صحیفہ سجادیہ کی پچاسویں دعا

ویکی شیعہ سے
صحیفۂ سجادیہ کی پچاسویں دعا
کوائف
موضوع:خداوند عالم سے خوف کے وقت دعا کرنا۔
مأثور/غیرمأثور:مأثورہ
صادرہ از:امام سجادعلیہ السلام
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفۂ سجادیہ
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفہ سجادیہ کی پچاسویں دعا امام سجادؑ کی مأثورہ دعاؤں میں سے ایک ہے جو گناہ اور معصیت کی بناء پر خوف خدا طاری ہونے کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ اس دعا میں خداوند عالم کو بعنوان خالق، پالنے والا اور رزق و روزی دینے والا پہچنوایا گیاہے اور بتایا گیا ہے کہ اس کی بخشش و مغفرت انسان لئے امید کا سبب ہے۔ اور اسی طرح سے یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پروردگار عالم انسان کی ذات سے باخبر ہے اور ان کی توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔

یہ پچاسویں دعا جس کی متعدد شرحیں، مختلف زبانوں میں لکھی گئیں ہیں جیسے دیار عاشقان جو حسین انصاریان کی شرح فارسی زبان میں ہے اور اسی طرح ریاض السالکین جو سید علی خان مدنی کی عربی زبان میں شرح موجود ہے۔

دعا و مناجات

تعلیمات

صحیفہ سجادیہ کی پچاسویں دعا ، گناہ اور معصیت کی بناء پر خوف خدا طاری ہونے کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ ممدوحی کرمانشاہی جوصحیفہ سجادیہ کی شرح لکھنے والوں میں سے ایک ہیں، ان کے قول کے مطابق گناہ مومنین کے دلوں میں خوف و ہراس ایجاد کرتا ہے اس لئے اس دعا میں بیان ہوا ہے کہ مومنین کی تنہا پناہ گاہ ، اللہ کی جانب واپس آنا ہے۔[1] اس دعا کی تعلیمات مندرجہ ذیل ذکر ہوئی ہیں:

  • خداوند عالم،انسانوں کاخالق، پالنے والا اور رزق و روزی دینے والاہے۔
  • انسان اعمال نامہ میں مکتوب گناہوں کی بنیاد پر رسوا ہونے سے ڈرتا ہے۔
  • گناہ انسان کی صلاحیتوں کو ضائع کرتا ہے اور انہیں مشکلات میں گرفتار کر دیتا ہے۔
  • اللہ کی مغفرت کے ذریعہ انسانوں کو یاس و ناامیدی سے نجات دلائی گئی ہے
  • عذاب پروردگار، اس کی عدالت کے عین مطابق ہے۔
  • بندوں کو عذاب دینا اللہ کی ضرورت نہیں ہے۔
  • زمین و آسمان کے اسرار و رموز اللہ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
  • عذاب جہنم ،انسان کی طاقت سے کہیں زیادہ بالاتر ہے۔
  • رحمت و مغفرت کی درخواست، اللہ کی جانب سے کی گئی ہے۔
  • ائمہ طاہرین (علیہم السلام)، اللہ کے پوشیدہ اسماء سے واقف ہیں۔
  • خداوند عالم ،انسان کی ذات سے آگاہ و با خبرہے۔
  • خداوند عالم ، بہت ہی مہربان اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔
  • عالم ہستی پر اللہ کی حکومت دائمی ہے۔

شرحیں

صحیفۂ سجادیہ کی پچاسویں دعا کی بھی شرح دوسری دعاؤں کی طرح کی گئی ہے۔ یہ دعا حسین انصاریان[2] نے اپنی کتاب دیار عاشقان میں بطور تفصیل فارسی زبان میں شرح کی ہے۔ اسی طرح سے یہ دعا محمدحسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت [3]میں اور سید احمد فہری کی کتاب شرح و ترجمۂ صحیفہ سجادیہ[4]میں فارسی زبان میں شرح کی گئی ہے۔

اسی طرح یہ پچاسویں دعا بعض دوسری کتابوں میں جیسے، سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین [5] جواد مغنیہ کی فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، [6] محمد بن محمد دارابی [7] کی ریاض العارفین اور سید محمدحسین فضل اللہ [8]کی کتاب آفاق الروح میں عربی زبان میں شرح لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس دعا کے الفاظ کی توضیح، فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ میں[9]اور عزالدین جزائری کی کتاب شرح الصحیفہ السجادیہ[10]میں بھی دی گئی ہے۔

متن اور ترجمہ

متن ترجمہ: (مفتی جعفر حسین)
وَ کانَ مِنْ دُعَائِهِ علیه‌ السلام فِی خشیۃ اللہ

(۱) اللم إنك خلقتني سويا، و ربيتني صغيرا، و رزقتني مكفيا.

(۲) اللهم إني وجدت فيما انزلت من كتابك، و بشرت به عبادك أن قلت : يا عبادي الذين اسرفوا علي انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله، إن الله يغفر الذنوب جميعا، و قد تقدم مني ما قد علمت و ما أنت اعلم به مني، فيا سوأتا مما احصاه علي كتابك.

(۳) فلولا المواقف التي أوءمل من عفوك الذي شمل كل شي ء لالقيت بيدي، و لو أن احدا استطاع الهرب من ربه لكنت أنا أحق بالهرب منك، و أنت لا تخفي عليك خافية في الارض و لا في السماء إلا أتيت بها، و كفي بك جازيا، و كفي بك حسيبا.

(۴) اللهم إنك طالبي إن أنا هربت و مدركي إن أنا فررت، فها أنا ذا بين يديك خاضع ذليل راغم، إن تعذبني فإني لذلك اهل، و هو - يا رب - منك عدل، و إن تعف عني فقديما شملني عفوك، و البستني عافيتك.

(۵) فأسالك - اللهم - بالمخزون من أسمائك، و بما وارته الحجب من بهائك، إلا رحمت هذه النفس الجزوعة، و هذه الرمة الهلوعة، التي لا تستطيع حر شمسك، فكيف تستطيع حر نارك ؟ ! و التي لا تستطيع صوت رعدك، و كيف تستطيع صوت غضبك ؟! فارحمني - اللهم - فإني امرؤ حقير، و خطري يسير، و ليس عذابي مما يزيد في ملكك مثقال ذرة، و لو أن عذابي مما يزيد في ملكك لسألتك الصبر عليه، و احببت أن يكون ذلك لك، و لكن سلطانك - اللهم - اعظم، و ملكك أدوم من أن تزيد فيه طاعة المطيعين، أو تنقص منه معصية المذنبين.

(۶) فارحمني يا ارحم الراحمين ، و تجاوز عني يا ذا الجلال و الاكرام و تب علي ، إنك أنت التواب الرحيم .

خوف الہی کے سلسلہ میں حضرت کی دعا

(۱) بار الہا! تو نے مجھے اس طرح پیدا کیا کہ میرے اعضا بالکل صحیح و سالم تھے۔ اور جب کم سن تھا، تو نے میری پرورش کا سامان کیا اور بے رنج و کاوش رزق دیا۔

(۲) بار الہا ! تو نے جس کتاب کو نازل کیا اور جس کے زریعے اپنے بندوں کو نوید و بشارت دی اس میں تیرے اس ارشاد کو دیکھا ہے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ یقینا اللہ تمہارے تمام گناہ معاف کر دے گا اس سے بیشتر مجھ سے ایسے گناہ سرزد ہو چکے ہیں جن سے تو واقف ہے اور جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ واۓ بدبختی و رسوائی ان گناہوں کے ہاتھوں جنہیں تیری کتاب قلمبند کۓ ہوۓ ہے ۔


(۳) اگر تیرے ہمہ گیر عفو و در گذر کے وہ مواقع نہ ہوتے جن کا میں امیدوار ہوں تو میں اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان کر چکا تھا۔ اگر ایک بھی اپنے پروردگار سے نکل بھاگنے پر قادر ہوتا تو میں تجھ سے بھاگنے کا زیادہ سزاوار تھا۔ اور تو وہ ہے جس سے زمین و آسمان کے اندر کا کوئی راز مخفی نہیں ہے مگر یہ کہ تو (قیامت کے دن) اسے لا حاضر کرے گا ۔ تو جزا دینے اور حساب کرنے کے لۓ بہت کافی ہے ۔

(۴) اے اللہ ! میں اگر بھاگنا چاہوں تو تو مجھے ڈھونڈ لے گا۔ اگر راہ گریز اختیار کروں، تو تو مجھے پا لے گا۔ لے دیکھ میں عاجز ذلیل اور شکستہ حال تیرے سامنے کھڑا ہوں۔ اگر تو عذاب کرے تو میں اس کا سزاوار ہوں۔ اے میرے پروردگار ! یہ تیری جانب سے عین عدل ہے اور اگر تو معاف کر دے تو تیرا عفو و درگزر ہمیشہ میرے شامل حال رہا ہے ۔ اور تو نے صحت و سلامتی کے لباس مجھے پہنا‎ۓ ہیں ۔


(۵) بار الہا! میں تیرے ان پوشیدہ ناموں کے وسیلہ سے اور تیرے اس بزرگی کے واسطہ سے جو (جلال و عظمت کے) پردوں میں مخفی ہے تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اس بے تاب نفس اور بیقرار ہڈیوں کے ڈھانچے پر ترس کھا (اس لۓ کہ) جو تیرے سورج کی تپش کو برداشت نہیں کر سکتا وہ تیرے جہنم کی تیزی کو کیسے برداشت کرے گا اور جو تیرے بادل کی گرج سے کانپ اٹھتا ہے تو وہ تیرے غضب کی آواز کو کیسے سن سکتا ہے ۔ لہذا میرے حال زار پر رحم فرما۔ اس لۓ کہ اے میرے معبود ! میں ایک حقیر فرد ہوں جس کا مرتبہ پست تر ہے اور مجھ پر عذاب کرنا، تیری سلطنت میں ذرہ بھر اضافہ نہیں کر سکتا۔ اور اگر مجھے عذاب کرنا تیری سلطنت کو بڑھا دیتا تو میں تجھ سے عذاب پر صبر و شکیبائی کا سوال کرتا اور یہ چاہتا کہ وہ اضافہ تجھے حاصل ہو ۔ لیکن اے میرے معبود ! تیری سلطنت اس سے زیادہ عظیم اور اس سے زیادہ دوام پزیر ہے کہ فرماں برداروں کی اطاعت اس میں کچھ اضافہ کر سکے۔ یا گنہگاروں کی معصیت اس میں سے کچھ گھٹا سکے۔

(۶) تو پھر اسے تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے مجھ پر رحم فرما۔ اور اے جلال و بزرگی والے مجھ سے درگذر کر اور میری توبہ قبول فرما۔ بے شک تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔


حوالہ جات

  1. ممدوحی کرمانشاهی، شهود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۲۹۶.
  2. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ش، ج۷، ص۵۸۷-۵۹۹۔
  3. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۲۹۳-۳۰۵۔
  4. فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۵۳۵-۵۳۹۔
  5. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ، ج۷، ص۲۹۷-۳۳۰۔
  6. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ، ص۶۳۷-۶۴۰۔
  7. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۶۹۹-۷۰۵۔
  8. فضل‌اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۲۹۱-۳۰۴۔
  9. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ، ۱۴۰۷ھ، ص۱۰۱-۱۰۲۔
  10. جزایری، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، ۱۴۰۲، ص۲۸۵-۲۸۷۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • فضل‌اللہ، سید محمدحسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
  • فہری، سیداحمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ، تہران، مؤسسۃ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سیدالساجدین، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، فی ظلال الصحیفۃ السجادیۃ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔

بیرونی روابط