سعی بین صفا و مروہ

ویکی شیعہ سے
مَسعی

سَعْی صَفا و مَرْوِہ حج اور عمرہ کے واجب اعمال میں سے ہے جس کے معنی صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سات مرتبہ رفت و آمد ہے۔

صفا و مروہ

تفصیلی مضمون: صفا و مروہ

صفا و مروہ مسجد الحرام سے متصل دو پہاڑیوں کا نام ہے ۔ ان دو پہاڑیوں کے درمیانی فاصلے کو "مَسْعیٰ" کہا جاتا ہے جو تقریبا 395 میٹر ہے۔ صفا و مروہ پرانے زمانے میں بڑی اور بلند تھیں لیکن گذر زمان کے ساتھ مسجد الحرام کی وسعت نے ان دونوں کی حجم میں کمی آ گئی۔ موجودہ دور میں کوہ صفا کی بلندی آٹھ میٹر ہے۔ کوہ مروہ کا کچھ حصہ باقی تھا جسے سنہ 1373 ش میں محدودہ سعی کو بڑا کرنے کی خاطر مکمل طور پر ختم کرکے یہاں سے باہر کی طرف ایک دروازہ نکالا گیا اس وقت کوہ مروہ کا صرف نشان باقی ہے۔[1]

قرآن کریم میں ان دو پہاڑیوں کے نام اور ان کے درمیان سعی پر تصریح کی گئی ہے: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْ‌وَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّہ فَمَنْ حَجَّ الْبَیتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیہ أَن یطَّوَّفَ بِہمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَیرً‌ا فَإِنَّ اللَّہ شَاكِرٌ عَلِیمٌ (ترجمہ: بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں ہیں لہٰذاجو شخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کا چکر لگائے اور جو مزید خیر کرے گا تو خدا اس کے عمل کا قدر دان اوراس سے خوب واقف ہے)[2]۔

سعی

حج کے باب میں سعی سے مراد صفا اور مروہ کے درمیان سات دفعہ رفت و آمد کو کہا جاتا ہے۔ سعی میں ہر بار رفت و آمد کو "شوط" کہا جاتا ہے۔ [3] سعی حج اور عمرہ دونوں کے واجبات بلکہ ارکان میں سے ہے اس بنا پر اگر کوئی اسے عمدا ترک کرے اور اسے دوبارہ انجام دینے کا وقت بھی نہ ہو تو اس کا حج یا عمرہ باطل ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر فراموشی کی وجہ سے اسے ترک کیا گیا ہو تو حج یا عمرہ باطل نہیں ہوجاتا لیکن جب بھی یاد آئے تو اگر دوبارہ انجام دے سکتا ہو تو اسے بجا لانا ضروری ہے لیکن اگر دوبارہ انجام دینا ممکن نہ ہو یا زیادہ مشقت کا باعث ہو تو کسی کو نائب مقرر کر کے اس کے ذریعے انجام دینا ضروری ہے اور جب تک اسے انجام نہیں دیا جاتا وہ محرمات جو سعی کی بعد حلال ہو جاتی ہیں حلال نہیں ہونگی۔[4]

مشہور فقہاء کے مطابق برخلاف طواف، سعی مستحبی کا کوئی وجود نہیں ہے۔[5]

حضرت ہاجرہ کا صفا اور مروہ کے درمیان سعی

روایات میں آیا ہے کہ حضرت ہاجرہ حضرت اسماعیل کیلئے پانی کی تلاش میں سات مرتبہ صفا اور مروہ کے درمیان رفت و آمد کیا۔ یہ سنت ابراہیمی زمانہ جاہلیت میں بھی حج کے اعمال میں شمار ہوتی تھی۔ اس زمانے میں ایک "بت" اس طرف اور دوسرا "بت" اس طرف رکھا جاتا تھا اور جب سعی انجام دیتے اور بتوں کے پاس پہنچتے تھے تو انہیں لمس کرتے تھے ۔ اس دور میں لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے یہ دو بت بنام "اُساف" اور "نائِلِہ" ایک مرد اور عورت تھی جو زناکاری کی وجہ سے پتھر میں تبدیل ہو گئے تھے۔[6]

سعی کی اہمیت اور اس کا وقت

سعی طواف اور نماز طواف کے بعد انجام دیا جاتا ہے۔ اگر حاجی یا عمرہ ادا کرنے والا اسے طواف سے پہلے انجام دے تو اس کا سعی باطل ہے اور طواف کے بعد اسے دوبارہ اعادہ کرنا واجب ہے۔[7][8] لیکن اگر فراموشی کی وجہ سے اسے طواف سے پہلے انجام دیا ہو یا مسئلہ سے ناواقفیت کی وجہ سے ایسا کیا ہو تو سعی کے باطل ہونے اور طواف کے بعد اسے دوبارہ اعادہ کرنے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔[9][10][11]

طواف اور سعی کے درمیان رات تک فاصلہ ڈالنا مشہور قول کی بنا پر جایز ہے۔[12] [13]

واجبات سعی

نیت اور قصد قربت کے بعد سعی، صفا سے آغاز اور مروہ پر اختتام ہوتا ہے۔ عمدا یا سہوا اسے مروہ سے شروع کیا جائے تو سعی باطل ہو جاتا ہے اور اسے دوبارہ صفا سے شروع کرنا ضروری ہے۔[14] کوہ صفا اور مروہ کے اوپر چڑنا واجب نہیں ہے اگرچہ مستحب ہے۔ [15][16] صفا سے مروہ جانا ایک دور جبکہ مروہ سے صفا واپس آنا دوسرا دور شمار ہوتا ہے۔[17]

اگر کوئی علم و آگاہی کے بعد عمدا سات مرتبہ سے زیادہ سعی انجام دے تو سعی باطل ہوجاتا ہے۔[18]

اکثر فقہاء سعی کے درمیان کچھ دیر کیلئے بیٹھنے اور آرام کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔[19]

صفا اور مروہ سے پتھر اٹھانا جائز نہیں ہے اگر کوئی اٹھا لے تو اسے دوبارہ وہیں رکھ دینا واجب ہے۔[20]

مستحبات سعی

حج اور عمرہ ادا کرنے والے حجاج کیلئے مستحب ہے سعی سے پہلے آب زمزم سے تھوڑا پئیں اور تھوڑا پانی اپنے سر اور بدن پر ڈال دیں اور یہ دعا پڑھی جائے: اَللّہمَ اجْعَلْہ عِلْماً نافِعاً وَ رِزْقاً واسِعَاً وَ شِفاءاً مِنْ کُلِّ داءٍ وَ سُقْمٍ اس کی بعد حجرالاسود کو بوسہ دے اور آہستہ صفا کی طرف حرکت کرے۔ کوہ صفا پہنچنے کے بعد اس کے اوپر چڑھ کر خانہ کعبہ کی طرف نگاہ کرے اور رکن حجرالأسود کو سامنے روبرو قرار دینا اور خدا کی حمد و ثنا بجا لانا اور سات بار تکبیر اور تہلیل کہنا اور مأثور دعاوں کا پڑھنا مستحب ہے۔[21]

صفا پر زیادہ دیر ٹہرنا مستحب ہے۔[22] اور روایات کے مطابق اس کے آثار میں سے ایک مال و دولت کا زیادہ ہونا ہے۔[23]

قول مشہور کی بنا پر سعی کے وقت طہارت کے ساتھ ہونا اور بعض اقوال کے مطابق صرف لباس اور بدن کا پاک ہونا مستحب ہے.[24] [25]

مَسْعیٰ کی ابتداء اور انتہاء تک چلنا اور مردوں کیلئے "ہرْوَلِہ" کرنا بھی مستحب ہے۔[26] [27]

دوسری اور تیسری منزل میں سعی کرنا کا حکم

موجودہ دور میں صفا اور مروہ کے درمیانی فاصلے کو تین منزلوں میں بنایا گیا ہے۔ بعض فقہاء چونکہ دوسری اور تیسری منزل ان دو پہاڑوں کے درمیان واقع نہیں ہوتا، ان دو منزلوں میں سعی کرنے کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔ [28]

سعی کی بعد خوشبو کا حلال ہونا

مشہور فقہاء کے فتوا کے مطابق حج میں حلق یا تقصیر کے بعد محرمات احرام سوائے استمتاع کے حلال ہو جاتی ہیں۔[29] اور طواف اور سعی کے بعد خوشبو بھی حلال ہو جاتی ہے۔؛[30] عمرہ میں محرمات احرام میں سے کوئی ایک بھی سعی کے ذریعے حلال نہیں ہوتی ہے۔[31]

حوالہ جات

  1. آثار اسلامی مکّہ و مدینہ، ج۱، ص۱۰۵-۱۰۸
  2. |سورہ بقرہ/آیت=۱۵۸
  3. مناسک حج، م۸۷۱
  4. جواہر الکلام ج۱۹، ص۴۲۹-۴۳۱
  5. مناسک حج، م۸۳۹
  6. رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۱۰۵.
  7. المعتمد فی شرح المناسک، ج۵، ص۶۳
  8. مناسک حج، م۸۴۰
  9. المعتمد فی شرح المناسک، ج۵، ص۴۱-۴۳
  10. جواہرالکلام، ج۱۹، ص۴۴۶
  11. مناسک حج، م۸۴۶
  12. جواہر الکلام، ج۱۹، ص۳۹۰-۳۹۱
  13. مناسک حج، م۸۴۱
  14. مناسک حج، م۸۵۲
  15. مناسک حج، م۸۵۱
  16. جامع المقاصد، ج۳، ص۲۰۶
  17. مناسک حج، م۸۷۱
  18. مناسک حج، م۸۷۲
  19. مناسک حج، م۸۶۵
  20. مناسک حج (مراجع)، نشر مشعر، چاپ 1377ش، ج۱، ص۴۹۶.
  21. مناسک حج، م۸۹۵
  22. جواہر الکلام، ج۱۹، ص۴۱۵-۴۱۷.
  23. وسائل الشیعۃ، ج۱۳، ص۴۷۹.
  24. جواہر الکلام، ج۱۹، ص۴۱۰-۴۱۷
  25. مناسک حج، م۸۴۱
  26. ہرولہ کرنا، درڑنے اور آہستہ چلنے کے درمیانی حالت کو کہا جاتا ہے۔
  27. جواہر الکلام، ج۱۹، ص۴۲۳-۴۲۸
  28. مناسک حج، م۸۴۸
  29. جواہر الکلام، ج۱۹، ص۲۵۱
  30. جواہر الکلام، ج۱۹، ص۲۵۷-۲۵۸
  31. مناسک حج، م۹۰۳

مآخذ

  • مناسک حج مطابق فتاوای امام خمینی و مراجع معظم تقلید، محمد رضا محمودی، مرکز تحقیقات حج بعثہ مقام معظم رہبری، نشر مشعر، چاپ چہارم، ۱۳۸۷ش.
  • فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام ج‌۴، ص۴۵۳–۴۵۸.
  • فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم‌ السلام، زیر نظر آیت ‌اللہ محمود ہاشمی ‌شاہرودی، ج۵، ص۸۲.
  • المعتمد فی شرح المناسک، تقریر دروس سید ابو القاسم خویی بہ قلم سید رضا خلخالی، مطبعۃ العلمیی، قم، ۱۴۰۹ق.
  • وسائل الشیعہ، محمد بن الحسن الحر العاملی، اول، قم، مؤسسہ اہل البیت (علیہم السلام)، ۱۴۱۲.ق.