صحیفہ سجادیہ کی چھتیسویں دعا

ویکی شیعہ سے
صحیفۂ سجادیہ کی چھتیسویں دعا
کوائف
موضوع:رعد و برق دیکھنے کے وقت کی دعا، بے نہایت نعمات کے عوض شکر الہی۔
مأثور/غیرمأثور:مأثورہ
صادرہ از:امام سجاد علیہ السلام
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفۂ سجادیہ
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفہ سجادیہ کی چھتیسویں دعا امام سجادؑ کی مأثورہ دعاوں میں سے ایک ہے کہ جسے رعد و برق کے وقت پڑھا جاتا ہے۔ امام سجادؑ نے اس دعا میں رعد و برق کو اللہ کی نشانیوں میں سے جانا ہے اور بارگاہ الہی سے فائدہ مند بارش کی طلب بھی کی ہے۔ اسی طرح سے اس دعا میں رنج و مصیبت کو دور کرنے کے لئے گریہ و زاری کی تاکید کی گئی ہے اور انسان کو قہر الہی کے مقابلے میں ناتوان و کمزور سمجھا گیا گیا۔

یہ چھتیسویں دعا جس کی متعدد شرحیں، مختلف زبانوں میں لکھی گئیں ہیں جیسے دیار عاشقان جو حسین انصاریان کی شرح فارسی زبان میں ہے اور اسی طرح ریاض السالکین جو سید علی خان مدنی کی عربی زبان میں شرح موجود ہے۔

دعا و مناجات

تعلیمات

امام سجادؑ کی صحیفہ سجادیہ کی چھتیسویں دعا کہ جسے بادل، بجلی اور آسمانی آواز کو سننے کے وقت پڑھا جاتا ہے۔ سید محمد حسین فضل اللہ کی کتاب آفاق الروح کے مطابق اس دعا میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ قدرتی آفات کے وقت انسان کی نگاہ کی کیفیت کیسی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق یہ دعا امام سجاد ؑ کی روحی و معنوی خصوصیات کی علامت ہے کہ اس عالَم میں جو بھی ہے امامؑ اسے وجود خدا کی نشانیاں سمجھتے ہیں اور ایسے وقت کو شکرگزاری کے لئے بہترین فرصت، دعا کا بہترین موقع تاکہ نعمات الہی زیادہ ہوں اور رنج و مصیبت انسان سے دور ہو جائیں۔[1] ممدوحی کرمانشاہی کی اس دعا کی شرح کے مطابق مؤمن حقیقی، اس نظام کائنات کو ہر لمحہ ارادہ الہی و قدرت خدا کے مطابق سمجھتا ہے اور ہر حادثہ میں ذات خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔[2] اس دعا کی تعلیمات مندرجہ ذیل ہیں:

  • بادل، بجلی، بارش یہ سب قدرت خدا کی نشانیاں ہیں۔
  • قدرت خدا، تمام نظام کائنات و خلقت پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔
  • انسانی زندگی کا ارتباط، نظام طبیعت عالم کے ساتھ ہے۔
  • فائدہ مند بارش کی درخواست اور بارش کے ذریعہ عدم خسارت کی درخواست۔
  • درگاہ الہی میں مصیبتوں سے دوری کے لئے گریہ و زاری۔
  • کفار سے رابطہ میں پرہیز۔
  • بد رفتار و کردار، فقر و خشکسالی کا نتیجہ ہے۔
  • تونگری و صحت و سلامت انسانی، عنایات خدا کے سائے میں ہے۔
  • قہر الہی کے مقابلے میں ناتوانی۔
  • وسعت قدرت الہی۔
  • بے نہایت نعمات الہی کے مقابلے میں شکر و سپاس۔
  • اللہ کی طرف سے کم تعریف کو بھی قبول کرنا۔
  • ہر چیز خدا کی طرف پلٹ کر جانے والی ہے۔[3]

شرحیں

صحیفہ سجادیہ کی جو شرحیں لکھی گئی ہیں ان میں اس چھتیسویں دعا کی بھی شرح کی گئی ہے۔ یہ دعا محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت [4] میں، سید احمد فہری کی کتاب شرح و ترجمۂ صحیفہ سجادیہ[5] میں فارسی زبان میں شرح کی گئی ہے۔ اسی طرح یہ چھتیسویں دعا بعض دوسری کتابوں میں جیسے، سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین،[6] جواد مغنیہ کی فی ظلال الصحیفہ السجادیہ،[7] محمد بن محمد دارابی[8] کی ریاض العارفین اور سید محمد حسین فضل اللہ [9] کی کتاب آفاق الروح میں عربی زبان میں شرح لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس دعا کے الفاظ کی توضیح، فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ میں[10]اور عزالدین جزائری کی کتاب شرح الصحیفہ السجادیہ[11] میں بھی دی گئی ہے۔


دعا کا متن اور ترجمہ

متن ترجمہ: (مفتی جعفر حسین)
وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِذَا نَظَرَ إِلَى السَّحَابِ وَ الْبَرْقِ وَ سَمِعَ صَوْتَ الرَّعْدِ:

(۱) اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَيْنِ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِكَ، وَ هَذَيْنِ عَوْنَانِ مِنْ أَعْوَانِكَ، يَبْتَدِرَانِ طَاعَتَكَ بِرَحْمَةٍ نَافِعَةٍ أَوْ نَقِمَةٍ ضَارَّةٍ، فَلَا تُمْطِرْنَا بِهِمَا مَطَرَ السَّوْءِ، وَ لَا تُلْبِسْنَا بِهِمَا لِبَاسَ الْبَلَاءِ.

(۲) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَنْزِلْ عَلَيْنَا نَفْعَ هَذِهِ السَّحَائِبِ وَ بَرَكَتَهَا، وَ اصْرِفْ عَنَّا أَذَاهَا وَ مَضَرَّتَهَا، وَ لَا تُصِبْنَا فِيهَا بِآفَةٍ، وَ لَا تُرْسِلْ عَلَى مَعَايِشِنَا عَاهَةً.

(۳) اللَّهُمَّ وَ إِنْ كُنْتَ بَعَثْتَهَا نَقِمَةً وَ أَرْسَلْتَهَا سَخْطَةً فَإِنَّا نَسْتَجِيرُكَ مِنْ غَضَبِكَ، وَ نَبْتَهِلُ إِلَيْكَ فِي سُؤَالِ عَفْوِكَ، فَمِلْ بِالْغَضَبِ إِلَى الْمُشْرِكِينَ، وَ أَدِرْ رَحَى نَقِمَتِكَ عَلَى الْمُلْحِدِينَ.

(۴) اللَّهُمَّ أَذْهِبْ مَحْلَ بِلَادِنَا بِسُقْيَاكَ، وَ أَخْرِجْ وَحَرَ صُدُورِنَا بِرِزْقِكَ، وَ لَا تَشْغَلْنَا عَنْكَ بِغَيْرِكَ، وَ لَا تَقْطَعْ عَنْ كَافَّتِنَا مَادَّةَ بِرِّكَ، فَإِنَّ الْغَنِيَّ مَنْ أَغْنَيْتَ، وَ إِنَّ السَّالِمَ مَنْ وَقَيْتَ

(۵) مَا عِنْدَ أَحَدٍ دُونَكَ دِفَاعٌ، وَ لَا بِأَحَدٍ عَنْ سَطْوَتِكَ امْتِنَاعٌ، تَحْكُمُ بِمَا شِئْتَ عَلَى مَنْ شِئْتَ، وَ تَقْضِي بِمَا أَرَدْتَ فِيمَنْ أَرَدْتَ

(۶) فَلَكَ الْحَمْدُ عَلَى مَا وَقَيْتَنَا مِنَ الْبَلَاءِ، وَ لَكَ الشُّكْرُ عَلَى مَا خَوَّلْتَنَا مِنَ النَّعْمَاءِ، حَمْداً يُخَلِّفُ حَمْدَ الْحَامِدِينَ وَرَاءَهُ، حَمْداً يَمْلَأُ أَرْضَهُ وَ سَمَاءَهُ‏

(۷) إِنَّكَ الْمَنَّانُ بِجَسِيمِ الْمِنَنِ، الْوَهَّابُ لِعَظِيمِ النِّعَمِ، الْقَابِلُ يَسِيرَ الْحَمْدِ، الشَّاكِرُ قَلِيلَ الشُّكْرِ، الْمُحْسِنُ الْمُجْمِلُ ذُو الطَّوْلِ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، إِلَيْكَ الْمَصِيرُ.

جب بادل اور بجلی کو دیکھتے اور رعد کی آواز سنتے وقت کی دعا

(۱) بار الہا! یہ (ابر و برق) تیری نشانیوں میں سے دو نشانیاں اور تیرے خدمت گزاروں میں سے دو خدمت گزار ہیں جو نفع رساں رحمت یا ضرر رساں عقوبت کے ساتھ تیرے حکم کی بجا آوری کے لیے رواں دواں ہیں۔ تو اب ان کے ذریعہ ایسی بارش نہ برسا جو ضرر و زیاں کا باعث ہو اور نہ ان کی وجہ سے ہمیں بلا و مصیبت کا لباس پہنا

(۲) اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ان بادلوں کی منفعت و برکت ہم پر نازل کر اور ان کے ضرر و آزار کا رخ ہم سے موڑ دے اور ان سے ہمیں کوئی گزند نہ پہنچانا اور نہ ہمارے سامان معیشت پر تباہی وارد کرنا۔

(۳) بار الہا! اگر ان گھٹاؤں کو تو نے بطور عذاب بھیجا ہے اور بصورت غضب روانہ کیا ہے تو پھر ہم تیرے غضب سے تیرے ہی دامن میں پناہ کے خواستگار ہیں اور عفو و درگزر کے لیے تیرے سامنے گڑ گڑا کر سوال کرتے ہیں ۔ تو مشرکوں کی جانب اپنے غضب کا رخ موڑ دے اور کافروں پر آسیائے عذاب کو گردش دے۔

(۴) اے اللہ ! ہمارے شہروں کی خشک سالی کو سیرابی کے ذریعہ دور کر دے اور ہمارے دل کے وسوسوں کو رزق کے وسیلہ سے برطرف کر دے اور اپنی بارگاہ سے ہمارا رخ موڑ کر ہمیں دوسروں کی طرف متوجہ نہ فرما اور ہم سب سے اپنے احسانات کا سرچشمہ قطع نہ کر کیونکہ بے نیاز وہی ہے جسے تو بے نیاز کرے اور سالم و محفوظ وہی ہے جس کی تو نگہداشت کرے

(۵) اس لیے کہ تیرے علاوہ کسی کے پاس (مصیبتوں کا) دفعیہ اور کسی کے ہاں تیری سطوت و ہیبت سے بچاؤ کا سامان نہیں ہے تو جس کی نسبت جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے اور جس کے بارے میں جو فیصلہ کرتا ہے وہ صادر کر دیتا ہے تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں کہ تو نے ہمیں مصیبتوں سے محفوظ رکھا

(۶) اور تیرے ہی لیے شکر ہے کہ تو نے ہمیں نعمتیں عطا کیں۔ ایسی حمد جو تمام گزاروں کی حمد کو پیچھے چھوڑ دے۔ ایسی حمد جو خدا کے آسمان و زمین کی فضاؤں کو چھلکا دے ۔

(۷) اس لیے کہ تو بڑی سے بڑی نعمتوں کا عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے انعامات کا بخشنے والا ہے ۔ مختصر سی حمد کو بھی قبول کرنے والا اور تھوڑے سے شکرئیے کی بھی قدر کرنے والا ہے اور احسان کرنے والا اور بہت نیکی کرنے والا اور صاحب کرم و بخشش ہے۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور تیری ہی طرف (ہماری ) باز گشت ہے۔


حوالہ جات

  1. فضل‌ اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۲۲۲-۲۲۳۔
  2. ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۱۹۱۔
  3. ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۱۹۱-۲۰۶؛ شرح فرازہای دعای سی و ششم از سایت عرفان۔
  4. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۱۸۹-۲۰۶۔
  5. فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۹۵-۹۸۔
  6. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ، ج۵، ص۱۹۹-۲۲۰۔
  7. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ، ص۴۳۱-۴۳۴۔
  8. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۴۵۷-۴۶۲۔
  9. فضل‌اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۲۲۳-۲۳۲۔
  10. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ھ، ص۷۳۔
  11. جزایری، شرح الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۲، ص۱۸۶-۱۸۸۔

مآخذ

  • جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • فضل‌اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
  • فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌ خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سیدالساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔

بیرونی روابط