مقتل

ویکی شیعہ سے
(مقاتل سے رجوع مکرر)
مقتل کی کتابیں

مقتل ایک قسم کی تاریخ ہے جس میں مشہور شخصیات کے قتل اور شہادت کی تفصیلات اور جزئیات ذکر کی جاتی ہیں۔ مقتل نگاری شیعوں کے درمیان اکثر ائمہ معصومینؑ اور شیعہ مشہور شخصیات کی شہادت کی تفصیل کے لئے استعمال ہوتی تھی؛ لیکن واقعہ کربلا کی مقتل نگاری زیادہ رائج ہونے کی وجہ سے یہ اصطلاح امام حسینؑ اور ان کے اصحابؑ کی شہادت سے متعلق حادثات کو درج کرنے سے مختص ہے۔

محققین کے نظر میں اصبغ بن نباتہ واقعہ عاشورا کا سب سے پہلا مقتل نگار ہے۔ ابی مخنف کی کتاب مقتل الحسین بھی قدیمی اور معتبر مقاتل میں سے ایک ہے۔

مفہوم‌ شناسی

تاریخ کی اہم شخصیات کے قتل یا شہادت کے بارے میں موجود مکتوب روایات کو مقتل کہا جاتا ہے۔[1] مقتل مونوگراف کے تحت لکھی جانے والی تاریخ کی ایک قسم ہے۔ حادثات کی مونوگرافی وہ تاریخی تحریر ہیں جو اہم واقعات کو درج کرنے کے لئے استفادہ ہوتی ہے۔ ایسی تحریریں اکثر اوقات دلخراش اور سرنوشت ساز واقعات کے بارے میں لکھی جاتی ہیں اور ان کی تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں۔[2]

مَقْتَل عربی زبان میں قتل کی جگہ یا قتل گاہ کو کہا جاتا ہے۔[3]

مقتل‌ نگاری کا تاریخچہ

مقتل امام علیؑ، تالیف: ابن ابی دنیا

شیعوں کی لکھی ہوئی ابتدائی مقاتل امام علیؑ کی شہادت کے بارے میں ہیں۔[4]بعض مآخذ میں ابی‌الحسن بکری، جابر جعفی، یحیی بحرانی یزدی و ابن ابی‌ دنیا جیسے بعض علما کی طرف سے لکھی جانے والی چودہ مقاتل کا تذکرہ ہوا ہے ان میں سے ہر ایک کا نام «مقتل امیرالمومنین» ہے۔[5]

امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شہادت کے بعد شیعوں کے ہاں مقتل نگاری میں مزید رونق آگئی۔ لیکن آج کل سابقہ تالیفات «مقتل الحسینؑ» کے عنوان سے فہرست نگاری میں انکا صرف نام باقی ہے یا متفرقہ صورت میں متاخرین کی تالیفات میں بعض حصے درج ہیں۔[6]

بعض مقاتل ایسی بھی تالیف ہوئی ہیں جن میں اہل بیتؑ کے علاوہ دیگر شخصیات کی وفات کا تذکرہ ہے۔ محمد بن عبداللہ بن مہران کی مقتل عمر بن خطاب،[7] ابی مِخنَف (متوفی 157ھ) کی مقتل عبداللہ بن زبیر اور مقتل حُجر بن عَدی، اسی نام سے نصر بن مزاحم کوفی (متوفی 212ھ) اور ہِشام کَلبی (متوفی 204 یا 209ھ) کی دو مقتل اور عبدالعزیز جلودی (متوفی 330 یا 332ھ) کی مقتل محمد بن ابی بکر ان مقاتل میں سے شمار ہوتی ہیں۔[8]

مقاتل امام حسینؑ

مشہور نظر کے مطابق اَصبَغ بن نُباتَہ مُجاشِعِی کی کتاب مقتل ابی عبداللہ الحسین، شہادت امام حسینؑ سے متعلق حوادث کے بارے میں سب سے پرانی مقتل ہے۔[9] البتہ شیخ صدوق کی کتاب ثواب الاعمال کے مطابق اصبغ بن نباتہ شہادت امام حسینؑ کے دوران بقید حیات تھے[10] لیکن واقعہ عاشورا کے بارے میں ان سے کوئی بات نقل نہیں ہوئی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود بعض محققین کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے قاسم نے واقعہ عاشورا کے بارے میں ایک مقتل لکھا ہے۔[11]

مقتل نگاری کا عروج تیسری اور چوتھی صدی ہجری بتایا جاتا ہے اور کہا گیا ہے کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد اس عروج میں کمی آنے لگی۔[12] ان میں سے بعض مقاتل چھپ چکی ہیں، بعض دنیا کے مختلف کتاب خانوں میں موجود ہیں اور بعض کا کوئی وجود باقی نہیں ہے۔[13]

آٹھویں، نویں اور دسویں صدی ہجری مقتل نویسی کے انحطاط کی صدیاں شمار کی گئی ہیں۔[14] اور اگر کچھ آثار لکھی بھی گئی ہیں تو وہ واقعہ کربلا کی گزشتہ روایات سے مآخوذ ہیں یا غیر معتبر اور سند کے بغیر روایات پر مشتمل ہیں۔[15] ان میں سے بعض آثار کا عاشورا کے واقعات کی تحریف میں بڑا کردار تھا؛[16] جیسے ملا حسین واعظ کاشفی (820-910ھ) کی کتاب روضۃ الشہداء جو دسویں صدی ہجری کے ابتدا میں لکھی گئی ہے۔[17]

صفوی حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد عاشورا کو رسمی مقام ملا اور بعض جدید مقاتل لکھے گئے اور معتبر مآخذ نہیں تھے اور اکثر اوقات واقعہ عاشورا کو غم، مصیبت اور بلا کے زاویے سے روایت کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر آثار مجالس میں پڑھنے اور محرم کی عزاداری نیز رونے کے لیے زمین فراہم کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں۔ ابتلاء الاولیاء، ازالۃ الاوہام فی البکاء، اکسیر العبادۃ فی اسرار الشہادۃ، اور مُحرِق القلوب انہی مقاتل میں شمار ہوتی ہیں۔[18]

فرہاد میرزا معتمدالدولہ (1233-1305ھ) کی کتاب قمقام زخّار و صمصام بَتّار، (لبریز سمندر اور تیز تلوار) مشہور اور معروف مقاتل میں سے شمار ہوتی ہے جو آخری صدیوں میں لکھی گئی ہے۔[19]

مقاتل امام حسینؑ کا اعتبار

رسول جعفریان کے مطابق دوسری صدی ہجری سے چوتھی صدی ہجری تک لکھی جانے والی مقاتل میں سے صرف پانچ کتابیں معتبر ہیں:[20]

  • مقتل الحسین، تالیف ابی مخنف لوط بن یحیی ازدی‌
  • ترجمۃالحسین علیہ‌السلام و مقتلہ، ابن سعد کی کتاب الطبقات الکبری سے مآخوذ
  • ترجمہ و مقتل امام حسینؑ، بلاذری کی کتاب انساب الاشراف سے مآخوذ
  • گزارش قیام کربلا در کتاب الاخبار الطوال تألیف دینَوَری
  • فُتوح بقلم ابن اعثم.[21]

ان کا کہنا ہے کہ پانچویں صدی کے بعد لکھی جانے والی مقاتل یا سب کے سب کا کوئی خاص اعتبار نہیں یا ایسے مطالب پر مشتمل ہیں جو کہ مندرجہ بالا ذکر شدہ پانچ مآخذ میں بیان ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر طبری نے تاریخ الامم و الملوک میں، شیخ مفید نے ارشاد المفید میں اور ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین میں جو مطالب ذکر کیا ہے ان میں سے اکثر و بیشتر مقتل ابی مِخنَف سے اخذ کیا ہے اور مقتل الحسینؑ میں خوارزمی نے جو نقل کیا ہے ان میں سے اکثر ابن اعثم کی کتاب فتوح سے اخذ کیا ہے۔[22]اسی طرح سید بن طاووس نے اپنی کتاب لہوف میں اکثر و بیشتر مقتل خوارزمی سے اخذ کیا ہے۔[23]

مقاتل امام حسینؑ کے مطالب

مقاتل امام حسینؑ کے بعض مطالب مندرجہ ذیل ہیں:

  • وہ احادیث جو واقعہ عاشورا کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ سے نقل ہوئی ہیں
  • قیام کے آغاز سے شہادت تک کے امام حسینؑ کے خطوط اور کلمات
  • امام حسینؑ کے ان ساتھیوں کے ذکر شدہ مطالب جو واقعہ کربلا میں حاضر تھے لیکن قتل نہیں ہوئے ہیں۔[24]
  • امام سجاد اور حضرت زینب کے وہ خطبے جو کوفہ، شام اور مدینہ کے راستے میں بیان ہوئے۔
  • امام حسینؑ کی شہادت کے بارے میں شیعہ ائمہؑ سے منسوب احادیث
  • امام حسینؑ کے مخالفوں اور دشمنوں کی طرف سے واقعہ عاشورا کے بارے میں بیان شدہ نکات۔[25]

اہم معاصر مقاتل‌

کتاب مقتل جامع سید الشہداء

معاصر (14ویں اور 15ویں صدی ہجری) کے اہم مقاتل میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

حوالہ جات

  1. صاحبی، مقتل و مقتل‌نگاران، ۱۳۷۳ش، ص۳۱.
  2. یاوری، «مقتل‌نگاری شیعیان»، ص۱۰.
  3. معین، فرہنگ فارسی.
  4. یاوری، «مقتل‌نگاری شیعیان»، ص۱۱.
  5. آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، دارالاضواء، ج۲۲، ص۲۹-۳۱.
  6. یاوری، «مقتل‌نگاری شیعیان»، ص۱۱.
  7. آقابزرگ، الذریعہ، دارالاضواء، ج۲۲، ص۲۲.
  8. آقابزرگ، الذریعہ، دارالاضواء، ج۲۲، ص۳۱-۳۵.
  9. آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، دارالاضواء، ج۲۲، ص۲۳و۲۴.
  10. شیخ الصدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۳ ق، ص۲۶۰.
  11. گروہی از تاریخ‌پژوہان، مقتل جامع سیدالشہدا(ع)، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۴۶.
  12. گروہی از تاریخ‌پژوہان، مقتل جامع سیدالشہدا(ع)، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۴۴و۴۵.
  13. گروہی از تاریخ‌پژوہان، مقتل جامع سیدالشہدا(ع)، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۴۴و۴۵.
  14. رنجبر، «سیری در مقتل‌نویسی»، ص۸۴.
  15. رنجبر، «سیری در مقتل‌نویسی»، ص۸۴؛ گروہی از تاریخ‌پژوہان، مقتل جامع سیدالشہدا(ع)، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۵-۱۱۲.
  16. گروہی از تاریخ‌پژوہان، مقتل جامع سیدالشہدا(ع)، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۵-۱۱۲.
  17. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۵۲ و ۲۲۰.
  18. جعفریان، «دربارہ منابع تاریخ عاشورا»، ۱۳۸۰ش، ص۵۱و۵۲.
  19. رحیمی، «قمقام زخار در تاریخ واقعہ کربلا»، ص۲۸.
  20. جعفریان، «دربارہ منابع تاریخ عاشورا»، ص۴۲.
  21. جعفریان، «دربارہ منابع تاریخ عاشورا»، ص۴۲.
  22. جعفریان، «دربارہ منابع تاریخ عاشورا»، ص۴۲.
  23. گروہی از تاریخ‌پژوہان، مقتل جامع سیدالشہدا(ع)، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۲.
  24. جمعی از نویسندگان، پژوہشی در مقتل‌ہای فارسی، ١٣٨۶ش، ص۲۱-۲۷.
  25. جمعی از نویسندگان، پژوہشی در مقتل‌ہای فارسی، ١٣٨۶ش، ص۲۱-۲۷.
  26. گروہی از تاریخ‌پژوہان، مقتل جامع سیدالشہداؑ، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۳۹-۱۴۹.

مآخذ

  • تہرانی، آقابزرگ، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دارالاضواء.
  • جعفریان، رسول، «دربارہ منابع تاریخ عاشورا»، در مجلہ آینہ پژوہش، ش۷۱و۷۲، ۱۳۸۰شمسی ہجری۔
  • جمعی از نویسندگان، پژوہشی در مقتل‎ہای فارسی، قم، زمزم ہدایت، ١٣٨۶شمسی ہجری۔
  • رحیمی، عبدالرفیع، «قمقام زخار در تاریخ واقعہ کربلا»، در مجلہ کتاب ماہ تاریخ و جغرافیا، ش۷۹، اردیبہشت ۱۳۸۳شمسی ہجری۔
  • رنجبر، محسن «سیری در مقتل‌نویسی و تاریخ‌نگاری عاشورا از آغاز تا عصر حاضر (۳)»، در مجلہ تاریخ اسلام در آینہ پژوہش، ش۱۶، زمستان ۱۳۷۶شمسی ہجری۔
  • صاحبی، محمدجواد، «مقتل و مقتل‌نگاران»، در مجلہ کیہان فرہنگی، ش۱۱۱، تیر ۱۳۷۳شمسی ہجری۔
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الاعمال، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۳ھ۔
  • گروہی از تاریخ پژوہان، مقتل جامع سیدالشہدا(ع)، زیر نظر مہدی پیشوایی، قم، انتشارات مؤسسہ امام خمینی، ۱۳۸۹شمسی ہجری۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، دانشنامہ امام حسین(ع)، قم، سازمان چاپ و نشر دارالحدیث، ۱۳۸۸شمسی ہجری۔
  • معین، محمد، فرہنگ فارسی.
  • نوری، میرزاحسین، لؤلؤ و مرجان، تہران، نشرآفاق، ۱۳۸۸شمسی ہجری۔
  • یاوری، محمدجواد، «مقتل‌نگاری شیعیان از آغاز تا پایان قرن پنجم ہجری»، در مجلہ تاریخ اسلام، ش۳۲، ۱۳۸۶شمسی ہجری۔