عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب (کتاب)

ویکی شیعہ سے
عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب
مشخصات
مصنفاحمد بن علی بن حسین حسینی
موضوعنسب
زبانعربی
تعداد جلد1
طباعت اور اشاعت
ناشرالمطبعۃ الحیدریہ نجف (عراق) ، انصاریان، قم (ایران)


عُمْدَةُ ألطّالِب فی أنْسابِ آلِ أبی‌طالب انساب کی مشہور کتابوں میں سے ایک ہے جسے نویں صدی ہجری کے شیعہ انساب کے ماہر احمد بن علی بن حسین حسینی (متوفی ۸۲۸ ق) نے تالیف کیا، جو ابن عنبہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس کتاب میں ابو طالب اور حضرت علی کی اولاد کا تذکرہ ہے۔ مصنف نے اس کتاب کی غرض تالیف میں کہا: میں نے مختلف علاقوں کا سفر کیا اور ایسے افراد کو دیکھا جو علوی ہونے کے مدعی ہیں اور کوئی انہیں رد نہیں کرتا ہے اگرچہ وہ انساب سے آشنا نہیں ہیں۔ لہذا اس کتاب کو انساب کے اصول و فروع کی جزئیات کے بیان کی غرض سے لکھا ہے۔اس کتاب کی فصل بندی اور تقسیمات چنداں واضح اور روشن نہیں ہے۔ اس جیسی کتاب میں سے کسی شخص کے نسب کی تلاش کیلئے انسان کو بہت جستجو کرنا پڑتی ہے۔

مؤلف

سید جمال‌ الدین‌ احمد بن‌ علی‌ بن‌ حسین‌ حسنی‌ حسینی‌ (حدود ۷۴۸- ۸۲۸ ق‌/۱۳۴۷-۱۴۲۴ م‌) اِبْن‌ِ عِنَبہ کے نام سے معروف مؤرخ‌ اور شیعہ نسب‌ شناس‌ ہے۔ وہ ابن مُعَیّہ کے شاگردوں میں سے ہے جس نے شہید اول کے زمانہ میں زندگی بسر کی ہے۔ دونوں ابن معیہ کے ذریعہ علامہ حلی سے روایت کرتے ہیں۔ عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب اس مؤلف کی اہم ترین کتاب ہے۔ ان کے مذہب کے متعلق اختلاف پایا جاتا پے۔ ان کے زیدی مسلک ہونے یا امامیہ ہونے پر شواہد پائے جاتے ہیں۔

نسب شناسی

عرب انساب کی بحث کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور قدیم ایام سے ہی انہوں نے اس علم میں کتب تالیف کی ہیں ۔ ان میں سے بعض پیامبر(ص) اور خاندان ابی طالب سے مخصوص ہیں ۔ ان میں سے کچھ شیعہ اور کچھ دیگر مذاہب کے علما نے تالیف کی ہیں ۔ اس طرح کی تالیفات میں اکثر رسول خدا اور آئمہ کی ذریت کے ذکر کے علاوہ تاریخی وقائع مذکور نہیں ہوتے ہیں ۔


سبب تألیف‏

ابن عنبہ نے اس کتاب کی غرض تالیف بیان کرتے ہوئے کہا :جب میں نے مختلف علاقوں کا سفر کیا ایسے افراد کو دیکھا جو علوی ہونے کا ادعا کرتے ہیں لیکن انکے اس ادعا کو کوئی رد نہیں کرتا ہے اگرچہ علویوں کے انساب سے آگاہ نہیں ہیں لہذا اس بنا پر اس کتاب کو انساب کے اصول و فروع کی وضاحت اور تبیین کیلئے اسے تالیف کیا ہے ۔[1]

متعدد تالیف

ابن عنبہ نے اس اثر کو مختلف حجموں میں ۳ مرتبہ تالیف کیا:

پہلی مرتبہ: سب سے زیادہ مفصل تر لیکن نامنظم تھی احتمال ہے کہ یہ تالیف ۸۰۲ق مکمل ہوئی اور پھر یہ کتاب امیر تیمور گورکان کو پیش کی گئی اسی مناسبت سے اس کتاب نے عمدة الطالب تیموری ‌ کے نام سے شہرت حاصل کی ۔ مؤلف نے اس کتاب کے آغاز میں وضاحت کی کہ کتاب حاضر کے عمدہ مطالب اپنے استاد ابوالحسن علی بن محمد بن علی بن صوفی کی کتاب سے مختصر طور پر اور شیخ ابوالنصر سہل بن عبداللہ بخاری سے لئے نیز دیگر منابع سے مزید نکات کا اس میں اضافہ کیا گیا ۔
دوسری مرتبہ:دوسری مرتبہ کی تالیف عمدة الطالب جلالی‌کے نام سے معروف ہے ۔ مؤلف نے اسے ۸۱۲ق نے پہلی تالیف سے دو حصے انتخاب کئے اور انہیں ۳ ابواب میں تقسیم کیا اور ہر باب کو چند فصلوں میں منقسم کرنے کے علاوہ اس جلال الدین حسن بن علی بن حسن بن محمد حسینی کیلئے ایک مقدمے کا بھی اضافہ کیا ۔
تیسری مرتبہ: تیسری مرتبہ اس کتاب کو حاکم حویزہ کے جدّ سادات سلطان شریف محمد بن فلاح مشعشعی کیلئے تیار کیا اور اسکی تالیف سے ۱۰ صفر ۸۲۷ق کو فارغ ہوا ۔[2]

آیت اللہ مرعشی نجفی نے ان ۳ تالیفوں کا نام كُبرا، وُسطا اور صُغرا رکھا ۔[3]

مضامین کتاب

مؤلف عمدة الطالب جلالی میں دیباچے کے بعد ایک مفصل مقدمے میں حضرت ابراہیم(ع) کے اجداد ار انکے فرزندوں کو ابو طالب تک شمار کرتا ہے پھر ابو طالب کے فرزند عقیل، جعفر اور علی(ع) اور انکی اولادوں کا ذکر مختصر فصلوں میں ذکر کرتا ہے۔علی بن ابی طالب(ع) کی نسل کو انکے بیٹوں حسن(ع)، حسین(ع)، محمد حنفیہ، عباس اور عمر اطرف کو مفصل تر ۵ فصلوں میں بیان کرتا ہے ۔[4]

اس کتاب میں معلومات مختصر مگر مفید، مختلف سر زمینوں میں علویوں کی شاخوں کا پھیلاؤ اور انکے سکونت کے مقامات مذکور ہوئے ہیں کہ جو مؤرخین کیلئے ایک اچھی راہنمائی ہے ۔بعد میں آنے والے مؤرخین اور محدثین جیسے کیا گیلانی نے سراج الانساب، حر عاملی نے امل الآمل اور مجلسی‌ نے بحارالانوار میں اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے ۔

خصوصیات کتاب‏

تقسیمات و فصل بندی کتاب عمدة الطالب کی تقسیمات اور فصل بندی چندان واضح نہیں اور مشکل حل کرنے میں مددگار نہیں ہے ۔اس طرح کی کتابوں میں ایک شخص یا اسکے نسب کو پیدا کرنے کیلئے احتمالات کی بنا پر زیادہ جستجو کرنا پڑتی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایک امام کی نسل اور اسکے فرزندوں کی تفصیل زیادہ درکار ہو اور نسلوں کے قدیم طبقات کے بیان میں دورتر منتقل ہو جائیں اور اچانک جستجو کرنے والا اجداد اوّلیہ کی طرف لوٹ جائے ۔

مؤلف نے اپنے تمام منابع کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے لیکن اہم مطالب کے نقل کے موقع پر راوی یا کتاب کا نام ذکر کرتا ہے ۔[5]

بیرونی لنک

مشاہده متن کتاب عمدة الطالب

حوالہ جات

  1. عمدة الطالب، ص۱۸.
  2. الذریعہ، ج۱۵، ص۳۳۷ - ۳۳۹. عمدة الطالب، ص۱۳ و ۱۴.
  3. علی بن محمد علوی عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، مقدمۂ مرعشی نجفی، ص‌۴۳
  4. عمدة الطالب، فہرست کتاب.
  5. کتابخانہ دیجیتال نور.

منابع

  • تہرانی، اقابزرگ، الذریعہ، دارالاضواء، بیروت؛
  • حسینی، احمد بن علی، عمدة الطالب فی أنساب آل أبی طالب‏، نجف، المطبعہ الحیدریہ، ۱۳۸۰ق؛
  • حسینی، احمد بن علی، عمدة الطالب فی أنساب آل أبی طالب‏، قم، انصاریان، ۱۴۱۷ق.
  • علی بن محمد علوی عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، مقدمہ آیت اللہ نجفی مرعشی، بنام المجدی فی حیاة صاحب المجدی، تعلیق و تحقیق احمد مہدوی دامغانی، قم، کتابخانہ آیت اللہ نجفی، ۱۴۰۹ق.
  • کتاب شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور.