محمد بن احمد بن قطان قمی

ویکی شیعہ سے
محمد بن احمد قطان قمی
کوائف
مکمل ناممحمد بن احمد بن جعفر قطان قمی
لقب/کنیتقطان، عطار، ابو جعفر
آبائی شہرقم
علمی معلومات
خدمات
سماجیوکیل و صحابی امام حسن عسکری، غیبت صغری میں امام عصر (ع) کے نائب اول و دوم کے خاص وکیل و معاون


محمد بن احمد بن جعفر قطان قمی غیبت صغری میں امام زمانہ (ع) کے نائب اول اور نائب دوم کے خاص وکیلوں اور معاونوں میں سے تھے۔ شیخ طوسی نے انہیں امام حسن عسکری (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے کہ جنہوں نے امام علی نقی (ع) کو بھی درک کیا ہے اور شیخ صدوق کے نقل کے مطابق انہیں امام عصر (ع) سے دیدار کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔

تعارف

روایات میں ان کے نام کے ساتھ قمی کا لفظ استعمال ہوا ہے شاید یہ ان کے محل ولادت یا ابتدائی محل زندگی کی طرف اشارہ ہو۔ وہ غیبت صغری کے زمانہ میں شہر بغداد میں مقیم تھے۔ ان کا لقب قطان (روئی فروش)[1] اور اسی طرح سے عطار[2] ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے ان کے مشغلہ کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ ان کی کنیت ابو جعفر تھی۔[3]

تین اماموں کے محضر میں

شیخ طوسی نے ان کا شمار امام حسن عسکری (ع) کے وکلاء اور اصحاب میں کیا ہے اور مزید کہا ہے کہ انہوں نے امام علی نقی (ع) کو بھی درک کیا ہے۔[4] اسی طرح سے شیخ صدوق نے انہیں بغداد کے ان وکلاء میں شمار کیا ہے جنہیں امام مہدی (ع) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے۔[5]

امام عصر سے خاص قربت

رجال کشی میں احمد بن ابراہیم مراغی سے ایک روایت ان کی مدح میں اس طرح سے ذکر ہوئی ہے:

و لیس له ثالث فی الارض فی القرب من الاصل یصفنا لصاحب الناحیة۔ [6]

اس حدیث سے امام زمانہ (ع) سے ان کی قربت کا پتہ چلتا ہے۔

وکالت

اس سلسلہ میں تاریخی نقل سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن احمد قطان غیبت صغری کے ابتدائی سالوں میں امام زمانہ (ع) کے نائب اول و نائب دوم کے خاص وکیلوں اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور کبھی کبھی خود امام مہدی(ع) وجوہات شرعیہ کے سلسلہ میں بلا واسطہ ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم صادر فرمایا کرتے تھے۔[7]

ان کے لقب قمی کے پیش نظر گویا ان کی وکالت اور فعالیت کا علاقہ قم تھا۔ البتہ بعض دیگر شواہد کے مطابق، غیبت صغری کے آغاز کے ساتھ ہی وہ بغداد منتقل ہو گئے اور احمد بن اسحاق و حاجز بن یزید وشاء کے ہمراہ نائب اول و نائب دوم کے معاون اعلی کے طور پر فعالیت میں مشغول ہو گئے۔[8] شیخ صدوق نے ان کا شمار بغداد کے وکلاء کے اس گروہ میں کیا ہے جو امام زمانہ (ع) کی زیارت سے شرفیاب ہوئے۔[9]

محمد بن احمد بن قطان وکالت کے سلسلہ میں اعلی منزلت پر فائز تھے اور ان کا کردار معاون سفیر کا تھا اور جیسا کہ جیسا شیخ مفید کی روایت[10] سے معلوم ہوتا ہے کہ وکالت کے سلسلہ میں محمد بن احمد کا رتبہ اس قدر بلند تھا کہ بعض شیعہ انہیں امام مہدی (ع) کا نائب اور سفیر تصور کرتے تھے۔[11]

بعض گزارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعوں اور امام کے درمیان خط و کتابت اور توقیعات کے صدور کا ذریعہ تھے۔[12]

حوالہ جات

  1. طبری، دلائل الإمامة، ص523
  2. رجال کشی، ص534
  3. طبری، دلائل الإمامة، ص523
  4. رجال شیخ طوسی، ص436
  5. صدوق، کمال الدین، ص442
  6. رجال کشی، ص534
  7. طبری، دلائل الامامه، ص519-523؛ راوندی، الخرائج و الجرائح، ج2، ص702
  8. جباری، سازمان وکالت، ج2، ص557
  9. صدوق، کمال الدین، ص442
  10. شیخ مفید، الإرشاد، ج2، ص360
  11. جباری، سازمان وکالت، ج2، ص559
  12. رجال کشی، ص534

مآخذ

  • جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ترجمہ محمد تقی آیت اللہی، تہران، امیر کبیر، 1367ہجری شمسی۔
  • جباری، محمد رضا، سازمان وکالت، چهارم، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، 1382ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، 1426ھ۔
  • شیخ طوسی، رجال الطوسی، نجف، مکتبه الحیدریہ، 1380ھ۔
  • شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، اول، قم، کنگره شیخ مفید، 1413ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الإمامة، اول، قم، بعثت، 1413ھ۔
  • قطب الدین راوندی، الخرائج و الجرائح، تحقیق موسسہ الامام المہدی، قم، موسسہ المہدی، 1409ھ۔
  • کشی، اختیار معرفہ الرجال (رجال کشی)،‌ تصحیح حسن مصطفوی، دانشگاه مشہد، 1348ہجری شمسی۔
  • کلینی، کافی، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1377ہجری شمسی۔