عہد نامہ مالک اشتر

ویکی شیعہ سے
نسخہ کا نام مکتوب نمبر
المعجم المفہرس، صبحی صالح، فیض الاسلام،
ملاصالح، ابن ابی الحدید، عبده
53
ابن میثم، خوئی، فی ظلال 52
ملافتح اللہ 56

عہد نامہ مالک اشتر، من جملہ ان مکتوبات میں سے ہے جسے امام علی(ع) نے مالک اشتر کو مصر کی گونری پر منصوب کرنے کے بعد انہیں حکمرانی کے آداب و اصول کی طرف متوجہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے۔

یہ عہدنامہ، امام علی(ع) سے منسوب مفصل ترین مکتوبات میں سے ایک ہے اور دنیا کی کئی زندہ زبانوں میں اس کا ترجمہ اور شرح لکھی گئی ہے۔ آداب الملوک نامی کتاب فارسی زبان میں اس مکتوب کی شرح ہے۔

نہج البلاغہ کے موجودہ نسخوں کی ترتیب میں اس مکتوب کا نمبر متفاوت ہے۔[1]

چاپلوسوں سے دور رہو

پھر تمہارے نزدیک لوگوں میں زیادہ ترجیح ان لوگوں کو ہونا چاہئے کہ جو حق کی کڑوی باتیں تم سے کھل کرکہنے والے ہوں اور ان چیزوں میں جنہیں اللہ اپنے مخصوص بندوں کے لئے ناپسند کرتا ہے تمہاری بہت کم مدد کرنے والے ہوں چاہئے وہ تمہاری خواہشوں سے کتنی ہی میل کھاتی ہوں۔ پرہیزگاروں اور راستبازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا ۔پھر انہیں اس کا عادی بنا نا کہ وہ تمہارے کسی کارنامے کے بغیر تمہاری تعریف کرکے تمہیں خوش نہ کریں ۔کیونکہ زیادہ مدح سرائی غرور پیدا کرتی ہے اور سرکشی کی منزل سے قریب کر دیتی ہے۔

امام علیؑ، نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، نامہ ۵۳، ص۳۲۸

مضامین

ناحق خون ریزی سے پرہیز کرو

دیکھو ! ناحق خون ریزیوں سے دامن بچائے رکھنا۔ کیونکہ عذاب الہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں کے سلب ہونے اور عمر کے خاتمہ کا سبب نا حق خون ریزی سے زیادہ کوئی شۓنہیں ہے اور قیامت کے دن اللہ سبحانہ سب سے پہلے جو فیصلہ کرے گا وہ انہیں خونوں کا جو بندگانِ خدا نے ایک دوسرے کے بہائے ہیں ۔لہذا نا حق خون بہا کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کبھی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلاکر دینے والی ہوتی ہے ،بلکہ اس کو بنیادوں سے ہلاکر دوسروں کو سونپ دینے والی، اور جان بوجھ کر قتل کے جرم میں اللہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر چل سکے گا ،نہ میرے سامنے، کیونکہ اس میں قصاص ضروری ہے ۔ اور اگر غلطی سے تم اس کے مرتکب ہو جاؤ اور سزا دینے میں تمہارا کوڑا یا تلوار یا ہاتھ حد سے بڑھ جا ئے اس لئے کہ کبھی گھونسا اور اس سے بھی چھوٹی ضرب ہلاکت کا سبب ہو جایا کرتی ہے تو ایسی صورت میں اقتدار کے نشہ میں بےخود ہو کر مقتول کا خون بہا اس کے وارثوّں تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کرنا ۔

امام علیؑ، نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، نامہ ۵۳، ص۳۳۹-۳۴۰

گھمنڈ اور خود پسندی سے پرہیز کرو

دیکھو! خود پسندی سے بچتے رہنا اور اپنی جو باتیں اچھی معلوم ہوں اُن پر اِترانا نہیں اور نہ لوگوں کے بڑھا چڑھا کر سراہنے کو پسند کرنا ۔کیونکہ شیطان کو جو مواقع ملاکرتے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک بھروسے کا ایک ذریعہ ہے کہ وہ اس طرح نیکوکاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے ۔

امام علیؑ، نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، نامہ ۵۳، ص۳۴۰

امام علی(ع) نے اس خط کو مالک اشتر کیلئے اس وقت تحریر فرمایا جب آپ نے اسے مصر کی گورنری پر منصوب فرمایا تھا اسلئے اس کے اکثر مضامین حکمرانوں اور حکومتی کارندوں کا عام مسلمان اور غیر مسلمان شہریوں کے ساتھ برتاؤ اور ملک کی ترقی اور پیشرفت کیلئے حکمرانوں کے وظائف کی بیان میں ہے۔ اس حوالے سے امام علی(ع) کی جانب سے مالک اشتر کو مصر کے گورنر کے عنوان سے کرنے والے بعض سفارشات درج ذیل ہیں:

  1. ہر حال میں عدل اور انصاف کی رعایت کرنا۔
  2. عام لوگوں [اکثریت] کی خوشنودی کا حصول [2]
  3. لوگوں کی عیب‌جویی کے پیچھے نہ پڑھنا اور ان کے عیبوں کو چھپانا۔
  4. لوگوں پر حسن ظن رکھنا۔[3]
  5. شہروں کی آبادانی کیلئے دانشوروں سے مشورہ کرنا۔[4]
  6. معاشرے کی طبقہ‌بندی اور یہ کہ ہر طبقے کے مخصوص حقوق۔[5]
  7. قاضی کے اوصاف۔ [6]
  8. حکومتی مسئولین کے اوصاف۔
  9. ٹیکس سے زیادہ شہروں کی آبادانی پر توجہ دینا۔[7]
  10. شرائط کاتبین۔
  11. تاجروں اور صنعتگروں کے ساتھ اچھا برتاؤ۔[8]
  12. معاشرے کے نچلے طبقے کی خاص نگرانی۔
  13. نماز جماعت کے دوران ضعیف اور ناتوان نماز گزار کی رعایت کرنا۔
  14. بیت المال میں رشتہ داروں اور خواص کو فوقیت نہ دینا۔[9]
  15. لوگوں کی بدگمانی کو دور کرنا۔[10]
  16. دشمن کے ساتھ صلح (اگر دشمن کی طرف سے صلح کی درخواست اور خدا کی رضایت بھی اسی میں ہو تو)[11]
  17. عہد و پیمان کو پورا کرنا اور اس پر ثابت قدم رہنا۔[12]

ترجمہ‌

گذشتگان کی نیک سیرت اپنانا

تمہارے اوپر لازم ہے کہ گذشتہ زمانوں کی چیزوں کو یاد رکھو خواہ کسی عادل حکومت کا طریقہ کار ہو یا کوئی اچھا عمل درآمد ہو یا رسولﷺ کی کوئی حدیث ہو ، یا کتاب اللہ میں درج شدہ کوئی فریضہ ہو ،تو ان چیزوں کی پیروی کرو جن پر عمل کرتے ہو ئے ہمیں دیکھا ہے اور ان ہدایات پر عمل کرتے رہنا جو میں نے اس عہد نامہ میں درج کی ہیں اور ان کے ذریعہ سے میں نے اپنی حجت تم پر قائم کر دی ہے تاکہ تمہارا نفس اپنی خواہشات کی طرف بڑھے تو تمہارے پاس کوئی عذر نہ ہو ۔

امام علیؑ، نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، نامہ ۵۳، ص۳۴۱

  1. آئین جہانداری، عہد نامہ مالک اشتر اور نہج البلاغہ کے بعض دوسرے خطبوں کا ترجمہ، مترجم، محمد علی انصاری قمی منظوم نہج البلاغہ کے مصنف، سن ۱۳۸۵ ۔[13]
  2. تحفۃ الملوک- ترجمہ عہد نامہ مالک اشتر.[14]
  3. تحفۃ الولی ترجمہ عہد نامہ مالک اشتر. فارسی. مترجم محمد حسین بن احمد بن محمد بن سمیع یزدی، تاریخ تألیف ۱۲۲۷، مشہد، صاحب ذریعہ نے کربلا کے ایک لائبریری میں اس نسخے کو دیکھا ہے۔[15]
  4. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، مترجم، نامعلوم (دسویں یا گیارہویں صدی ہجری) [16]
  5. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، مترجم، سید صادق حسینی (تیرہویں صدی ہجری).[17]
  6. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، مترجم، صادق بن علی حسینی معاصر ناصر الدین شاہ قاجار شاید پہلی والی کتاب ہو۔[18]
  7. ترجمہ عہد مالک اشتر، عربی، مترجم، میرزا آقاخان عبد الحسین بن عبد الرحیم بردسیری کرمانی مقتول سن ۱۳۱۴ق، تہران ۔ [19]
  8. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، مترجم عبد الواسع توفی (بارہویں صدی ہجری) یہ نسخہ ایران کے پارلیمنٹ میں موجود لائبریری میں موجود ہے۔[20]
  9. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، علیرضا (گیارہویں صدی ہجری) مترجم شاید میرزا علیرضا تجلی ہو۔ [21]
  10. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، مترجم محمد ابراہیم نواب بدایعنگار، وفات ۱۲۹۹ یہ ترجمہ سن ۱۲۷۳ میں انجام پایا اور سن ۱۲۸۶ میں منظر عام پر آگیا ہے۔[22]
  11. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، مترجم، محمد ابراہیم نواب، یونورسٹی کے مرکزی لائبریری میں یہ نسخہ موجود ہے۔[23]
  12. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، مترجم، محمدباقر بن اسماعیل خاتون‌آبادی، تاریخ تقریبا ۱۱۱۵ق. نسخہ مورخ ۱۱۱۵ قومی لائبریری میں موجود ہے۔[24]
  13. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، مترجم، محمد صادق مروزی تاریخ دان (تیرہویں صدی ہجری) یہ نسخہ کتابخانہ ملک میں موجود ہے۔[25]
  14. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، مترجم، محمد بن مہدی بہشتی (تیرہویں صدی ہجری) اس کا اصل نسخہ شاید قومی لائبریری میں موجود ہے۔ [26]
  15. ترجمہ عہد مالک اشتر، فارسی، مترجم نامعلوم نسخہ مورخ ۱۳۱۰ قومی لائبریری میں موجود ہے۔[27]
  16. دستور حکومت: حضرت علی(ع) کی طرف سے مالک اشتر کو دیا گیا فرمان چار زبان میں ترجمہ ہوا ہے، عربی، منتخب نہج البلاغہ، فارس، مترجم، محمد‌حسین فروغی؛ فرانسیسی زبان میں صادقیان کے قلم سے؛ انگلش میں باقری کے قلم سے؛ شعر، وقار شیرازی کی زبانی۔[28]
  17. عہد نامہ مالک اشتر کا منظوم ترجمہ، شاعر: وقار شیرازی وفات ۱۲۹۸ اور شاید وہی رموز الامارۃ ہو۔ [29]
  18. نظم عہد مالک، ترکی زبان میں، مترجم و شاعر، جلال الدین محمد، سن ۱۳۰۴ ترکی میں چھپ چکا ہے۔[30]

شرح

  1. آداب الملوک: مالک اشتر کو امیرالمومنین علی(ع) کے فرمان کا ترجمہ اور شرح، مولف محمد رفیع الحسینی الطباطبائی جو کہ نظام العلماء تبریزی کے نام سے مشہور ہیں (١٢٥٠-١٣٢٦ق) ابن میثم بحرانی اور علامہ محمد تقی جعفری، کی دو شرح کا خلاصہ، تصیح، تحقیق اور تعلیم: ابراہیم صفری. [31]
  2. مالک اشتر کے عہد نامے کے معاشی نکات پر غوروفکر، رضا اکبریان. [32]
  3. مالک اشتر کے عہد بیعۃ الاناخم کی ترجمہ اور شرح. فارسی. علی بن میرزا احمد سے (تیرہویں صدی) منتشر ہونے کی تاریخ ١٢٣٥ جو کہ ٤١٤ صفحوں پر مشتمل ہے.[33]
  4. مالک اشتر کے عہد تحفہ سلیمانیہ کی ترجمہ اور شرح. فارسی. سید ماجدین محمد حسین بحرانی سے (گیارہویں صدی) سنہ ١٣٠١ق، جس کے چاپ ہوئے صفحے ٣٠٤ ہیں.[34]
  5. مالک اشتر کا عہد تحفہ علویہ کی شرح اور ترجمہ. فارسی. مولف سنہ ١١٠١ کو اسے لکھنے میں مشغول تھا اور تحفہ سلیمانیہ کے علاوہ کچھ چاپ ہوا ہے. ٢٠٧ صفحوں پر مشتمل کتاب قم کے مدرسہ فیضیہ میں موجود ہے.[35]
  6. مالک اشتر نخعی رفع اللہ درجاتہ کو امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) کی طرف سے حکومت کا حکم، ترجمہ اور تحقیق: محمد حسین ذکا آالملک جن کا تخلص فروغی ہے.[36]
  7. مالک اشتر کے عہد دستور حکمت دستور حکومت کا ترجمہ. فارسی. احمد بن حافظ عقیل کرمانی سے جن کا تخلص ادیب ہے وفات سنہ ١٣٢٩. سنہ ١٣٢١ کو چاپ ہوئی ہے اس کتاب کا خطبہ ذکاء الملک فروغی سے ہے.[37]
  8. دستور حکومت. مالک اشتر کے عہد کا ترجمہ و شرح. فارسی. جو کہ شیخ محمد علی واعظ ہمت آبادی کے ہاتھوں چاپ ہوئی ہے. [38]
  9. الراعی والرعیہ: کلکم راع و کلکم مسوول عن رعیتہ امام علی علیہ السلام کے عہد کی شرح الی ملک الاشتر حین ولاہ مصر، توفیق الفکیکی.[39]
  10. مالک اشتر کے عہد رموز الامارہ کی ترتیب رموز الامارہ کی شرح و ترجمہ. فارسی. وقار شیرازی سے وفات سنہ ١٢٩٨. سنہ ١٢٧٤و١٣٣١ق. چاپ ہوئی اور کتاب سخن سرایان فارس میں لکھتے ہیں: اور اب سرھنگ صادقیان کی کوشش سے چار زبانوں میں چاپ ہوئی چکی ہے.[40]
  11. سلوک الولاۃ،، سلوک ولاۃ العدل، آداب الولاۃ، رسالہ فی سلوک الولاۃ، سلوک الولاۃ کا ترجمہ، مالک اشتر کے عہد کا ترجمہ. یہ سب نام عہد مالک اشتر کے ترجمے اور شرح کے نام ہیں علامہ مجلسی م ١١١١ کے توسط[41]
  12. مالک اشتر کے عہد السیاسۃ العلویۃ کی شرح. عربی. شیخ عبدالواحد بن احمد آل مظفر ولادت ١٣١٠. کے توسط.[42]
  13. سیاست نامہ-عہد مالک کے ترجمے اور شرح کی ترتیب. فارسی. میرزا جہانگیر خان حسینی مرندی جو کہ ناظم الملک ضیائی کے نام سے مشہور ہیں وفات ١٣٥٢ ترتیب کی تاریخ ١٣٢٧ جو کہ ترکی اور تبریز میں چاپ ہوئی ہیں.[43]
  14. عہد مالک اشتر کی شرح. فارسی. محمد صالح روغنی کے توسط. تالیف کی تاریخ: ١٠٤٩ جس کی کاپی تہران کی لائبریری سید نصر الہ تقوی میں موجود ہے. [44]
  15. عہد مالک اشتر کی شرح. فارسی. ملا محمد کاظم مہدی استاد اور حرم رضوی کا خادم جو کہ گیارہویں صدی کے علماء سے تھے جس کی کاپی سنہ ١٣٧٧ آستان قدس کی لائبریری میں موجود ہے.[45]
  16. مالک اشتر کے عہد کی شرح. میرزا محمد بن سلیمان تنکابنی جو کہ قصص العلماء کے مولف ہیں ان کے توسط.[46]
  17. مالک اشتر کے عہد کی شرح. فارسی. جس کی نامکمل کاپی قم کی گلپایگانی لائبریری میں موجود ہے.[47]
  18. عہد الاشتر. عربی. مالک اشتر کے رسالہ کی شرح و متن سید ھبہ الدین شہرستانی کے توسط مولفماھو نہج البلاغہ.[48]
  19. مالک اشتر کے عہد عنوان ریاست کا ترجمہ. سید علی اکبر بن سلطان العلماء سید محمد نقی لکھنوی کے توسط وفات سنہ ١٣٢٤.[49]
  20. امام حسن(ع) اور مالک اشتر کو امام(ع) کا فرمان (خط ٣١) . فارسی محمد مقیمی کے توسط چاپ سنہ ١٣٥٤.[50]
  21. حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا مالک اشتر کو فرمان، مولف (تصحیح، جمع آوری اور ترجمہ) جواد فاضل، حمید رضا روحانی کی کوشش، خطاط میر علی اصغر ہاشمی.[51]
  22. القانون الاکبر فی شرح عہد الامام للاشتر. عربی. سید مہدی سویج کے توسط.[52]
  23. قانون الولاۃ فی سیاستہ الرعاہ تاریخ مصر قدیماً. عربی. مالک اشتر کے عہد کی شرح ہے سید محمد حسن بن سید علی موسوی قزوینی نجفی کے ہاتھوں م ١٣٥٨ ق. یہ کتاب، کتاب مصر قدیماً کا دوسرا حصہ ہے. جس کی کاپی مولف کے بھائی سید ضیاء الدین بن سید علی کے پاس تھی. [53]
  24. مع الامام علی(ع) فی عہدہ مالک الاشتر. عربی. شیخ محمد باقر ناصری کے توسط. سنہ ١٣٩٣ کو بیروت میں چاپ ہوئی ہے.[54]
  25. مقتبس السیاسۃ. عربی. مالک اشتر کے عہد کی شرح. شیخ محمد عبدہ یا احمد محمد کاتب مکتب الازھر کے ہاتھوں سنہ ١٣١٧کو مصر میں چاپ ہوئی ہے. [55]
  26. نصایح الملوک اور آداب السلوک. فارسی. مالک اشتر کے عہد کی شرح ہے ابو الحسن شریف عاملی فتونی کے توسط وفات سنہ ١١٣٨.[56]
  27. ہدایات الحسام فی عجائب الہدایات للحکام (مالک اشتر کے عہد نامے کی تفصیلی شرح )، محمد حسین بن علی نقی ہمدانی، جس کی تصحیح اور تحقیق علی رضا ھزار نے کی.[57]


عہد نامہ کا متن اور ترجمہ

متن ترجمه
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

هَذَا مَا أَمَرَ بِهِ عَبْدُ اَللَّهِ عَلِیٌّ أَمِیرُ اَلْمُؤْمِنِینَ مَالِكَ بْنَ اَلْحَارِثِ اَلْأَشْتَرَ فِی عَهْدِهِ إِلَیْهِ حِینَ وَلاَّهُ مِصْرَ جِبَایَةَ خَرَاجِهَا وَ جِهَادَ عَدُوِّهَا وَ اِسْتِصْلاَحَ أَهْلِهَا وَ عِمَارَةَ بِلاَدِهَا أَمَرَهُ بِتَقْوَى اَللَّهِ وَ إِیْثَارِ طَاعَتِهِ وَ اِتِّبَاعِ مَا أَمَرَ بِهِ فِی كِتَابِهِ مِنْ فَرَائِضِهِ وَ سُنَنِهِ اَلَّتِی لاَ یَسْعَدُ أَحَدٌ إِلاَّ بِاتِّبَاعِهَا وَ لاَ یَشْقَى إِلاَّ مَعَ جُحُودِهَا وَ إِضَاعَتِهَا وَ أَنْ یَنْصُرَ اَللَّهَ سُبْحَانَهُ بِقَلْبِهِ وَ یَدِهِ وَ لِسَانِهِ فَإِنَّهُ جَلَّ اِسْمُهُ قَدْ تَكَفَّلَ بِنَصْرِ مَنْ نَصَرَهُ وَ إِعْزَازِ مَنْ أَعَزَّهُ وَ أَمَرَهُ أَنْ یَكْسِرَ نَفْسَهُ مِنَ اَلشَّهَوَاتِ وَ یَزَعَهَا عِنْدَ اَلْجَمَحَاتِ فَإِنَّ اَلنَّفْسَ أَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ اَللَّهُ ثُمَّ اِعْلَمْ یَا مَالِكُ أَنِّی قَدْ وَجَّهْتُكَ إِلَى بِلاَدٍ قَدْ جَرَتْ عَلَیْهَا دُوَلٌ قَبْلَكَ مِنْ عَدْلٍ وَ جَوْرٍ وَ أَنَّ اَلنَّاسَ یَنْظُرُونَ مِنْ أُمُورِكَ فِی مِثْلِ مَا كُنْتَ تَنْظُرُ فِیهِ مِنْ أُمُورِ اَلْوُلاَةِ قَبْلَكَ وَ یَقُولُونَ فِیكَ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِیهِمْ وَ إِنَّمَا یُسْتَدَلُّ عَلَى اَلصَّالِحِینَ بِمَا یُجْرِی اَللَّهُ لَهُمْ عَلَى أَلْسُنِ عِبَادِهِ فَلْیَكُنْ أَحَبَّ اَلذَّخَائِرِ إِلَیْكَ ذَخِیرَةُ اَلْعَمَلِ اَلصَّالِحِ فَامْلِكْ هَوَاكَ وَ شُحَّ بِنَفْسِكَ عَمَّا لاَ یَحِلُّ لَكَ فَإِنَّ اَلشُّحَّ بِالنَّفْسِ اَلْإِنْصَافُ مِنْهَا فِیمَا أَحَبَّتْ أَوْ كَرِهَتْ وَ أَشْعِرْ قَلْبَكَ اَلرَّحْمَةَ لِلرَّعِیَّةِ وَ اَلْمَحَبَّةَ لَهُمْ وَ اَللُّطْفَ بِهِمْ وَ لاَ تَكُونَنَّ عَلَیْهِمْ سَبُعاً ضَارِیاً تَغْتَنِمُ أَكْلَهُمْ فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ إِمَّا أَخٌ لَكَ فِی اَلدِّینِ وَ إِمَّا نَظِیرٌ لَكَ فِی اَلْخَلْقِ یَفْرُطُ مِنْهُمُ اَلزَّلَلُ وَ تَعْرِضُ لَهُمُ اَلْعِلَلُ وَ یُؤْتَى عَلَى أَیْدِیهِمْ فِی اَلْعَمْدِ وَ اَلْخَطَإِ فَأَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وَ صَفْحِكَ مِثْلِ اَلَّذِی تُحِبُّ وَ تَرْضَى أَنْ یُعْطِیَكَ اَللَّهُ مِنْ عَفْوِهِ وَ صَفْحِهِ فَإِنَّكَ فَوْقَهُمْ وَ وَالِی اَلْأَمْرِ عَلَیْكَ فَوْقَكَ وَ اَللَّهُ فَوْقَ مَنْ وَلاَّكَ وَ قَدِ اِسْتَكْفَاكَ أَمْرَهُمْ وَ اِبْتَلاَكَ بِهِمْ وَ لاَ تَنْصِبَنَّ نَفْسَكَ لِحَرْبِ اَللَّهِ فَإِنَّهُ لاَ یَدَ لَكَ بِنِقْمَتِهِ وَ لاَ غِنَى بِكَ عَنْ عَفْوِهِ وَ رَحْمَتِهِ وَ لاَ تَنْدَمَنَّ عَلَى عَفْوٍ وَ لاَ تَبْجَحَنَّ بِعُقُوبَةٍ وَ لاَ تُسْرِعَنَّ إِلَى بَادِرَةٍ وَجَدْتَ مِنْهَا مَنْدُوحَةً وَ لاَ تَقُولَنَّ إِنِّی مُؤَمَّرٌ آمُرُ فَأُطَاعُ فَإِنَّ ذَلِكَ إِدْغَالٌ فِی اَلْقَلْبِ وَ مَنْهَكَةٌ لِلدِّینِ وَ تَقَرُّبٌ مِنَ اَلْغِیَرِ وَ إِذَا أَحْدَثَ لَكَ مَا أَنْتَ فِیهِ مِنْ سُلْطَانِكَ أُبَّهَةً أَوْ مَخِیلَةً فَانْظُرْ إِلَى عِظَمِ مُلْكِ اَللَّهِ فَوْقَكَ وَ قُدْرَتِهِ مِنْكَ عَلَى مَا لاَ تَقْدِرُ عَلَیْهِ مِنْ نَفْسِكَ فَإِنَّ ذَلِكَ یُطَامِنُ إِلَیْكَ مِنْ طِمَاحِكَ وَ یَكُفُّ عَنْكَ مِنْ غَرْبِكَ وَ یَفِی‏ءُ إِلَیْكَ بِمَا عَزَبَ عَنْكَ مِنْ عَقْلِكَ إِیَّاكَ وَ مُسَامَاةَ اَللَّهِ فِی عَظَمَتِهِ وَ اَلتَّشَبُّهَ بِهِ فِی جَبَرُوتِهِ فَإِنَّ اَللَّهَ یُذِلُّ كُلَّ جَبَّارٍ وَ یُهِینُ كُلَّ مُخْتَالٍ أَنْصِفِ اَللَّهَ وَ أَنْصِفِ اَلنَّاسَ مِنْ نَفْسِكَ وَ مِنْ خَاصَّةِ أَهْلِكَ وَ مَنْ لَكَ فِیهِ هَوًى مِنْ رَعِیَّتِكَ فَإِنَّكَ إِلاَّ تَفْعَلْ تَظْلِمْ وَ مَنْ ظَلَمَ عِبَادَ اَللَّهِ كَانَ اَللَّهُ خَصْمَهُ دُونَ عِبَادِهِ وَ مَنْ خَاصَمَهُ اللَّهُ أَدْحَضَ حُجَّتَهُ وَ كَانَ لِلَّهِ حَرْباً حَتَّى یَنْزِعَ أَوْ یَتُوبَ وَ لَیْسَ شَیْ‏ءٌ أَدْعَى إِلَى تَغْیِیرِ نِعْمَةِ اللَّهِ وَ تَعْجِیلِ نِقْمَتِهِ مِنْ إِقَامَةٍ عَلَى ظُلْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ دَعْوَةَ اَلْمُضْطَهَدِینَ وَ هُوَ لِلظَّالِمِینَ بِالْمِرْصَادِ وَ لْیَكُنْ أَحَبَّ اَلْأُمُورِ إِلَیْكَ أَوْسَطُهَا فِی اَلْحَقِّ وَ أَعَمُّهَا فِی اَلْعَدْلِ وَ أَجْمَعُهَا لِرِضَى اَلرَّعِیَّةِ فَإِنَّ سُخْطَ اَلْعَامَّةِ یُجْحِفُ بِرِضَى اَلْخَاصَّةِ وَ إِنَّ سُخْطَ اَلْخَاصَّةِ یُغْتَفَرُ مَعَ رِضَى اَلْعَامَّةِ وَ لَیْسَ أَحَدٌ مِنَ اَلرَّعِیَّةِ أَثْقَلَ عَلَى اَلْوَالِی مَئُونَةً فِی اَلرَّخَاءِ وَ أَقَلَّ مَعُونَةً لَهُ فِی اَلْبَلاَءِ وَ أَكْرَهَ لِلْإِنْصَافِ وَ أَسْأَلَ بِالْإِلْحَافِ وَ أَقَلَّ شُكْراً عِنْدَ اَلْإِعْطَاءِ وَ أَبْطَأَ عُذْراً عِنْدَ اَلْمَنْعِ وَ أَضْعَفَ صَبْراً عِنْدَ مُلِمَّاتِ اَلدَّهْرِ مِنْ أَهْلِ اَلْخَاصَّةِ وَ إِنَّمَا عِمَادُ اَلدِّینِ وَ جِمَاعُ اَلْمُسْلِمِینَ وَ اَلْعُدَّةُ لِلْأَعْدَاءِ اَلْعَامَّةُ مِنَ اَلْأُمَّةِ فَلْیَكُنْ صِغْوُكَ لَهُمْ وَ مَیْلُكَ مَعَهُمْ وَ لْیَكُنْ أَبْعَدَ رَعِیَّتِكَ مِنْكَ وَ أَشْنَأَهُمْ عِنْدَكَ أَطْلَبُهُمْ لِمَعَایِبِ اَلنَّاسِ فَإِنَّ فِی اَلنَّاسِ عُیُوباً اَلْوَالِی أَحَقُّ مَنْ سَتَرَهَا فَلاَ تَكْشِفَنَّ عَمَّا غَابَ عَنْكَ مِنْهَا فَإِنَّمَا عَلَیْكَ تَطْهِیرُ مَا ظَهَرَ لَكَ وَ اَللَّهُ یَحْكُمُ عَلَى مَا غَابَ عَنْكَ فَاسْتُرِ اَلْعَوْرَةَ مَا اِسْتَطَعْتَ یَسْتُرِ اَللَّهُ مِنْكَ مَا تُحِبُّ سَتْرَهُ مِنْ رَعِیَّتِكَ أَطْلِقْ عَنِ اَلنَّاسِ عُقْدَةَ كُلِّ حِقْدٍ وَ اِقْطَعْ عَنْكَ سَبَبَ كُلِّ وِتْرٍ وَ تَغَابَ عَنْ كُلِّ مَا لاَ یَضِحُ لَكَ وَ لاَ تَعْجَلَنَّ إِلَى تَصْدِیقِ سَاعٍ فَإِنَّ اَلسَّاعِیَ غَاشٌّ وَ إِنْ تَشَبَّهَ بِالنَّاصِحِینَ وَ لاَ تُدْخِلَنَّ فِی مَشُورَتِكَ بَخِیلاً یَعْدِلُ بِكَ عَنِ اَلْفَضْلِ وَ یَعِدُكَ اَلْفَقْرَ وَ لاَ جَبَاناً یُضْعِفُكَ عَنِ اَلْأُمُورِ وَ لاَ حَرِیصاً یُزَیِّنُ لَكَ اَلشَّرَهَ بِالْجَوْرِ فَإِنَّ اَلْبُخْلَ وَ اَلْجُبْنَ وَ اَلْحِرْصَ غَرَائِزُ شَتَّى یَجْمَعُهَا سُوءُ اَلظَّنِّ بِاللَّهِ إِنَّ شَرَّ وُزَرَائِكَ مَنْ كَانَ لِلْأَشْرَارِ قَبْلَكَ وَزِیراً وَ مَنْ شَرِكَهُمْ فِی اَلْآثَامِ فَلاَ یَكُونَنَّ لَكَ بِطَانَةً فَإِنَّهُمْ أَعْوَانُ اَلْأَثَمَةِ وَ إِخْوَانُ اَلظَّلَمَةِ وَ أَنْتَ وَاجِدٌ مِنْهُمْ خَیْرَ اَلْخَلَفِ مِمَّنْ لَهُ مِثْلُ آرَائِهِمْ وَ نَفَاذِهِمْ وَ لَیْسَ عَلَیْهِ مِثْلُ آصَارِهِمْ وَ أَوْزَارِهِمْ وَ آثَامِهِمْ مِمَّنْ لَمْ یُعَاوِنْ ظَالِماً عَلَى ظُلْمِهِ وَ لاَ آثِماً عَلَى إِثْمِهِ أُولَئِكَ أَخَفُّ عَلَیْكَ مَئُونَةً وَ أَحْسَنُ لَكَ مَعُونَةً وَ أَحْنَى عَلَیْكَ عَطْفاً وَ أَقَلُّ لِغَیْرِكَ إِلْفاً فَاتَّخِذْ أُولَئِكَ خَاصَّةً لِخَلَوَاتِكَ وَ حَفَلاَتِكَ ثُمَّ لْیَكُنْ آثَرُهُمْ عِنْدَكَ أَقْوَلَهُمْ بِمُرِّ اَلْحَقِّ لَكَ وَ أَقَلَّهُمْ مُسَاعَدَةً فِیمَا یَكُونُ مِنْكَ مِمَّا كَرِهَ اَللَّهُ لِأَوْلِیَائِهِ وَاقِعاً ذَلِكَ مِنْ هَوَاكَ حَیْثُ وَقَعَ وَ الْصَقْ بِأَهْلِ اَلْوَرَعِ وَ اَلصِّدْقِ ثُمَّ رُضْهُمْ عَلَى أَلاَّ یُطْرُوكَ وَ لاَ یَبْجَحُوكَ بِبَاطِلٍ لَمْ تَفْعَلْهُ فَإِنَّ كَثْرَةَ اَلْإِطْرَاءِ تُحْدِثُ اَلزَّهْوَ وَ تُدْنِی مِنَ اَلْعِزَّةِ وَ لاَ یَكُونَنَّ اَلْمُحْسِنُ وَ اَلْمُسِی‏ءُ عِنْدَكَ بِمَنْزِلَةٍ سَوَاءٍ فَإِنَّ فِی ذَلِكَ تَزْهِیداً لِأَهْلِ اَلْإِحْسَانِ فِی اَلْإِحْسَانِ وَ تَدْرِیباً لِأَهْلِ اَلْإِسَاءَةِ عَلَى اَلْإِسَاءَةِ وَ أَلْزِمْ كُلاًّ مِنْهُمْ مَا أَلْزَمَ نَفْسَهُ وَ اِعْلَمْ أَنَّهُ لَیْسَ شَیْ‏ءٌ بِأَدْعَى إِلَى حُسْنِ ظَنِّ رَاعٍ بِرَعِیَّتِهِ مِنْ إِحْسَانِهِ إِلَیْهِمْ وَ تَخْفِیفِهِ اَلْمَئُونَاتِ عَلَیْهِمْ وَ تَرْكِ اِسْتِكْرَاهِهِ إِیَّاهُمْ عَلَى مَا لَیْسَ لَهُ قِبَلَهُمْ فَلْیَكُنْ مِنْكَ فِی ذَلِكَ أَمْرٌ یَجْتَمِعُ لَكَ بِهِ حُسْنُ اَلظَّنِّ بِرَعِیَّتِكَ فَإِنَّ حُسْنَ اَلظَّنِّ یَقْطَعُ عَنْكَ نَصَباً طَوِیلاً وَ إِنَّ أَحَقَّ مَنْ حَسُنَ ظَنُّكَ بِهِ لَمَنْ حَسُنَ بَلاَؤُكَ عِنْدَهُ وَ إِنَّ أَحَقَّ مَنْ سَاءَ ظَنُّكَ بِهِ لَمَنْ سَاءَ بَلاَؤُكَ عِنْدَهُ وَ لاَ تَنْقُضْ سُنَّةً صَالِحَةً عَمِلَ بِهَا صُدُورُ هَذِهِ اَلْأُمَّةِ وَ اِجْتَمَعَتْ بِهَا اَلْأُلْفَةُ وَ صَلَحَتْ عَلَیْهَا اَلرَّعِیَّةُ وَ لاَ تُحْدِثَنَّ سُنَّةً تَضُرُّ بِشَیْ‏ءٍ مِنْ مَاضِی تِلْكَ اَلسُّنَنِ فَیَكُونَ اَلْأَجْرُ لِمَنْ سَنَّهَا وَ اَلْوِزْرُ عَلَیْكَ بِمَا نَقَضْتَ مِنْهَا وَ أَكْثِرْ مُدَارَسَةَ اَلْعُلَمَاءِ وَ مُنَاقَشَةَ اَلْحُكَمَاءِ فِی تَثْبِیتِ مَا صَلَحَ عَلَیْهِ أَمْرُ بِلاَدِكَ وَ إِقَامَةِ مَا اِسْتَقَامَ بِهِ اَلنَّاسُ قَبْلَكَ وَ اِعْلَمْ أَنَّ اَلرَّعِیَّةَ طَبَقَاتٌ لاَ یَصْلُحُ بَعْضُهَا إِلاَّ بِبَعْضٍ وَ لاَ غِنَى بِبَعْضِهَا عَنْ بَعْضٍ فَمِنْهَا جُنُودُ اَللَّهِ وَ مِنْهَا كُتَّابُ اَلْعَامَّةِ وَ اَلْخَاصَّةِ وَ مِنْهَا قُضَاةُ اَلْعَدْلِ وَ مِنْهَا عُمَّالُ اَلْإِنْصَافِ وَ اَلرِّفْقِ وَ مِنْهَا أَهْلُ اَلْجِزْیَةِ وَ اَلْخَرَاجِ مِنْ أَهْلِ اَلذِّمَّةِ وَ مُسْلِمَةِ اَلنَّاسِ وَ مِنْهَا اَلتُّجَّارُ وَ أَهْلُ اَلصِّنَاعَاتِ وَ مِنْهَا اَلطَّبَقَةُ اَلسُّفْلَى مِنْ ذَوِی اَلْحَاجَةِ وَ اَلْمَسْكَنَةِ وَ كُلٌّ قَدْ سَمَّى اَللَّهُ لَهُ سَهْمَهُ وَ وَضَعَ عَلَى حَدِّهِ فَرِیضَةً فِی كِتَابِهِ أَوْ سُنَّةِ نَبِیِّهِ ص عَهْداً مِنْهُ عِنْدَنَا مَحْفُوظاً فَالْجُنُودُ بِإِذْنِ اَللَّهِ حُصُونُ اَلرَّعِیَّةِ وَ زَیْنُ اَلْوُلاَةِ وَ عِزُّ اَلدِّینِ وَ سُبُلُ اَلْأَمْنِ وَ لَیْسَ تَقُومُ اَلرَّعِیَّةُ إِلاَّ بِهِمْ ثُمَّ لاَ قِوَامَ لِلْجُنُودِ إِلاَّ بِمَا یُخْرِجُ اَللَّهُ لَهُمْ مِنَ اَلْخَرَاجِ اَلَّذِی یَقْوَوْنَ بِهِ عَلَى جِهَادِ عَدُوِّهِمْ وَ یَعْتَمِدُونَ عَلَیْهِ فِیمَا یُصْلِحُهُمْ وَ یَكُونُ مِنْ وَرَاءِ حَاجَتِهِمْ ثُمَّ لاَ قِوَامَ لِهَذَیْنِ اَلصِّنْفَیْنِ إِلاَّ بِالصِّنْفِ اَلثَّالِثِ مِنَ اَلْقُضَاةِ وَ اَلْعُمَّالِ وَ اَلْكُتَّابِ لِمَا یُحْكِمُونَ مِنَ اَلْمَعَاقِدِ وَ یَجْمَعُونَ مِنَ اَلْمَنَافِعِ وَ یُؤْتَمَنُونَ عَلَیْهِ مِنْ خَوَاصِّ اَلْأُمُورِ وَ عَوَامِّهَا وَ لاَ قِوَامَ لَهُمْ جَمِیعاً إِلاَّ بِالتُّجَّارِ وَ ذَوِی اَلصِّنَاعَاتِ فِیمَا یَجْتَمِعُونَ عَلَیْهِ مِنْ مَرَافِقِهِمْ وَ یُقِیمُونَهُ مِنْ أَسْوَاقِهِمْ وَ یَكْفُونَهُمْ مِنَ اَلتَّرَفُّقِ بِأَیْدِیهِمْ مَا لاَ یَبْلُغُهُ رِفْقُ غَیْرِهِمْ ثُمَّ اَلطَّبَقَةُ اَلسُّفْلَى مِنْ أَهْلِ اَلْحَاجَةِ وَ اَلْمَسْكَنَةِ اَلَّذِینَ یَحِقُّ رِفْدُهُمْ وَ مَعُونَتُهُمْ وَ فِی اَللَّهِ لِكُلٍّ سَعَةٌ وَ لِكُلٍّ عَلَى اَلْوَالِی حَقٌّ بِقَدْرِ مَا یُصْلِحُهُ وَ لَیْسَ یَخْرُجُ اَلْوَالِی مِنْ حَقِیقَةِ مَا أَلْزَمَهُ اَللَّهُ مِنْ ذَلِكَ إِلاَّ بِالاِهْتِمَامِ وَ اَلاِسْتِعَانَةِ بِاللَّهِ وَ تَوْطِینِ نَفْسِهِ عَلَى لُزُومِ اَلْحَقِّ وَ اَلصَّبْرِ عَلَیْهِ فِیمَا خَفَّ عَلَیْهِ أَوْ ثَقُلَ فَوَلِّ مِنْ جُنُودِكَ أَنْصَحَهُمْ فِی نَفْسِكَ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ وَ لِإِمَامِكَ وَ أَنْقَاهُمْ جَیْباً وَ أَفْضَلَهُمْ حِلْماً مِمَّنْ یُبْطِئُ عَنِ اَلْغَضَبِ وَ یَسْتَرِیحُ إِلَى اَلْعُذْرِ وَ یَرْأَفُ بِالضُّعَفَاءِ وَ یَنْبُو عَلَى اَلْأَقْوِیَاءِ وَ مِمَّنْ لاَ یُثِیرُهُ اَلْعُنْفُ وَ لاَ یَقْعُدُ بِهِ اَلضَّعْفُ ثُمَّ اِلْصَقْ بِذَوِی اَلْمُرُوءَاتِ وَ اَلْأَحْسَابِ وَ أَهْلِ اَلْبُیُوتَاتِ اَلصَّالِحَةِ وَ اَلسَّوَابِقِ اَلْحَسَنَةِ ثُمَّ أَهْلِ اَلنَّجْدَةِ وَ اَلشَّجَاعَةِ وَ اَلسَّخَاءِ وَ اَلسَّمَاحَةِ فَإِنَّهُمْ جِمَاعٌ مِنَ اَلْكَرَمِ وَ شُعَبٌ مِنَ اَلْعُرْفِ ثُمَّ تَفَقَّدْ مِنْ أُمُورِهِمْ مَا یَتَفَقَّدُ اَلْوَالِدَانِ مِنْ وَلَدِهِمَا وَ لاَ یَتَفَاقَمَنَّ فِی نَفْسِكَ شَیْ‏ءٌ قَوَّیْتَهُمْ بِهِ وَ لاَ تَحْقِرَنَّ لُطْفاً تَعَاهَدْتَهُمْ بِهِ وَ إِنْ قَلَّ فَإِنَّهُ دَاعِیَةٌ لَهُمْ إِلَى بَذْلِ اَلنَّصِیحَةِ لَكَ وَ حُسْنِ اَلظَّنِّ بِكَ وَ لاَ تَدَعْ تَفَقُّدَ لَطِیفِ أُمُورِهِمُ اِتِّكَالاً عَلَى جَسِیمِهَا فَإِنَّ لِلْیَسِیرِ مِنْ لُطْفِكَ مَوْضِعاً یَنْتَفِعُونَ بِهِ وَ لِلْجَسِیمِ مَوْقِعاً لاَ یَسْتَغْنُونَ عَنْهُ وَ لْیَكُنْ آثَرُ رُءُوسِ جُنْدِكَ عِنْدَكَ مَنْ وَاسَاهُمْ فِی مَعُونَتِهِ وَ أَفْضَلَ عَلَیْهِمْ مِنْ جِدَتِهِ بِمَا یَسَعُهُمْ وَ یَسَعُ مَنْ وَرَاءَهُمْ مِنْ خُلُوفِ أَهْلِیهِمْ حَتَّى یَكُونَ هَمُّهُمْ هَمّاً وَاحِداً فِی جِهَادِ اَلْعَدُوِّ فَإِنَّ عَطْفَكَ عَلَیْهِمْ یَعْطِفُ قُلُوبَهُمْ عَلَیْكَ وَ إِنَّ أَفْضَلَ قُرَّةِ عَیْنِ اَلْوُلاَةِ اِسْتِقَامَةُ اَلْعَدْلِ فِی اَلْبِلاَدِ وَ ظُهُورُ مَوَدَّةِ اَلرَّعِیَّةِ و إِنَّهُ لاَ تَظْهَرُ مَوَدَّتُهُمْ إِلاَّ بِسَلاَمَةِ صُدُورِهِمْ وَ لاَ تَصِحُّ نَصِیحَتُهُمْ إِلاَّ بِحِیطَتِهِمْ عَلَى وُلاَةِ اَلْأُمُورِ وَ قِلَّةِ اِسْتِثْقَالِ دُوَلِهِمْ وَ تَرْكِ اِسْتِبْطَاءِ اِنْقِطَاعِ مُدَّتِهِمْ فَافْسَحْ فِی آمَالِهِمْ وَ وَاصِلْ فِی حُسْنِ اَلثَّنَاءِ عَلَیْهِمْ وَ تَعْدِیدِ مَا أَبْلَى ذَوُو اَلْبَلاَءِ مِنْهُمْ فَإِنَّ كَثْرَةَ اَلذِّكْرِ لِحُسْنِ أَفْعَالِهِمْ تَهُزُّ اَلشُّجَاعَ وَ تُحَرِّضُ اَلنَّاكِلَ إِنْ شَاءَ اَللَّهُ ثُمَّ اِعْرِفْ لِكُلِّ اِمْرِئٍ مِنْهُمْ مَا أَبْلَى وَ لاَ تَضُمَّنَّ بَلاَءَ اِمْرِئٍ إِلَى غَیْرِهِ وَ لاَ تُقَصِّرَنَّ بِهِ دُونَ غَایَةِ بَلاَئِهِ وَ لاَ یَدْعُوَنَّكَ شَرَفُ اِمْرِئٍ إِلَى أَنْ تُعْظِمَ مِنْ بَلاَئِهِ مَا كَانَ صَغِیراً وَ لاَ ضَعَةُ اِمْرِئٍ إِلَى أَنْ تَسْتَصْغِرَ مِنْ بَلاَئِهِ مَا كَانَ عَظِیماً وَ اُرْدُدْ إِلَى اَللَّهِ وَ رَسُولِهِ مَا یُضْلِعُكَ مِنَ اَلْخُطُوبِ وَ یَشْتَبِهُ عَلَیْكَ مِنَ اَلْأُمُورِ فَقَدْ قَالَ اَللَّهُ تَعَالَى لِقَوْمٍ أَحَبَّ إِرْشَادَهُمْ یا أَیُّهَا اَلَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اَللَّهَ وَ أَطِیعُوا اَلرَّسُولَ وَ أُولِی اَلْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِی شَیْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اَللَّهِ وَ اَلرَّسُولِ فَالرَّدُّ إِلَى اَللَّهِ اَلْأَخْذُ بِمُحْكَمِ كِتَابِهِ وَ اَلرَّدُّ إِلَى اَلرَّسُولِ اَلْأَخْذُ بِسُنَّتِهِ اَلْجَامِعَةِ غَیْرِ اَلْمُفَرِّقَةِ ثُمَّ اِخْتَرْ لِلْحُكْمِ بَیْنَ اَلنَّاسِ أَفْضَلَ رَعِیَّتِكَ فِی نَفْسِكَ مِمَّنْ لاَ تَضِیقُ بِهِ اَلْأُمُورُ وَ لاَ تُمَحِّكُهُ اَلْخُصُومُ وَ لاَ یَتَمَادَى فِی اَلزَّلَّةِ وَ لاَ یَحْصَرُ مِنَ اَلْفَیْ‏ءِ إِلَى اَلْحَقِّ إِذَا عَرَفَهُ وَ لاَ تُشْرِفُ نَفْسُهُ عَلَى طَمَعٍ وَ لاَ یَكْتَفِی بِأَدْنَى فَهْمٍ دُونَ أَقْصَاهُ وَ أَوْقَفَهُمْ فِی اَلشُّبُهَاتِ وَ آخَذَهُمْ بِالْحُجَجِ وَ أَقَلَّهُمْ تَبَرُّماً بِمُرَاجَعَةِ اَلْخَصْمِ وَ أَصْبَرَهُمْ عَلَى تَكَشُّفِ اَلْأُمُورِ وَ أَصْرَمَهُمْ عِنْدَ اِتِّضَاحِ اَلْحُكْمِ مِمَّنْ لاَ یَزْدَهِیهِ إِطْرَاءٌ وَ لاَ یَسْتَمِیلُهُ إِغْرَاءٌ وَ أُولَئِكَ قَلِیلٌ ثُمَّ أَكْثِرْ تَعَاهُدَ قَضَائِهِ وَ اِفْسَحْ لَهُ فِی اَلْبَذْلِ مَا یُزِیلُ عِلَّتَهُ وَ تَقِلُّ مَعَهُ حَاجَتُهُ إِلَى اَلنَّاسِ وَ أَعْطِهِ مِنَ اَلْمَنْزِلَةِ لَدَیْكَ مَا لاَ یَطْمَعُ فِیهِ غَیْرُهُ مِنْ خَاصَّتِكَ لِیَأْمَنَ بِذَلِكَ اِغْتِیَالَ اَلرِّجَالِ لَهُ عِنْدَكَ فَانْظُرْ فِی ذَلِكَ نَظَراً بَلِیغاً فَإِنَّ هَذَا اَلدِّینَ قَدْ كَانَ أَسِیراً فِی أَیْدِی اَلْأَشْرَارِ یُعْمَلُ فِیهِ بِالْهَوَى وَ تُطْلَبُ بِهِ اَلدُّنْیَا ثُمَّ اُنْظُرْ فِی أُمُورِ عُمَّالِكَ فَاسْتَعْمِلْهُمُ اِخْتِبَاراً وَ لاَ تُوَلِّهِمْ مُحَابَاةً وَ أَثَرَةً فَإِنَّهُمَا جِمَاعٌ مِنْ شُعَبِ اَلْجَوْرِ وَ اَلْخِیَانَةِ وَ تَوَخَّ مِنْهُمْ أَهْلَ اَلتَّجْرِبَةِ وَ اَلْحَیَاءِ مِنْ أَهْلِ اَلْبُیُوتَاتِ اَلصَّالِحَةِ وَ اَلْقَدَمِ فِی اَلْإِسْلاَمِ اَلْمُتَقَدِّمَةِ فَإِنَّهُمْ أَكْرَمُ أَخْلاَقاً وَ أَصَحُّ أَعْرَاضاً وَ أَقَلُّ فِی اَلْمَطَامِعِ إِشْرَاقاً وَ أَبْلَغُ فِی عَوَاقِبِ اَلْأُمُورِ نَظَراً ثُمَّ أَسْبِغْ عَلَیْهِمُ اَلْأَرْزَاقَ فَإِنَّ ذَلِكَ قُوَّةٌ لَهُمْ عَلَى اِسْتِصْلاَحِ أَنْفُسِهِمْ وَ غِنًى لَهُمْ عَنْ تَنَاوُلِ مَا تَحْتَ أَیْدِیهِمْ وَ حُجَّةٌ عَلَیْهِمْ إِنْ خَالَفُوا أَمْرَكَ أَوْ ثَلَمُوا أَمَانَتَكَ ثُمَّ تَفَقَّدْ أَعْمَالَهُمْ وَ اِبْعَثِ اَلْعُیُونَ مِنْ أَهْلِ اَلصِّدْقِ وَ اَلْوَفَاءِ عَلَیْهِمْ فَإِنَّ تَعَاهُدَكَ فِی اَلسِّرِّ لِأُمُورِهِمْ حَدْوَةٌ لَهُمْ عَلَى اِسْتِعْمَالِ اَلْأَمَانَةِ وَ اَلرِّفْقِ بِالرَّعِیَّةِ وَ تَحَفَّظْ مِنَ اَلْأَعْوَانِ فَإِنْ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَسَطَ یَدَهُ إِلَى خِیَانَةٍ اِجْتَمَعَتْ بِهَا عَلَیْهِ عِنْدَكَ أَخْبَارُ عُیُونِكَ اِكْتَفَیْتَ بِذَلِكَ شَاهِداً فَبَسَطْتَ عَلَیْهِ اَلْعُقُوبَةَ فِی بَدَنِهِ وَ أَخَذْتَهُ بِمَا أَصَابَ مِنْ عَمَلِهِ ثُمَّ نَصَبْتَهُ بِمَقَامِ اَلْمَذَلَّةِ وَ وَسَمْتَهُ بِالْخِیَانَةِ وَ قَلَّدْتَهُ عَارَ اَلتُّهَمَةِ وَ تَفَقَّدْ أَمْرَ اَلْخَرَاجِ بِمَا یُصْلِحُ أَهْلَهُ فَإِنَّ فِی صَلاَحِهِ وَ صَلاَحِهِمْ صَلاَحاً لِمَنْ سِوَاهُمْ وَ لاَ صَلاَحَ لِمَنْ سِوَاهُمْ إِلاَّ بِهِمْ لِأَنَّ اَلنَّاسَ كُلَّهُمْ عِیَالٌ عَلَى اَلْخَرَاجِ وَ أَهْلِهِ وَ لْیَكُنْ نَظَرُكَ فِی عِمَارَةِ اَلْأَرْضِ أَبْلَغَ مِنْ نَظَرِكَ فِی اِسْتِجْلاَبِ اَلْخَرَاجِ لِأَنَّ ذَلِكَ لاَ یُدْرَكُ إِلاَّ بِالْعِمَارَةِ وَ مَنْ طَلَبَ اَلْخَرَاجَ بِغَیْرِ عِمَارَةٍ أَخْرَبَ اَلْبِلاَدَ وَ أَهْلَكَ اَلْعِبَادَ وَ لَمْ یَسْتَقِمْ أَمْرُهُ إِلاَّ قَلِیلاً فَإِنْ شَكَوْا ثِقَلاً أَوْ عِلَّةً أَوِ اِنْقِطَاعَ شِرْبٍ أَوْ بَالَّةٍ أَوْ إِحَالَةَ أَرْضٍ اِغْتَمَرَهَا غَرَقٌ أَوْ أَجْحَفَ بِهَا عَطَشٌ خَفَّفْتَ عَنْهُمْ بِمَا تَرْجُو أَنْ یَصْلُحَ بِهِ أَمْرُهُمْ وَ لاَ یَثْقُلَنَّ عَلَیْكَ شَیْ‏ءٌ خَفَّفْتَ بِهِ اَلْمَئُونَةَ عَنْهُمْ فَإِنَّهُ ذُخْرٌ یَعُودُونَ بِهِ عَلَیْكَ فِی عِمَارَةِ بِلاَدِكَ وَ تَزْیِینِ وِلاَیَتِكَ مَعَ اِسْتِجْلاَبِكَ حُسْنَ ثَنَائِهِمْ وَ تَبَجُّحِكَ بِاسْتِفَاضَةِ اَلْعَدْلِ فِیهِمْ مُعْتَمِداً فَضْلَ قُوَّتِهِمْ بِمَا ذَخَرْتَ عِنْدَهُمْ مِنْ إِجْمَامِكَ لَهُمْ وَ اَلثِّقَةَ مِنْهُمْ بِمَا عَوَّدْتَهُمْ مِنْ عَدْلِكَ عَلَیْهِمْ وَ رِفْقِكَ بِهِمْ فَرُبَّمَا حَدَثَ مِنَ اَلْأُمُورِ مَا إِذَا عَوَّلْتَ فِیهِ عَلَیْهِمْ مِنْ بَعْدُ اِحْتَمَلُوهُ طَیِّبَةً أَنْفُسُهُمْ بِهِ فَإِنَّ اَلْعُمْرَانَ مُحْتَمِلٌ مَا حَمَّلْتَهُ وَ إِنَّمَا یُؤْتَى خَرَابُ اَلْأَرْضِ مِنْ إِعْوَازِ أَهْلِهَا وَ إِنَّمَا یُعْوِزُ أَهْلُهَا لِإِشْرَافِ أَنْفُسِ اَلْوُلاَةِ عَلَى اَلْجَمْعِ وَ سُوءِ ظَنِّهِمْ بِالْبَقَاءِ وَ قِلَّةِ اِنْتِفَاعِهِمْ بِالْعِبَرِ ثُمَّ اُنْظُرْ فِی حَالِ كُتَّابِكَ فَوَلِّ عَلَى أُمُورِكَ خَیْرَهُمْ وَ اُخْصُصْ رَسَائِلَكَ اَلَّتِی تُدْخِلُ فِیهَا مَكَایِدَكَ وَ أَسْرَارَكَ بِأَجْمَعِهِمْ لِوُجُوهِ صَالِحِ اَلْأَخْلاَقِ مِمَّنْ لاَ تُبْطِرُهُ اَلْكَرَامَةُ فَیَجْتَرِئَ بِهَا عَلَیْكَ فِی خِلاَفٍ لَكَ بِحَضْرَةِ مَلَإٍ وَ لاَ تَقْصُرُ بِهِ اَلْغَفْلَةُ عَنْ إِیرَادِ مُكَاتَبَاتِ عُمِّالِكَ عَلَیْكَ وَ إِصْدَارِ جَوَابَاتِهَا عَلَى اَلصَّوَابِ عَنْكَ فِیمَا یَأْخُذُ لَكَ وَ یُعْطِی مِنْكَ وَ لاَ یُضْعِفُ عَقْداً اِعْتَقَدَهُ لَكَ وَ لاَ یَعْجِزُ عَنْ إِطْلاَقِ مَا عُقِدَ عَلَیْكَ وَ لاَ یَجْهَلُ مَبْلَغَ قَدْرِ نَفْسِهِ فِی اَلْأُمُورِ فَإِنَّ اَلْجَاهِلَ بِقَدْرِ نَفْسِهِ یَكُونُ بِقَدْرِ غَیْرِهِ أَجْهَلَ ثُمَّ لاَ یَكُنِ اِخْتِیَارُكَ إِیَّاهُمْ عَلَى فِرَاسَتِكَ وَ اِسْتِنَامَتِكَ وَ حُسْنِ اَلظَّنِّ مِنْكَ فَإِنَّ اَلرِّجَالَ یَتَعَرَّضُونَ لِفِرَاسَاتِ اَلْوُلاَةِ بِتَصَنُّعِهِمْ وَ حُسْنِ خِدْمَتِهِمْ وَ لَیْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ اَلنَّصِیحَةِ وَ اَلْأَمَانَةِ شَیْ‏ءٌ وَ لَكِنِ اِخْتَبِرْهُمْ بِمَا وُلُّوا لِلصَّالِحِینَ قَبْلَكَ فَاعْمِدْ لِأَحْسَنِهِمْ كَانَ فِی اَلْعَامَّةِ أَثَراً وَ أَعْرَفِهِمْ بِالْأَمَانَةِ وَجْهاً فَإِنَّ ذَلِكَ دَلِیلٌ عَلَى نَصِیحَتِكَ لِلَّهِ وَ لِمَنْ وُلِّیتَ أَمْرَهُ وَ اِجْعَلْ لِرَأْسِ كُلِّ أَمْرٍ مِنْ أُمُورِكَ رَأْساً مِنْهُمْ لاَ یَقْهَرُهُ كَبِیرُهَا وَ لاَ یَتَشَتَّتُ عَلَیْهِ كَثِیرُهَا وَ مَهْمَا كَانَ فِی كُتَّابِكَ مِنْ عَیْبٍ فَتَغَابَیْتَ عَنْهُ أُلْزِمْتَهُ ثُمَّ اِسْتَوْصِ بِالتُّجَّارِ وَ ذَوِی اَلصِّنَاعَاتِ وَ أَوْصِ بِهِمْ خَیْراً اَلْمُقِیمِ مِنْهُمْ وَ اَلْمُضْطَرِبِ بِمَالِهِ وَ اَلْمُتَرَفِّقِ بِبَدَنِهِ فَإِنَّهُمْ مَوَادُّ اَلْمَنَافِعِ وَ أَسْبَابُ اَلْمَرَافِقِ وَ جُلاَّبُهَا مِنَ اَلْمَبَاعِدِ وَ اَلْمَطَارِحِ فِی بَرِّكَ وَ بَحْرِكَ وَ سَهْلِكَ وَ جَبَلِكَ وَ حَیْثُ لاَ یَلْتَئِمُ اَلنَّاسُ لِمَوَاضِعِهَا وَ لاَ یَجْتَرِءُونَ عَلَیْهَا فَإِنَّهُمْ سِلْمٌ لاَ تُخَافُ بَائِقَتُهُ وَ صُلْحٌ لاَ تُخْشَى غَائِلَتُهُ وَ تَفَقَّدْ أُمُورَهُمْ بِحَضْرَتِكَ وَ فِی حَوَاشِی بِلاَدِكَ وَ اِعْلَمْ مَعَ ذَلِكَ أَنَّ فِی كَثِیرٍ مِنْهُمْ ضِیقاً فَاحِشاً وَ شُحّاً قَبِیحاً وَ اِحْتِكَاراً لِلْمَنَافِعِ وَ تَحَكُّماً فِی اَلْبِیَاعَاتِ وَ ذَلِكَ بَابُ مَضَرَّةٍ لِلْعَامَّةِ وَ عَیْبٌ عَلَى اَلْوُلاَةِ فَامْنَعْ مِنَ اَلاِحْتِكَارِ فَإِنَّ رَسُولَ اَللَّهِ ص مَنَعَ مِنْهُ وَ لْیَكُنِ اَلْبَیْعُ بَیْعاً سَمْحاً بِمَوَازِینِ عَدْلٍ وَ أَسْعَارٍ لاَ تُجْحِفُ بِالْفَرِیقَیْنِ مِنَ اَلْبَائِعِ وَ اَلْمُبْتَاعِ فَمَنْ قَارَفَ حُكْرَةً بَعْدَ نَهْیِكَ إِیَّاهُ فَنَكِّلْ بِهِ وَ عَاقِبْهُ فِی غَیْرِ إِسْرَافٍ ثُمَّ اَللَّهَ اَللَّهَ فِی اَلطَّبَقَةِ اَلسُّفْلَى مِنَ اَلَّذِینَ لاَ حِیلَةَ لَهُمْ مِنَ اَلْمَسَاكِینِ وَ اَلْمُحْتَاجِینَ وَ أَهْلِ اَلْبُؤْسَى وَ اَلزَّمْنَى فَإِنَّ فِی هَذِهِ اَلطَّبَقَةِ قَانِعاً وَ مُعْتَرّاً وَ اِحْفَظِ لِلَّهِ مَا اِسْتَحْفَظَكَ مِنْ حَقِّهِ فِیهِمْ وَ اِجْعَلْ لَهُمْ قِسْماً مِنْ بَیْتِ مَالِكِ وَ قِسْماً مِنْ غَلاَّتِ صَوَافِی اَلْإِسْلاَمِ فِی كُلِّ بَلَدٍ فَإِنَّ لِلْأَقْصَى مِنْهُمْ مِثْلَ اَلَّذِی لِلْأَدْنَى وَ كُلٌّ قَدِ اِسْتُرْعِیتَ حَقَّهُ وَ لاَ یَشْغَلَنَّكَ عَنْهُمْ بَطَرٌ فَإِنَّكَ لاَ تُعْذَرُ بِتَضْیِیعِكَ اَلتَّافِهَ لِإِحْكَامِكَ اَلْكَثِیرَ اَلْمُهِمَّ فَلاَ تُشْخِصْ هَمَّكَ عَنْهُمْ وَ لاَ تُصَعِّرْ خَدَّكَ لَهُمْ وَ تَفَقَّدْ أُمُورَ مَنْ لاَ یَصِلُ إِلَیْكَ مِنْهُمْ مِمَّنْ تَقْتَحِمُهُ اَلْعُیُونُ وَ تَحْقِرُهُ اَلرِّجَالُ فَفَرِّغْ لِأُولَئِكَ ثِقَتَكَ مِنْ أَهْلِ اَلْخَشْیَةِ وَ اَلتَّوَاضُعِ فَلْیَرْفَعْ إِلَیْكَ أُمُورَهُمْ ثُمَّ اِعْمَلْ فِیهِمْ بِالْإِعْذَارِ إِلَى اَللَّهِ یَوْمَ تَلْقَاهُ فَإِنَّ هَؤُلاَءِ مِنْ بَیْنِ اَلرَّعِیَّةِ أَحْوَجُ إِلَى اَلْإِنْصَافِ مِنْ غَیْرِهِمْ وَ كُلٌّ فَأَعْذِرْ إِلَى اَللَّهِ فِی تَأْدِیَةِ حَقِّهِ إِلَیْهِ وَ تَعَهَّدْ أَهْلَ اَلْیُتْمِ وَ ذَوِی اَلرِّقَّةِ فِی اَلسِّنِّ مِمَّنْ لاَ حِیلَةَ لَهُ وَ لاَ یَنْصِبُ لِلْمَسْأَلَةِ نَفْسَهُ وَ ذَلِكَ عَلَى اَلْوُلاَةِ ثَقِیلٌ وَ اَلْحَقُّ كُلُّهُ ثَقِیلٌ وَ قَدْ یُخَفِّفُهُ اَللَّهُ عَلَى أَقْوَامٍ طَلَبُوا اَلْعَاقِبَةَ فَصَبَّرُوا أَنْفُسَهُمْ وَ وَثِقُوا بِصِدْقِ مَوْعُودِ اَللَّهِ لَهُمْ وَ اِجْعَلْ لِذَوِی اَلْحَاجَاتِ مِنْكَ قِسْماً تُفَرِّغُ لَهُمْ فِیهِ شَخْصَكَ وَ تَجْلِسُ لَهُمْ مَجْلِساً عَامّاً فَتَتَوَاضَعُ فِیهِ لِلَّهِ اَلَّذِی خَلَقَكَ وَ تُقْعِدُ عَنْهُمْ جُنْدَكَ وَ أَعْوَانَكَ مِنْ أَحْرَاسِكَ وَ شُرَطِكَ حَتَّى یُكَلِّمَكَ مُتَكَلِّمُهُمْ غَیْرَ مُتَتَعْتِعٍ فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اَللَّهِ ص یَقُولُ فِی غَیْرِ مَوْطِنٍ لَنْ تُقَدَّسَ أُمَّةٌ لاَ یُؤْخَذُ لِلضَّعِیفِ فِیهَا حَقُّهُ مِنَ اَلْقَوِیِّ غَیْرَ مُتَتَعْتِعٍ ثُمَّ اِحْتَمِلِ اَلْخُرْقَ مِنْهُمْ وَ اَلْعِیَّ وَ نَحِّ عَنْهُمُ اَلضِّیقَ وَ اَلْأَنَفَ یَبْسُطِ اَللَّهُ عَلَیْكَ بِذَلِكَ أَكْنَافَ رَحْمَتِهِ وَ یُوجِبْ لَكَ ثَوَابَ طَاعَتِهِ وَ أَعْطِ مَا أَعْطَیْتَ هَنِیئاً وَ اِمْنَعْ فِی إِجْمَالٍ وَ إِعْذَارٍ ثُمَّ أُمُورٌ مِنْ أُمُورِكَ لاَ بُدَّ لَكَ مِنْ مُبَاشَرَتِهَا مِنْهَا إِجَابَةُ عُمَّالِكَ بِمَا یَعْیَا عَنْهُ كُتَّابُكَ وَ مِنْهَا إِصْدَارُ حَاجَاتِ اَلنَّاسِ یَوْمَ وُرُودِهَا عَلَیْكَ بِمَا تَحْرَجُ بِهِ صُدُورُ أَعْوَانِكَ وَ أَمْضِ لِكُلِّ یَوْمٍ عَمَلَهُ فَإِنَّ لِكُلِّ یَوْمٍ مَا فِیهِ وَ اِجْعَلْ لِنَفْسِكَ فِیمَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ اَللَّهِ أَفْضَلَ تِلْكَ اَلْمَوَاقِیتِ وَ أَجْزَلَ تِلْكَ اَلْأَقْسَامِ وَ إِنْ كَانَتْ كُلُّهَا لِلَّهِ إِذَا صَلَحَتْ فِیهَا اَلنِّیَّةُ وَ سَلِمَتْ مِنْهَا اَلرَّعِیَّةُ وَ لْیَكُنْ فِی خَاصَّةِ مَا تُخْلِصُ بِهِ لِلَّهِ دِینَكَ إِقَامَةُ فَرَائِضِهِ اَلَّتِی هِیَ لَهُ خَاصَّةً فَأَعْطِ اَللَّهَ مِنْ بَدَنِكَ فِی لَیْلِكَ وَ نَهَارِكَ وَ وَفِّ مَا تَقَرَّبْتَ بِهِ إِلَى اَللَّهِ مِنْ ذَلِكَ كَامِلاً غَیْرَ مَثْلُومٍ وَ لاَ مَنْقُوصٍ بَالِغاً مِنْ بَدَنِكَ مَا بَلَغَ وَ إِذَا قُمْتَ فِی صَلاَتِكَ لِلنَّاسِ فَلاَ تَكُونَنَّ مُنَفِّراً وَ لاَ مُضَیِّعاً فَإِنَّ فِی اَلنَّاسِ مَنْ بِهِ اَلْعِلَّةُ وَ لَهُ اَلْحَاجَةُ وَ قَدْ سَأَلْتُ رَسُولَ اَللَّهِ ص حِینَ وَجَّهَنِی إِلَى اَلْیَمَنِ كَیْفَ أُصَلِّی بِهِمْ فَقَالَ صَلِّ بِهِمْ كَصَلاَةِ أَضْعَفِهِمْ وَ كُنْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیماً وَ أَمَّا بَعْدُ فَلاَ تُطَوِّلَنَّ اِحْتِجَابَكَ عَنْ رَعِیَّتِكَ فَإِنَّ اِحْتِجَابَ اَلْوُلاَةِ عَنِ اَلرَّعِیَّةِ شُعْبَةٌ مِنَ اَلضِّیقِ وَ قِلَّةُ عِلْمٍ بِالْأُمُورِ وَ اَلاِحْتِجَابُ مِنْهُمْ یَقْطَعُ عَنْهُمْ عِلْمَ مَا اِحْتَجَبُوا دُونَهُ فَیَصْغُرُ عِنْدَهُمُ اَلْكَبِیرُ وَ یَعْظُمُ اَلصَّغِیرُ وَ یَقْبُحُ اَلْحَسَنُ وَ یَحْسُنُ اَلْقَبِیحُ وَ یُشَابُ اَلْحَقُّ بِالْبَاطِلِ وَ إِنَّمَا اَلْوَالِی بَشَرٌ لاَ یَعْرِفُ مَا تَوَارَى عَنْهُ اَلنَّاسُ بِهِ مِنَ اَلْأُمُورِ وَ لَیْسَتْ عَلَى اَلْحَقِّ سِمَاتٌ تُعْرَفُ بِهَا ضُرُوبُ اَلصِّدْقِ مِنَ اَلْكَذِبِ وَ إِنَّمَا أَنْتَ أَحَدُ رَجُلَیْنِ إِمَّا اِمْرُؤٌ سَخَتْ نَفْسُكَ بِالْبَذْلِ فِی اَلْحَقِّ فَفِیمَ اِحْتِجَابُكَ مِنْ وَاجِبِ حَقٍّ تُعْطِیهِ أَوْ فِعْلٍ كَرِیمٍ تُسْدِیهِ أَوْ مُبْتَلًى بِالْمَنْعِ فَمَا أَسْرَعَ كَفَّ اَلنَّاسِ عَنْ مَسْأَلَتِكَ إِذَا أَیِسُوا مِنْ بَذْلِكَ مَعَ أَنَّ أَكْثَرَ حَاجَاتِ اَلنَّاسِ إِلَیْكَ مِمَّا لاَ مَئُونَةَ فِیهِ عَلَیْكَ مِنْ شَكَاةِ مَظْلِمَةٍ أَوْ طَلَبِ إِنْصَافٍ فِی مُعَامَلَةٍ ثُمَّ إِنَّ لِلْوَالِی خَاصَّةً وَ بِطَانَةً فِیهِمُ اِسْتِئْثَارٌ وَ تَطَاوُلٌ وَ قِلَّةُ إِنْصَافٍ فِی مُعَامَلَةٍ فَاحْسِمْ مَادَّةَ أُولَئِكَ بِقَطْعِ أَسْبَابِ تِلْكَ اَلْأَحْوَالِ وَ لاَ تُقْطِعَنَّ لِأَحَدٍ مِنْ حَاشِیَتِكَ وَ حَامَّتِكَ قَطِیعَةً وَ لاَ یَطْمَعَنَّ مِنْكَ فِی اِعْتِقَادِ عُقْدَةٍ تَضُرُّ بِمَنْ یَلِیهَا مِنَ اَلنَّاسِ فِی شِرْبٍ أَوْ عَمَلٍ مُشْتَرَكٍ یَحْمِلُونَ مَئُونَتَهُ عَلَى غَیْرِهِمْ فَیَكُونَ مَهْنَأُ ذَلِكَ لَهُمْ دُونَكَ وَ عَیْبُهُ عَلَیْكَ فِی اَلدُّنْیَا وَ اَلْآخِرَةِ وَ أَلْزِمِ اَلْحَقَّ مَنْ لَزِمَهُ مِنَ اَلْقَرِیبِ وَ اَلْبَعِیدِ وَ كُنْ فِی ذَلِكَ صَابِراً مُحْتَسِباً وَاقِعاً ذَلِكَ مِنْ قَرَابَتِكَ وَ خَاصَّتِكَ حَیْثُ وَقَعَ وَ اِبْتَغِ عَاقِبَتَهُ بِمَا یَثْقُلُ عَلَیْكَ مِنْهُ فَإِنَّ مَغَبَّةَ ذَلِكَ مَحْمُودَةٌ وَ إِنْ ظَنَّتِ اَلرَّعِیَّةُ بِكَ حَیْفاً فَأَصْحِرْ لَهُمْ بِعُذْرِكَ وَ اِعْدِلْ عَنْكَ ظُنُونَهُمْ بِإِصْحَارِكَ فَإِنَّ فِی ذَلِكَ رِیَاضَةً مِنْكَ لِنَفْسِكَ وَ رِفْقاً بِرَعِیَّتِكَ وَ إِعْذَاراً تَبْلُغُ بِهِ حَاجَتَكَ مِنْ تَقْوِیمِهِمْ عَلَى اَلْحَقِّ وَ لاَ تَدْفَعَنَّ صُلْحاً دَعَاكَ إِلَیْهِ عَدُوُّكَ و لِلَّهِ فِیهِ رِضًا فَإِنَّ فِی اَلصُّلْحِ دَعَةً لِجُنُودِكَ وَ رَاحَةً مِنْ هُمُومِكَ وَ أَمْناً لِبِلاَدِكَ وَ لَكِنِ اَلْحَذَرَ كُلَّ اَلْحَذَرِ مِنْ عَدُوِّكَ بَعْدَ صُلْحِهِ فَإِنَّ اَلْعَدُوَّ رُبَّمَا قَارَبَ لِیَتَغَفَّلَ فَخُذْ بِالْحَزْمِ وَ اِتَّهِمْ فِی ذَلِكَ حُسْنَ اَلظَّنِّ وَ إِنْ عَقَدْتَ بَیْنَكَ وَ بَیْنَ عَدُوِّكَ عُقْدَةً أَوْ أَلْبَسْتَهُ مِنْكَ ذِمَّةً فَحُطْ عَهْدَكَ بِالْوَفَاءِ وَ اِرْعَ ذِمَّتَكَ بِالْأَمَانَةِ وَ اِجْعَلْ نَفْسَكَ جُنَّةً دُونَ مَا أَعْطَیْتَ فَإِنَّهُ لَیْسَ مِنْ فَرَائِضِ اَللَّهِ شَیْ‏ءٌ اَلنَّاسُ أَشَدُّ عَلَیْهِ اِجْتِمَاعاً مَعَ تَفَرُّقِ أَهْوَائِهِمْ وَ تَشَتُّتِ آرَائِهِمْ مِنْ تَعْظِیمِ اَلْوَفَاءِ بِالْعُهُودِ وَ قَدْ لَزِمَ ذَلِكَ اَلْمُشْرِكُونَ فِیمَا بَیْنَهُمْ دُونَ اَلْمُسْلِمِینَ لِمَا اِسْتَوْبَلُوا مِنْ عَوَاقِبِ اَلْغَدْرِ فَلاَ تَغْدِرَنَّ بِذِمَّتِكَ وَ لاَ تَخِیسَنَّ بِعَهْدِكَ وَ لاَ تَخْتِلَنَّ عَدُوَّكَ فَإِنَّهُ لاَ یَجْتَرِئُ عَلَى اَللَّهِ إِلاَّ جَاهِلٌ شَقِیٌّ وَ قَدْ جَعَلَ اَللَّهُ عَهْدَهُ وَ ذِمَّتَهُ أَمْناً أَفْضَاهُ بَیْنَ اَلْعِبَادِ بِرَحْمَتِهِ وَ حَرِیماً یَسْكُنُونَ إِلَى مَنَعَتِهِ وَ یَسْتَفِیضُونَ إِلَى جِوَارِهِ فَلاَ إِدْغَالَ وَ لاَ مُدَالَسَةَ وَ لاَ خِدَاعَ فِیهِ وَ لاَ تَعْقِدْ عَقْداً تُجَوِّزُ فِیهِ اَلْعِلَلَ وَ لاَ تُعَوِّلَنَّ عَلَى لَحْنِ قَوْلٍ بَعْدَ اَلتَّأْكِیدِ وَ اَلتَّوْثِقَةِ وَ لاَ یَدْعُوَنَّكَ ضِیقُ أَمْرٍ لَزِمَكَ فِیهِ عَهْدُ اَللَّهِ إِلَى طَلَبِ اِنْفِسَاخِهِ بِغَیْرِ اَلْحَقِّ فَإِنَّ صَبْرَكَ عَلَى ضِیقِ أَمْرٍ تَرْجُو اِنْفِرَاجَهُ وَ فَضْلَ عَاقِبَتِهِ خَیْرٌ مِنْ غَدْرٍ تَخَافُ تَبِعَتَهُ وَ أَنْ تُحِیطَ بِكَ مِنَ اَللَّهِ فِیهِ طِلْبَةٌ لاَ تَسْتَقْبِلُ فِیهَا دُنْیَاكَ وَ لاَ آخِرَتَكَ إِیَّاكَ وَ اَلدِّمَاءَ وَ سَفْكَهَا بِغَیْرِ حِلِّهَا فَإِنَّهُ لَیْسَ شَیْ‏ءٌ أَدْعَى لِنِقْمَةٍ وَ لاَ أَعْظَمَ لِتَبِعَةٍ وَ لاَ أَحْرَى بِزَوَالِ نِعْمَةٍ وَ اِنْقِطَاعِ مُدَّةٍ مِنْ سَفْكِ اَلدِّمَاءِ بِغَیْرِ حَقِّهَا وَ اَللَّهُ سُبْحَانَهُ مُبْتَدِئٌ بِالْحُكْمِ بَیْنَ اَلْعِبَادِ فِیمَا تَسَافَكُوا مِنَ اَلدِّمَاءِ یَوْمَ اَلْقِیَامَةِ فَلاَ تُقَوِّیَنَّ سُلْطَانَكَ بِسَفْكِ دَمٍ حَرَامٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِمَّا یُضْعِفُهُ وَ یُوهِنُهُ بَلْ یُزِیلُهُ وَ یَنْقُلُهُ وَ لاَ عُذْرَ لَكَ عِنْدَ اَللَّهِ وَ لاَ عِنْدِی فِی قَتْلِ اَلْعَمْدِ لِأَنَّ فِیهِ قَوَدَ اَلْبَدَنِ وَ إِنِ اُبْتُلِیتَ بِخَطَإٍ وَ أَفْرَطَ عَلَیْكَ سَوْطُكَ أَوْ سَیْفُكَ أَوْ یَدُكَ بِالْعُقُوبَةِ فَإِنَّ فِی اَلْوَكْزَةِ فَمَا فَوْقَهَا مَقْتَلَةً فَلاَ تَطْمَحَنَّ بِكَ نَخْوَةُ سُلْطَانِكَ عَنْ أَنْ تُؤَدِّیَ إِلَى أَوْلِیَاءِ اَلْمَقْتُولِ حَقَّهُمْ وَ إِیَّاكَ وَ اَلْإِعْجَابَ بِنَفْسِكَ وَ اَلثِّقَةَ بِمَا یُعْجِبُكَ مِنْهَا وَ حُبَّ اَلْإِطْرَاءِ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ أَوْثَقِ فُرَصِ اَلشَّیْطَانِ فِی نَفْسِهِ لِیَمْحَقَ مَا یَكُونُ مِنْ إِحْسَانِ اَلْمُحْسِنِینَ وَ إِیَّاكَ وَ اَلْمَنَّ عَلَى رَعِیَّتِكَ بِإِحْسَانِكَ أَوِ اَلتَّزَیُّدَ فِیمَا كَانَ مِنْ فِعْلِكَ أَوْ أَنْ تَعِدَهُمْ فَتُتْبِعَ مَوْعِدَكَ بِخُلْفِكَ فَإِنَّ اَلْمَنَّ یُبْطِلُ اَلْإِحْسَانَ وَ اَلتَّزَیُّدَ یَذْهَبُ بِنُورِ اَلْحَقِّ وَ اَلْخُلْفَ یُوجِبُ اَلْمَقْتَ عِنْدَ اَللَّهِ وَ اَلنَّاسِ قَالَ اَللَّهُ تَعَالَى كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اَللَّهِ أَنْ تَقُولُوا ما لا تَفْعَلُونَ وَ إِیَّاكَ وَ اَلْعَجَلَةَ بِالْأُمُورِ قَبْلَ أَوَانِهَا أَوِ اَلتَّسَقُّطَ فِیهَا عِنْدَ إِمْكَانِهَا أَوِ اَللَّجَاجَةَ فِیهَا إِذَا تَنَكَّرَتْ أَوِ اَلْوَهْنَ عَنْهَا إِذَا اِسْتَوْضَحَتْ فَضَعْ كُلَّ أَمْرٍ مَوْضِعَهُ وَ أَوْقِعْ كُلَّ أَمْرٍ مَوْقِعَهُ وَ إِیَّاكَ وَ اَلاِسْتِئْثَارَ بِمَا اَلنَّاسُ فِیهِ أُسْوَةٌ وَ اَلتَّغَابِیَ عَمَّا تُعْنَى بِهِ مِمَّا قَدْ وَضَحَ لِلْعُیُونِ فَإِنَّهُ مَأْخُوذٌ مِنْكَ لِغَیْرِكَ وَ عَمَّا قَلِیلٍ تَنْكَشِفُ عَنْكَ أَغْطِیَةُ اَلْأُمُورِ وَ یُنْتَصَفُ مِنْكَ لِلْمَظْلُومِ اِمْلِكْ حَمِیَّةَ أَنْفِكَ وَ سَوْرَةَ حَدِّكَ وَ سَطْوَةَ یَدِكَ وَ غَرْبَ لِسَانِكَ وَ اِحْتَرِسْ مِنْ كُلِّ ذَلِكَ بِكَفِّ اَلْبَادِرَةِ وَ تَأْخِیرِ اَلسَّطْوَةِ حَتَّى یَسْكُنَ غَضَبُكَ فَتَمْلِكَ اَلاِخْتِیَارَ وَ لَنْ تَحْكُمَ ذَلِكَ مِنْ نَفْسِكَ حَتَّى تُكْثِرَ هُمُومَكَ بِذِكْرِ اَلْمَعَادِ إِلَى رَبِّكَ وَ اَلْوَاجِبُ عَلَیْكَ أَنْ تَتَذَكَّرَ مَا مَضَى لِمَنْ تَقَدَّمَكَ مِنْ حُكُومَةٍ عَادِلَةٍ أَوْ سُنَّةٍ فَاضِلَةٍ أَوْ أَثَرٍ عَنْ نَبِیِّنَا ص أَوْ فَرِیضَةٍ فِی كِتَابِ اَللَّهِ فَتَقْتَدِیَ بِمَا شَاهَدْتَ مِمَّا عَمِلْنَا بِهِ فِیهَا وَ تَجْتَهِدَ لِنَفْسِكَ فِی اِتِّبَاعِ مَا عَهِدْتُ إِلَیْكَ فِی عَهْدِی هَذَا وَ اِسْتَوْثَقْتُ بِهِ مِنَ اَلْحُجَّةِ لِنَفْسِی عَلَیْكَ لِكَیْلاَ تَكُونَ لَكَ عِلَّةٌ عِنْدَ تَسَرُّعِ نَفْسِكَ إِلَى هَوَاهَا وَ أَنَا أَسْأَلُ اَللَّهَ بِسَعَةِ رَحْمَتِهِ وَ عَظِیمِ قُدْرَتِهِ عَلَى إِعْطَاءِ كُلِّ رَغْبَةٍ أَنْ یُوَفِّقَنِی وَ إِیَّاكَ لِمَا فِیهِ رِضَاهُ مِنَ اَلْإِقَامَةِ عَلَى اَلْعُذْرِ اَلْوَاضِحِ إِلَیْهِ وَ إِلَى خَلْقِهِ مَعَ حُسْنِ اَلثَّنَاءِ فِی اَلْعِبَادِ وَ جَمِیلِ اَلْأَثَرِ فِی اَلْبِلاَدِ وَ تَمَامِ اَلنِّعْمَةِ وَ تَضْعِیفِ اَلْكَرَامَةِ وَ أَنْ یَخْتِمَ لِی وَ لَكَ بِالسَّعَادَةِ وَ اَلشَّهَادَةِ إِنَّا إِلَیْهِ راجِعُونَ وَ اَلسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهِ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ اَلطَّیِّبِینَ اَلطَّاهِرِینَ وَ سَلَّمَ تَسْلِیماً كَثِیراً وَ اَلسَّلاَمُ۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے

یہ ہے وہ فرمان جس پر کار بند رہنے کا حکم دیا ہے خدا کے بندے علی امیرالمومنین ؑ نے مالک ابن حارث اشتر کو جب مصر کا انہیں والی بنایا تاکہ وہ خراج جمع کریں دشمنوں سے لڑیں ، رعایا کی فلاح و بہبود اور شہروں کی آبادی کا انتظام کریں ۔ انہیں حکم ہے کہ اﷲ کا خوف کریں ، اس کی اطاعت کو مقدم سمجھیں اور جن فرائض وسنن کا اس نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کریں کہ انہی کی پیروی سے سعادت اور انہی کے ٹھکرانے اور برباد کرنے سے بد بختی دامنگیر ہوتی ہے اور یہ کہ اپنے دل ،اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے اﷲ کی نصرت میں لگے رہیں ۔ کیونکہ خدائے بزرگ و برتر نے ذمہ لیا ہے کہ جو اُس کی نُصرت کرے گا ،وہ اُس کی مدد کرے گا اور جو اس کی حمایت کے لئے کھڑا ہوگا وہ اُسے عزت و سرفرازی بخشے گا ۔ اِس کے علاوہ اُنہیں حکم ہے کہ وہ نفسانی خواہشوں کے وقت اپنے نفس کو کچلیں اور اس کی منہ زوریوں کے وقت اُسے روکیں ۔ کیونکہ نفس برائیوں ہی کی طرف لے جانے والاہے، مگر یہ کہ خدا کا لطف و کرم شاملِ حال ہو ۔ اے مالک! اس بات کو جانے رہو کہ تمہیں ان علاقوں کی طرف بھیج رہا ہوں کہ جہاں تم سے پہلے عادل اور ظالم کئی حکومتیں گزر چکی ہیں اور لوگ تمہارے طرز عمل کو اُسی نظر سے دیکھیں گے جس نظر سے تم اپنے اگلےحکمرانوں کے طور طریقےکو دیکھتے رہے ہو اور تمہارے بارے میں بھی وہی کہیں گے جو تم اُن حکمرانوں کے بارے میں کہتے ہو ۔ یہ یاد رکھو، کہ خدا کے نیک بندوں کا پتہ چلتا ہے اُسی نیک نامی سے جو اُنہیں بندگان الٰہی میں خدا نے دے رکھی ہے ۔ لہذا ہر ذخیرے سے زیادہ پسند تمہیں نیک اعمال کا ذخیرہ ہونا چاہئے ۔ تم اپنی خواہشوں پر قابو رکھو ، اورجو مشاغل تمہارے لئے حلال نہیں ہیں ان میں صرف کرنے سے اپنے نفس کے ساتھ بخل کرو ۔کیونکہ نفس کے ساتھ بخل کرنا ہی اس کے حق کو ادا کرنا ہے ۔ چاہے وہ اس کے لئے خود پسند کرے یا نا پسند۔ رعایا کے لئے اپنے دل کے اندر رحم ورأفت اور لطف و محبت کو جگہ دو ۔ ان کے لئے پھاڑ کھانے والادرندنہ بن جاؤ کہ انہیں نگل جانا غنیمت سمجھتے ہو، اس لئے کہ رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک تو تمہارے دینی بھا ئی اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوق خدا ۔ اُن کی لغزشیں بھی ہو ں گی خطاؤں سے بھی انہیں سابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھو سے جان بوجھ کر یا بھولے چوکے سے غلطیاں بھی ہو ں گی ۔ تم اُن سے اسی طرح عفوودرگزر سے کام لینا ، جس طرح اﷲ سے اپنے لئے عفوو در گزر کو پسند کرتے ہو۔ اس لئے کہ تم ان پر حاکم ہو ، اور تمہارے اوپرتمہارا امام حاکم ہے ۔ اور جس(امام ) نے تمہیں والی بنایا ہے اس کے اوپر اﷲہے اور اس نے تم سے ان لوگو ں کے معاملات کی انجام دہی چاہی ہے اور اُن کے ذریعہ تمہاری آزمائش کی ہے ۔ اور دیکھو، خبردار! اللہ سے مقابلہ کے لئے نہ اترنا ۔ اس لئے کہ اُس کے غضب کے سامنے تم بے بس ہو اور اس کی عفو ورحمت سے بے نیاز نہیں ہو سکتے ۔ تمہیں کسی کو معاف کر دینے پر پچھتانا اور سزا دینے پر اِترانا نہ چاہئے ۔ غصہ میں جلد بازی سے کام نہ لو ، جبکہ اس کے ٹال دینے کی گنجائش ہو ۔کبھی یہ نہ کہنا کے میں حاکم بنایا گیا ہوں ، لہذا میرے حکم کے آگے سرِتسلیم خم ہونا چاہئے ، کیونکہ یہ دل میں فساد پیدا کرنے ، دین کو کمزور بنانے اور بربادیوں کو قریب لانے کا سبب ہے اور کبھی حکومت کی وجہ سے تم میں تمکنت یا غرور پیدا ہو تو اپنے بالاتر اﷲ کے ملک کی عظمت کو دیکھو اور خیا ل کرو کہ وُہ تم پر وُہ قدرت رکھتا ہے کہ جو خود تم اپنے آپ پر نہیں رکھتے ۔ یہ چیز یں تمہاری رعونت و سرکشی کو دبا دے گی ،اور تمہاری طغیانی کو روک دے گی ، اور تمہاری کھوئی ہوئی عقل کو پلٹا دے گی ۔ خبردار ! کبھی اﷲکے ساتھ اس کی عظمت میں نہ ٹکراؤ اور اس کی شان و جبروت سے ملنے کی کوشش نہ کرو ، کیونکہ اﷲ ہر جبارو سرکش کو نیچا دکھاتا ہے اور ہر مغرور کے سر کو جھکا دیتا ہے ۔اپنی ذات کے بارے میں اور اپنے خاص عزیزوں اور رعایا میں اپنے دل پسند افراد کے معاملے میں حقوق اﷲ اور حقوق الناس کے متعلق بھی انصاف کرنا کیونکہ اگر تم نے ایسانہ کیا تو ظالم ٹھہرو گے ۔ اور جو خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو بندوں کے بجائے اﷲ اس کا حریف و دشمن بن جاتا ہے اور جس کا وہ حریف و دشمن ہو ، اس کی ہر دلیل کو کچل دے گا ، اور وہ اﷲ سے برسر پیکار رہے گا یہاں تک کہ باز آئے اور توبہ کرلے ۔ اور اﷲ کی نعمتوں کو سلب کرنے والی ، اور اس کی عقوبتوں کو جلد بُلاوا دینے والی کوئی چیز اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ ظلم پر باقی رہا جائے کیونکہ اﷲ مظلوموں کی پکار کو سنتا ہے اور ظالموں کے لئے موقع کا منتظر رہتا ہے ۔ تمہیں سب طریقوں سے زیادہ وُہ طریقہ پسند ہو نا چاہئے جو حق کے اعتبار سے بہترین ، انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اور رعایا کے زیادہ سے زیادہ افراد کی مرضی کے مطابق ہو ۔ کیونکہ عوام کی ناراضگی خواص کی رضا مندی کو بے اثر بنا دیتی ہے اور خاص کی ناراضگی عوام کی رضامندی کے ہوتے ہوئے نظر انداز کی جاسکتی ہے۔ اور یہ یاد رکھو کہ رعیت میں خاص سے زیادہ کوئی ایسا نہیں کہ خوش حالی کے وقت حاکم پر بوجھ بننے والا،مصیبت کے وقت امداد سے کتراجانے والا،انصاف پر ناک بھوں چڑھانے والا،طلب و سوال کے موقع پر پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ جانے والا،بخشش پر کم شکر گزار ہونے والا، محروم کر دیئے جانے پر بمشکل عذر سننے والااور زمانہ کی ابتلاؤں پر بے صبری دکھانے والاہو ۔اور دین کا مضبوط سہارا ، مسلمانوں کی قوت اور دشمن کے مقابلہ میں سامان دفاع، یہی امت کے عوام ہوتے ہیں لہذا تمہاری پوری توجہ اور تمہارا پورا رخ انہی کی جانب ہونا چاہئے ۔ اور تمہاری رعایا میں تم سے سب سے زیادہ دور اور سب سے زیادہ تمہیں نا پسند وہ ہونا چاہئے جو لوگوں کی عیب جوئی میں زیادہ لگا رہتا ہے ۔ کیونکہ لوگوں میں عیب تو ہوتے ہی ہیں ۔ حاکم کے لئے انتہائی شایان یہ ہے کہ ان پر پردہ ڈالے ۔ لہذا جو عیب تمہاری نظروں سے اوجھل ہو ں انہیں نہ اچھالنا کیونکہ تمہارا کام انہی عیبوں کو مٹانا ہے کہ جو تمہارے اوپر ظاہر ہوں ،اور جو چھپے ڈھکے ہوں ،ان کا فیصلہ اﷲ کے ہاتھ ہے ۔اس لئے جہاں تک بن پڑے عیبوں کو چھپاؤ تاکہ اﷲبھی تمہارے ان عیبوں کی پردہ پوشی کرے جنہیں تم رعیت سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہو ۔لوگوں سے کینہ کی ہر گرہ کو کھول دو اور دشمنی کی ہر رسی کاٹ دو ، اور ہر ایسے رویہ سے جو تمہارے لئے مناسب نہیں بے خبر بن جاؤ اور چغل خور کی جھٹ سے ہاں میں ہا ںنہ ملاؤ ۔ کیونکہ وہ فریب کار ہوتا ہے اگرچہ خیر خواہوں کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شریک نہ کرنا کہ وہ تمہیں دوسروں کےساتھ بھلائی سے روکے گا ،اور فقر وافلاس کا خطرہ دلائے گا اور نہ کسی بزدل سے مہمات میں مشورہ لینا کہ وہ تمہاری ہمت پست کر دے گا اور نہ کسی لالچی سے مشورہ کرنا کہ وہ ظلم کی راہ سے مال بٹورنے کو تمہاری نظروں میں سج دے گا ۔یاد رکھو !بخل، بزدلی اور حرص اگرچہ الگ الگ خصلتیں ہیں مگر اللہ سے بدگمانی ان سب میں شریک ہے ۔ تمہارے لئے سب سے بدتر وزیر وہ ہو گا جو تم سے پہلے بدکرداروں کا وزیر اور گناہوںمیں ان کا شریک رہ چکا ہے۔اس قسم کے لوگوں کو تمہارے مخصوصین میں سے نہ ہونا چاہئےکیونکہ وہ گنہگاروں کے معاون اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں ۔ان کی جگہ تمہیں ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو تدبیر و رائے اور کارگردگی کے اعتبار سے ان کے مثل ہوں گے مگر انکی طرح گناہوں کی گرانباریوں میں دبے ہوئے نہ ہوں ۔جنہوں نے کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہو اور نہ کسی گنہگار کا اس کے گناہ میں ہاتھ بٹایا ہو ،ان کا بوجھ تم پرہلکا ہو گا اور یہ تمہارے بہترین معاون ثابت ہوں گے اور تمہاری طرف محبت سے جھکنے والے ہوں گے اور تمہارے علاوہ دوسروں سے ربط ضبط نہ رکھیں گے ۔انہی کو تم خلوت و جلوت میں اپنا مصاحب خاص ٹھہرانا ۔پھر تمہارے نزدیک ان میں زیادہ ترجیح ان لوگوں کو ہونا چاہئے کہ جو حق کی کڑوی باتیں تم سے کھل کرکہنے والے ہوں اور ان چیزوں میں جنہیں اللہ اپنے مخصوص بندوں کے لئے ناپسند کرتا ہے تمہاری بہت کم مدد کرنے والے ہوں چاہئے وہ تمہاری خواہشوں سے کتنی ہی میل کھاتی ہوں۔ پرہیزگاروں اور راستبازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا ۔پھر انہیں اس کا عادی بنا نا کہ وہ تمہارے کسی کارنامے کے بغیر تمہاری تعریف کرکے تمہیں خوش نہ کریں ۔کیونکہ زیادہ مدح سرائی غرور پیدا کرتی ہے اور سرکشی کی منزل سے قریب کر دیتی ہے ۔ اور تمہارے نزدیک نیکوکار اور بدکردار دونوں برابر نہ ہوں ۔اس لئے کہ ایسا کرنے سےنیکوں کو نیکی سے بے رغبت کرنا اور بدوں کو بدی پر آمادہ کرنا ہے۔ ہر شخص کو اسی کی منزلت پر رکھو،جس کا وہ مستحق ہے۔اور اس بات کو یاد رکھو کہ حاکم کو اپنی رعایا پر پورا عتماد اُسی وقت کرنا چاہئےجبکہ وہ ان سے حسن سلوک کرتا ہو اور ان پر بوجھ نہ لادے اور انہیں ایسی ناگوار چیزوں پر مجبور نہ کرے ،جو اُن کے بس میں نہ ہوں ۔تمہیں ایسا رویہ اختیار کرنا چاہئے کہ اِس حسنِ سلوک سے تمہیں رعیت پر پورا اعتماد ہو سکے کیونکہ یہ اعتماد تمہاری طویل اندرونی الجھنوں کو ختم کر دے گا اور سب سے زیادہ تمہارے اعتماد کے وہ مستحق ہیں جن کے ساتھ تم نے اچھا سلوک کیاہو، اور سب سے زیادہ بے اعتمادی کے مستحق وہ ہیں جن سے تمہارا برتاؤ اچھا نہ رہا ہو۔ اور دیکھو! اس اچھے طور طریقے کو ختم نہ کرنا کہ جس پر اس امت کے بزرگ چلتے رہے ہیں اور جس سے اتحاد ویکجہتی اور رعیت کی اصلاح ہوئی ہے اور ایسے طریقے ایجاد نہ کرنا کہ جوپہلے طریقوں کو کچھ ضرر پہنچائیں، اگر ایسا کیا تو نیک روش کے قائم کر جانے والوں کو ثواب توملتا رہے گا مگر انہیں ختم کردینے کا گناہ تمہاری گردن پر ہو گا ۔اور اپنے شہروں کے اصلاحی امور کو مستحکم کرنے اور اُن چیزوں کے قائم کرنے میں کہ جن سے اگلے لوگوں کے حالات مضبوط رہے تھےعلماء و حکماء کے ساتھ باہمی مشورہ اور بات چیت کرتے رہنا ۔ اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ رعایا میں کئی طبقے ہوتے ہیں جن کی سود و بہبود ایک دوسرے سے وابستہ ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہو سکتے ۔اِن میں سے ایک طبقہ وہ ہے جو اللہ کی راہ میں کام آنے والے فوجیوں کا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو عمومی و خصوصی تحریروں کا کا انجام دیتا ہے ۔تیسرا انصاف کرنے والے قضاۃ کا ہے۔ چوتھا حکومت کے وہ عمال جن سے امن اور انصاف قائم ہوتا ہے ۔پانچواں خراج دینے والے مسلمان اور جزیہ دینے والے ذمیوں کا ۔چھٹا تجارت پیشہ و اہل حرفہ کا ۔ساتواں فقراء و مساکین کا وہ طبقہ ہے کہ جو سب سے پست ہے اور اللہ نے ہر ایک کا حق معین کر دیا ہے اور اپنی کتاب یا سنت نبویؐ میں اس کی حد بندی کر دی اور وہ (مکمل ) دستور ہمارے پاس محفوظ ہے ۔ (پہلاطبقہ) فوجی دستے یہ بحکم خدا رعیت کی حفاظت کا قلعہ ،فرمانرواؤں کی زینت ،دین و مذہب کی قوت اور امن کی راہ ہیں ۔رعیت کا نظم و نسق انہی سے قائم رہ سکتا ہے اور فوج کی زندگی کا سہارا وُہ خراج ہے جو اللہ نے اس کے لئے معین کیا ہے کہ جس سے وہ دشمنوں سے جہاد کرنے میں تقویت حاصل کرتے اور اپنی حالت کو درست بناتے اور ضروریات کو بہم پہنچاتے ہیں ۔ پھر ان دونوں طبقوں کے نظم و بقاء کے لئے تیسرے طبقے کی ضرورت ہے کہ جو قضاۃ ،عمال اور منشیات دفاتر کا ہے کہ جن کے ذریعہ باہمی معاہدوں کی مضبوطی اور خراج اور دیگر منافع کی جمع آوری ہوتی ہے اور معمولی اور غیر معمولی معاملوں میں ان کے ذریعے وثوق و اطمینان حاصل کیا جاتا ہے اور سب کا دارومدار سوداگروں اور صناعوں پر ہے کہ وہ ان کی ضروریات کو فراہم کرتے ہیں۔ بازار لگاتے ہیں اور اپنی کاوشوں سے اُن کی ضروریات کو مہیا کر کے انہیں خود مہیا کرنے سے آسودہ کر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد پھر فقیروں اور ناداروں کا طبقہ ہے جن کی اعانت و دستگیری ضروری ہے۔اللہ تعالٰی نے ان سب کے گزار ے کی صورتیں پیدا کر رکھی ہیں اور ہر طبقے کا حاکم پر حق قائم ہے کہ وہ ان کے لئے اتنا مہیا کرے جو انکی حالت درست کر سکے اور حاکم خدا کے اُن تمام ضروری حقوق سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا مگر اسی صورت میں کہ پوری طرح کوشش کرے اور اللہ سے مدد مانگے اور اپنے کوحق پر ثابت و برقرار رکھے ۔اور چاہے اُ س کی طبیعت پر آسان ہو یا دشوار بہرحال اس کو برداشت کرے۔ فوج کا سردار اُس کو بنانا جو اپنے اللہ کا اور اپنے رسول ﷺ کا اور تمہارے امام ؑ کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہو ،سب سے زیادہ پاک دامن ہو اور بردباری میں نمایاں ہو ۔جلد غصہ میںنہ آجاتا ہو۔عذر معذرت پر مطمئن ہو جاتا ہو ،کمزوروں پر رحم کھاتا ہو ،اور طاقتوروں کے سامنے اکڑ جاتا ہو،نہ بدخوئی اُسے جوش میں لے آتی ہو اور نہ پست ہمتی اُسے بٹھا دیتی ہو ۔ پھر ایسا ہونا چاہئے کہ تم بلند خاندان ،نیک گھرانے اور عمدہ روایات رکھنے والوں اور ہمت و شجاعت اور جودو سخا وت کے مالکوں سے اپنا ربط و ضبط بڑھاؤ ،کیونکہ یہی لوگ بزرگیوں کا سرمایہ اور نیکیوں کا سر چشمہ ہوتے ہیں ۔پھر ان کے حالات کی اس طرح دیکھ بھال کرنا،جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتے ہیں ۔اگر اُ ن کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرو کہ جو اُن کی تقویت کا سبب ہو تو اُسے بڑا نہ سمجھنا ، اور اپنے کسی معمولی سلوک کو بھی غیر اہم نہ سمجھ لینا (کہ اُسے چھوڑ بیٹھو) کیونکہ اس حسن سلوک سے انکی خیر خواہی کا جزبہ ابھرے گا اور حسن اعتماد میں اضافہ ہو گا اور اِس خیال سے کہ تم نے ان کی بڑی ضروریات کو پورا کر دیا ہے، کہیں انکی چھوٹی ضروریات سے آنکھ بند نہ کر لینا ۔ کیونکہ یہ چھوٹی قسم کی مہربانی کی بات بھی اپنی جگہ فائدہ بخش ہوتی ہے اور وہ بڑی ضرورتیں اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اور فوجی سرداروں میں تمہارے یہاں وہ بلند منزلت سمجھا جائے ،جو فوجیوں کی اعانت میں برابر کا حصہ لیتا ہو ،اور اپنے روپے پیسے سے اتنا سلوک کرتا ہو کہ جس سے اُن کا اور ان کے پیچھے رہ جانے والے بال بچوں کا بخوبی گزارا ہو سکتا ہو۔تاکہ وہ ساری فکروں سے بے فکر ہو کر پوری یکسوئی کے ساتھ دشمن سے جہاد کریں ۔اس لئے کہ فوجی سرداروں کے ساتھ تمہارا مہربانی سے پیش آنا ان کے دلوں کو تمہاری طرف موڑ دے گا۔ حکمرانوں کے لئے سب سے بڑی آنکھوں کی ٹھنڈک اِس میں ہے کہ شہروں میں عدل و انصاف برقرا ر رہے اور رعایا کی محبت ظاہر ہوتی رہے اور انکی محبت اُسی وقت ظاہر ہوا کرتی ہے کہ جب اُنکے دلوں میں میل نہ ہو اور اُنکی خیر خواہی اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے گرد حفاظت کے لئے گھیرا ڈالے رہیں۔انکا اقتدار سر پڑا بوجھ نہ سمجھیں اور نہ انکی حکومت کے خاتمہ کے لئے گھڑیاں گنیں ۔لہذا ان کی امیدوں میں وسعت و کشائش رکھنا ،اُنہیں اچھے لفظوں سے سراہتے رہنا اور ان میں کے اچھی کارکردگی دکھانے والوں کے کارناموں کا تذکرہ کرتے رہنا۔اس لئے کہ ان کے اچھے کارناموں کا ذکر بہادروں کو جوش میں لے آتا ہے اور پست ہمتوں کو ابھارتا ہے ۔انشاءاللہ جو شخص جس کارنامے کو انجام دے اسے پہچانتے رہنا اور ایک کا کارنامہ دوسرے کی طرف منسوب نہ کر دینا اور اسکی حسنِ کارکردگی کا صلہ دینے میں کمی نہ کرنا اور کبھی ایسا نہ کرنا کہ کسی شخص کی بلندی و رفعت کی وجہ سے اسکے معمولی کام کو بڑا سمجھ لو اور کسی کے بڑے کام کو اس کے خود پست ہونے کی وجہ سے معمولی قرار دے لو ۔ جب ایسی مشکلیں تمہیں پیش آئیں کہ جن کا حل نہ ہو سکے اور ایسے معاملات کہ جو مشتبہ ہو جائیں تو ان میں اللہ اور رسولﷺ کی طرف رجوع کرو،کیونکہ خدا نے جن لوگوں کو ہدایت کرنا چاہی ہے ان کے لئے فرمایا ہے “اے ایماندارو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول ﷺ کی اور ان کی جو تم میں سے صاحبان امر ہوں ۔”تو اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسکی کتاب کی محکم آیتوں پر عمل کیا جائے اور رسولﷺ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ کے ان متفق علیہ ارشادات پر عمل کیا جائے جن میں کوئی اختلاف نہیں ۔ پھر یہ کہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایسے شخص کو منتخب کرو جو تمہارے نزدیک تمہاری رعایا میں سب سے بہتر ہو،جو واقعات کی پیچیدگیوں سے ضیق میں نہ پڑ جاتا ہواور نہ جھگڑا کرنے والوں کے رویہ سے غصہ میں آتا ہو۔ نہ اپنے کسی غلط نقطۂ نظر پر اَڑتا ہو،نہ حق کو پہچان کر اس کے اختیار کرنے میں طبیعت پر بار محسوس کرتا ہو،نہ اُس کا نفس ذاتی طمع پر جھک پڑتا ہو ،اور نہ بغیر پوری طرح چھان بین کئے ہوئے سرسری طور پر کسی معاملہ کو سمجھ لینے پر اکتفا کرتا ہو۔شک و شبہ کے موقعہ پر قدم روک لیتا ہو ،اور دلیل و حجت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہو۔ فریقین کی بحثا بحثی سے اُکتا نہ جاتا ہو ۔ معاملات کی تحقیق میں بڑے صبر و ضبط سے کام لیتا ہو اور جب حقیقت آیئنہ ہو جاتی ہو تو بے دھڑک فیصلہ کر دیتا ہو ۔ وہ ایساہو جسے سراہنا مغرور نہ بنائے اور تاننا جنبہ داری پر آمادہ نہ کر دے ۔اگرچہ ایسے لوگ کم ہی ملتے ہیں۔ پھر یہ کہ تم خود اُن کے فیصلوں کا بار بار جائزہ لیتے رہنا۔دل کھول کر انہیں اتنا دینا کہ جو ان کےہر عذر کو غیر مسموع بنا دے اور لوگوں کی انہیں کوئی احتیاج نہ رہے ۔اپنے ہاں انہیں ایسے باعزت مرتبہ پر رکھو کہ تمہارے دربار رس لوگ انہیں ضرر پہنچانے کا کوئی خیال نہ کر سکیں تاکہ وہ تمہارے التفات کی وجہ سے لوگوں کی سازش سے محفوظ رہیں۔ اس بارے میں انتہائی بالغ نظری سے کام لینا ،کیونکہ (اس سے پہلے )یہ دین بد کرداروں کے پنجے میںاسیر رہ چکا ہے، جس میں نفسانی خواہشوں کی کارفرمائی تھی ،اور اُسے دنیا طلبی کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا تھا ۔ پھر اپنے عہدہ داروں کے بارے میں نظر رکھنا ان کو خوب آزمائش کے بعد منصب دینا ۔کبھی صرف رعایت اور جانبداری کی بنا پر انہیں منصب عطا نہ کرنا ۔اس لئے کہ یہ باتیں ناانصافی اور بےایمانی کا سرچشمہ ہیں اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا جو آزمودہ و غیرت مند ہوں ۔ایسے خاندانوں میں سے جو اچھے ہوں اور جن کی خدمات اسلام کے سلسلہ میں پہلے سے ہوں کیونکہ ایسے لوگ بلند اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں ۔حرص و طمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور عواقب و نتائج پر زیادہ نظر رکھتے ہیں ۔ پھر ان کی تنخواہوں کا معیا ر بلند رکھنا ، کیونکہ اس سے انہیں اپنے نفوس کے درست رکھنے میں مدد ملے گی ، اور اس مال سے بے نیاز رہیں گے جو انکے ہاتھوں میں بطور امانت ہوگا ۔ اس کے بعد بھی وہ تمہارے حکم کی خلاف ورزی یا امانت میں رخنہ اندازی کریں تو تمہاری حجت ان پر قائم ہو گی ۔ پھر ان کے کاموں کو دیکھتے بھالتے رہنا اور سچے اور وفا دار مخبروں کو ان پر چھوڑ دینا ، کیونکہ خفیہ طور پر انکی نگرانی انہیں امانت کے برتنے اور رعیت کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کی باعث ہوگی ۔ خائن مددگاروں سے اپنا بچاؤ کرتے رہنا ۔اگر ان میں سے کوئی خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور متفقہ طور پر جاسوسوں کی اطلاعات تم تک پہنچ جائیں ، تو شہادت کے لئے بس اسے کافی سمجھنا۔ اسے جسمانی طور پر سزا دینا اور جو کچھ اس نے اپنے عہدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سمیٹا ہے، اُسے واپس لینا اور اُسے ذلت کی منزلت پر کھڑا کر دینا ،اور خیانت کی رسوائیوں کے ساتھ اسے روشناس کرانا اور ننگ ورسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا ۔ مال گذاری کے معاملہ میں مال گزاری ادا کرنے والوں کا مفاد پیش نظر رکھنا ، کیونکہ باج اور باجگزاروں کی بدولت ہی دوسروں کے حالات درست کئے جا سکتے ہیں ۔ سب اسی خراج اور خراج دینے والوں کے سہارے پر جیتے ہیں اور خراج کی جمع آوری سے زیادہ زمین کی آبادی کا خیال رکھنا کیونکہ خراج بھی تو زمین کی آبادی ہی سے حاصل ہو سکتا ہے اور جو آبادکئے بغیر خراج چاہتا ہے وہ ملک کی بربادی اور بندگان خدا کی تباہی کا سامان کرتا ہے اور اس کی حکومت تھوڑے دنو ں سے زیادہ نہیں رہ سکتی ۔ اب اگر وہ خراج کی گرانباری یا کسی آفتِ نا گہانی یا نہری و بارانی علاقوں میں ذرائع آب پاشی کے ختم ہونے یا زمین کے سیلاب میں گھر جانے یا سیرابی کے نہ ہونے کے باعث اس کے تباہ ہونے کی شکایت کریں تو خراج میں اتنی کمی کردو جس سے تمہیں ان کے حالات کے سدھرنے کی توقع ہو ، اور اُن کے بوجھ کو ہلکا کرنے سے تمہیں گرانی نہ محسوس ہو ،کیونکہ انہیں زیر باری سے بچانا ایک ایسا ذخیرہ ہے کہ جو تمہارے ملک کیآبادی اور تمہارے قلمروحکومت کی زیب و زینت کی صورت میں تمہیں پلٹا دیں گے اور اس کے ساتھ تم ان سے خراج تحسین اور عدل قائم کرنے کی وجہ سے مسرتِ بے پایاں بھی حاصل کر سکو گے اور اپنے اس حسن سلوک کی وجہ سے کہ جس کا ذخیرہ تم نے ان کے پاس رکھ دیا ہے تم(آڑے وقت پر) انکی قوت کے بل بوتے پر بھروسہ کر سکو گے اور رحم درافت کے جلو میں جس سیرت عادلانہ کا تم نے انہیں خوگر بنایا ہے اس کے سبب سے تمہیں ان پر ثوق و اعتماد ہو سکے گا ۔اس کے بعد ممکن ہے کہ ایسے حالات بھی پیش آئیں کہ جن میں تمہیں ان پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہو تو وہ انہیں بطیّبِ خاطر جھیل لے جائیں گے ۔ کیونکہ ملک آباد ہے توجیسا بوجھ اس پر لادو گے ، وہ اٹھا لے گا اور زمین کی تباہی تو اس سے آتی ہے کہ کاشتکاروں کے ہاتھ تنگ ہو جائیں اور ان کی تنگ دستی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ حکام مال ودولت کے سمیٹنے پر تل جاتے ہیں اور انہیں اپنے اقتدار کے ختم ہونے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور عبرتوں سے بہت کم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔ پھر یہ کہ اپنے منشیان ِدفاتر کی اہمیت پر نظر رکھنا۔اپنےمعاملات ان کے سپرد کرنا ۔جو ان میں بہتر ہوں۔ اور اپنے اُن فرامین کو جن میں مخفی تدابیر اور (مملکت کے) رموز واسرار درج ہوتے ہیں خصوصیت کے ساتھ اُن کے حوالے کرنا ،جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک ہوں ۔جنہیں اعزاز کا حاصل ہونا سرکش نہ بنائے کہ وہ بھری محفلوں میں تمہارے خلاف کچھ کہنے کی جرأت کرنے لگیں ۔اور ایسے بے پرواہ نہ ہوں کہ لین دین کے بارے میں جو تم سے متعلق ہوں ،تمہارے کارندوں کے خطوط تمہارے سامنے پیش کرنے اور ان کے مناسب جوابات روانہ کرنے میں کوتاہی کرتے ہوں۔ اور وہ تمہارے حق میں جو معاہدہ کریں اس میں کوئی خامی نہ رہنے دیں اور نہ تمہارے خلاف کسی ساز باز کا توڑ کرنے میں کمزوری دکھائیں اور وہ معاملات میں اپنے صحیح مرتبہ اور مقام سے نا آشنا ء نہ ہوں کیونکہ جو اپنا صحیح مقام نہیں پہچانتا وہ دوسروں کے قدرومقام سے اور بھی زیادہ نا واقف ہوگا ۔ پھر یہ کہ ان کا انتخاب تمہیں اپنی فراست ، خوش اعتمادی اور حسنِ ظن کی بناء پر نہ کرنا چاہئے کیونکہ لوگ تصنع اور حسنِ خدمات کے ذریعہ حکمرانوں کی نظروں میں سما کر تعارف کی راہیں نکال لیا کرتے ہیں ۔ حالانکہ ان میں ذرا بھی خیر خواہی اور امانت داری کا جذبہ نہیں ہوتا ۔ لیکن تم انہیں ان خدمات سے پرکھو جو تم سے پہلے وہ نیک حاکموں کے ما تحت رہ کر انجام دے چکے ہوں تو جو عوام میں نیک نام اور امانت داری کے اعتبار سے زیادہ مشہور ہوں ان کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرو ۔ اس لئے کہ ایسا کرنا اس کی دلیل ہوگا کہ تم اﷲکے مخلص اور اپنے امام کے خیر خواہ ہو ۔ تمہیں محکمۂ تحریر کے ہر شعبہ پر ایک ایک افسر مقرر کرنا چاہئے جو اس شعبہ کے بڑے سے بڑے کام سے عاجز نہ ہو اور کام کی زیادتی سے بوکھلانہ اٹھے ۔ یاد رکھو کہ ان منشیوں میں جو بھی عیب ہوگا اور تم اس سے آنکھ بند رکھو گے اس کی ذمہ داری تم پر ہوگی ۔ پھر تمہیں تاجروں اور صناعوں کے خیال اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کی ہدایت کی جاتی ہے اور تمہیں دوسروں کو ان کے متعلق ہدایت کرنا ہے خواہ وہ ایک جگہ رہ کر بیوپار کرنے والے ہوں یا پھیری لگا کر بیچنے والے ہوں یا جسمانی مشقت (مزدوری یا دستکاری) سے کمانے والے ہوں کیونکہ یہی لوگ منافع کا سرچشمہ اور ضروریات کے مہیا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ ان ضروریات کو خشکیوں ، تریوں، میدانی علاقوں اور پہاڑوں ایسے دور افتادہ مقامات سے درآمد کرتے ہیں اور ایسی جگہوں سے کہ جہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے اور نہ وہاں جانے کہ ہمت کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ امن پسند اور صلح جو ہوتے ہیں ۔ ان سے کسی فساد اور شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا ۔ یہ لوگ تمہارے سامنے ہو ں یا جہاں جہاں دوسرےشہروں میں پھیلے ہوئے ہوں ، تم ان کی خبر گیری کرتے رہنا ۔ ہاں اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو انتہائی تنگ نظر اور بڑے کنجوس ہوتے ہیں جو نفع اندوزی کے لئے مال روک رکھتے ہیں اور اونچے نرخ معین کر لیتے ہیں ۔ یہ چیز عوام کے لئے نقصان دہ ، اور حکام کی بد نامی کا باعث ہوتی ہے ۔ لہذا ذخیرہ اندوزی سے منع کرنا ، کیونکہ رسول اﷲﷺ نے اس سے ممانعت فرمائی ہے اور خریدو فروخت صحیح ترازؤوں اور مناسب نرخوں کے ساتھ بسہولت ہونا چاہئے کہ نہ بیچنے والے کو نقصان ہو اور نہ خریدنے والے کو خسارہ ہو ۔اس کے بعد بھی کوئی ذخیرہ اندوزی کے جرم کا مرتکب ہو تو اُسے مناسب حد تک سزا دینا۔ پھر خصوصیت کے ساتھ اﷲکا خوف کرنا ۔پسماندہ و افتادہ طبقہ کے بارے میں جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا ۔وہ مسکینوں ، محتاجوں ، فقیروں اور معذوروں کا طبقہ ہے ۔ ان میں کچھ تو ہاتھ پھیلاکر مانگنے والے ہیں اور کچھ کی صورت سوال ہوتی ہے ۔اﷲکی خاطر ان بے کسوں کے بارے میں اس کے اس حق کی حفاظت کرنا جس کااس نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے ۔ان کے لئے ایک حصہ بیت المال سے معین کر دینا اور ایک حصہ ہر شہر کے اس غلہ میں سے دینا جو اسلامی غنیمت کی زمینوں سے حاصل ہوا ہو ، کیونکہ اس میں دور والوں کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا نزدیک والوں کا ہے اور تم ان سب کے حقوق کی نگہداشت کے ذمہ دار بنائے گئے ہو ۔ لہذا تمہیں دولت کی سرمستی ان سے غافل نہ کردے ۔ کیونکہ کسی معمولی بات کو اس لئے نظر انداز نہیں کیا جائے گا کہ تم نے بہت سے اہم کامو ں کو پورا کردیا ہے لہذا اپنی توجہ ان سے نہ ہٹانا اور نہ تکبر کے ساتھ انکی طرف سے اپنا رخ پھیرنا ۔ اور خصوصیت کے ساتھ خبر رکھو ایسے افراد کی جو تم تک پہنچ نہیں سکتے۔ جنہیں آنکھیں دیکھنے سے کراہت کرتی ہوں گی ، اور لوگ انہیں حقارت سے ٹھکراتے ہوں گے۔ تم ان کے لئے اپنے کسی بھروسے کے آدمی کو جو خوفِ خدا رکھنے والااور متواضع ہو، مقرر کردینا کہ وہ ان کے حالات تم تک پہنچاتا رہے ۔ پھر ان کے ساتھ وہ طرزِعمل اختیار کرنا جس سے کہ قیامت کے روز اﷲکے سامنے حجت پیش کر سکو کیونکہ رعیت میں دوسروں سے زیادہ یہ انصاف کے محتاج ہیں اور یوں تو سب ہی ایسے ہیں کہ تمہیں ان کے حقوق سے عہدہ بر آہو کر ا للہ کے سامنے سرخرو ہونا ہے اور دیکھو یتیموں اور سال خوردہ بوڑھوں کا خیال رکھنا ، کہ جو نہ کوئی سہارا رکھتے ہیں اور نہ سوال کے لئے اٹھتے ہیں اور یہی وہ کام ہے جو حکام پر گراں گزرا کرتا ہے ۔ ہاں خدا ان لوگوں کے لئے جو عقبٰی کے طلبگار رہتے ہیں اس کی گرانیوں کو ہلکا کر دیتا ہے وہ اسے اپنی ذات پر جھیل لے جاتے ہیں اور اﷲنے جو ان سے وعدہ کیا ہے اس کی سچائی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ اور تم اپنے اوقات کا ایک حصہ حاجت مندوں کےلئے معین کر دینا جس میں سب کام چھوڑ کر انہی کے لئے مخصوص ہو جانا اور ان کے لئے ایک عام دربار کرنا اور اس میں اپنے پیدا کرنے والے اﷲکےلئے توضع وانکساری سے کام لینا اور فوجیوں ، نگہبانوں اور پولیس والوں کو ہٹا دینا تا کہ کہنے والے بے دھڑک کہہ سکیں۔ کیونکہ میں نے رسول اﷲﷺ کو کئی موقعوں پر فرماتے سنا ہے کہ ” اس قوم میں پاکیزگی نہیں آسکتی جس میں کمزوروں کو کھل کر طاقتوروں سے حق نہیں دلایا جا تا ۔” پھر یہ کہ اگر ان کے تیور بگڑیں یا صاف صاف مطلب نہ کہہ سکیں ، تو اسے برداشت کرنا اور تنگدلی اور نخوت کو ان کے مقابلہ میں پاس نہ آنے دینا ۔ اس کی وجہ سے اﷲ تم پر اپنی رحمت کے دامنوں کو پھیلادے گا ، اور اپنی فرمانبرداری کا تمہیں ضرور اجر دے گا ۔اور جو حسنِ سلوک کرنا اس طرح کہ چہرے پر شکن نہ آئے اور نہ دینا تو اچھے طریقے سے عذر خواہی کر لینا ۔ پھر کچھ امور ایسے ہیں کہ جنہیں خود تم ہی کو انجام دینا چاہئیں ۔ ان میں سے ایک حکام کے ان مراسلات کا جواب دینا ہے جو تمہارے منشیوں کے بس میں نہ ہوں اور ایک لوگوں کی حاجتیں جب تمہارے سامنے پیش ہوں اور تمہارے عملہ کے ارکان ان سے جی چرائیں تو خود انہیں انجام دینا ہے ۔ روز کا کام اسی روز ختم کر دیا کرو ،کیونکہ ہر دن اپنے ہی کام کے لئے مخصوص ہوتا ہے اور اپنے اوقات کا بہتر و افضل حصہ اﷲکی عبادت کے لئے خاص کر دینا ۔ اگرچہ وہ تمام کام بھی اﷲ ہی کے لئے ہیں جب نیت بخیر ہو اور ان سے رعیت کی خوش حالی ہو ۔ ان مخصوص اشغال میں سےکہ جن کے ساتھ تم خلوص کے ساتھ اﷲکے لئے اپنے دینی فریضہ کو اد اکرتےہو ان واجبات کی انجام دہی ہونا چاہئے جو اس کی ذات سے مخصوص ہیں ۔ تم شب وروز کے اوقات میں اپنی جسمانی طاقتوں کا کچھ حصہ اﷲکے سپرد کردو اور جو عباد ت بھی تقرب الٰہی کی غرض سے بجا لانا، ایسی ہو کہ نہ اس میں کوئِی خلل ہو اور نہ کوئی نقص، چاہے اس میں تمہیں کتنی جسمانی زحمت اٹھا نا پڑے ۔ اور دیکھو! جب لوگوں کو نماز پڑھانا تو ایسی نہیں کہ (طول دے کر ) لوگوں کو بے زار کر دو ، اور نہ ایسی مختصر کہ نماز برباد ہو جائے ۔ اس لئے کہ نمازیوں میں بیمار بھی ہوتے ہیں اور ایسے بھی جنہیں کوئی ضرورت در پیش ہوتی ہے چنانچہ جب مجھے رسو اﷲ ﷺ نے یمن کی طرف روانہ کیا تو میں نے آپؐ سے دریافت کیا کہ انہیں نماز کس طرح پڑھاؤ ں ؟ تو فرمایا کہ جیسی ان میں کے سب سے زیادہ کمزور و نا تواں کی نماز ہو سکتی ہے ، اور تمہیں مومنوں کے حال پر مہربان ہونا چاہئے ۔ اسکے بعد یہ خیال رہے کہ رعایا سے عرصہ تک روپوشی نہ کرنا کیونکہ حکمرانوں کا رعایا سے چُھپ کررہنا ایک طرح کی تنگ دلی اور معاملات سے بے خبر رہنے کا سبب ہے اور یہ روپوشی انہیں بھی ان اُمور پر مطلع ہونے سے روکتی ہے کہ جن سے وہ ناواقف ہیں جس کی وجہ سے بڑی چیز ان کی نگاہ میں چھوٹی اور چھوٹی چیز بڑی ،اچھائی برائی اور برائی اچھائی ہو جایا کرتی ہے اور حق باطل کے ساتھ مل جل جانا اور حکمران بھی آخرایسا ہی بشر ہوتا ہے جو ناواقف رہے گا ان معاملات سے جو لوگ اس سے پوشیدہ کریں ،اور حق کی پیشانی پر کوئی نشان نہیں ہوا کرتے کہ جس کے ذریعے جھوٹ سے سچ کی قسموں کو الگ کر کے پہچان لیا جائے ۔ اور پھر تم دو ہی طرح کے آدمی ہو سکتے ہو یا تو تم ایسے ہو کہ تمہارا نفس حق کی آدائیگی کے لئے آمادہ ہے تو پھر واجب حقوق ادا کرنے اور اچھے کام کر گزرنے سے منہ چھپانے کی ضرورت کیا؟ اور یا تم ایسے ہو کہ لوگوں کو تم سے کورا جواب ہی ملنا ہے تو جب لوگ تمہاری عطا سے مایوس ہو جائیں گے تو خود ہی بہت جلد تم سے مانگنا چھوڑ دیں گے اور پھر یہ کہ لوگوں کی اکثر ضرورتیں ایسی ہوں گی جن سے تمہاری جیب پر کوئی بار نہیں پڑتا جیسے کسی کے ظلم کی شکایت یا کسی معاملہ میں انصاف کا مطالبہ۔ اس کے بعد معلوم ہونا چاہئے کہ حکام کے کچھ خواص اور سر چڑھے لوگ ہوا کرتے ہیں جن میں خود غرضی ،دست درازی اور بد معاملگی ہوا کرتی ہے تم کو ان حالات کے پیدا ہونے کی وجوہ ختم کر کے اس گندے مواد کو ختم کر دینا چاہئے۔ اور دیکھو !اپنے کسی حاشیہ نشین اور قرابت دار کو جاگیر نہ دینا اور اُسے تم سے توقع نہ بندھنا چاہئے کسی ایسی زمین پر قبضہ کرنے کی جو آبپاشی یا کسی مشترکہ معاملہ میں اس کے آس پاس کے لوگوںکےلئے ضرر کی باعث ہو، یوں کہ اس کا بوجھ دوسرے پر ڈال دے۔ اس صورت میں اس کے خوش گوار مزے تو اس کے لئے ہوں گے نہ تمہارے لئےمگر اس کا بدنما دھبہ دنیا و آخرت میں تمہارے دامن پر رہ جائے گا ۔ اور جس پر جو حق عائد ہوتا ہو، اُس پر اس حق کو نافذ کرنا چاہئے۔وہ تمہارا اپنا ہو یا بیگانہ ہو اور اس کے بارے میں تحمل سے کام لینا اور ثواب کے امیدوار رہنا ۔چاہے اس کی زد تمہارے کسی قریبی عزیز یا کسی مصاحبِ خاص پر کیسی ہی پڑتی ہو اور اس میں تمہاری طبیعت کو جو گرانی محسوس ہو ،اس کے اُخروی نتیجہ کو پیش نظر رکھنا کہ اس کا انجام بہر حال اچھا ہو گا ۔ اور اگر رعیت کو تمہارے بارے میں کبھی یہ بد گمانی ہو جائے کہ تم نے اس پر ظلم و زیادتی کی ہے تو اپنے عذر کو واضح طور پر پیش کر دو اور عذر واضح کر کے انکے خیالات کو بدل دو ، اس سے تمہارے نفس کی تربیت ہو گی اور رعایا پر مہربانی ثابت ہو گی اور اس عذر آوری سے انکو حق پر استوار کرنے کا مقصد تمہارا پورا ہو گا ۔ اگر دشمن ایسی صلح کی تمہیں دعوت دے کہ جس میں اللہ کی رضا مندی ہو تو اسے کبھی ٹھکرا نہ دینا کیونکہ صلح میں تمہارے لشکر کے لئے آرام و راحت، خود تمہارے لئےفکروں سے نجات اور شہروں کے لئے امن کا سامان ہے ۔لیکن صلح کے بعد دشمن سے چوکنا اور خوب ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دشمن قرب حاصل کرتا ہے تاکہ تمہاری غفلت سے فائدہ اٹھائے ۔لہذا احتیاط کو ملحوظ رکھو اور اس بارے میں حسن ظن سے کام نہ لو ۔اور اگر اپنے اور دشمن کے درمیان کوئی معاہدہ کرو ،یا اسے اپنے دامن میں پناہ دو تو پھر عہد کی پابندی کرو ، وعدہ کا لحاظ رکھو اور اپنے قول و اقرار کی حفاظت کے لئے اپنی جان کو سُپر بنا دو۔کیونکہ اللہ کے فرائض میں سے ایفائے عہد کی ایسی کوئی چیز نہیں کہ جس کی اہمیت پر دنیا اپنے الگ الگ نظریوں اور مختلف رایوں کے باوجود یکجہتی سے متفق ہو۔ اور مسلمانوں کے علاوہ مشرکوں تک نے اپنے درمیان کی معاہدوں کی پابندی کی ہے ۔اس لئے کہ عہد شکنی کے نتیجہ میں انہوں نے تباہیوں کا اندازہ کیا تھا۔ لہذا اپنے عہد و پیمان میں غداری اور قول و اقرار میں بد عہدی نہ کرنا اور اپنے دشمن پر اچانک حملہ نہ کرناکیونکہ اللہ پر جر أت جاہل بدبخت کے علاوہ دوسرا نہیں کر سکتا ،اور اللہ نے عہد و پیمان کی پابندی کو امن کا پیغام قرار دیا ہے کہ جسے اپنی رحمت سے بندوں میں عام کر دیا ہے ،اور ایسی پناہ گاہ بنایا ہے کہ جس کے دامن حفاظت میں پناہ لینے اور اسکے جوار میں منزل کرنے کے لئے وہ تیزی سے بڑھتے ہیں ۔لہذا اس میں کوئی جعل سازی ،فریب کاری اور مکاری نہ ہونا چاہئے ۔ اور ایسا کوئی معاہدہ کرو ہی نہ، جس میں تاویلوں کی ضرورت پڑنے کا امکان ہو ، اور معاہدہ کے پختہ اور طے ہو جانے کے بعد اس کے کسی مبہم لفظ کے دوسرے معانی نکال کر فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو اور اس عہد و پیمان خداوندی میں کسی دشواری کا محسوس ہونا تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہونا چاہئے کہ تم اسے نا حق منسوخ کرنے کی کوشش کرو کیونکہ ایسی دشواریوں کو جھیل لے جانا کہ جن سے چھٹکارے کی اور انجام بخیر ہونے کی امید ہو اس بد عہدی کرنے سے بہتر ہے جس کے برے انجام کا تمہیں خوف اور اس کا اندیشہ ہو کہ اللہ کے یہاں تم سے ا س پر کوئی جواب دہی ہو گی اور اس طرح تمہاری دنیا اور آخرت دونوں کی تباہی ہو گی ۔ دیکھو ! ناحق خون ریزیوں سے دامن بچائے رکھنا۔ کیونکہ عذاب الہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں کے سلب ہونے اور عمر کے خاتمہ کا سبب نا حق خون ریزی سے زیادہ کوئی شۓنہیں ہے اور قیامت کے دن اللہ سبحانہ سب سے پہلے جو فیصلہ کرے گا وہ انہیں خونوں کا جو بندگانِ خدا نے ایک دوسرے کے بہائے ہیں ۔لہذا نا حق خون بہا کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کبھی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلاکر دینے والی ہوتی ہے ،بلکہ اس کو بنیادوں سے ہلاکر دوسروں کو سونپ دینے والی، اور جان بوجھ کر قتل کے جرم میں اللہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر چل سکے گا ،نہ میرے سامنے، کیونکہ اس میں قصاص ضروری ہے ۔اور اگر غلطی سے تم اس کے مرتکب ہو جاؤ اور سزا دینے میں تمہارا کوڑا یا تلوار یا ہاتھ حد سے بڑھ جا ئے اس لئے کہ کبھی گھونسا اور اس سے بھی چھوٹی ضرب ہلاکت کا سبب ہو جایا کرتی ہے تو ایسی صورت میں اقتدار کے نشہ میں بےخود ہو کر مقتول کا خون بہا اس کے وارثوّں تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کرنا ۔ اور دیکھو خود پسندی سے بچتے رہنا اور اپنی جو باتیں اچھی معلوم ہوں اُن پر اِترانا نہیں اور نہ لوگوں کے بڑھا چڑھا کر سراہنے کو پسند کرنا ۔کیونکہ شیطان کو جو مواقع ملاکرتے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک بھروسے کا ایک ذریعہ ہے کہ وہ اس طرح نیکوکاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے ۔ اور رعایا کے ساتھ نیکی کر کے کبھی احسان نہ جتانا اور جو اُن کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسے زیادہ نہ سمجھنا اور اُن سے وعدہ کر کے بعد میں وعدہ خلافی نہ کرنا کیونکہ احسان جتانا نیکی کو اکارت کر دیتا ہے اور اپنی بھلائی کو زیادہ خیال کرنا حق کی روشنی کو ختم کر دیتا ہے اور وعدہ خلافی سے اللہ بھی ناراض ہوتاہے اور بندے بھی ۔چنانچہ اللہ سبحانہ خود فرماتا ہے”خدا کے نزدیک یہ بڑی ناراضگی کی چیز ہے کہ تم جو کہو اسے کرو نہیں ۔” اور دیکھو وقت سے پہلے کسی کام میں جلد بازی نہ کرنا اور جب اس کا موقع آجائے تو پھر کمزوری نہ دکھانا اور جب صحیح صورت سمجھ میں نہ آئے تو اس پر مُصر نہ ہونا اور جب طریقِ کار واضح ہو جائے تو پھر سستی نہ کرنا ۔مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھو،اور ہر کام کو اس کے موقع پر انجام دو ۔ اور دیکھو ! جن چیزوں میں سب لوگوں کا حق برابر ہوتا ہے اُ سے اپنے لئے مخصوص نہ کر لینا اور قابلِ لحاظ حقوق سے غفلت نہ برتنا جو نظروں کے سامنے نمایاں ہو ں ۔کیونکہ دوسروں کے لئے یہ ذمہ داری تم پر عائد ہے اور مستقبل قریب میں تمام معاملات پر سے پردہ ہٹا دیا جائے گا اور تم سے مظلوم کی داد خواہی کر لی جاِئے گی ۔ دیکھو! غضب کی تندی ،سرکشی کے جوش ،ہاتھ کی جنبش، اور زبان کی تیزی پر ہمیشہ قابو رکھو اور ان چیزوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ جلد بازی سے کام نہ لو اور سزا دینے میں دیر کرو ،یہاں تک کہ تمہارا غصہ کم ہو جائے اور تم اپنے اوپر قابوپا لو ،اور کبھی یہ بات تم اپنے نفس میں پورے طور پرپیدا نہیں کر سکتے جب تک اللہ کی طرف اپنی بازگشت کو یاد کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ان تصورات کو قائم نہ رکھو ۔ اور تمہیں لازم ہے کہ گذشتہ زمانوں کی چیزوں کو یاد رکھو خواہ کسی عادل حکومت کا طریقہ کار ہو یا کوئی اچھا عمل درآمد ہو یا رسولﷺ کی کوئی حدیث ہو ، یا کتاب اللہ میں درج شدہ کوئی فریضہ ہو ،تو ان چیزوں کی پیروی کرو جن پر عمل کرتے ہو ئے ہمیں دیکھا ہے اور ان ہدایات پر عمل کرتے رہنا جو میں نے اس عہد نامہ میں درج کی ہیں اور ان کے ذریعہ سے میں نے اپنی حجت تم پر قائم کر دی ہے تاکہ تمہارا نفس اپنی خواہشات کی طرف بڑھے تو تمہارے پاس کوئی عذر نہ ہو ۔ اور میں اللہ تعالیٰ سے اس کی وسیع رحمت اور ہر حاجت کے پورا کرنے پر عظیم قدرت کا واسطہ دے کر اس سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تمہیں اس کی توفیق بخشے جس میں اسکی رضا مندی ہے کہ ہم اللہ کے سامنے اور اسکے بندوں کے سامنے ایک کھلاہوا عذر قائم کر کے سرخرو ہوں اور ساتھ ہی بندوں میں نیک نامی اور ملک میں اچھے اثرات اور اسکی نعمت میں فراوانی اور روزافزوں عزت کو قائم رکھیں اور یہ کہ میرا ور تمہارا خاتمہ سعادت اور شہادت پر ہو ۔بے شک ہمیں اُسی کی طرف پلٹنا ہے ۔والسلام علی رسولہ صلی اللہ علیہ و آلہ الطیبین الطاہرین و سلم تسلیماً کثیراً۔ والسلام۔

حوالہ جات

  1. مآخوذ از محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، جدول اختلاف نسخ انتہای کتاب، ص۲۳۸.
  2. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۲۷.
  3. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۲۹.
  4. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۲۹.
  5. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۲۹-۳۳۰.
  6. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۳۲.
  7. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۳۳.
  8. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۳۵.
  9. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۳۸.
  10. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۳۸.
  11. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۳۸.
  12. نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص۳۳۹.
  13. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵.
  14. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۲.
  15. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۲.
  16. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۴.
  17. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۴.
  18. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۴.
  19. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۵.
  20. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۵.
  21. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۵.
  22. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۵.
  23. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۵.
  24. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۶.
  25. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۶.
  26. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۶.
  27. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۶.
  28. http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2036136
  29. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵۵.
  30. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۶۱.
  31. http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/1666733
  32. http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/180779
  33. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۱.
  34. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۱.
  35. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۲.
  36. http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/869251
  37. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، صص ۲۶-۲۷.
  38. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۲۷.
  39. http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/897569
  40. ستادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۲۸.
  41. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۰.
  42. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۰.
  43. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۰.
  44. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۵.
  45. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۵.
  46. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۵.
  47. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۵.
  48. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵۳.
  49. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵۳.
  50. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵۳.
  51. http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/659981
  52. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵۳.
  53. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵۴.
  54. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵۸.
  55. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵۸.
  56. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۶۱.
  57. http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/671782

مآخذ

  • نہج البلاغہ، ترجمہ سیدجعفر شہیدی، تہران: علمی و فرہنگی، ۱۳۷۷.
  • استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، تہران: بنیاد نہج البلاغہ، ۱۳۵۹ش.
  • محمدی، سیدکاظم، دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: نشر امام علی(ع)، ۱۳۶۹.