مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 202: سطر 202:
اس واقعے کے کئی سال بعد [[عمرو عاص]]، [[قیس بن سعد بن عبادہ]]،<ref> سید رضی، ص۴۳</ref><ref>دلائل الصدق، ج‌۴، ص۳۴۰</ref> [[کمیت بن زید اسدی]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> [[محمد بن عبداللہ حمیری]]،<ref>مجلسی، ج۳، ص۲۷۰</ref> [[اسماعیل بن محمد حمیری|سید بن محمد بن حمیری]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> وغیرہ نے اس واقعے کو اشعار میں بیان کیا ہے۔
اس واقعے کے کئی سال بعد [[عمرو عاص]]، [[قیس بن سعد بن عبادہ]]،<ref> سید رضی، ص۴۳</ref><ref>دلائل الصدق، ج‌۴، ص۳۴۰</ref> [[کمیت بن زید اسدی]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> [[محمد بن عبداللہ حمیری]]،<ref>مجلسی، ج۳، ص۲۷۰</ref> [[اسماعیل بن محمد حمیری|سید بن محمد بن حمیری]]،<ref>سید رضی، ص۴۳</ref> وغیرہ نے اس واقعے کو اشعار میں بیان کیا ہے۔


حضرت علی(ع) نیز واقعے کے بارے میں چند اشعار ارشاد فرمائے ہیں۔<ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱.</ref>
حضرت علی(ع) نے نیز اس واقعے کے بارے میں چند اشعار ارشاد فرمائے ہیں۔<ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱.</ref>
{{شعر2
{{شعر2
| فأوجبَ لی ولایتَہ علیکمْ| رسولُ اللَّہ یومَ غدیرِ خُمّ  
| فأوجبَ لی ولایتَہ علیکمْ| رسولُ اللَّہ یومَ غدیرِ خُمّ  
سطر 220: سطر 220:
*'''اس حدیث کے بعض منکرین کا لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہونا:'''
*'''اس حدیث کے بعض منکرین کا لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہونا:'''


بعض صحابہ جو اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے لیکن اس پر گواہی دینے سے انکار کرنے پر [[اہل بیت]] کی لعن میں گرفتار ہوئے۔ ان لعنتوں کے نتیجے میں یہ بیمار ہوئے۔ مثال کے طور پر [[انس بن مالک]] برس کی بیماری میں مبتلاء ہو گئے۔<ref>صدوق، امالی، ص۲۲</ref><ref>ابن قتیبہ، ''الامامۃ والسیاسۃ''، ج۱، ص۵۸۰</ref> [[زید بن ارقم]]<ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ج۱، ص۶۲.</ref> اور [[اشعث بن قیس]] <ref>صدوق، امالی، ص۱۶۲.</ref> نابینا ہو گئے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ صرف حضرت علی(ع) سے دوستی اور محبت کے اظہار کرنے کی سفارش پر مشتمل نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم کام کا اعلان ہونا تھا اسی لئے بعض اس کا انکار کرتے تھے جس کی وجہ سے اہل بیت کی لعنت کا مستحق قرار پاتے جو بعد میں ایک لا علاج بیماری کی صورت اختیار کر جاتی۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۴.</ref>
بعض صحابہ جو اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے لیکن اس پر گواہی دینے سے انکار کرنے پر [[اہل بیت]] کی لعن میں گرفتار ہوئے۔ ان لعنتوں کے نتیجے میں یہ بیمار ہوئے۔ مثال کے طور پر [[انس بن مالک]] برس کی بیماری میں مبتلاء ہو گیا۔<ref>صدوق، امالی، ص۲۲</ref><ref>ابن قتیبہ، ''الامامۃ والسیاسۃ''، ج۱، ص۵۸۰</ref> [[زید بن ارقم]]<ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ج۱، ص۶۲.</ref> اور [[اشعث بن قیس]] <ref>صدوق، امالی، ص۱۶۲.</ref> نابینا ہو گیا۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ صرف حضرت علی(ع) سے دوستی اور محبت کے اظہار کرنے کی سفارش پر مشتمل نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم کام کا اعلان ہونا تھا اسی لئے بعض اس کا انکار کرتے تھے جس کی وجہ سے اہل بیت کی لعنت کے مستحق قرار پاتے جو بعد میں ایک لا علاج بیماری کی صورت اختیار کر جاتی۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۴.</ref>


*''آیت تبلیغ کا نزول:'''
*''آیت تبلیغ کا نزول:'''
سطر 226: سطر 226:
[[ملف:آیه تبلیغ.jpg|LEFT|تصغیر|سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67۔ (آیت تبلیغ]]
[[ملف:آیه تبلیغ.jpg|LEFT|تصغیر|سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67۔ (آیت تبلیغ]]


بعض احادیث <ref>قمی، ج۱، ص۱۷۱</ref><ref>طبرسی، ''جوامع الجامع''، ج۱، ص۳۴۳</ref> اور مفسرین کے مطابق <ref>سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref><ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۲</ref> سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر 67،[[حجۃ الوداع]] کے موقع پر [[مکہ]] اور [[مدینہ]] نازل ہوئی۔ جس میں ایک اہم کام کی تبلیغ کی ذمہ داری رسول اکرم(ص) کے گردن پر ڈالا گیا جو پیغمبر(ص) کی 23 سالہ زندگی میں انجام دینے والی رسالت کے کام کے برابر تھا۔ چنانچہ اگر اس کام کی تبلیغ نہیں کی گئی تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔ البتہ یہ تبلیغ بہت ساری مشکلات اور خطرات سے روبروی ہون گے لیکن خداوند عالم نے خود پیغمبر(ص) کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے۔ اس آیت میں استعمال ہونے والی تاکیدات اور سفارشات بھی اس کام کی اہمیت اور مقام و منزلت پر واضح دلیل ہے اور یہ آیت جس امر مہم کی تبلیغ کا حکم دی رہی ہے وہ صرف اور حضرت علی(ع) کی امامت اور ولایت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔<ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۱</ref><ref>طبرسی، ''مجمع البیان''، ج۱، ص۳۳۴.</ref> [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]]، [[براء بن عاذب]] و محمد بن علی وغیرہ اسی عقیدے پر قائم تھے۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۱</ref>
بعض احادیث <ref>قمی، ج۱، ص۱۷۱</ref><ref>طبرسی، ''جوامع الجامع''، ج۱، ص۳۴۳</ref> اور مفسرین کے مطابق <ref>سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref><ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۲</ref> سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر 67،[[حجۃ الوداع]] کے موقع پر [[مکہ]] اور [[مدینہ]] نازل ہوئی۔ جس میں ایک اہم کام کی تبلیغ کی ذمہ داری رسول اکرم(ص) کے گردن پر ڈالا گیا جو پیغمبر(ص) کی 23 سالہ زندگی میں انجام دینے والی رسالت کے کام کے برابر تھا۔ چنانچہ اگر اس کام کی تبلیغ نہیں کی گئی تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔ البتہ یہ تبلیغ بہت ساری مشکلات اور خطرات سے روبروی ہوں گے لیکن خداوند عالم نے خود پیغمبر(ص) کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے۔ اس آیت میں استعمال ہونے والی تاکیدیں اور سفارشیں بھی اس کام کی اہمیت اور مقام و منزلت پر واضح دلیل ہے اور یہ آیت جس امر مہم کی تبلیغ کا حکم دی رہی ہے وہ صرف اور صرف حضرت علی(ع) کی امامت اور ولایت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔<ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۱</ref><ref>طبرسی، ''مجمع البیان''، ج۱، ص۳۳۴.</ref> [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]]، [[براء بن عاذب]] و محمد بن علی وغیرہ اسی عقیدے پر قائم تھے۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۱</ref>


اگرچہ بعض معتقد ہیں کہ اس آیت میں جس امر کی تبلیغ پر تاکید کی گئی تھی وہ بعض احکام جیسے [[قصاص]]،[[رجم]]، رسول کے لے پالک بیٹے [[زید بن حارثہ|زید]] کی بیوی سے شادی کرنے کا حکم، وجوب [[جہاد]] کا حکم یا  [[یہود|یہودیوں]] اور [[قریش]] اور [[شرک|مشرکین]] کے بتوں کے عیب کا بیان تھا۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۰-۴۰۲</ref> لیکن مذکورہ قرائن و شواہد کے بعد اس نظریے کا اشتباہ اور باطل ہونا واضح ہے۔
اگرچہ بعض یہ مانتے ہیں کہ اس آیت میں جس امر کی تبلیغ پر تاکید کی گئی تھی وہ بعض احکام جیسے [[قصاص]]،[[رجم]]، رسول کے لے پالے گئے بیٹے [[زید بن حارثہ|زید]] کی بیوی سے شادی کرنے کا حکم، وجوب [[جہاد]] کا حکم یا  [[یہود|یہودیوں]] اور [[قریش]] اور [[شرک|مشرکین]] کے بتوں کے عیب کا بیان تھا۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۰-۴۰۲</ref> لیکن مذکورہ قرائن و شواہد کے بعد اس نظریے کا غلط اور باطل ہونا واضح ہے۔


*'''آیت اکمال دین کا نزول :'''
*'''آیت اکمال دین کا نزول :'''
گمنام صارف