50] بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ چونکہ آپ کو اسماعیلی قلعوں میں رہنے پر مجبور کیا گیا تھا اس بنا پر آپ کی بہت ساری کتابیں بدترین معیشتی حالات میں لکھی گئی ہیں۔[حوالہ درکار] خود خواجہ نے شرح اشارات کے مقدمے میں کتابوں کی تصنیف کے دوران متحمل ہونے والی سختیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔[51]

خواجہ نصیر الدین طوسی کے بعض علمی آثار درج ذیل ہیں:

  • تجرید الاعتقاد: یہ کتاب زمان تألیف سے لے کر اب تک شیعہ دینی مدارس میں علم کلام کے نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی ہے۔[52] خواجہ نصیر نے اس کتاب میں جدید کلامی مسائل فلسفیانہ روش کے تحت حل کئے ہیں۔[53]
  • اساس الاقتباس: یہ کتاب منطق کے موضوع پر فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔[54] بعض علماء اس کتاب کو بو علی سینا کی کتاب شفا کے منطقی حصے کے بعد اس سلسلے میں لکھی گئی اہم ترین کتاب قرار دیتے ہیں۔[55]
  • شرح الاشارات و التنبیہاتِ ابو علی سینا: یہ کتاب حکمت مَشّاء کے درسی کتابوں میں سے ہے۔[56]
  • اخلاق ناصری: ابن مسکویہ کی کتاب تہذیب الاخلاق و تطہیر الاعراق کا ترجمہ مع اضافات۔[57]
  • آغاز و انجام: یہ کتاب مبدأ و معاد کے بارے میں ہے جس میں قیامت، بہشت اور جہنم کے مباحث عرفانی طرز پر بیان کئے گئے ہیں۔[58]
  • تحریر اصول اقلیدس: کتاب اصول الہندسہ و الحساب تقریبا 300 سال قبل از میلاد یونان کے مشہور ریاضى‌ دان اور منجم اقلیدس کے توسط سے لکھی گئی ہے جو ریاضی کے درسی متون میں شامل تھی۔[59] خواجہ طوسی نے اس سے قبل اس کتاب کے ترجموں کا آپس میں مقایسہ کرتے ہوئے اس کتاب کو تحریر اور اس کی شرح کے ساتھ ساتھ مزید اَشکال اور مسائل اضافہ کئے ہیں۔[60]
  • زیج ایلخانی: اس کتاب میں ستاروں کو رصد کرکے ان کے احوال و حرکات ثبت کی گئی ہیں۔
  • التذکرۃ فی علم الہیئۃ: حاجی خلیفہ کے بقول یہ کتاب اس فن کے مسائل اور اس سے مربوط براہین کا خلاصہ ہے۔[61]

حوالہ جات

  1. نعمۃ، فلاسفۃ الشیعۃ، ۱۹۸۷م، ص۵۳۵۔
  2. الامین، الاسماعیلیون و المغول و نصیر الدین الطوسی، ۲۰۰۵م، ص۱۶-۲۰۔
  3. الامین، الاسماعیلیون و المغول و نصیر الدین الطوسی، ۲۰۰۵م، ص۲۰۔
  4. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۹۸۶م، ج۹، ص۴۱۵۔
  5. نصیر الدین طوسى، تنسوخ نامہ ایلخانى، ۱۳۶۳ش، مقدمہ مصحح، ص۱۵۔
  6. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۹۸۶م، ج۹، ص۴۱۵۔
  7. نصیر الدین طوسى، تنسوخ نامہ ایلخانى، ۱۳۶۳ش، ص۱۶۔
  8. نصیر الدین طوسى، تنسوخ نامہ ایلخانى، ۱۳۶۳ش، ص۱۷۔
  9. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۹۔
  10. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۹۔
  11. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۹۸۶م، ج۹، ص۴۱۵۔
  12. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۹۸۶م، ج۹، ص۴۱۵۔
  13. رجوع کریں: «خواجہ نصیرالدین طوسی و نقش او در گسترش تشیع و حفظ آثار اسلامی»، ص۷۱
  14. آق سرائی، مسامرۃ الاخبار، ۱۳۶۲ش، ص۴۷
  15. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۹۸۶م، ج۹، ص۴۱۵-۴۱۶۔
  16. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۹۸۶م، ج۹، ص۴۱۶۔
  17. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۹۸۶م، ج۹، ص۴۱۶-۴۱۷.
  18. نعمۃ، فلاسفۃ الشیعۃ، ۱۹۸۷م، ص۵۴۰۔
  19. حسن زادہ آملى، ہزار و یک کلمہ، ۱۳۸۱ش، ص۳۲۹۔
  20. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۹۹۷م، ج۱۷، ص۳۸۷۔
  21. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۹۸۶م، ج۹، ص۴۱۶-۴۱۷۔
  22. امین، اعیان الشیعۃ، ۱۹۸۶م، ج۹، ص۴۱۷۔
  23. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۵۰۔
  24. کتبی، فوات‌ الوفیات، ۱۹۷۴م، ج۳، ص۲۴۶-۲۵۲؛ زیدان، تاریخ‌ التمدن‌ الاسلامی، ۱۹۱۴م، ج۳، ص۲۱۴۔
  25. آژند، «کارکرد دو سویہ کتابخانہ در دورہ ی مغولان ایران کتاب آرایی و کتابداری»، ص۱۰۔
  26. نعمۃ، فلاسفۃ الشیعۃ: حیاتہم و آراؤہم، ۱۹۸۷م، ص۵۳۱؛ امین، اعیان الشیعۃ، ۱۹۸۶م، ج۹، ص۴۱۸؛ البتہ ابن کثیر البدایہ و النہایۃ میں ان کی وفات کی تاریخ 12 ذی الحجہ قرار دیتے ہیں (البدایہ و النہایۃ، ۱۹۹۷م، ج۱۷، ص۵۱۴)۔
  27. ترجمہ: اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے (سورہ کہف،‌ آیہ ۱۸)۔
  28. عزیزی، فضائل و سیرہ چہاردہ معصومؑ در آثار استاد علامہ حسن زادہ آملی، ۱۳۸۱ش، ص۴۰۲۔
  29. طوسی، تجرید الاعتقاد، ۱۴۰۷ق، ص۲۹۳
  30. نعمۃ، فلاسفۃ الشیعۃ، ۱۹۸۷م، ص۵۳۴۔
  31. ایزدی و احمد پناہ، «مذہب خواجہ نصیر الدین طوسی و تاثیر آن بر تعامل وی با اسماعیلیان نزاری»، ص۳۶۔
  32. ملاحظہ کریں: دفتری، فرہاد، «نصیر الدین طوسى و اسماعیلیان دورہ الموت» در مجموعہ مقالات استاد بشر، مرکز پژوہشى میراث مکتوب، ۱۳۹۱ش۔
  33. ایزدی و احمدپناہ، «مذہب خواجہ نصیر الدین طوسی و تاثیر آن بر تعامل وی با اسماعیلیان نزاری»، ص۳۶۔
  34. نعمۃ، فلاسفۃ الشیعۃ، ۱۹۸۷م، ص۵۳۵۔
  35. ابن تیمیہ، مجموعہ الرسائل و المسائل، التراث العربی، ج۲، ص۹۷ و۹۹۔
  36. ملاحظہ کریں: صالحی و ادریسی، «خواجہ نصیرالدین طوسی و فتح بغداد»، ص۱۱۵تا۱۲۰
  37. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۲۷۔
  38. ابراہیمی دینانی، «سخنرانی در سرای اہل قلم»، ص۱۱
  39. ملاحظہ کریں: خسرو پناہ، «خواجہ نصیر مؤسس کلام فلسفی» [1] و الاعسم و عمادی، «خواجہ نصیر مبتکر روش فلسفی در کلام شیعہ» [2]
  40. مطہری، آشنائی با علوم اسلامی، ج۲، ص۵۷۔
  41. معصومى ہمدانى، استاد بشر، ۱۳۹۱ش، ص۱۲۔
  42. ملاحظہ کریں: فرحات، اندیشہ ہای فلسفی و کلامی خواجہ نصیر الدین طوسی، ۱۳۸۹ش، ص۹۷۔
  43. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۲۳۸
  44. صدرایی خویی، کتاب شناسی تجرید الاعتقاد، ۱۳۸۲ش، ص۳۵۔
  45. خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ق، ج۶، ص۳۰۲۔
  46. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۲۴۱و۲۴۲۔
  47. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۲۴۹۔
  48. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۲۵۲تا۲۵۷۔
  49. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۲۵۷تا۲۶۱۔
  50. فرحات، اندیشہ‌ہای فلسفی و کلامی خواجہ نصیر الدین طوسی، ۱۳۸۹ش، ص۷۱۔
  51. نصیر الدین طوسی، شرح اشارات، ج۲، ص۱۴۶۔
  52. علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الإعتقاد، تصحیح حسن حسن زادہ آملی، ۱۴۱۳ق، مقدمہ مصحح، ص۵۔
  53. نصیرا لدین طوسی، تجرید الاعتقاد، ۱۴۰۷ق، مقدمہ محقق، ص۷۱۔
  54. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۴۲۰۔
  55. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۴۲۰۔
  56. علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الإعتقاد، تصحیح حسن حسن زادہ آملی، ۱۴۱۳ق، مقدمہ مصحح، ص۵۔
  57. مدرسی رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، ۱۳۵۴ش، ص۹۔
  58. بخش فلسفہ و کلام دایرہ المعارف بزرگ اسلامی، «آغاز وانجام»، ص۴۴۰۔
  59. رمضانی، حسن، مرورى بر آثار و تألیفات‏ علامہ حسن زادہ آملی، ۱۳۷۴ش، ص۱۱۷۔
  60. ملاحظہ کریں: متقی، حسین، «کتاب شناسی اصول ہندسہ اقلیدس، با تأکید بر تحریر خواجہ نصیر الدین طوسی»
  61. ویدہ‏‌مان، آیلہارد، «خواجہ نصیر الدین طوسى»‏، ۱۳۹۱ش، ص۳۲

مآخذ

  • آژند، یعقوب، «کارکرد دو سویہ کتابخانہ در دورہ‌ مغولان ایران کتاب‌آرایی و کتابداری»، تحقیقات کتابداری و اطلاع رسانی دانشگاہی، ش۳۸، بہار۱۳۸۱ش۔
  • امین، سید حسن، «خواجہ نصیر الدین طوسی و نقش او در گسترش تشیع و حفظ آثار اسلامی»، ترجمہ مہدی زندیہ، شیعہ شناسی، ش۵، بہار ۱۳۸۳ش۔
  • آق سرائی، محمود بن محمود، مسامرۃ الاخبار، تہران، اساطیر، ۱۳۶۲ش۔
  • ابن تیمیہ، احمد بن عبد الحلیم، مجموعۃ الرسائل و المسائل، ویرایش محمد رشید رضا، مکہ، التراث العربی۔
  • ابراہیمی دینانی، غلام حسین، «سخنرانی در سرای اہل قلم»، روزنامہ جام جم، ۶ بہمن ۱۳۸۹، صفحہ۱۱
  • الاعسم، عبد الامیر و عبد الرسول عمادی، «خواجہ نصیر مبتکر روش فلسفی در کلام شیعہ»، فرہنگ، ش۶۱و۶۲، سال ۱۳۸۶۔
  • ایزدی، حسین و مطہر‌ہ ‌سادات احمد پناہ، «مذہب خواجہ نصیر الدین طوسی و تأثیر آن بر تعامل وی با اسماعیلیان نزاری»، تاریخ اسلام، ش۴۱و۴۲، بہار و تابستان ۱۳۸۹ش۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، تحقیق دکتر عبداللہ بن عبد المحسن الترکی، مصر، ہجر للطباعۃ والنشر والتوزیع والاعلان، ۱۹۹۷ء۔
  • امین، سید محسن، اعیان ‌الشیعۃ، تحقیق حسن الامین، بیروت، دار التعارف، ۱۹۸۶ء۔
  • الامین، حسن، الاسماعیلیون و المغول و نصیر الدین الطوسی، قم، مؤسسۃ دائرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، ۱۴۲۶ق/۲۰۰۵ء۔
  • بخش فلسفہ و کلام دایرہ المعارف بزرگ اسلامی، «آغاز وانجام»، در دایرہ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱، تہران، نشر مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۶۷ش۔
  • حسن ‌زادہ آملى، حسن، ہزار و یک کلمہ، قم، بوستان کتاب، چاپ سوم، ۱۳۸۱ش۔
  • خسرو پناہ، عبد الحسین، «خواجہ نصیر مؤسس کلام فلسفی»، در پایگاہ موسسہ حکمت و فلسفہ ایران
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات، قم، دہاقانی (اسماعیلیان)، ۱۳۹۰ھ۔
  • دفتری، فرہاد، «نصیر الدین طوسى و اسماعیلیان دورہ الموت»‏، ترجمہ فاطمہ رحیمی، در مجموعہ مقالات استاد بشر: پژوہش‏‌ہایى در زندگى، روزگار، فلسفہ و علم خواجہ نصیر الدین طوسى، تہران، مرکز پژوہشى میراث مکتوب، ۱۳۹۱ش۔
  • صالحی، راضیہ و محمد حسن ادریسی، «خواجہ نصیر الدین طوسی و فتح بغداد»، تاریخ اسلام، ش۳۶، مہر ۱۳۸۷ش۔
  • نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد بن الحسن، تجرید الاعتقاد، تہران: مکتب الاعلام الاسلامی-مرکز النشر، ۱۴۰۷ھ۔
  • رمضانی، حسن، مرورى بر آثار و تألیفات‏ علامہ حسن‌زادہ آملی، نہاد نمایندگى مقام معظم رہبرى در دانشگاہ‌ہاى تہران و علوم پزشکى، ۱۳۷۴ش۔
  • زیدان‌، جرجی‌، تاریخ‌ التمدّن‌ الاسلامی‌، مصر، ۱۹۱۴ء۔
  • صدرایی خویی، علی، کتاب شناسی تجرید الاعتقاد، بہ‌کوشش سید محمود مرعشی نجفی، قم، کتابخانہ بزرگ حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۳۸۲ش/۱۴۲۴ق/۲۰۰۳ء۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تحقیق حسن حسن ‌زادہ آملی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، چاپ چہارم، ۱۴۱۳ھ۔
  • فرحات، ہانى، اندیشہ‌ہای فلسفی و کلامی خواجہ نصیرالدین طوسی، ترجمہ غلام رضا جمشید نژاد، تہران، مرکز پژوہشى میراث مکتوب، ۱۳۸۹ش۔
  • کتبی، محمد بن شاکر، فوات الوفیات، بہ‌کوشش احسان عباس، بیروت، ۱۹۷۴ء۔
  • [http://www.manuscripts.ir/ar/component/content/article?id=162 متقی، حسین، «کتاب شناسی اصول ہندسہ اقلیدس، با تأکید بر تحریر خواجہ نصیر الدین طوسی» در خواجہ‌پژوہشی، تہران خانہ کتاب، ۱۳۹۰ش۔
  • مدرسی رضوی، محمد تقی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، بنیاد فرہنگ ایران، ۱۳۵۴ش۔
  • معصومى ہمدانى، حسین، استاد بشر: پژوہش‏ہایى در زندگى، روزگار، فلسفہ و علم خواجہ نصیر الدین طوسى، تہران، مرکز پژوہشى میراث مکتوب، ۱۳۹۱ش۔
  • نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، تجرید الاعتقاد، تحقیق محمد جواد حسینی جلالی، تہران، مکتب الاعلام الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۰۷ھ۔
  • نصیر الدین طوسى، محمد بن محمد، تنسوخ ‌نامہ ایلخانى، تصحیح محمد تقى‏ مدرس رضوى، تہران، اطلاعات، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش۔
  • نعمۃ، عبد اللہ، فلاسفۃ الشیعۃ حیاتہم و آراؤہم، بیروت، دار الفکر اللبنانی، ۱۹۸۷ء۔
  • ویدہ‏‌مان، آیلہارد، «خواجہ نصیر الدین طوسى»‏، ترجمہ سارا حاج ‌حسینی، در مجموعہ مقالات استاد بشر: پژوہش‏‌ہایى در زندگى، روزگار، فلسفہ و علم خواجہ نصیر الدین طوسى، تہران، مرکز پژوہشى میراث مکتوب، ۱۳۹۱ش۔