عبد الرحمن بن عوف

ویکی شیعہ سے
(عبد الرحمٰن بن عوف سے رجوع مکرر)
عبد الرحمن بن عوف
کوائف
مکمل نامعبد الرحمن بن عوف بن عبد عوف
کنیتابو محمد
لقبمن ہاجر الہجرتین
تاریخ پیدائشعام الفیل سے 10 سال قبل
محل زندگیمدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربعثمان بن عفان
مدفنجنت البقیع (مدینہ)
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتتمام غزوات و دومۃ الجندل
وجہ شہرتچھ رکنی شورا کا رکن صحابی


عبدالرحمن بن عوف (متوفا سال ۳۲ ہجری قمری۳۲ق) پیامبر اکرمؐ کا صحابی اور عمر بن خطاب کی بنائی گئی شورای کا رکن تھا۔ وہ ابتدائی مسلمانوں میں سے ہے۔ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ میں موجود تھا۔ نیز اس نے تمام غزوات پیامبر اسلام میں شرکت کی۔ عبدالرحمن واقعہ سقیفہ میں بھی موجود تھا۔ رسول اللہؐ کے بعد تاریخ اسلام میں اہم ترین کردار شورا میں شرکت اور مسلمانوں کیلئے عثمان کو خلیفہ کے عنوان سے چننا تھا۔ اہل سنت عبدالرحمن کو عشرہ مبشرہ میں سے سمجھتے ہیں کہ جن کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ نے انہیں انکی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی۔

نسب اور ولادت

  • نام:عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَوْفِ بنِ عَبْدِ عَوْفٍ زُّہرِيُّ ابْنِ عَبْدِ بنِ الحَارِثِ بنِ زُہرَةَ بنِ كِلاَبِ بنِ مُرَّةَ بنِ كَعْبِ بنِ لُؤَيٍّ۔
  • کنیت: أَبُو مُحَمَّدٍ.[1]

عبدالرحمن عوف بن عبد عوف[2] کا بیٹا ہے جو عام الفیل کے دسویں سال پیدا ہوا۔[3] اسکی ماں کا نام شفاْ بنت عوف بن عبد بن حارث تھا۔[4] زمانۂ جاہلیت میں اس کا نام :عبد عمرو یا عبد الكعبہ تھا اور پیامبر نے ا اسکا نام عبدالرحمن رکھا۔[5]

زمانۂ پیامبرؐ

عبدالرحمن صدر اسلام کے مسلمانوں میں سے تھا۔ اس نے ابوبکر کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔[6] عبدالرحمن کو مَن هاجَرَ الهِجرتَین یعنی دو ہجرتیں کرنے والے، میں سے کہتے ہیں: اس نے رسول کے فرمان کے تحت مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ ہجرت کی اور پھر رسول خدا کے مدینے ہجرت کرنے سے پہلے مکہ واپس آگیا پھر دوبارہ مدینہ ہجرت کی.[7] مدینے میں پیامبر(ص) مسلمانوں کے درمیان صیغۂ اخوت (بھائی چارہ) قاےم کیا تو بعض منابع کے مطابق عثمان اور اسکے درمیان صیغۂ اخوت پڑھا ۔[8] لیکن بعض مآخذ سعد بن ربیع کو اسکا بھائی سمجھتے ہیں ۔[9]

اہل سنت انہیں عشره مبشره میں سے قرار دیتے ہیں کہ جنہیں رسول اللہ نے اپنی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی تھی ۔[10] عبدالرحمن سےمختلف روایات نقل ہوئی ہیں ۔[11] ان میں سے ایک روایت عشرہ مبشرہ بھی ہے ۔[12]

غزوات اور دُومَۃ الْجَنْدَل( سریہ)‏

عبدالرحمن نے تمام غزوات پیامبر اسلام میں شرکت کی ۔[13]نیز وہ جنگ اُحد کے ان چند اصحاب پیغمبر میں سے ہے جنہوں نے فرار نہیں کیا تھا ۔[14] وہ اس جنگ میں بہت زیادہ زخمی ہوا یہاںتک کہ ان زخموں کی وجہ سے لنگڑے پن کا شکار ہو گیا ۔ [15] غزوات کے علاوہ اسے سریہ میں بھی بھیجا گیا۔ یہ سریہ دومۃ الجندل کے علاقے مینٓں واقع ہوا جو کسی جنگ کے بغیر مقابل آنے ولوں کے اسلام قبول کرنے پر تمام ہوا ۔ [16] یہ سریۂ عبدالرحمن بن عوف کے نام سے بھی معروف ہے.[17]

عبدالرحمن کی اقتدا میں رسول اکرمؐ کی نماز

اہل سنت مآخذ مغیرة بن شعبہ سے نقل کرتے ہیں: ایک جنگ کے راستے میں رسول خداؐ رفع حاجت کیلئے لشکر سے دور ہو گئے میں نے رسول اکرمؐ کی رفع حاجت کے بعد پانی بہایا اور رسول اللہ نے وضو کیا جب ہم لشکر میں واپس پہنچے تو دیکھا کہ اصحاب عبدالرحمن بن عوف کی امامت میں نماز کی پہلی رکعت پڑھ چکے تھے۔ جب عبد الرحمن رسول اکرمؐ کی واپسی پر متوجہ ہوا تو اس نے جگہ سے ہٹنا چاہا لیکن رسول نے اشارے سے اسے وہیں رہنے کا کہا اور خود اسکی اقتدا میں ایک رکعت پڑھی۔ جب عبدالرحمن نے نماز کا سلام کہا تو پیغمبر نے اٹھ کر دوسری رکعت انجام دی۔[18]

بعض شیعہ علما چند اشکالات کی وجہ سے اس روایت کو رد کرتے ہیں:[19]

رحلت پیغمبر اکرمؐ کے بعد

عبدالرحمن رحلت پیغمبر اسلامؐ کے بعد سقیفہ میں حاضر تھا۔ [20] اور دیگر واقعات میں بھی موجود رہا اور بعض اوقات کچھ ذمہ داریاں بھی اسکے سپرد کی گئیں۔ [21] لیکن تاریخ اسلام میں اہم ترین اور مؤثر ترین اسکا نقش خلیفۂ دوم کی وفات کے بعد چھ نفری شورا میں شرکت کرنا تھا۔

چھ رکنی شورا

تفصیلی مضمون: چھ رکنی شورا

عمر بن خطاب نے چھ رکنی شورا کا انتخاب کیا تا کہ وہ اسکی موت کے بعد مسلمانوں کیلئے خلیفے کا انتخاب کرے۔ خلیفۂ دوم نے اسے شورا کا رکن بنانے کے علاوہ یہ بھی اختیار دیا تھا کہ اگر یہ شورا تین تین کے گروہ میں بٹ جائے تو اس گروہ کی بات کی مانی جائے گی جس میں عبد الرحمن ہو گا ۔[22] آخر کار عبد الرحمن نے اسی اختیار سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے سالے عثمان بن عفان کو مسلمانوں کیلئے خلیفہ مقرر کیا۔[23]

عبدالرحمن و عثمان

اگرچہ عثمان کو خلیفہ بنانے میں اصلی کردار عبدالرحمن نے ادا کیا۔ لیکن تاریخی شواہد کے مطابق عثمان کی کارگردگی کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے اس کئے پر نادم تھا:

  • جب ابوذر عثمان کے توسط سے ربذه تبعید ہو کر وہیں فوت ہوا تو حضرت علیؑ نے عبدالرحمن سے ایسے کہا: یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ جو تو نے کیا (اسے خلیفہ بنایا)۔ عبد الرحمن نے جواب دیا: اگر چاہتے ہو تو میری تلوار لے کر اسکے خلاف قیام کرو، میں جو اسے دیا تھا اس نے وہ ضائع کر دیا ہے۔[24]
  • عبدالرحمن نے قسم اٹھائی کہ وہ عثمان سے کبھی بات نہیں کرے گا۔[25]
  • عبدالرحمن نے وصيت کی کہ عثمان اس پر نماز نہ پڑھے.[26]

ثروت

عبدالرحمن بہت زیادہ مالدار تھا جو اس نے تجارت سے حاصل کیا تھا۔[27] تاریخی کتب میں اسکی دولت کے بارے میں کہا گیا:

  • عبدالرحمن نے چار لاکھ سکے میں خریدے ہوئے باغ کے متعلق وصیت کی کہ وہ امہات المؤمنین کو دیں۔[28]
  • وصیت کی جنگ بدر کے شریک زندہ افراد( جو سو کے قریب تھے) کو چار سو سکے دئے جائیں۔[29]
  • عبدالرحمن ام‌سلمہ زوجۂ پیغمبر کے پاس گیا اور کہا:‌ اے ام المومنین! مجھے اپنی دولت کی کثرت سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ مجھے نابود نہ کر دے۔ ام‌سلمی نے جواب میں کہا راہ خدا میں خرچ کرو۔[30]

وفات

عبدالرحمن سنہ 32 ہجری قمری [31] یا 31 ہجری قمری میں فوت ہوا ہو جب عثمان کی خلافت کا دور تھا اور بقیع میں مدفون ہے۔[32] اس پر نماز پڑھانے والوں کے نام میں اختلاف ہے۔[33]

حوالہ جات

  1. ذہبی، سير أعلام النبلاء ط الرسالہ (1/ 68)
  2. ابن أثیر، أسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۷۶.
  3. ذہبی، تاريخ‏ الإسلام، ۱۴۰۹، ج۳، ص۳۹۱.
  4. ابن أثیر، أسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۷۶.
  5. بلاذری، أنساب‏ الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۰۳.
  6. مقدسی، البدء و التاريخ، بی‌ تا، ج۴، ص۱۴۵.
  7. ابن عبدالبر،الاستيعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۸۴۴.
  8. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۱۰۹.
  9. بخاری، صحیح بخاری،۱۴۲۲، ج۳، ص۵۲
  10. سجستانی، سنن ابی‌داود، ج۴، ص۲۱۱.
  11. بیہقی، شعب الایمان، ۱۴۲۳ق، ج۹، ص۳۷۹.
  12. ابن حبان، صحیح ابن حبان، ۱۴۱۴ق، ج۱۵، ص۴۶۳.
  13. ابن سعد، الطبقات‏ الكبرى، ۱۴۱۸، ج۳، ص۹۵.
  14. صالحی دمشقی‏، سبل‏ الہدى، ۱۴۱۴، ج۱۱، ص۳۱۸.
  15. ذہبی، تاريخ‏ الإسلام، ۱۴۰۹، ج۳، ص۳۹۲.
  16. واقدی، المغازى، ۱۴۰۹، ج۲، ص۵۶۰.
  17. بلاذری، أنساب‏ الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۷۸.
  18. قشیری نیشابوری، صحیح مسلم، ج۱، ص۳۱۷.
  19. جعفر مرتضی عاملی،‌الصحیح من سیره النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۲۹، ص۳۱۳-۳۱۶.
  20. یعقوبی، تاريخ‏ اليعقوبى، ج۲، ص۱۲۳.
  21. ابن سعد، الطبقات‏ الكبرى، ۱۴۱۸، ج۳، ص۹۹.
  22. سیوطی، تاریخ خلفا، ص ۱۲۹ ۱۳۷.
  23. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۸۹.
  24. بلاذری، أنساب‏ الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۵۴۶.
  25. بلاذری، أنساب‏ الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۵۴۷.
  26. بلاذری، أنساب‏ الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۵۴۶.
  27. ذہبی، تاريخ‏ الإسلام، ۱۴۰۹، ج۳، ص۳۹۳.
  28. صالحی دمشقی‏، سبل‏ الہدى، ۱۴۱۴، ج۱۱، ص۳۱۹.
  29. صالحی دمشقی‏، سبل‏ الهدى، ۱۴۱۴، ج۱۱، ص۳۱۹.
  30. صالحی دمشقی‏، سبل‏ الہدى، ۱۴۱۴، ج۱۱، ص۳۷۸.
  31. بلاذری، أنساب‏ الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۰۴.
  32. ابن عبدالبر،الاستيعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۸۵۰.
  33. صالحی دمشقی‏، سبل‏ الهدى، ۱۴۱۴، ج۱۱، ص۳۲۱.

مآخذ

  • ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: ابراہیم، محمد ابوالفضل، کتابخانہ آیه اللہ مرعشی نجفی، قم، ۱۴۰۴ق.
  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابہ فی معرفہ الصحابہ، دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۹ق.
  • ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد‏، الطبقات الکبری‏، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ دوم، ۱۴۱۸ق.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبد الله‏، الاستیعاب فی معرفہ الأصحاب، تحقیق: البجاوی، علی محمد، دار الجیل، بیروت، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
  • أبوبكر البيہقی، شعب الإيمان، محقق، عبدالعلی عبد الحميد حامد، مكتبہ الرشد، الہند، چاپ اول،‌ ۲۰۰۳م.
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، محقق: الناصر، محمد زہیر بن ناصر، دار طوق النجاة، بیروت، چاپ اول، ۱۴۲۲ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: زکار، سہیل، زرکلی، ریاض، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، ۱۴۱۷ق.
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق: تدمری، عمر عبد السلام، دار الکتاب العربی، بیروت، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
  • سجستانی، أبو داود سلیمان بن أشعث، سنن ابی‌داود، محقق: عبد الحمید، محمد محیی الدین، المکتبہ العصریہ، صیدا، بیروت، بی‌تا.
  • سیوطی، جلال الدین، تاریخ خلفا، دار القلم العربی، حلب،‌ ۱۴۱۳ق/۱۹۹۰.
  • صالحی دمشقی‏، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرة خیر العباد، دار الکتب العلمیہ، بیروت، چاپ اول، ۱۴۱۴ق.
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیره النبی الاعظم، دارالحدیث، قم، ۱۴۲۶ق.
  • ‌ قشیری نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، محقق:‌ عبدالباقی، محمد فؤاد، دارالاحیاء التراث العربی، بیروت، بی‌تا.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب،‏ دار الکتاب، قم، چاپ سوم، ۱۴۰۴ق.
  • محمد بن حبان، صحيح ابن حبان، محقق: شعيب الأرنؤوط، مؤسسہ الرسالہ، بيروت، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، مکتبہ الثقافہ الدینیہ، بور سعید، بی‌تا.
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق: مارسدن جونس، مؤسسہ الأعلمی، بیروت، چاپ سوم، ۱۴۰۹ق.
  • یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب‏، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، بیروت، چاپ اول، بی‌تا.