تفسیر موضوعی

ویکی شیعہ سے
(موضوعی تفسیر سے رجوع مکرر)
علم تفسیر
اہم تفاسیر
شیعہ تفاسیرتفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ
سنی تفاسیرتفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ
تفسیری رجحان
تقابلی تفسیرعلمی تفسیرعصری تفسیرتاریخی تفسیرفلسفی تفسیرکلامی تفسیرعرفانی تفسیرادبی تفسیرفقہی تفسیر
تفسیری روشیں
تفسیر قرآن بہ قرآنتفسیر رواییتفسیر عقلیتفسیر اجتہادی
اقسام تفسیر
ترتیبی تفسیرموضوعی تفسیر
اصطلاحات علم تفسیر
اسباب نزولناسخ و منسوخمحکم و متشابہتحدیاعجاز قرآنجری


تفسیر موضوعی سے مراد کسی خاص موضوع سے متعلق قرآن کریم کی آیتوں میں موجود نکات اور مطالب کو بیان کرنا ہے۔ تفسیر کی اس روش میں مفسر کسی موضوع سے مربوط تمام آیات کو جو قرآن میں پراکندہ طور پر موجود ہوتی ہیں، جمع کرکے ان میں تحقیق کرتا ہے۔ سید محمد باقر صدر قرآن سے اسلامی نظریات کے استخراج کا واحد راستہ تفسیر موضوعی کو قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح آیت اللہ مصباح یزدی بھی تفسیر موضوعی کو قرآن کریم کے منظم معارف تک پہنچنے کا مناسب طریقہ قرار دیتے ہیں۔

سید محمد حسین طباطبایی نے تفسیر المیزان میں تفسیر کے اسی روش کے ساتھ بہت سارے موضوعات کو مورد تحقیق قرار دیا ہے۔ اسی بنا پر آپ کو تفسیر موضوعی میں پہل کرنے والوں میں قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن آیت اللہ جعفر سبحانی کے مطابق علامہ مجلسی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اجمالی طور پر تفسیر موضوعی سے فائدہ اٹھایا ہے۔

بہت ساری کتابیں تفسیر موضوعی کے عنوان سے لکھی گئی ہیں؛ من جملہ ان میں آیت اللہ جعفر سبحانی کی کتاب منشور جاوید قرآن، آیت اللہ جوادی آملی کی کتاب تفسیر موضوعی قرآن کریم اور آیت اللہ مصباح یزدی کی کتاب معارف قرآن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ بعض کتابیں کسی خاص موضوع سے مرتبط آیات تک رسائی میں آسانی کیلئے لکھی گئی ہیں جنہیں معجم موضوعی قرآن کریم کہا جاتا ہے؛ اس حوالے سے محمود رامیار کی کتاب فرہنگ موضوعی قرآن کریم اور محمد فؤاد عبد الباقی کی کتاب "المعجم المفہرس لألفاظ القرآن الکریم" کا نام لیا جا سکتا ہے۔

معانی اور اہمیت

تفسیر موضوعی سے مراد کسی خاص موضوع سے متعلق قرآن کریم کی آیتوں میں موجود نکات اور مطالب کو بیان کرنا ہے۔[1] کسی خاص موضوع سے متعلق قرآن کریم کی آیتوں کو جمع کر کے ان کے اندر غور و فکر کے ذریعے اس موضوع سے متعلق قرآن کے نقطہ نظر کو معلوم کرنا بھی تفسیر موضوعی کہلاتا ہے۔[2]

بہت سارے مفسرین اور علوم قرآن کے ماہرین تفسیر موضوعی کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیتے ہیں؛[3] سید محمد باقر صدر تفسیر موضوعی کو تفسیر ترتیبی پر فوقیت دیتے ہوئے[4] تفسیر موضوعی کو قرآن کریم سے اسلامی نظریات کے استخراج کا واحد راستہ قرار دیتے ہیں۔[5] آپ فرماتے ہیں کہ تفسیر ترتیبی میں قرآن کے ظاہری معانی اور مفاہیم کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں سمجھ سکتے اس بنا پر مختلف موضوعات میں اسلامی نظریے کو صحیح طور پر سمجھنے میں تفسیر ترتیبی زیادہ مؤثر نہیں ہے۔[6] اسی طرح آپ علم فقہ میں پیدا ہونے والی وسعت کو بھی معصومین کی احادیث میں موضوعی طور پر تحقیق کی مرہون منت قرار دیتے ہوئے مختلف میادین میں وسیع اور پیچیدہ مسائل کے حل کیلئے تفسیر موضوعی کے طریقے سے بہتر استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔[7]

آیت اللہ مصباح یزدی کے مطابق صرف تفسیر موضوعی اور قرآنی معارف کو منظم انداز میں پیش کرنے کے ذریعے ہی منظم قرآنی نظام تک پہنچ کر انحرافی نظاموں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔[8] آیت اللہ سبحانی تفسیر موضوعی پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تفسیر موضوعی کے ذریعے علوم و معارف کے عظیم اور نئے آفاق تک رسائی حاصل کر سکتے جن تک رسائی تفسیر ترتیبی کے ذریعے ناممکن ہے۔[9]

تاریخی پس منظر

شیعہ برجستہ مفسر علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں بہت سارے موضوعات من جملہ توحید،[10] امامت،[11] اور شفاعت[12] کو قرآن کریم کی روشنی میں مورد تحقیق قرار دیئے ہیں[13] اسی بنا پر آپ کو تفسیر موضوعی میں پہل کرنے والوں میں سے قرار دیا جاتا ہے۔[14]

آیت اللہ جعفر سبحانی اس بات کے معتقد ہیں کہ شاید علامہ مجلسی کو اس تفسیری روش کے اپنانے والوں میں پہلی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں ہر موضوع سے متعلق قرآنی آیات کو ذکر کر کے اجمالی طور پر ان کی تفسیر بھی بیان کی ہیں۔[15] آیت اللہ معرفت بھی علامہ مجلسی کی تفسیر موضوعی کو مختلف اسلامی معارف میں قرآن کریم کی دفیق ترین اور جامع ترین تقسیم بندی قرار دیتے ہوئے اسے بے نظیر قرار دیئے ہیں۔[16]

شیخ محمد عبدہ (1266- 1323ھ) کو اہل سنت میں تفسیر موضوعی کی ابتداء کرنے والی شخصیت قرار دی گئی ہے۔[17] اسی طرح شیخ محمود شلتوت (1310-1383ھ) جن کا شمار اہل سنت فقہاء میں ہوتا ہے، نے بھی اپنی فہقی تفسیر میں اسی طریقہ کار کو اپنایا ہوئے[18] اس باب میں القرآن والقتال و القرآن والمرأۃ جیسی تالیفات تحریر کی ہیں۔[19]

کتابیات

پیام قرآ­ن

بہت ساری تفسیریں تفسیر موضوعی کے تحت لکھی گئی ہیں؛ اسی طرح قرآنی موضوعات پر مشتمل بہت سارے معاجم میں مختلف موضوعات سے مربوط آیات کو جمع کیا گیا ہے ذیل میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

مذکورہ موضوعی تفاسیر کے علاوہ مختلف موضوعات سے مربوط آیات تک رسائی میں سہولت کے پیش نظر بھی بہت ساری معاجم تحریر کی گئی ہیں؛[23] من جملہ ان میں ژول بوم کی کتاب "تفصیل الآیات مصنف"، محمد فؤاد عبدالباقی کی کتاب المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، سید محمد باقر ابطحی کی کتاب المدخل الی التفسیر الموضوعی للقرآن الکریم، محمود رامیار کی کتاب فرہنگ موضوعی قرآن، کامران فانی اور بہاءالدین خرمشاہی کی کتاب فرہنگ موضوعی قرآن مجید اور عبدالمجید معادیخواہ کی کتاب فروغ بی‌پایان کا نام لیا جا سکتا ہے۔[24] اسی طرح اکبر ہاشمی رفسنجانی کی کتاب فرہنگ قرآن جسے انہوں نے مرکز فرہنگ و معارف قرآن کریم کے تعاون سے تصنیف کی ہیں۔[25]

متعقلہ صفحات

حوالہ جات

  1. مسلم، مباحث فی التفسیر الموضوعی، ۱۴۱۰ش، ص۱۶.
  2. سبحانی، منشور جاوید قرآن، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۲۳؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۲۱.
  3. سعید، المدخل الی التفسیر والموضوعی، ۱۴۱۱ق، ص۴۰-۵۵؛ مسلم، مباحث فی التفسیر الموضوعی، ۱۴۱۰ش، ص۳۰-۳۳؛ یدالہ پور، مبانی و سیر تاریخی تفسیر موضوعی قرآن، ۱۳۸۳ش، ص۱۵۷؛ جلیلی، تفسیر موضوعی، ۱۳۸۷ش، ص۲۴-۳۰.
  4. صدر، المدرسۃ القرآنیہ، ۱۴۲۱ق، ص۲۰-۴۳.
  5. صدر، المدرسۃ القرآنیہ، ۱۴۲۱ق، ص۲۸-۳۷.
  6. صدر، المدرسۃ القرآنیہ، ۱۴۲۱ق، ص۳۴-۳۵.
  7. صدر، المدرسۃ القرآنیہ، ۱۴۲۱ق، ص۲۵-۲۸.
  8. مصباح یزدی، معارف قرآن، ۱۳۷۳ش، ص۸-۱۰.
  9. سبحانی، منشور جاوید قرآن، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۱۱.
  10. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۶، ص۸۶-۹۱۔
  11. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۲۷۰-۲۷۶۔
  12. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۱۵۷-۱۸۶۔
  13. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۱۵۷-۱۸۶، ۲۷۰-۲۷۶؛ ج۲، ص۲۶۰-۲۷۸؛ ج۶، ص۸۶-۱۰۴۔
  14. مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۹ش، ج۸، ص۳۶۵۔
  15. سبحانی، منشور جاوید قرآن، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۲۴۔
  16. معرفت، تفسیر و مفسران، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۵۳۱۔
  17. عمری، دراسات فی التفسیر الموضوعی، ۱۴۰۶ق، ص۵۶-۵۷۔
  18. عمری، دراسات فی التفسیر الموضوعی، ۱۴۰۶ق، ص۶۳۔
  19. مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۹ش، ج۸، ص۳۶۴۔
  20. سبحانی، منشور جاوید قرآن، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۲۔
  21. مصباح یزدی، معارف قرآن، ۱۳۷۳ش، ص۱۴-۱۶۔
  22. رجبی، «تفسیر موضوعی قرآن از منظر استاد محمدتقی مصباح یزدی»، ص۱۳۰-۱۴۲۔
  23. مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۹ش، ج۸، ص۳۶۷۔
  24. مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۹ش، ج۸، ص۳۶۷۔
  25. مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۹ش، ج۸، ص۳۶۷۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • جلیلی سنزیقی، سید ہدایت، تفسیر موضوعی: چیستی، بنیان‌ہا و پیشفرض‌ہا، قم، بوستان کتاب قم، ۱۳۸۷ش۔
  • رجبی، محمود، «تفسیر موضوعی قرآن از منظر استاد محمد تقی مصباح یزدی»، در مجلہ قرآن ‌شناخت، ش۴، پاییز و زمستان ۱۳۸۸ش۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید قرآن، قم، مؤسسہ امام صادق (ع)، ۱۳۸۳ش۔
  • سعید، عبد الستار فتح اللہ، المدخل الی التفسیر الموضوعی، قاہرۃ، دارالتوزیع والنشر الاسلامیۃ، ۱۴۱۱ق۔
  • صدر، سید محمد باقر، المدرسۃ القرآنیہ، بہ کوشش لجنۃ التحقیق، مرکز الابحاث والدراسات، ۱۴۲۱ق۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، اعلمی، ۱۳۹۳ق۔
  • عمری، احمد جمال، دراسات فی التفسیر الموضوعی للقصص القرآنی، قاہرۃ، مطبعۃ المدنی، ۱۴۰۶ق۔
  • مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، ج۸، قم، بوستان کتاب قم، ۱۳۸۹ش،
  • مسلم، مصطفی، مباحث فی التفسیر الموضوعی، دمشق، دار القلم، ۱۴۱۰ق۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، معارف قرآن، قم، در راہ حق، ۱۳۷۳ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، تفسیر و مفسران، قم، التمہید، ۱۳۷۳ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، قم، مدرسہ امام علی بن ابیطالب (ع)، ۱۳۷۴ش۔
  • ید الہ ‌پور، بہروز، مبانی و سیر تاریخی تفسیر موضوعی قرآن، قم، دار العلم، ۱۳۸۳ش۔