سامری کا بچھڑا

ویکی شیعہ سے

سامِری کا بچھڑا یا سنہرا بچھڑا، سونے سے بنایا گیا ایک بت تھا جسے سامری نے توریت کے دریافت کے دوران حضرت موسی کی طولانی غیبت کے وقت ایک بچھڑے کی شکل میں بنایا تھا اور بنی‌ اسرائیل کو اس کی پرستش کرنے کی دعوت دی۔ اس بچھڑے سے گائیں کی آواز آتی تھی جو ایک معجزے کی طرح لگتا تھا۔ حضرت موسی کو طور سیناء سے واپس آنے کے بعد جب بنی‌ اسرائیل کی گوسالہ پرستی کا علم ہوا تو اپنے بھائی حضرت ہارون کی توبیخ کی اور بنی اسرائیل کے مشرکین اور سامری کو سزا دیا، مذکورہ بچھڑے کو جلا دیا گیا اور اس کے راکھ کو دریا یا کسی نہر کے پانی میں بہایا گیا، اور اس بت پرستی کی وجہ سے بنی‌ اسرائیل جس گناه کے مرتکب ہوئے تھے اس سلسلے میں ان کی مغفرت کے لئے خدا سے دعا مانگی۔

قرآن میں یہ داستان سورہ اعراف اور سورہ طہ میں نقل ہوئی ہے۔ توریت میں بھی بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ قرآن کے مطابق اس بچھڑے کے بنانے والے کا نام سامری تھا، لیکن توریت میں اس کی نسبت حضرت ہارون کی طرف دی گئی ہے۔

اس بچھڑے کا بنانے والا کون تھا، بنی‌ اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا کیوں کی اور ان کو اس بت پرستی کی کیا سزا دی گئی، ایسے موضوعات میں سے ہیں جن کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

خصوصیات

بنی‌ اسرائیل کو مصر سے نکالے جانے نیز حضرت موسی کا 40 روزہ میقات کے دوران سونے کا ایک بچھڑا بنایا گیا اور بنی اسرائیل نے اس کی پوجا شروع کی۔[1] مصریوں کے نزدیک گائے کو تقدس حاصل تھی اور اسے زراعت میں کامیابی کا ذریعہ تصور کیا جاتا تھا، جس کی بنا پر بنی‌ اسرائیل میں بھی یہ خصلت پیدا ہو گئی۔[2] قرآن میں سامری کو اس بچھڑے کا بنانے والا[3] اور اس کی پرستش کو رائج کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔[4] لیکن توریت میں اس کی نسبت حضرت ہارون کی طرف دی گئی ہے۔[5] اس بچھڑے کو گولڈن بچھڑا بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اسے سونے سے بنایا گیا تھا۔[6]

وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَیٰ أَرْبَعِینَ لَیلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِہِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ۔۔۔ وَإِذْ قَالَ مُوسَیٰ لِقَوْمِہِ یا قَوْمِ إِنَّکمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَکم بِاتِّخَاذِکمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَیٰ بَارِئِکمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَکمْ ذَٰلِکمْ خَیرٌ لَّکمْ عِندَ بَارِئِکمْ فَتَابَ عَلَیکمْ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ[؟؟]
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے (توراۃ دینے کے لئے) چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا پھر تم نے ان کے بعد گو سالہ (بچھڑے) کو (معبود) بنا لیا۔ جبکہ تم ظالم تھے۔ (51) پھر ہم نے اس (ظلم) کے بعد بھی معاف کر دیا۔ تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرعونی (تم پر ظلم کر رہے تھے تو) ہم نے موسیٰ کو کتاب فرقان عطا کی تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب (موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا) اے میری قوم! یقینا تم نے گو سالہ کو (معبود) بنا کر اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیا ہے۔ لہٰذا تم اپنے خالق کی بارگاہ میں (اس طرح) توبہ کرو۔ کہ اپنی جانوں کو قتل کرو۔ یہی (طریقہ کار) تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس صورت میں اس نے تمہاری توبہ قبول کی۔ بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

سورہ بقرہ، آیہ ۵۱ -۵۴

قرآن میں سامری کے اس بچھڑے کو "جَسَداً لَہُ خُوار[؟؟]" کی تعبیر استعمال کی گئی ہے جس کے معنی یہ ہے کہ اس کی آواز گائے کی آواز[7] کی طرح تھی۔[8] مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ سامری نے اس بچھڑے کو ہوا کے راستے میں اس طرح رکھا تھا کہ جب بھی ہوا چلتی اس سے آواز آتی تھی[9] بعض دوسرے مفسرین کے مطابق یہ آواز جبرئیل کے گوڑے کی ٹاپوں کی مٹی کا اثر تھا جسے سامری نے اس بچھڑے کے اندر رکھا تھا۔[10]

منابع میں اس بچھڑے کی بعض خصوصیات کا ذکر ہوا ہے جس کے مطابق اس کا گوشت اور چمڑا بھی تھا، لیکن اس ان خصوصیات میں سے بعض کے صحیح ہونے میں علماء شک و تردید سے کام لیتے ہیں۔[11]

بچھڑے کی پرستش

حضرت موسی خدا کے ساتھ کئے گئے وعدہ کے مطابق 30 دن کے لئے کوہ طور پر چلے گئے تھے لیکن بعد میں اس مدت میں 10 دن کا مزید اضافہ ہوا اور 40 دن کا ہو گیا۔[12] حضرت موسی کی واپسی میں تأخیر کی وجہ سے بنی اسرائیل میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت موسی وفات پا گئے ہیں۔[13] سامری نے اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں سے سونا جمع کر کے اس سے ایک بچھڑا بنایا[3] پھر اس نے اپنے پروکاروں [14] اور لوگوں کو اس بچھڑے کی پوجا کرنے کی دعوت دی۔[4] حضرت ہارون جو حضرت موسی کا جانشین تھا، نے بنی اسرائیل کو اس کام سے منع کیا اور اسے خدا کی طرف سے آزمائش اور امتحان قرار دیا؛[15] لیکن لوگوں کی اکثریت نے سامری کو دعوت قبول کر کے بچھڑے کی پوجا کرنا شروع کیا۔[1]

جب حضرت موسی نے سامری سے پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا تو اس نے جواب دیا: "اس نے کہا کہ میں نے ایک ایسی چیز دیکھی جو اور لوگوں نے نہیں دیکھی تو میں نے (خدا کے) فرستادہ کے نقش قدم سے ایک مٹھی (خاک) اٹھا لی۔ اور اسے (اس گو سالہ میں) ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے یہ بات سجھائی (اور میرے لئے آراستہ کر دی)"۔[16] اکثر مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہاں پر رسول سے مراد جبرئیل ہیں۔ سامری نے دریائے نیل بنی اسرائیل کے لئے راستہ نکلتے وقت جبرئیل کی سواری کے ٹاپوں کے نیچے سے مٹی اٹھائی تھی۔[17] اس کے بعد اس نے اس مٹی کو مذکورہ بچھڑے رکھ دیا تھا۔[10]

اس کے مقابلے میں بعد کہتے ہیں کہ سامری کے کہنے کا مطلب حضرت موسی پر ایمان لانا پھر اس سے روگردانی کرنا ہے۔[18]

حضرت موسی کا بچھڑے کو جلا دینا

حضرت موسی کو اپنی وعدہ گاہ یعنی کوہ طور پر بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کی اطلاع ملی تھی۔[19] کوہ طور سے واپسی حضرت موسی کو بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی پر بہت غصہ آیا اور انہوں نے تورات کی تختیوں کو پھینک دیا جس سے وہ تختیاں ٹوٹ گئیں۔[20] اس کے بعد لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا: "مگر تمہارے پروردگار نے تمہیں نیکی کا وعدہ نہیں دیا تھا؟"۔[21] انہوں نے اپنے بھائی اور جانشین حضرت ہارون سے بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی سے نہ روکنے پر سختی سے کام لیا۔[22] اس کے بعد آپ نے سامری کا موآخذہ کیا اور اسے سزا دی۔[23]

قرآنی آیات کے مطابق سامری کے بچھڑے کو حضرت موسی اور ان کے ماننے والوں نے جلا دیا اور اس کے راکھ کو دریا میں بہا دیا۔[24] توریت میں بھی اس بچھڑے کا انجام یہی بتایا گیا ہے: "اس بچھڑے کو لا کر آگ میں جلا دیا پھر اس کے راکھ کو پیس کر پانی پر چھڑکا دیا اور پھر اس پانی کو بنی اسرائیل کو پلا دیا"۔[25]

ہاتھ سے بنا ہوا فرش جس پر سینا کے صحرا میں بنی اسرائیل کی سرگردانی اور ان کی گوسالہ پرستی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

گوسالہ‌ پرستوں کی سزا

حضرت موسی کے ہاتھوں بہت سارے معجزات دیکھنے کے باوجود بنی اسرائیل کا گوسالہ پرستی میں مبتلا ہونے کو نہایت سنگین مسئلہ جانا جاتا ہے۔[26] قرآنی آیات کے مطابق جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ان پر دنیا میں ذلت و خواری اور خدا کا غضب نازل ہوا۔[27] اس کے علاوہ سورہ بقرہ میں ان لوگوں کے لئے خاص سزاؤں کا اشارہ ملتا ہے: "فَتُوبُوا إِلی بارِئِکمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَکمْ (ترجمہ: خدا کی بارگاہ میں توبہ کروں اور ایک دوسرے کو قتل کرو)[؟؟][28]

اس سزا کے مطابق لوگوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کیا[29] اور اس حکم میں اپنے رشتہ دار اور خاندان کے لوگوں کا قتل بھی شامل تھا۔[30] البتہ بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی تھی انہوں نے ان لوگوں کو قتل کیا جنہوں نے پوجا کی تھی۔[31]

کئی ہزار[32] یا تمام گناہگاروں[33] کو قتل کرنے کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی اور قاتل اور مقتول دونوں کو معاف کیا گیا۔[34] اس سزا کا تذکرہ توریت میں بھی آیا ہے: "ہر کوئی اپنے بھائی، دوست اور رشتہ داروں کو جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی ہے، کو قتل کرو، اور اس دن تقریبا 3 ہزار لوگ مارے گئے"۔[35]

معاصر مفسر آیت اللہ مکارم شیرازی اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی پوری تاریخ میں اس سزا کی کوئی مثال نہیں ملتی۔[36] مفسرین کے مطابق کو اتنی سخت سزا دینے کی وجہ ان کو دوبارہ بت پرستی سے روکنے کے لئے تھی۔[37]

شیعہ عالم دین سید مرتضی کے مطابق اس آیت میں قتل سے مراد جان سے مار ڈالنا نہیں ہے؛ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ توبہ اور پیشمانی میں اپنے آپ کو اس قدر زحمت میں ڈالیں کہ گویا اپنے آپ کو مار رہے ہوں۔[38]

گوسالہ‌ پرستی کی وجوہات

حضرت موسی نے بنی‌ اسرائیل کے لئے مصر میں بھی اور وہاں سے نکالے جانے کے بعد بھی بہت سارے معجزات دکھائے تھے۔[39] لیکن اس کے باوجود بنی‌ اسرائیل نے جب مصر سے نکلتے وقت بت پرست اقوام کو دیکھا تو حضرت موسی سے یوں درخواست کی: "انہوں نے کہا اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایک الٰہ بنا دیں جیسے ان کے الٰہ ہیں۔"[40] قرآن میں اس درخواست کی بنا پر بنی اسرائیل کو جاہل اور نادان کہہ کر خطاب کرتے ہیں۔[41]

لیکن حضرت موسی کی غیر موجودگی میں بنی‌ اسرائیل کی اکثریت نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دیا۔[1] خدا نے بچھڑے کی پوجا کرنے کو بنی اسرائیل کے لئے ایک بہت بڑا امتحان قرار دیا ہے[42] اور بہت سارے معجزات دیکھنے کے بعد اس بچھڑے کی پوجا کرنے پر ان کو ظالم قرار دیا گیا ہے۔[43]

سید محمد تقی مدرسی اپنی تفسیر من ہدی القرآن میں بنی اسرائیل کی طرف سے بچھڑے کی پوجا کرنے کی علت ان میں موجود بت پرستی کی ثقافت کو قرار دیتے ہیں جو فرعون کے ساتھ مقابلہ کرنے میں حضرت موسی کا ساتھ دینے کے باوجود بھی ان میں باقی رہ گئی تھی۔[44] قرآن پر تحقیق کرنے والے ایک اور محقق کے مطابق حضرت موسی کی طرف سے لائے گئے معجزات کی وجہ سے بنی اسرائیل نے صرف ظاہری طور پر توحید کا اظہار کیا تھا۔[45]

حوالہ جات

  1. 1.0 1.1 1.2 مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۶، ص۳۷۱۔
  2. مدرسی، من ہدی القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۴۵۰۔
  3. 3.0 3.1 قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۳۱۵۔
  4. 4.0 4.1 مغنیہ، التفسیر المنیر، بنیاد بعثت، ج۱۶، ص۲۶۰۔
  5. کتاب مقدس، کتاب خروج، باب ۳۲، آیات۱-۶۔
  6. طیب، أطیب البیان، ۱۳۷۸ش، ج۹، ص۸۲۔
  7. شیخ طوسی، التبیان، بیروت،‌ ج۴، ص۵۴۴۔
  8. سورہ طہ، ایہ۸۸۔
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۶، ص۳۷۲۔
  10. 10.0 10.1 زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۶۰۔
  11. ملاحظہ کریں: طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۴، ص۲۰۱- ۲۰۳۔
  12. سورہ اعراف، آیہ۱۴۲۔
  13. مدرسی، من ہدی القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۴۵۰۔
  14. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۴، ص۱۹۲۔
  15. سورہ طہ، آیہ۹۰۔
  16. سورہ طہ، ایہ۹۶۔
  17. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۲۲، ص۹۵۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۲۸۵-۲۸۶۔
  19. سورہ طہ، آیہ ۸۵۔
  20. سورہ اعراف، آیہ۱۵۰۔
  21. سورہ طہ، آیہ۸۶۔
  22. سورہ طہ، آیات ۹۲-۹۴۔
  23. سورہ طہ، آیہ ۹۷۔
  24. سورہ طہ، آیہ۹۷۔
  25. تورات، خروج، باب ۳۲، آیہ ۲۰۔
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۲۵۵۔
  27. سورہ اعراف، آیہ۱۵۲۔
  28. سورہ بقرہ، آیہ۵۴۔
  29. حسینی شیرازی، تبیین القرآن، ۱۴۲۳ق، ص۱۸۔
  30. جوادی آملی، تسنیم،۱۳۸۷ش، ج۴، ص۴۵۵۔
  31. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۱۳۲۔
  32. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۴۷۔
  33. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۸۹۔
  34. حسینی شیرازی، تبیین القرآن، ۱۴۲۳ق، ص۱۸۔
  35. تورات، خروج، باب ۳۲، آیات۲۷- ۲۸۔
  36. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۲۵۵۔
  37. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۲۵۶۔
  38. سید مرتضی، أمالی، ج۲، ص۳۷۲۔
  39. شیخ طوسی، التبیان، بیروت،‌ ج۱، ص۳۵۲۔
  40. سورہ اعراف، آیہ۱۳۸۔
  41. سورہ اعراف، آیہ۱۳۸۔
  42. سورہ طہ، آیہ۸۵۔
  43. سورہ بقرہ، آیہ۹۲۔
  44. مدرسی، من ہدی القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۴۵۰۔
  45. ابراہیمی، «گوسالہ سامری»، ص۱۰۴۳۔

مآخذ

  • ابراہیمی، محسن،‌ «گوسالہ سامری»، دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، سلمان آزادہ، ۱۳۹۷شمسی ہجری۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم، قم، مرکز نشر اسراء، ۱۳۸۷شمسی ہجری۔
  • حسینی شیرازی، سید محمد، تبیین القرآن،‌ بیروت، دار العلوم، چاپ دوم، ۱۴۲۳ھ۔
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل،‌ بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ھ۔
  • سید مرتضی علم الہدی، علی بن حسین، امالی، محقق و مصحح: ابراہیم، محمد ابوالفضل،‌ قاہرہ، دار الفکر العربی، چاپ اول، ۱۹۹۸م۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: احمد قصیرعاملی،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
  • طیب، سید عبد الحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، ۱۳۷۸شمسی ہجری۔
  • فخررازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • فیض کاشانی، ملامحسن، تفسیر الصافی، تحقیق: اعلمی، حسین، تہران، انتشارات الصدر، چاپ دوم، ۱۴۱۵ھ۔
  • قرشی، سید علی‌اکبر، قاموس قرآن،‌ تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، ۱۳۷۱شمسی ہجری۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • کتاب مقدّس، ترجمہ ہزارہ نو، لندن، انتشارات ایلام، ۲۰۱۴م۔
  • مدرسی، سید محمدتقی، من ہدی القرآن،‌ تہران، دار محبی الحسین، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر المبین، قم، بنیاد بعثت، بی‌تا۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ،‌ تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴شمسی ہجری۔