سید محمد مہدی بحر العلوم

ویکی شیعہ سے
(سید بحر العلوم سے رجوع مکرر)
سید محمد مہدی بحر العلوم
مزار سید محمد مہدی بحرالعلوم، مسجد شیخ طوسی نجف
مزار سید محمد مہدی بحرالعلوم، مسجد شیخ طوسی نجف
کوائف
مکمل نامسید محمد مہدی بحر العلوم
تاریخ ولادتعید الفطر 1155 ھ
آبائی شہرکربلا، عراق
تاریخ وفاترجب 1212 ھ
مدفنمقبرہ شیخ طوسی نجف اشرف
علمی معلومات
اساتذہسید مرتضی بحر العلوم، شیخ یوسف بحرانی، شیخ وحید بہبہانی۔
شاگردشیخ جعفر کاشف الغطاء، سید جواد عاملی، شیخ ابو علی حائری، ملا احمد نراقی۔
تالیفاتمشکاۃ الہدایہ، الدرّۃ النجفیہ، الفوائد الرجالیہ۔
خدمات
سماجیمرجع تقلید، فقیہ، اصولی، رجالی، مفسر، عارف۔


سید محمد مہدی بحرالعلوم (1155۔1212 ھ) شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں اور بارہویں و تیرہویں صدی ہجری میں شیعوں کے امور کی ریاست و زعامت عامہ ان کے ذمہ تھی۔ وہ بارہویں صدی کے مشاہیر شیعہ امامیہ میں سے ہیں۔ بحر العلوم مختلف علوم جیسے فقہ، اصول فقہ، حدیث، کلام، تفسیر اور رجال میں تبحر رکھتے ہیں۔ وہ شیخ وحید بہبہانی اور میرزا محمد مہدی خراسانی کے شاگرد ہیں۔ خراسانی نے ان کے شامخ مقام علمی کی وجہ سے انہیں بحر العلوم کا لقب دیا تھا۔ اس لقب کا اطلاق ان سے پہلے کسی کے لئے نہیں ہوتا تھا، ان کے بعد ان کے خاندان کا عنوان بن گیا اور آج بھی ان کے اہل خاندان اس لقب سے مشہور ہیں۔

سوانح عمری

سید محمد مہدی بن مرتضی بن محمد بن بروجردی طباطبایی بحر العلوم، پہلی شوال عید الفطر کے روز 1155 ھ میں کربلا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اور دادا برجستہ دانشمندوں میں سے تھے۔ ان کی پر دادی مجلسی اول محمد تقی مجلسی کی نسل سے تھیں۔ اسی سبب سے وہ مجلسی اول کو اپنے جد اور علامہ مجلسی کو اپنے ماموں کے طور پر یاد کرتے تھے۔[1]

سید محمد مہدی بحر العلوم نے ماہ رجب 1212 ھ میں وفات پائی اور (نجف اشرف) شیخ طوسی کی قبر کے پاس سپرد لحد کئے گئے۔

تعلیم و تحصیل

سید محمد مہدی بحر العلوم نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنی زادگاہ میں اپنے والد اور شیخ یوسف بحرانی (صاحب حدائق) کیا۔ اور بعد میں نجف اشرف چلے گئے جہاں انہوں نے شیخ مہدی بن محمد فتونی عاملی، شیخ محمد تقی دورقی اور سیخ محمد باقر ہزار جریبی سے کسب علم کیا۔ اس کے بعد وہ کربلا واپس لوٹ گئے اور وہاں شیخ وحید بہبہانی کے درس میں شرکت کی۔[2] انہوں نے سن 1186 ھ میں مشہد مقدس کا سفر کیا اور سات سال تک وہاں مقیم رہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے مجالس علمی میں شرکت اور علماء کے ساتھ مباحثات کے علاوہ میرزا محمد مہدی خراسانی کے پاس فلسفہ پڑھنا شروع کیا۔ ان بزرگوار نے ان کے شامخ مقام علمی کے سبب انہیں بحر العلوم کو لقب دیا۔ ان سے پہلے یہ لقب کسی کے لئے بھی استعمال نہیں ہوتا تھا لیکن ان کے بعد ان کے خاندان کے افراد اسے استعمال کرنے لگے اور آج بھی وہ یہ لقب اختیار کرتے ہیں۔[3]

تدریس و شاگرد

جب شیخ وحید بہبہانی نے کہولت سن کی وجہ سے درس کہنا بند کر دیا تو وہ استاد کی نصیحت کی بناء پر نجف اشرف لوٹ گئے اور وہاں انہوں نے تدریسی سلسلہ کا آغاز کیا اور سید بحر العلوم نے 1193 ھ میں حج کا سفر کیا اور وہاں دوسرے امور کی انجام دہی کے ساتھ فقہ مذاہب اربعہ کی تدریس شروع کی۔ جس سے بہت سے افراد نے ان کے حلقہ درس میں شرکت کی۔

علامہ بحر العلوم کے بہت سے شاگرد تھے جن میں سے بعض کو آب نے اجازہ روایت بھی دیا تھا جیسے:

زعامت عامہ

سید بحر العلوم کی اخلاقی شہامت اور اصلاح طلبی کا رویہ سبب بنا کہ وہ اپنی ریاست اور زعامت عامہ کے دوران میں دینی و سماجی امور کی انجام دہی کے سلسلہ میں اپنے معاصر بزرگ علماء سے تعاون کریں جیسے مسائل اور فتوی کے سلسلہ میں وہ عوام کو شیخ جعفر نجفی کی طرف رہنمائی کرتے تھے۔ قضاوت، فیصلوں اور رفع نزاع کے سلسلہ میں وہ شیخ محیی الدین کی طرف رجوع کرنے کو کہتے تھے۔ اقامہ نماز جماعت کے لئے میں انہوں نے عالم و زاہد شیخ حسین نجف کو مسجد ہندی کا امام مقرر کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے اپنے شاگرد سید جواد عاملی صاحب مفتاح الکرامہ کو تدوین کتب اور اپنے دروس کی تقریرات لکھنے کے کئے معین اور تشویق کیا۔ ان کے درس کا محور ملا محسن فیض کاشانی کی کتاب وافی تھی۔

سید بحر العلوم فقہ و حدیث کی تدریس کے علاوہ عوام الناس کے مسائل و امور کو بذات خود توجہ دیتے تھے۔[5]

اخلاقی خصوصیات

سید بحر العلوم امور جاری زندگی میں ہر طرح کی سخت گیری سے پرہیز کرتے تھے اور ان کی سخاوت و بلند ہمتی زبانزد خاص و عام تھی، یہاں تک کہ بعض افراد ان کے سلسلہ میں عرفانی رجحان و گرایش کے قائل ہو گئے ہیں۔ بہرحال اس میلان کا اثر ان کے تربیت یافتہ افراد میں اور ان کے بعد کے بعض علماء میں انکار ناپذیر ہے۔

سید بحر العلوم کے تمام معاصرین ان کے علم و تقوی کا اعتراف کرتے ہیں۔ حتی کہ ان کے استاد شیخ وحید بہبہانی اپنی عمر کے آخری دور میں جب وہ اپنے ملکہ اجتہاد کے زوال کا احتمال دیتے تھے، مسائل فقہی میں ان سے نظر خواہی کرتے تھے۔[6]

ان کے امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہونے کی خبر تواتر کی حد تک پہچ چکی ہے۔ اور ان کی امام (ع) سے اس ملاقات کا انکار ان کے معاصرین و متاخرین میں سے کسی نے بھی نہیں کیا ہے۔

تالیفات

سید بحر العلوم کی بعض تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں:

  • المصابیح، عبادات و معاملات پر مشتمل ہے۔
  • الدرّة النجفیة، اس میں انہوں نے طہارت و نماز کے مسائل کو 2000 اشعار میں نظم کیا ہے۔
  • مشکاة الهدایة، طہارت کے باب کی روایت منثور الدرّة النجفیة کا ذکر کیا ہے۔
  • الفوائد الرجالیة، علم رجال کی کتاب ہے جس میں انہوں نے مشہور علمی و حدیثی خاندان اور شیعہ امامی روات اور علماء کا تذکرہ کیا ہے۔
  • تحفة الکرام فی تاریخ مکة و البیت الحرام، اس میں انہوں نے کعبہ کی وجہ تسمیہ، اس کے حدود، نقشہ اور تاریخ بناء کا ذکر تاریخی سلسلے کی روایات، مکہ کی تاسیس اور ان کی مختلف عمارتوں کا تذکرہ کیا ہے۔
  • دیوان شعر، کہ جس میں 1000 بیت ہیں اور زیادہ ابیات مدح و رثائے اہل بیت (ع) پر مشتمل ہیں۔[7]

بندھای دوازدہ گانہ

ان کے اشعار کا ایک مجوعہ بارہ بیتوں کے بارہ قصائد پر مشتمل ہے۔ جسے انہوں نے فارسی کے مشہور شاعر محتشم کاشانی کے قصیدہ کو بنیاد بنا کر نظم کیا ہے اور ان اشعار کا عربی میں ترجمہ کیا ہے۔[8]

حوالہ جات

  1. قمی، ج۲، ص۶۲
  2. مدرس تبریزی، ج۱، ص۲۳۴؛ حبیب آبادی، ج۲، ص۴۱۶
  3. بحر العلوم، ج۱، مقدمہ، ص۴۳؛ امین، ج۱۰، ص۱۵۹
  4. خوانساری، ج۷، ص۲۰۴؛ امین، ج۱۰، ص۱۵۹ـ۱۶۰
  5. امین، ج۱۰، ص۱۵۹
  6. حبیب آبادی، ج۲، ص۴۱۶
  7. امین، ج۱۰، ص۱۶۰؛ آقا بزرگ طہرانی، ج۲۱، ص۸۱؛ حبیب آبادی، ج۲، ص۴۱۹ـ۴۲۱؛ زرکلی، ج۷، ص۱۱۳
  8. مجلہ تراثنا، شماره ۱۰، العقود الاثنی عشر فی رثاء سادات البشر

مآخذ

  • آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت، ۱۴۰۳ھ
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، ۱۴۰۳ھ
  • بحر العلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، چاپ محمد صادق بحر العلوم و حسین بحر العلوم، تہران، ۱۳۶۳ش
  • حبیب آبادی، محمد علی، مکارم الاثار در احوال رجال دورة قاجار، اصفہان،۱۳۶۲ش
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، چاپ اسداللّه اسماعیلیان، قم، ۱۳۹۲ھ
  • زرکلی، الاعلام، بیروت، ۱۹۸۶ء
  • قمی، شیخ عباس، کتاب الکنی والالقاب، صیدا، ۱۳۵۸ش
  • مدرس تبریزی، محمد علی، ریحانة الادب، تہران، ۱۳۶۹ش