مندرجات کا رخ کریں

"عزاداری" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Merajmahdi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Merajmahdi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 19: سطر 19:


==عزاداری تاریخ کے آئینے میں==
==عزاداری تاریخ کے آئینے میں==
تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں اور بالاخص شیعوں نے عزاداری منعقد کرنا شروع کی ہیں۔ عزاداری‌ کی یہ رسومات کبھی سرکاری طور پر سات سات دنوں کی چھٹی، نئے کپڑے پہننے سے پرہیز کرنے کے ساتھ شعراء کے زبانی عاشورا کے حوالے سے [[مرثیہ]] اور [[نوحہ خوانی]] کے ذریعے انجام پاتی تھی۔ نیز سرکاری دفاتر اور تجارتی مراکز کی بھی ان ایام میں بند رہتے تھے۔<ref>گلی زوارہ، «عزاداری»، در دائرۃ المعارف تشیع، ۱۳۹۰ش، ص ۲۶۷.</ref>
تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں اور بالاخص شیعوں نے عزاداری منعقد کرنا شروع کی ہیں۔ عزاداری‌ کی یہ رسومات کبھی سرکاری طور پر سات سات دنوں کی چھٹی، نئے کپڑے پہننے سے پرہیز کرنے کے ساتھ شعراء کے زبانی عاشورا کے حوالے سے [[مرثیہ]] اور [[نوحہ خوانی]] کے ذریعے انجام پاتی تھی۔ نیز سرکاری دفاتر اور تجارتی مراکز بھی ان ایام میں بند رہتے تھے۔<ref>گلی زوارہ، «عزاداری»، در دائرۃ المعارف تشیع، ۱۳۹۰ش، ص ۲۶۷.</ref>


تاریخ چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے عزاداری کے مخالفین اور موافقین کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی حکایت کرتی ہے۔ بغداد میں پہلی بار اعلانیہ طور پر عزاداری منعقد ہونے کے دس سال بعد یعنی سنہ 362 ہجری قمری کو عزاداری کے بارے میں ایک جھگڑا ہوا جس کے بارے میں ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ اس جھگڑے میں تقریبا 17 ہزار لوگوں کو زندہ جلایا گیا اور تقریبا 300 دکانیں اور 33 مساجد بھی اس جھگڑے کی نذر ہو گئی۔<ref>مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶.</ref> عزاداری سے متعلق اس قسم کی لڑائی جھگڑے اور بعض حکومتوں (منجملہ سلطان محمود غزنوی) کی طرف سے عزاداری پر لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے شیعوں میں عزاداری کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔<ref>مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶ و ۳۴۷.</ref>
تاریخ چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے عزاداری کے مخالفین اور موافقین کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی حکایت کرتی ہے۔ بغداد میں پہلی بار اعلانیہ طور پر عزاداری منعقد ہونے کے دس سال بعد یعنی سنہ 362 ہجری قمری کو عزاداری کے بارے میں ایک جھگڑا ہوا جس کے بارے میں ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ اس جھگڑے میں تقریبا 17 ہزار لوگوں کو زندہ جلایا گیا اور تقریبا 300 دکانیں اور 33 مساجد بھی اس جھگڑے کی نذر ہو گئی۔<ref>مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶.</ref> عزاداری سے متعلق اس قسم کی لڑائی جھگڑے اور بعض حکومتوں (منجملہ سلطان محمود غزنوی) کی طرف سے عزاداری پر لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے شیعوں میں عزاداری کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔<ref>مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶ و ۳۴۷.</ref>
گمنام صارف