فاطمہ بنت علی علیہ السلام

ویکی شیعہ سے
(فاطمہ بنت علی سے رجوع مکرر)
فاطمہ بنت علی ؑ
نامفاطمہ بنت علی بن ابی طالب
وجہ شہرتامام علیؑ کی بیٹی، راوی واقعہ کربلا
وفات117 ھ
والدامام علی ؑ
شریک حیاتمحمد بن ابی سعید بن عقیل
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


فاطمہ بنت علی بن ابی طالب (متوفی 117 ھ) راوی حدیث، اسیران کربلا اور واقعہ کربلا کے راویوں میں سے ہیں۔ آپ کے شوہر محمد بن ابی سعید بن عقیل واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔ فاطمہ کربلا میں موجود تھیں اور امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد دیگر اہل حرم کے ہمراہ اسیر ہوئیں۔

فاطمہ نے اپنے والد گرامی، اسماء بنت عمیس، امامہ بنت ابی‌العاص، ام الحسن بنت حضرت علی، امام حسنؑ اور کئی دیگر افراد سے حدیث نقل کی ہیں۔ اسی طرح حارث بن کعب کوفی، عبدالرحمان بن ابی‌ نعیم بجلی، عبید اللہ بن بشیر جعفی، موسی جہنی، عیسی بن عثمان، ابو بصیر وغیرہ نے آپ سے روایت کی ہیں۔ آپ سے منقول احادیث کی اکثریت اعتقادی، فقہی اور اخلاقی موضوعات پر ہیں۔

انہوں نے حدیث منزلت اور حدیث رد شمس کی روایت نقل کی ہیں۔ ابو مخنف نے واقعہ کربلا میں پیش آنے والے بعض واقعات کو ان سے ایک واسطہ سے نقل کیا ہے۔

نسب

فاطمہ شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ کی بیٹی ہیں اور ان کی ماں ام ولد تھیں۔[1] انہوں نے محمد بن ابی سعید بن عقیل سے شادی کی جس کے نتیجے میں حمیدہ نامی بیٹی پیدا ہوئی۔[2][یادداشت 1]

محمد بن ابی سعید میدان کربلا میں شہید ہوئے۔[3] اس کے بعد وہ سعید بن اسود بن ابی البختری کے عقد میں آئیں۔[4] ان سے برزہ و خالد نام کے دو بچے ہیں۔[5] ان کے بعد انہوں نے منذر بن عبیدہ بن زبیر سے عقد کیا۔[6] ان سے بھی عثمان و کبرہ نامی دو بچے ہوئے۔[7] وہ منذر کے انتقال کے بعد بھی زندہ رہیں[8] اور سن 117 ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔[9]

روایات

فاطمہ نے اپنے والد حضرت علی ؑ،[10] اسماء بنت عمیس،[11] امامہ بنت ابی العاص،[12] ام الحسن بنت امام علی ؑ،[13] امام حسن ؑ[14] اور دیگر افراد سے روایات نقل کی ہیں۔ حارث بن کعب کوفی، عبد الرحمن بن ابی‌ نعیم بجلی، عبید اللہ بن بشیر جعفی،[15] موسی جہنی،[16] عیسی بن عثمان،[17] ابو بصیر [18] و ۔۔۔ نے ان سے روایت نقل کی ہے۔ ان سے منقول زیادہ تر روایات اعتقادی،[19] فقہی[20] و اخلاقی[21] موضوعات پر مشتمل ہیں۔

انہوں نے حدیث رد الشمس [22] اور حدیث منزلت[23] کو اسماء بنت سے عمیس سے نقل کیا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ نسائی اور ابن ماجہ نے ان سے روایت نقل کی ہے۔[24]

واقعہ کربلا

وہ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور حضرت زینب اور دیگر اسیروں کے ساتھ شام لے جائی گئیں۔[25] دربار یزید میں ایک شامی نے یزید بن معاویہ سے انہیں کنیزی میں طلب کیا تو جناب زینب نے اس پر شدید رد عمل ظاہر کیا۔[26] ابو مخنف نے اس واقعہ کو حارث بن کعب کے واسطہ سے ان سے نقل کیا ہے۔[27]

اسی طرح سے انہوں نے دمشق سے مدینہ کے راستہ میں نعمان بن بشیر کے اہل حرم کے قافلہ کے ساتھ نیک سلوک کا ذکر کیا ہے۔ جب اسیران کربلا کا یہ کارواں مدینہ پہچا تو فاطمہ نے اپنی بہن زینب سے کہا: اس مرد شامی (نعمان بن بشیر) نے اس سفر میں ہمارے ساتھ نیک سلوک کیا، اسے کچھ عطا کرنا چاہیے۔ جناب زینب نے کہا: خدا کی قسم ہمارے پاس اسے دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے سوائے ہمارے زیورات کے۔ اس کے بعد ان دونوں نے اپنے کچھ زیورات نعمان کے پاس بھیجے اور اس سے معذرت خواہی کی لیکن نعمان نے انہیں قبول نہیں کیا اور کہا:

"اگر میں نے اس کام کو دنیا کے لئے انجام دیا ہوتا تو ان زیورات اور اس سے بھی کم پر خوش ہو جاتا لیکن خدا کی قسم میں نے اس کام کو صرف اللہ کی رضا اور رسول خداؐ سے آپ کی قرابت کی خاطر انجام دیا ہے۔"[28]

ذبیح اللہ محلاتی نے ریاحین الشریعہ میں شیعہ کتب رجالی میں ان کی شہرت نہ ہونے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔[29]

نوٹ

  1. البتہ موسوعہ کربلا میں فاطمہ کو ابو سعید کی زوجہ قرار دی گئی ہے اور ان کی دو اولاد محمد اور حمیدہ کا نام لیا گیا ہے۔ محمد سات سال کی عمر میں کربلا میں شہید ہوئے ہیں۔(بیضون، موسوعۃ کربلاء، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۵۲۹۔)

حوالہ جات

  1. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۳۴۴۔
  2. ابن سعد، الطبقات، 1410ق، ج8، ص340؛ مجلسی، بحار الانوار، 1404ق، ج42، ص94۔
  3. ابن سعد، الطبقات، 1416ق، طبقہ خامسہ، ج1، ص477۔
  4. ابن حبیب بغدادی، المحبر، دار الآفاق، ص56؛ ابن حزم، جمہرۃ انساب العرب، 1403ق، ص125۔
  5. ابن سعد، الطبقات، 1414ھ، ج8، ص340۔
  6. ابن حزم، جمہرۃ انساب العرب، 1403ق، ص125؛ ابن حبیب بغدادی، المحبر، دار الآفاق، ص57۔
  7. ابن سعد، الطبقات، 1414ق، ج8، ص340۔
  8. ابن سعد، الطبقات، 1414ق، ج8، ص340۔
  9. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج7، ص107۔
  10. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج11، ص667؛ ابن سعد، الطبقات، 1414ق، ج8، ص340؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ق، ج23، ص11۔
  11. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1097-1098؛ عاملی، اثبات الہداۃ، 1425ق، ج3، 239؛ جزری، اسنی المطالب، 1426ق، ص161؛ مجلسی، بحار الانوار، 1404ق، ج37، ص263، 268؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ق، ج5، ص29۔
  12. کلینی، الکافی، 1365ش، ج6، ص370؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ق، ج25، ص201؛ مجلسی، بحار الانوار، 1404ق، ج41، ص159۔
  13. مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ق، ج5، ص29۔
  14. برقی، رجال، 1383ق، ص61۔
  15. محدث نوری، مستدرک الوسائل، 1408ق، ج3، ص207؛ کلینی، الکافی، 1365ش، ج14، ص207، ص249۔
  16. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1097-1098؛ عاملی، اثبات الہداۃ، 1425ق، ج3، 239؛ جزری، اسنی المطالب، 1426ق، ص161؛ مجلسی، بحار الانوار، 1404ق، ج37، ص263۔
  17. ابن سعد، الطبقات، 1414ق، ص341
  18. مجلسی، بحار الانوار، 1404ق، ج41، ص159؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ق، ج25، ص201۔
  19. مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ق، ج5، ص29؛ عاملی، اثبات الہداۃ، 1425ق، ج1، ص414؛ مجلسی، بحار الانوار، 1404ق، ج41، ص177۔
  20. محدث نوری، مستدرک الوسائل، 1408ق، ج3، ص207، ج14، ص249۔
  21. مجلسی، بحار الانوار، 1404ق، ج41، ص159۔
  22. مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ق، ج5، ص29؛ عاملی، اثبات الہداۃ، 1425ق، ج1، ص414؛ مجلسی، بحار الانوار، 1404ق، ج41، ص177۔
  23. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1097-1098؛ عاملی، اثبات الہداۃ، 1425ق، ج3، 239؛ جزری، اسنی المطالب، 1426ق، ص161؛ مجلسی، بحار الانوار، 1404ق، ج37، ص263، 268۔
  24. صالحی شامی، سبل الہدی، 1414ق، ج9، ص435۔
  25. ابن اثیر، الکامل، 1385ق، ج4، ص88؛ ابن جوزی، المنتظم، 1412ق، ج5، ص344؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ق، ج6، ص133۔
  26. ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ق، ج6، ص133۔
  27. ابومخنف، 1417ھ، وقعہ الطف، ص48، 271؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص462-461۔
  28. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ص462-463؛ ابن اثیر، الکامل، 1385ق، ج4، ص88۔
  29. محلاتی، ریاحین الشریعہ، دار الکتب الاسلامیہ، ج3، ص308۔

مآخذ

  • ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: محمد عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1990ء/1410ھ۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ/1989ء۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ/1965ء۔
  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1412ق/1992ء۔
  • ابن حبیب بغدادی، کتاب المحبر، تحقیق ایلزۃ لیختن شتیتر، بیروت،‌ دار لآفاق الجدیدہ، بی‌ تا۔
  • ابن حزم، جمہرۃ أنساب العرب، تحقیق: لجنہ من العلماء، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ط الأولی، 1403ھ/1983ء۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبری (طبقہ خامسہ (1))، تحقیق: محمد بن صامل السلمی، الطائف، مکتبہ الصدیق، 1414ھ/1993ء۔
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفہ الأصحاب، تحقیق: علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، 1412ھ/1992ء۔
  • ابو مخنف کوفی، وقعہ الطف، جامعہ مدرسین، چاپ سوم، قم، 1417ھ۔
  • برقی، احمد بن محمد، رجال البرقی، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1383ھ۔
  • بیضون، لبیب، موسوعہ کربلا، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، 1427ھ۔
  • جزری، محمد بن محمد، أسنی المطالب (مناقب الاسد الغالب ممزق الکتائب و مظہر العجائب)، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1426ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، 1409ھ۔
  • صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرت خیر العباد، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1414ق/1993ء۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، 1387ھ/1967ء۔
  • عاملی، محمد بن حسن، اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، بیروت، اعلمی، 1425ھ۔
  • کحالہ، عمررضا، اعلام الرسالہ فی عالمی العرب و الاسلام، مؤسسہ الرسالہ، بیروت، 1412ھ/1991ء۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، 1365شمسی ہجری۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، 1404ھ۔
  • محدث نوری، میزرا حسین، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، 1408ھ۔
  • محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعہ در ترجمہ بانوان دانشمند شیعہ، طہران، دار الکتب الاسلامیہ، بی‌ تا۔
  • مقریزی، أحمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدہ و المتاع، تحقیق: محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1420ھ/1999ء۔