جمع بین صلاتین

ویکی شیعہ سے

جمع بین صلاتین یا دو نمازوں کا اکھٹے پڑھنا سے مراد نماز ظہر اور عصر اور مغرب و عشاء کو ان کے مشترکہ وقت میں اکھٹے پڑھنا ہے۔ دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کے جواز کے لئے پیغمبر اکرمؐ کی سنت اور ائمہ معصومینؑ کی سیرت سے استناد کیا جاتا ہے۔ اہل سنت علماء دو نمازوں کو ان کے مشترکہ وقت میں پڑھنے کے قائل نہیں ہیں اس بنا پر دو نمازوں کو اکھٹے پڑھنا صرف خاص شرایط سفر اور بیماری وغیرہ میں جائز سمجھتے ہیں۔

دو نمازوں کو اکھٹے پڑھنے کے مسئلے کے بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں آیت اللہ جعفر سبحانی کی کتاب "الجمع بین الصلاتین علی ضوء الکتاب و السنۃ" کا نام لیا جا سکتا ہے۔

تعریف

جمع بین الصلاتین ایک فقہی اصطلاح ہے جس سے مراد مذہب شیعہ میں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ان کے مشترکہ اوقات میں اکھٹے پڑھنے کے ہیں۔[1] اور مذہب اہل‌ سنت کے مطابق دو نمازوں کو ان میں سے ایک کے مخصوص وقت میں اکھٹے پڑھنے[2] کی طرف اشارہ ہے۔ شیعہ معمولاً نماز ظہر و عصر و نیز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جبکہ اہل سنت انہیں الگ الگ پڑھتے ہیں۔[3]

فقہی کتابوں میں اوقات نماز کے باب میں جمع بین الصلاتین سے بحث کی جاتی ہے[4] البتہ طہارت[5] اور حج کے باب میں بھی اس سے بحث کرتے ہیں۔

دلیل مشروعیت

شہید اول کے مطابق شیعہ فقہاء کے نزدیک جمع بین صلاتین جائز ہے۔[6] کیونکہ احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ[7] اور ائمہ معصومینؑ[8] نے عام حالات اور جنگ، خوف یا بارش وغیرہ کے دوران واجب نمازوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اور الگ الگ دونوں طریقوں سے ادا کئے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ نے عام حالات میں دو نمازوں کو اکھٹے پڑھنے کی علت امت کو سختی اور زحمت میں نہ پڑنا بیان فرمایا ہے۔[9] البتہ شیعہ فقہاء پیغمبر اکرمؐ کا دو نمازوں کو الگ الگ پڑھنے کو اس کام کے مستحب ہونے[10] اور ان کے درمیان مشترکہ وقت[11] کی وجودگی کی دلیل قرار دیتے ہیں۔

اکثر سنی فقہاء جمع بین صلاتین کو عام حالات میں جائز نہیں سمجھتے۔[12] اور اسے صرف مجبوری کی حالت جیسے سفر، بیماری اور بارش کے دوران جائز سمجھتے ہیں۔[13] اسی طرح وہ پیغمبر اکرمؐ کی جانب سے عام حالات میں دو نمازوں کو اکھٹے پڑھنے کی روایت کو مجبوری اور عذر کی حالت پر تأویل کرتے ہیں۔[14] البتہ اسلامی مذاہب کے تمام فقہاء عرفات میں نماز ظہر و عصر اور مزدلفہ میں نماز مغرب و عشاء کو اکھٹے پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔[15] اگرچہ دیگر مذاہب کے برخلاف محمد بن ادریس شافعی اس مورد میں بھی سفر کو اس کام کے جائز ہونے کی علت قرار دیتے ہیں نہ حج و عمرہ کو۔[16]

شیعہ سنی اختلاف کی وجہ

جمع بین صلاتین میں شیعہ سنی اختلاف یومیہ نماز کے اوقات میں ان کے نظریات میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔[17]شیعہ علماء آیت: "أَقِمِ الصَّلَاۃَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہُودًا؛ (ترجمہ: (اے پیغمبرؐ) زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو۔ اور نمازِ صبح بھی۔ کیونکہ صبح کی نماز حضوری کا وقت ہے (اس وقت شب و روز کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں)۔)[؟؟]"[18] سے استناد کرتے ہوئے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے لئے مشترک وقت، وقت فضیلت اور وقت مخصوص کے قائل ہیں۔[19]لیکن اہل‌ سنت علماء ہر نماز کے لئے مخصوص وقت کے قائل‌ ہیں[20] اور یومیہ نمازوں کے لئے مشترک وقت کے منکر ہیں۔[21] اس بنا پر وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ جب دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھیں گے تو ان میں سے ایک نماز اس کے اپنے وقت سے باہر اور دوسرے کے وقت میں پڑھنا لازم آتا ہے، جبکہ شیعہ فقہاء کے مطابق کسی بھی نماز کو دوسرے نماز کے مخصوص اوقات میں پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن مشترکہ وقت یا فضیلت کے اوقات میں پڑھنا جائز ہے۔[22] بعض اہل سنت مفسرین بھی یومیہ نمازوں کے لئے شیعوں کی طرح تین اوقات کے قائل ہیں۔[23]

کتابیات

جمع بین صلاتین کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں۔ من جملہ ان میں آیت الله جعفر سبحانی کی کتاب "الجمع بین الصلاتین علی ضوء الکتاب و السنۃ" کا نام لیا جا سکتا ہے جسے سنہ ۱۳۸۸ش کو مؤسسہ امام صادق(ع) نے شایع کیا ہے۔ اس کتاب میں جمع بین صلاتین کے جائز ہونے پر موجود آیات و روایات کا ذکر کیا ہے۔

اسی طرح عبداللطیف بغدادی کی کتاب "الجمع بین الصلاتین"، مقبل وادعی کی کتاب "الجمع بین الصلاتین فی السفر"، سید محمدرضا مدرسی کی کتاب "جمع بین صلاتین و حدود آن" اور نجم‌الدین عسكری کی کتاب "الجمع بین الصلاتین" اس سلسلے میں لکھی گئی دوسری کتابیں ہیں۔

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں:‌ سبحانی، ««جمع میان دو نماز از دیدگاہ کتاب و سنت»، ص۶۶۔
  2. جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۴۳۸۔
  3. سبحانی، ««جمع میان دو نماز از دیدگاہ کتاب و سنت»، ص۴۵۔
  4. ابن ادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۹۸۔
  5. شیخ انصاری، کتاب الطہارہ، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۷۰۔
  6. شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۳۱۔
  7. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۳۲۲؛ بخاری، صحيح بخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۱۳۸؛ مسلم، صحيح مسلم، ۱۳۷۴ق، ج۱، ص۴۸۹، ح۷۰۵۔
  8. کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۲۸۶-۲۸۷۔
  9. شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۳۲۲؛ مسلم، صحیح مسلم، ۱۳۷۴ق، ج۱، باب الجمع بين الصلاتين فی الحضر، ص۴۹۰، ح۷۰۵۔
  10. شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۳۵۔
  11. ابن ادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۹۸۔
  12. سرخسی، المبسوط، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۴۹۔
  13. ملاحظہ کریں: نووی، شرح بر صحیح مسلم، ۱۳۹۲ق، ج۵، ص۲۱۸، ح۲۱۲۔
  14. ملاحظہ کریں: نووی، شرح بر صحیح مسلم، ۱۳۹۲ق، ج۵، ص۲۱۸۔
  15. موسوی، جمع بین دو نماز، ۱۳۹۳ش، ص ۳۴؛ سبحانی، العقيدۃ الإسلاميۃ على ضوء مدرسۃ اہل‌البيت، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۳۴۰۔
  16. جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۴۱۹۔
  17. ملاحظہ کریں:‌ شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۳۶۔
  18. سورہ اسراء، آیہ۷۸۔
  19. سبحانی، الانصاف، ۱۳۸۱ش، ج۱، ص۲۹۱۔
  20. سرخسی، المبسوط، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۴۹۔
  21. ملاحظہ کریں: ‌شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۳۲۳۔
  22. سبحانی، ««جمع میان دو نماز از دیدگاہ کتاب و سنت»، ص۶۷۔
  23. ملاحظہ کریں: ‌آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۱۲۷.

مآخذ

  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق.
  • ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۰ق۔
  • بخاری، محمد بن‌ اسماعیل، صحيح البخاری، بیروت، دارالفكر للطباعہ و النشر و التوزيع، ۱۴۰۱ق۔
  • جزیری، عبدالرحمن بن محمد، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ق/۲۰۰۳م۔
  • سبحانی، جعفر، الانصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، ۱۳۸۱ش۔
  • سبحانی، جعفر، «جمع میان دو نماز از دیدگاہ کتاب و سنت»، فصل‌نامہ فقہ اہل‌بیت، ش۴۵، بہار ۱۳۸۵ش۔
  • سبحانی، جعفر، العقیدۃ الاسلامیۃ علی ضوء مدرسۃ اہل‌البیت علیہم‌السلام، قم، مؤسسۃ الامام الصادق علیہ‌السلام، ۱۴۱۹ق۔
  • سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳م۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم‌السلام، قم، ۱۴۱۹ق۔
  • شیخ انصاری، مرتضی بن محمدامین، کتاب الطہارۃ، قم، کنگرہ جہانى بزرگداشت شیخ اعظم انصارى، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، کتابفروشی داوری، ۱۳۸۵ش/۱۹۶۶م۔
  • كلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دارالکتب الاسلامیہ، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، ۱۴۰۷ق۔
  • مسلم، مسلم بن حجاج، صحيح مسلم، بیروت، دار احياءالتراث العربی، ۱۳۷۴ق۔
  • موسوی، عبدالرحیم، جمع بین دو نماز، ترجمہ حسین‌علی عربی، قم، مجمع جہانی اہل‌بیت، ۱۳۹۳ش۔
  • نووی، محی‌الدین، المنہاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، بیروت، دار احیاءالتراث العربی، ۱۳۹۲ق۔