مندرجات کا رخ کریں

"حج" کے نسخوں کے درمیان فرق

144 بائٹ کا اضافہ ،  10 اگست 2019ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 23: سطر 23:
* احادیث میں '''حج''' کو [[روزہ]] اور [[جہاد]] سے افضل قرار دیا گیا ہے، بلکہ [[نماز]] کے علاوہ باقی تمام عبادتوں سے افضل شمار کیا گیا ہے۔<ref>الکافی (کلینی)، ج۴، ص۲۵۳ ۲۵۴</ref> حج کے مناسک میں بہت سے اسرار اور فواید پوشیدہ ہیں۔ [[امام صادق(ع)]] سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے: "حاجی [[خدا]] کا مہمان ہے، اگر وہ کچھ طلب کرے تو اسے عطا کی جاتی ہے اور اگر گوئی دعا مانگے تو اللہ اسے قبول کرتا ہے اسی طرح اگر حاجی کسی کی [[شفاعت]] کرے تو خدا اسے قبول کرتا ہے اور اگر مانگنے سے باز رہے تو خود خدا اسے عطا فرماتا ہے۔"<ref>الکافی (کلینی)، ج۴، ص۲۵۵</ref> ایک اور روایت میں پھر امام صادق (ع) سے منقول ہے: "جس وقت حاجی [[سرزمین منا|مِنا]] میں پہنچ جاتے ہیں تو ایک منادی خدا کی طرف سے ندا دیتا ہے: اگر میری رضایت کے خواہاں ہو تو میں راضی ہوں۔" <ref>الکافی (کلینی)، ج۴، ص۲۶۲</ref>
* احادیث میں '''حج''' کو [[روزہ]] اور [[جہاد]] سے افضل قرار دیا گیا ہے، بلکہ [[نماز]] کے علاوہ باقی تمام عبادتوں سے افضل شمار کیا گیا ہے۔<ref>الکافی (کلینی)، ج۴، ص۲۵۳ ۲۵۴</ref> حج کے مناسک میں بہت سے اسرار اور فواید پوشیدہ ہیں۔ [[امام صادق(ع)]] سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے: "حاجی [[خدا]] کا مہمان ہے، اگر وہ کچھ طلب کرے تو اسے عطا کی جاتی ہے اور اگر گوئی دعا مانگے تو اللہ اسے قبول کرتا ہے اسی طرح اگر حاجی کسی کی [[شفاعت]] کرے تو خدا اسے قبول کرتا ہے اور اگر مانگنے سے باز رہے تو خود خدا اسے عطا فرماتا ہے۔"<ref>الکافی (کلینی)، ج۴، ص۲۵۵</ref> ایک اور روایت میں پھر امام صادق (ع) سے منقول ہے: "جس وقت حاجی [[سرزمین منا|مِنا]] میں پہنچ جاتے ہیں تو ایک منادی خدا کی طرف سے ندا دیتا ہے: اگر میری رضایت کے خواہاں ہو تو میں راضی ہوں۔" <ref>الکافی (کلینی)، ج۴، ص۲۶۲</ref>
* احادیث میں '''حج''' کو دین [[اسلام]] کے ارکان <ref> ابن‌خزیمہ، ج۱، ص۱۵۹؛ ابن‌حجر عسقلانی، ج۳، ص۲۸۵ ۲۸۶؛ حرّعاملی، ج۱، ص۱۳۲۰، ۲۶۲۸</ref> ، بہترین کام اور سب سے اہم واجبات میں سے قرار دیا ہے۔<ref>بخاری، ج۲، ص۱۴۱؛ کلینی، ج۴، ص۲۵۲ ۲۶۴ ؛ ابن‌بابویہ، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۵۰</ref>  
* احادیث میں '''حج''' کو دین [[اسلام]] کے ارکان <ref> ابن‌خزیمہ، ج۱، ص۱۵۹؛ ابن‌حجر عسقلانی، ج۳، ص۲۸۵ ۲۸۶؛ حرّعاملی، ج۱، ص۱۳۲۰، ۲۶۲۸</ref> ، بہترین کام اور سب سے اہم واجبات میں سے قرار دیا ہے۔<ref>بخاری، ج۲، ص۱۴۱؛ کلینی، ج۴، ص۲۵۲ ۲۶۴ ؛ ابن‌بابویہ، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۵۰</ref>  
* [[حضرت علی(ع)]] نے حج کو ناتوان افراد کا [[جہاد]] قرار دیا ہے<ref>نہج‌البلاغۃ، حکمت ۱۳۶</ref> اور اپنی وصیتوں میں حج کے فوائد میں سے سب سے کم فائدے کو [[گناہ|گناہوں]] کی بخشش قرار دیا ہے۔<ref> کلینی، ج۷، ص۵۱۵۲؛ بخاری، ج۲، ص۲۰۹</ref>
* [[حضرت علی(ع)|حضرت علیؑ]] نے حج کو ناتوان افراد کا [[جہاد]] قرار دیا ہے<ref>نہج‌البلاغۃ، حکمت ۱۳۶</ref> اور اپنی وصیتوں میں حج کے فوائد میں سے سب سے کم فائدے کو [[گناہ|گناہوں]] کی بخشش قرار دیا ہے۔<ref> کلینی، ج۷، ص۵۱۵۲؛ بخاری، ج۲، ص۲۰۹</ref>
* احادیث میں واجب ہونے کے بعد حج بجا نہ لانا یا اسے مؤخر کرنے کی مذمت اور دنیا اور آخرت دونوں میں اس کے منفی اثرات کی طرف اشارہ کی گئی ہے۔<ref> نہج‌البلاغۃ، نامہ ۴۷؛ ترمذی، ج۲، ص۱۵۳۱۵۴؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۲۹ - ۳۲</ref>
* احادیث میں واجب ہونے کے بعد حج بجا نہ لانا یا اسے مؤخر کرنے کی مذمت اور دنیا اور آخرت دونوں میں اس کے منفی اثرات کی طرف اشارہ کی گئی ہے۔<ref> نہج‌البلاغۃ، نامہ ۴۷؛ ترمذی، ج۲، ص۱۵۳۱۵۴؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۲۹ - ۳۲</ref>
* احادیث میں حج کی اتنی اہمیت بیان ہوئی ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے اوپر یہ فرض کی گئی ہے کہ اگر لوگ حج کے فریضے پر عمل نہ کریں تو انہیں اس کام پر مجبور کیا جائے اور ضرورت پڑنے پر ان کے سفر کے اخراجات بھی [[بیت المال]] سے ادا کرنے کی تائید کی گیئ ہے۔<ref> کلینی، ج۴، ص۲۵۹ -۲۶۰، ۲۷۲؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۲۳ - ۲۴</ref>
* احادیث میں حج کی اتنی اہمیت بیان ہوئی ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے اوپر یہ فرض کی گئی ہے کہ اگر لوگ حج کے فریضے پر عمل نہ کریں تو انہیں اس کام پر مجبور کیا جائے اور ضرورت پڑنے پر ان کے سفر کے اخراجات بھی [[بیت المال]] سے ادا کرنے کی تائید کی گیئ ہے۔<ref> کلینی، ج۴، ص۲۵۹ -۲۶۰، ۲۷۲؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۲۳ - ۲۴</ref>
سطر 29: سطر 29:
===فلسفہ===
===فلسفہ===
* متعدد احادیث میں حج کے واجب ہونے کی حکمت اور فلسفے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ [[امام علی(ع)]] نے مختلف موارد میں ان حکمتوں میں سے بعض کی طرف اشارہ فرمایا ہے منجملہ ان میں خدا کی عظمت اور بزرگی کے مقابلے میں مسلمانوں کا تواضع، [[تکبر]] سے دوری، سفر کی سختیوں کے ذریعے بندگان خدا کی آزمایشی، مسلمانوں کا اکھٹے ہونا اور ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہونا، خدا کے تقرب اور رحمت سے نزدیک ہونا وغیرہ ہیں۔<ref> نہج‌البلاغۃ، خطبہ ۱، ۱۱۰، ۱۹۲، حکمت ۲۵۲</ref>
* متعدد احادیث میں حج کے واجب ہونے کی حکمت اور فلسفے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ [[امام علی(ع)]] نے مختلف موارد میں ان حکمتوں میں سے بعض کی طرف اشارہ فرمایا ہے منجملہ ان میں خدا کی عظمت اور بزرگی کے مقابلے میں مسلمانوں کا تواضع، [[تکبر]] سے دوری، سفر کی سختیوں کے ذریعے بندگان خدا کی آزمایشی، مسلمانوں کا اکھٹے ہونا اور ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہونا، خدا کے تقرب اور رحمت سے نزدیک ہونا وغیرہ ہیں۔<ref> نہج‌البلاغۃ، خطبہ ۱، ۱۱۰، ۱۹۲، حکمت ۲۵۲</ref>
* [[حضرت فاطمہ(س)]] '''حج''' کو دین اسلام کی پایداری کا عامل قرار دیتی ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج۲۹، ص۲۲۳</ref>
* [[حضرت فاطمہ(س)|حضرت فاطمہؑ]] '''حج''' کو دین اسلام کی پایداری کا عامل قرار دیتی ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ج۲۹، ص۲۲۳</ref>
* [[امام صادق(ع)]] مسلمانوں کا دنیا کے مختلف حصوں سے آکر مکہ میں جمع ہونا، ان کا ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت، مختلف تجارتی فوائد سے بہرہ مند ہونا، دینی احکام اور [[رسول اکرم(ص)]] کی احادیث سے آگاہی کو منجملہ تشریع حج کی حکمتوں میں شمار فرماتے ہیں۔<ref>رجوع کریں:حرّعاملی، ج۱۱، ص۱۴</ref>
* [[امام صادق(ع)|امام صادقؑ]] مسلمانوں کا دنیا کے مختلف حصوں سے آکر مکہ میں جمع ہونا، ان کا ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت، مختلف تجارتی فوائد سے بہرہ مند ہونا، دینی احکام اور [[رسول اکرم(ص)|رسول اکرمؐ]] کی احادیث سے آگاہی کو منجملہ تشریع حج کی حکمتوں میں شمار فرماتے ہیں۔<ref>رجوع کریں:حرّعاملی، ج۱۱، ص۱۴</ref>
* [[امام رضا(ع)]] [[خدا]] کے مہمان خانے میں داخل ہونا، گناہوں سے [[توبہ]] اور استغفار، جسم کو نفسانی خواہشات سے دور رکھنا، سنگدلی اور ناامیدی سے رہائی، لوگوں کی حاجتوں کا پورا ہونا، لوگوں کا حج کی اقتصادی اور تجارتی فوائد سے بہرہ مند ہونا اور لوگوں کا دینی معارف سے آشنائی کو حج کے واجب ہونے کی علت اور فلسفہ میں شمار فرماتے ہیں۔<ref>ابن‌بابویہ، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۰</ref>
* [[امام رضا(ع)|امام رضاؑ]] [[خدا]] کے مہمان خانے میں داخل ہونا، گناہوں سے [[توبہ]] اور استغفار، جسم کو نفسانی خواہشات سے دور رکھنا، سنگدلی اور ناامیدی سے رہائی، لوگوں کی حاجتوں کا پورا ہونا، لوگوں کا حج کی اقتصادی اور تجارتی فوائد سے بہرہ مند ہونا اور لوگوں کا دینی معارف سے آشنائی کو حج کے واجب ہونے کی علت اور فلسفہ میں شمار فرماتے ہیں۔<ref>ابن‌بابویہ، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۰</ref>


=== سفر حج کے آداب===
=== سفر حج کے آداب===
[[رسول اکرم(ص)]] اور [[شیعہ]] [[ائمہ]] کی جانب سے سفر حج کے بہت سارے آداب نقل ہوئی ہیں:
[[رسول اکرم(ص)|رسول اکرمؐ]] اور [[شیعہ]] [[ائمہ]] کی جانب سے سفر حج کے بہت سارے آداب نقل ہوئی ہیں:
* گذشتہ گناہوں سے [[توبہ]]، آنے والی زندگی میں [[گناہ]] اور خدا کی نافرمانی سے پرہیز اور حلم و بردباری، بیوی بچوں سے نیک سلوک، سفر حج کے مخارج میں گشادہ دلی کا مظاہرہ، اور حج کے دوران خرید و فروش میں سودے بازی سے پرہیز،<ref>ابن‌بابویہ، ۱۴۰۴، ج۳، ص۱۶۷، ۱۹۷؛ طوسی، تہذیب، ج۵، ص۴۴۵؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۱۴۹، ج۱۷، ص۴۵۵ -۴۵۶</ref> پورے سفر میں بے ہودہ باتوں سے پرہیز اور مستحقین کو کھانا کھلانا <ref>ابن‌ابی‌جمہور، ج۴، ص۳۳؛ قزوینی، ص۵۸۶ - ۵۸۸؛ شکوئی، ص۹۹</ref> وغیرہ اس سفر کے آداب میں سے ہیں۔
* گذشتہ گناہوں سے [[توبہ]]، آنے والی زندگی میں [[گناہ]] اور خدا کی نافرمانی سے پرہیز اور حلم و بردباری، بیوی بچوں سے نیک سلوک، سفر حج کے مخارج میں گشادہ دلی کا مظاہرہ، اور حج کے دوران خرید و فروش میں سودے بازی سے پرہیز،<ref>ابن‌بابویہ، ۱۴۰۴، ج۳، ص۱۶۷، ۱۹۷؛ طوسی، تہذیب، ج۵، ص۴۴۵؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۱۴۹، ج۱۷، ص۴۵۵ -۴۵۶</ref> پورے سفر میں بے ہودہ باتوں سے پرہیز اور مستحقین کو کھانا کھلانا <ref>ابن‌ابی‌جمہور، ج۴، ص۳۳؛ قزوینی، ص۵۸۶ - ۵۸۸؛ شکوئی، ص۹۹</ref> وغیرہ اس سفر کے آداب میں سے ہیں۔
* احادیث میں حج کے ثواب اور خدا کی مغرفت کو [[اخلاص]] اور ہر قسم کی [[ریاکاری]] سے پرہیز کرنے کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔<ref>ابن‌بابویہ، ۱۳۶۸ش، ص۵۰۴؛ ابن‌حجر عسقلانی، ج۳، ص۳۰۲؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۱۰۹ ۱۱۰، ۱۴۶</ref>
* احادیث میں حج کے ثواب اور خدا کی مغرفت کو [[اخلاص]] اور ہر قسم کی [[ریاکاری]] سے پرہیز کرنے کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔<ref>ابن‌بابویہ، ۱۳۶۸ش، ص۵۰۴؛ ابن‌حجر عسقلانی، ج۳، ص۳۰۲؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۱۰۹ ۱۱۰، ۱۴۶</ref>
سطر 112: سطر 112:


==مستحب حج ==
==مستحب حج ==
جو اشخاص حج واجب ہونے کی شرائط نہیں رکھتے یا وہ افراد جنہوں نے واجب حج انجام دیا ہو انکے لئے دوبارہ حج کرنا مستحب ہے۔ پے در پے پانج سال حج کو ترک کرنا [[مکروہ]] ہے۔ دوسروں کے نام چاہے زندہ ہوں یا مردہ بطور خاص [[ائمہ معصومین(ع)]] کی طرف سے حج ادا کرنا مستحب ہے۔<ref> العروہ الوثقی، ج۴، ص۵۹۵۵۹۶</ref>
جو اشخاص حج واجب ہونے کی شرائط نہیں رکھتے یا وہ افراد جنہوں نے واجب حج انجام دیا ہو انکے لئے دوبارہ حج کرنا مستحب ہے۔ پے در پے پانچ سال حج کو ترک کرنا [[مکروہ]] ہے۔ دوسروں کے نام چاہے زندہ ہوں یا مردہ بطور خاص [[ائمہ معصومین(ع)|ائمہ معصومینؑ]] کی طرف سے حج ادا کرنا مستحب ہے۔<ref> العروہ الوثقی، ج۴، ص۵۹۵۵۹۶</ref>


==قضا==
==قضا==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,945

ترامیم