صحیفہ سجادیہ کی چھیالیسویں دعا

ویکی شیعہ سے
صحیفہ سجادیہ کی چھیالیسویں دعا
عبداللہ یزدی کا قلمی نسخہ کتابت 1102 ہجری
عبداللہ یزدی کا قلمی نسخہ کتابت 1102 ہجری
کوائف
موضوع:عید الفطر اور جمعہ کے دن کی دعا
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام سجاد علیہ السلام
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفہ سجادیہ
مخصوص وقت:عید الفطر اور جمعہ کے دن
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفہ سجادیہ کی چھیالیسویں دعا، امام سجاد علیہ السلام کی صحیفہ سجادیہ میں موجود ماثورہ دعاوں میں سے ایک ہے۔ جسے امام سجادؑ نماز عید فطر اور جمعہ کے دن پڑھا کرتے تھے۔ امامؑ اس دعا میں اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو دی جانے والی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہیں اور مختلف عبارتوں میں اللہ کی رحمت جلب کرنا چاہتے ہیں۔

اس دعا کی شرح بھی صحیفہ سجادیہ کی شرحوں کے ذیل میں ہوئی ہے۔ اس کی فارسی شرح دیار عاشقان کے نام سے استاد انصاریان اور شہود و شناخت کے عنوان سے حسن ممدوحی کرمان شاہی نے کی ہے جبکہ عربی شرح ریاض السالکین کے نام سے سید علی خان مدنی نے کی ہے۔

اس دعا کے مضامین

دعا و مناجات

صحیفہ سجادیہ کی 46ویں دعا، جسے امام زین العابدینؑ نماز عید فطر اور جمعہ کے دن پڑھا کرتے تھے۔ ان دنوں اللہ تعالی کی طرف سے بندوں پر خصوصی عنایت کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاں اہمیت کے حامل ہیں، اسی لئے امامؑ مختلف عبارتوں میں اللہ کی رحمت جلب کرنا چاہتے ہیں۔[1]

اس دعا کے مضامین مندرجہ ذیل ہیں:

  • اللہ تعالی کے رحم و کرم کا اقرار؛
  • بندوں کا اللہ کے درگاہ سے نامید نہ ہونا؛
  • اللہ کی لامحدود ذات کے سامنے مخلوقات کا ہیچ ہونا
  • بےسرپرست انسانوں کو قبول کرنا
  • بندوں کے حقیر کام کو قبول کرتے ہوئے اجر عظیم عطا کرنا
  • بندوں کو سزا دینے میں اللہ کا عجلت سے کام نہ لینا
  • محتاجوں کا احترام
  • بندے اور گناہگاروں کی دعا سننا
  • گناہ گار بندوں کو اللہ کی طرف دعوت
  • وسیع کائنات پر اللہ کی حاکمیت
  • اللہ تعالی نیکیوں کو بڑھانے والا اور بدیوں کو ختم کرنے والا
  • انسان کا مختار ہونا اور امتحانات اور جزا کا مستحق قرار پانا
  • نا امیدی، تنگدستی اور نقصانات، اللہ سے دوری کا نتیجہ
  • رحمت الہی کے دروازں کا ہمیشہ کھلے رہنا
  • اللہ کے حضور امید و رجا
  • گناہ گاروں کو اللہ کی طرف سے فرصت ملنا
  • اللہ کی استوار اور جاویداں بادشاہی
  • الہی سزاؤں میں عدالت
  • اللہ کی تعریف اور شکر سے انسان کا عجز
  • عاقبت بخیر ہونے کی دعا
  • توبہ کرنے میں جلدپنی کی ضرورت[2]

شرحیں

صحیفۂ سجادیہ کی چھیالیسویں دعا کی بھی شرح دوسری دعاؤں کی طرح کی گئی ہے۔ یہ دعا حسین انصاریان،[3] نے اپنی کتاب دیار عاشقان میں بطور تفصیل فارسی زبان میں شرح کی ہے۔ اسی طرح سے یہ دعا محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت [4] میں اور سید احمد فہری کی کتاب شرح و ترجمۂ صحیفہ سجادیہ[5] میں فارسی زبان میں شرح کی گئی ہے۔

اسی طرح یہ چھیالیسویں دعا بعض دوسری کتابوں میں جیسے، سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین،[6] جواد مغنیہ کی فی ظلال الصحیفہ السجادیہ ، [7] محمد بن محمد دارابی[8] کی ریاض العارفین اور سید محمد حسین فضل اللہ [9] کی کتاب آفاق الروح میں عربی زبان میں شرح لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس دعا کے الفاظ کی توضیح، فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ میں[10] اور عزالدین جزائری کی کتاب شرح الصحیفہ السجادیہ[11] میں بھی دی گئی ہے۔

دعا کا متن اور ترجمہ

متن ترجمه
وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي يَوْمِ الْفِطْرِإِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ قَامَ قَائِماً ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ:

(۱) يَا مَنْ يَرْحَمُ مَنْ لَا يَرْحَمُهُ الْعِبَادُ (۲) وَ يَا مَنْ يَقْبَلُ مَنْ لَا تَقْبَلُهُ الْبِلَادُ (۳) وَ يَا مَنْ لَا يَحْتَقِرُ أَهْلَ الْحَاجَةِ إِلَيْهِ (۴) وَ يَا مَنْ لَا يُخَيِّبُ الْمُلِحِّينَ عَلَيْهِ. (۵) وَ يَا مَنْ لَا يَجْبَهُ بِالرَّدِّ أَهْلَ الدَّالَّةِ عَلَيْهِ (۶) وَ يَا مَنْ يَجْتَبِي صَغِيرَ مَا يُتْحَفُ بِهِ، وَ يَشْكُرُ يَسِيرَ مَا يُعْمَلُ لَهُ. (۷) وَ يَا مَنْ يَشْكُرُ عَلَى الْقَلِيلِ وَ يُجَازِي بِالْجَلِيلِ (۸) وَ يَا مَنْ يَدْنُو إِلَى مَنْ دَنَا مِنْهُ. (۹) وَ يَا مَنْ يَدْعُو إِلَى نَفْسِهِ مَنْ أَدْبَرَ عَنْهُ. (۱۰) وَ يَا مَنْ لَا يُغَيِّرُ النِّعْمَةَ، وَ لَا يُبَادِرُ بِالنَّقِمَةِ. (۱۱) وَ يَا مَنْ يُثْمِرُ الْحَسَنَةَ حَتَّى يُنْمِيَهَا، وَ يَتَجَاوَزُ عَنِ السَّيِّئَةِ حَتَّى يُعَفِّيَهَا. (۱۲) انْصَرَفَتِ الْآمَالُ دُونَ مَدَى كَرَمِكَ بِالْحَاجَاتِ، وَ امْتَلَأَتْ بِفَيْضِ جُودِكَ أَوْعِيَةُ الطَّلِبَاتِ، وَ تَفَسَّخَتْ دُونَ بُلُوغِ نَعْتِكَ الصِّفَاتُ، فَلَكَ الْعُلُوُّ الْأَعْلَى فَوْقَ كُلِّ عَالٍ، وَ الْجَلَالُ الْأَمْجَدُ فَوْقَ كُلِّ جَلَالٍ. (۱۳) كُلُّ جَلِيلٍ عِنْدَكَ صَغِيرٌ، وَ كُلُّ شَرِيفٍ فِي جَنْبِ شَرَفِكَ حَقِيرٌ، خَابَ الْوَافِدُونَ عَلَى غَيْرِكَ، وَ خَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إِلَّا لَكَ، وَ ضَاعَ الْمُلِمُّونَ إِلَّا بِكَ، وَ أَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إِلَّا مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَكَ (۱۴) بَابُكَ مَفْتُوحٌ لِلرَّاغِبِينَ، وَ جُودُكَ مُبَاحٌ لِلسَّائِلِينَ، وَ إِغَاثَتُكَ قَرِيبَةٌ مِنَ الْمُسْتَغِيثِينَ. (۱۵) لَا يَخِيبُ مِنْكَ الْآمِلُونَ، وَ لَا يَيْأَسُ مِنْ عَطَائِكَ الْمُتَعَرِّضُونَ، وَ لا يَشْقَى بِنَقِمَتِكَ الْمُسْتَغْفِرُونَ. (۱۶) رِزْقُكَ مَبْسُوطٌ لِمَنْ عَصَاكَ، وَ حِلْمُكَ مُعْتَرِضٌ لِمَنْ نَاوَاكَ، عَادَتُكَ الْإِحْسَانُ إِلَى الْمُسِيئِينَ، وَ سُنَّتُكَ الْإِبْقَاءُ عَلَى الْمُعْتَدِينَ حَتَّى لَقَدْ غَرَّتْهُمْ أَنَاتُكَ عَنِ الرُّجُوعِ، وَ صَدَّهُمْ إِمْهَالُكَ عَنِ النُّزُوعِ. (۱۷) وَ إِنَّمَا تَأَنَّيْتَ بِهِمْ لِيَفِيئُوا إِلَى أَمْرِكَ، وَ أَمْهَلْتَهُمْ ثِقَةً بِدَوَامِ مُلْكِكَ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ خَتَمْتَ لَهُ بِهَا، وَ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ خَذَلْتَهُ لَهَا. (۱۸) كُلُّهُمْ صَائِرُونَ، إِلَى حُكْمِكَ، وَ أَمُورُهُمْ آئِلَةٌ إِلَى أَمْرِكَ، لَمْ يَهِنْ عَلَى طُولِ مُدَّتِهِمْ سُلْطَانُكَ، وَ لَمْ يَدْحَضْ لِتَرْكِ مُعَاجَلَتِهِمْ بُرْهَانُكَ. (۱۹) حُجَّتُكَ قَائِمَةٌ لَا تُدْحَضُ، وَ سُلْطَانُكَ ثَابِتٌ لَا يَزُولُ، فَالْوَيْلُ الدَّائِمُ لِمَنْ جَنَحَ عَنْكَ، وَ الْخَيْبَةُ الْخَاذِلَةُ لِمَنْ خَابَ مِنْكَ، وَ الشَّقَاءُ الْأَشْقَى لِمَنِ اغْتَرَّ بِكَ. (۲۰) مَا أَكْثَرَ تَصَرُّفَهُ فِي عَذَابِكَ، وَ مَا أَطْوَلَ تَرَدُّدَهُ فِي عِقَابِكَ، وَ مَا أَبْعَدَ غَايَتَهُ مِنَ الْفَرَجِ، وَ مَا أَقْنَطَهُ مِنْ سُهُولَةِ الْمَخْرَجِ!! عَدْلًا مِنْ قَضَائِكَ لَا تَجُورُ فِيهِ، وَ إِنْصَافاً مِنْ حُكْمِكَ لَا تَحِيفُ عَلَيْهِ. (۲۱) فَقَدْ ظَاهَرْتَ الْحُجَجَ، وَ أَبْلَيْتَ الْأَعْذَارَ، وَ قَدْ تَقَدَّمْتَ بِالْوَعِيدِ، وَ تَلَطَّفْتَ فِي التَّرْغِيبِ، وَ ضَرَبْتَ الْأَمْثَالَ، وَ أَطَلْتَ الْإِمْهَالَ، وَ أَخَّرْتَ وَ أَنْتَ مُسْتَطِيعٌ لِلمُعَاجَلَةِ، وَ تَأَنَّيْتَ وَ أَنْتَ مَلِي‏ءٌ بِالْمُبَادَرَةِ (۲۲) لَمْ تَكُنْ أَنَاتُكَ عَجْزاً، وَ لَا إِمْهَالُكَ وَهْناً، وَ لَا إِمْسَاكُكَ غَفْلَةً، وَ لَا انْتِظَارُكَ مُدَارَاةً، بَلْ لِتَكُونَ حُجَّتُكَ أَبْلَغَ، وَ كَرَمُكَ أَكْمَلَ، وَ إِحْسَانُكَ أَوْفَى، وَ نِعْمَتُكَ أَتَمَّ، كُلُّ ذَلِكَ كَانَ وَ لَمْ تَزَلْ، وَ هُوَ كَائِنٌ وَ لَا تَزَالُ. (۲۳) حُجَّتُكَ أَجَلُّ مِنْ أَنْ تُوصَفَ بِكُلِّهَا، وَ مَجْدُكَ أَرْفَعُ مِنْ أَنْ يُحَدَّ بِكُنْهِهِ، وَ نِعْمَتُكَ أَكْثَرُ مِنْ أَنْ تُحْصَى بِأَسْرِهَا، وَ إِحْسَانُكَ أَكْثَرُ مِنْ أَنْ تُشْكَرَ عَلَى أَقَلِّهِ (۲۴) وَ قَدْ قَصَّرَ بِيَ السُّكُوتُ عَنْ تَحْمِيدِكَ، وَ فَهَّهَنِيَ الْإِمْسَاكُ عَنْ تَمْجِيدِكَ، وَ قُصَارَايَ الْإِقْرَارُ بِالْحُسُورِ، لَا رَغْبَةً- يَا إِلَهِي- بَلْ عَجْزاً. (۲۵) فَهَا أَنَا ذَا أَؤُمُّكَ بِالْوِفَادَةِ، وَ أَسْأَلُكَ حُسْنَ الرِّفَادَةِ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ اسْمَعْ نَجْوَايَ، وَ اسْتَجِبْ دُعَائِي، وَ لَا تَخْتِمْ يَوْمِي بِخَيْبَتِي، وَ لَا تَجْبَهْنِي بِالرَّدِّ فِي مَسْأَلَتِي، وَ أَكْرِمْ مِنْ عِنْدِكَ مُنْصَرَفِي، وَ إِلَيْكَ مُنْقَلَبِي، إِنَّكَ غَيْرُ ضَائِقٍ بِمَا تُرِيدُ، وَ لَا عَاجِزٍ عَمَّا تُسْأَلُ، وَ أَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ، وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.

عيد فطر اور جمعہ کے دن کی دعا، نماز سے واپسی پر رک کر قبلہ رخ ہو کر فرماتے تھے:

‌اے وہ جو ایسے شخص پر رحم کرتا ہے جس پر بندے رحم نہیں کرتے ۔ اے وہ جو ایسے (گنہگار) کو قبول کرتا ہے جسے کوئی قطعہ زمین (اس کے گناہوں کے باعث) قبول نہیں کرتا۔ اے وہ جو اپنے حاجت مند کو حقیر نہیں سمجھتا۔ اے وہ جو گڑگڑانے والوں کو ناکام نہیں پھیرتا۔ اے وہ جو نازش بے جا کرنے والوں کو ٹھکراتا نہیں۔ اے وہ جو چھوٹے سے چھوٹے تحفہ کو بھی پسندیدگی کی نظروں سے دیکھتا ہے اور جو معمولی سے معمولی عمل اس کے لیے بجا لایا گیا ہو اس کی جزا دیتا ہے۔ اے وہ جو اس سے قریب ہو وہ اس سے قریب ہوتا ہے اے وہ کہ جو اس سے رو گردانی کرے اسے اپنی طرف بلاتا ہے اور وہ جو نعمت کو بدلتا نہیں اور نہ سزا دینے میں جلدی کرتا ہے۔ اے وہ جو نیکی کے نہال کو بار آور کرتا ہے تا کہ اسے بڑھا دے اور گناہوں سے درگزر کرتا ہے تا کہ انہیں نا پید کر دے۔ امیدیں تیری سرحد کرم چھونے سے پہلے کامران ہو کر پلٹ آئیں اور طلب و آرزو کے ساغر تیرے فیضان جود سے چھلک اٹھے اور صفتیں تیرے کمال ذات کی منزل تک پہنچنے سے درماندہ ہو کر منتشر ہو گئیں اس لیے کہ بلند ترین رفعت جو ہر کنگرہ بلند سے بالا تر ہے اور بزرگ ترین عظمت جو ہر عظمت سے بلند تر ہے تیرے لیے مخصوص ہے۔ بزرگ تیری شرف کے مقابلہ میں حقیر ہے جنہوں نے تیرے غیر کا رخ کیا وہ ناکام ہوئے جنہوں نے تیرے سوا دوسروں سے طلب کیا وہ نقصان میں رہے۔ جنہوں نے تیرے سوا دوسروں کے ہاں منزل کی وہ تباہ ہوئے، جو تیرے فضل کے بجائے دوسروں سے رزق و نعمت کے طلب گار ہوئے وہ قحط ومصیبت سے دو چار ہوئے تیرا دروازہ طلبگاروں کے لیے وا ہے اور تیرا جود و کرم سائلوں کے لیے عام ہے۔ تیری فریاد رسی داد خواہوں سے نزدیک ہے، امیدوار تجھ سے محروم نہیں رہتے اور طلب گار تیری عطا و بخشش سے مایوس نہیں ہوتے اور مغفرت چاہنے والے پر تیرے عذاب کی بد بختی نہیں آتی۔ تیرا خوان نعمت ان کے لیے بھی بچھا ہوا ہے جو تیری نافرمانی کرتے ہیں اور تیری بردباری ان کے بھی آڑے آتی ہے جو تجھ سے دشمنی رکھتے ہیں۔ بروں سے نیکی کرنا تیری روش اور سرکشوں پر مہربانی کرنا تیرا طریقہ ہے یہاں تک کہ نرمی وحلم نے انہیں (حق کی طرف) رجوع ہونے سے غافل کر دیا اور تیری دی ہوئی مہلت نے انہیں اجتناب معاصی سے روک دیا۔ حالانکہ تو نے ان سے نرمی اس لیے کی تھی کہ وہ تیرے فرمان کی طرف پلٹ آئیں اور مہلت اس لیے دی تھی کہ تجھے اپنے تسلط و اقتدار کے دوام پر اعتماد تھا کہ (جب چاہے انہیں اپنی گرفت میں لے سکتا ہے) اب جو خوش نصیب تھا اس کا خاتمہ بھی خوش نصیبی پر کیا۔ اور جو بد نصیب تھا اسے ناکام رکھا۔ (وہ خوش نصیب ہوں یا بد نصیب) سب کے سب تیر ے حکم کی طرف پلٹنے والے ہیں اور ان کا مآل تیرے امر سے وابستہ ہے ان کی طویل مدت مہلت سے تیری دلیل و حجت میں کمزوری رونما نہیں ہوتی۔ (جیسے اس شخص کی دلیل کمزور ہو جاتی ہے جو اپنے حق کے حاصل کرنے میں تاخیر کرے) اور فوری گرفت کو نظر انداز کرنے سے تیری حجت و برہان باطل نہیں قرار پائی (کہ یہ کہا جائے کہ اگر اس کے پاس ان کے خلاف دلیل وبرہان ہوتی تو وہ مہلت کیوں دیتا) تیری حجت برقرار ہے جو باطل نہیں ہو سکتی اور تیری دلیل محکم ہے جو زائل نہیں ہو سکتی لہذا دائمی حسرت و اندوہ اسی شخص کے لیے ہے جو تجھ سے روگردان ہوا اور رسوا کن نامرادی اسی کے لیے ہے جو تیرے ہاں سے محروم رہا اور بد ترین بدبختی اسی کے لۓ ہے جس نے تیری (چشم پوشی سے) فریب کھایا۔ ایسا شخص کس قدر تیرے عذاب میں الٹے پلٹے کھاتا اور کتنا طویل زمانہ تیرے عقاب میں گردش کرتا رہے گا۔ اور اس کی رہائی کا مرحلہ کتنی دور اور بآسانی نجات حاصل کرنے سے کتنا مایوس ہوگا۔ یہ تیرا فیصلہ از روئے عدل ہے جس میں ذرا بھی ظلم نہیں کرتا ۔ اور تیرا یہ حکم مبنی بر انصاف ہے جس میں اس پر زیادتی نہیں کرتا ۔ اس لیے کہ تو نے پے در پے دلیلیں قائم اور قابل قبول حجتیں آشکارا کر دیں ہیں اور پہلے سے ڈرانے والی چیزوں کے ذریعہ آگاہ کر دیا ہے اور لطف و مہربانی سے (آخرت کی) ترغیب دلائی ہے اور طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں مہلت کی مدت بڑھا دی ہے اور (عذاب میں) تاخیر سے کام لیا ہے حالانکہ تو فوری گرفت پر اختیار رکھتا تھا۔ اور نرمی و مدارات سے کام لیا ہے باوجودیکہ تو تعجیل کرنے پر قادر تھا ۔ یہ نرم روی، عاجزی کی بنا پر اور مہلت دہی کمزوری کی وجہ سے نہ تھی اور نہ عذاب میں توقف کرنا غفلت و بے خبری کے باعث اور نہ تاخیر کرنا نرمی و ملاطفت کی بنا پر تھا ۔ بلکہ یہ اس لیے تھا کہ تیری حجت ہر طرح سے پوری ہو۔ تیرا کرم کامل تر، تیرا احسان فراواں، اور تیری نعمت تمام تر ہو یہ تمام چیزیں تھیں اور رہیں گی، درآنحالیکہ تو ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا۔ تیری حجت اس سے بالا تر ہے کہ اس کے تمام گوشوں کو پوری طرح بیان کیا جا سکے اور تیری عزت و بزرگی اس سے بلند تر ہے کہ اس کی کنہ و حقیقت کی حدیں قائم کی جائیں اور تیری نعمتیں اس سے فزوں تر ہیں کہ ان سب کا شمار ہو سکے اور تیرے احسانات اس سے کہیں زیادہ تر ہیں کہ ان میں کے ادنے احسان پر بھی تیرا شکریہ ادا کیا جا سکے ۔ (میں تیری حمد و سپاس سے عاجز اور درماندہ ہوں۔ گویا) خاموشی نے تیری پے در پے حمد سپاس سے مجھے ناتواں کر دیا ہے اور توقف نے تیری تمجید و ستائش سے مجھے گنگ کر دیا ہے اور اس سلسلہ میری توانائی کی حد یہ ہے کہ اپنی درماندگی کا اعتراف کروں۔ یہ بے رغبتی کی وجہ سے نہیں ہے۔ اے میرے معبود! بلکہ عجز و ناتوانائی کی بنا پر ہے۔ اچھا تو میں اب تیری بارگاہ میں حاضر ہونے کا قصد کرتا ہوں اور تجھ سے حسن اعانت کا خواستگار ہوں۔ تو محمد اوران کی آل پر رحمت نازل فرما اور میری راز و نیاز کی باتوں کو سن اور میری دعا کو شرف قبولیت بخش اور میرے دن کو ناکامی کے ساتھ ختم نہ کر اور میرے سوال میں مجھے ٹھکرا نہ دے۔ اور اپنی بارگاہ سے پلٹے اور پھر پلٹ کر آنے کو عزت و احترام سے ہمکنار فرما۔ اس لیے کہ تجھے تیرے ارادہ میں کوئی دشواری حائل نہیں ہوتی اور جو چیز تجھ سے طلب کی جائے ا س کے دینے سے عاجز نہیں ہوتا۔ اور تو ہرچیز پر قادر ہے اور قوت و طاقت نہیں سوا اللہ کے سہارے کے جو بلند مرتبہ و عظیم ہے۔


حوالہ جات

  1. ممدوحی کرمانشاهی، شهود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۲۸.
  2. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ش، ج۷، ص۵۰۳-۵۱۵؛ ممدوحی، شهود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۲۸-۴۶؛ شرح فرازهای دعای چهل و ششم از سایت عرفان.
  3. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ش، ج۷، ص۴۹۷-۵۱۵۔
  4. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۴، ص۲۳-۴۶۔
  5. فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۳۴۵-۳۶۴۔
  6. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ، ج۶، ص۱۹۹-۲۵۲۔
  7. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ، ص۵۳۹-۵۴۹۔
  8. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۵۷۵-۵۸۸۔
  9. فضل‌ اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۴۳۳-۴۶۲۔
  10. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ھ، ص۹۱-۹۲۔
  11. جزایری، شرح الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۲، ص۲۳۶-۲۴۱۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • فضل‌اللہ، سید محمدحسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
  • فہری، سیداحمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سیدالساجدین، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔

بیرونی روابط