مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>E.musavi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
سطر 19: سطر 19:
[[روز عرفہ]] کو پیغمبر اکرم(ص) نے حاجیوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہم امور منجملہ مسلمان کی جان و مال کا احترام، امانتداری، [[ربا]] کی [[حرام|حرمت]]، عورتوں کے حقوق اور [[ابلیس|شیطان]] کی اطاعت سے پرہیز وغیرہ پر سیر حاصل بحث فرمائی۔<ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج‌۳، ص۱۵۰-۱۵۲؛ ابن ہشام، ''السیرہ النبویہ''، ج۲، ص۶۰۳۶۰۴.</ref>
[[روز عرفہ]] کو پیغمبر اکرم(ص) نے حاجیوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہم امور منجملہ مسلمان کی جان و مال کا احترام، امانتداری، [[ربا]] کی [[حرام|حرمت]]، عورتوں کے حقوق اور [[ابلیس|شیطان]] کی اطاعت سے پرہیز وغیرہ پر سیر حاصل بحث فرمائی۔<ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج‌۳، ص۱۵۰-۱۵۲؛ ابن ہشام، ''السیرہ النبویہ''، ج۲، ص۶۰۳۶۰۴.</ref>


حج کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد تمام مسلمان مکہ سے خارج ہو کر اپنے اپنے سرزمینوں کی طرف روانہ ہوئے لگے۔ حاجیوں کا یہ قافلہ [[18 ذوالحجہ]] کو [[غدیر خم]] نامی جگہے پر پہنچے۔ <ref> یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج۲، ص۱۱۸.</ref> غدیر خم، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہے کا نام ہے جو [[جحفہ|جُحفہ]] سے دو کلومیتر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں سے مختلف راستے جدا ہوتے ہیں۔<ref> یاقوت، ''معجم البلدان''، ج۲، ص۱۰۳.</ref> جب رسول اکرم(ع) کا قافلہ غدیر خم پہنچے تو [[جبرئیل|فرشتہ وحی]] [[سورہ مائدہ]] کی [[آیت]] نمبر 67 <font color=green>{{حدیث|یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیک مِنْ رَبِّک وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُک مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لایهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ}}</font> ے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ اور اسی سورے کی آیت نمبر 3 <font color=green>{{حدیث|الْیوْمَ یئِسَ الَّذینَ کفَرُوا مِنْ دینِکمْ فَلاتَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً}}</font> آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ لے کر رسول اکرم (ص) پر نازل ہوا اور آپ(ص) کو [[امام علی(ع)|حضرت علی]](ع) کی [[ولایت]] و [[امامت]] کا اعلان کرنے پر مأمور کیا۔<ref>مفید، ''تفسیر القرآن''، ج۱، ص۱۸۴؛ عیاشی، ''تفسیر عیاشی''، ج۱، ص۳۳۲.</ref> اس موقع پر رسول اکرم(ص) نے آگے جانے والے قافلوں کو رکنے اور پیچھے والے قافلوں کی انتظار کا حکم دیا۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو رسول اکرم(ص) کی امامت میں نماز ظہر ادا کی گئی اس کے بعد اونٹوں کے پالانوں سے آپ کیلئے ایک ممبر تیار کیا گیا جس پر چڑھ کر آپ(ص) نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں عنقریب تمہارے درمیان سے جارہا ہوں لیکن میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں  ان میں سے ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت ہیں۔ اس موقع پر آپ نے لوگوں کے جانوں پر خود ان سے زیادہ آپ کو اختیار ہونے کا اقرار لیا۔<ref>یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج‌۲، ص۱ب۱۲.</ref> اس کے بعد حضرت علی(ع) کو اپنے پاس ممبر پر بلایا اور حضرت علی کا ہاتھ بلند کرکے لوگوں کو دکھا کر فرمایا:'''<font color=green>{{حدیث|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ }}</font> ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔''' <ref>ابن اثیر، ''أُسدالغابۃ''،ج‌۵، ص۲۵۳؛ کلینی، ''الکافی''، ج۲، ص۲۷.</ref> اس کے بعد حضرت علی(ع) کے دوستوں کے حق میں [[دعا]] اور ان کے دشمنوں کے حق میں بد دعا فرمایا۔<ref> بلاذری،''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹؛ نسائی، ج۵، ص۴۵.</ref> اس وقت [[حسان بن ثابت]] نے آپ(ص) کی اجازت سے اس واقعے کے بارے میں ایک شعر کہا۔<ref>صدوق، ''الامالی''، ص۵۷۵؛ مفید، ''اقسام المولی''، ص۳۵؛ طوسی، ''الاقتصاد''، ص۳۵۱؛ طوسی، ''الرسائل''، ص۱۳۸.</ref> اس کے بعد [[عمر بن خطاب|خلیفہ دثانی]] نے اس مسئلے پر امام علی(ع) کو [[حدیث تہنیت|مبارک باد]] دیا۔<ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref>
حج کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد تمام مسلمان مکہ سے خارج ہو کر اپنے اپنے سرزمینوں کی طرف روانہ ہوئے لگے۔ حاجیوں کے یہ قافلے [[18 ذوالحجہ]] کو [[غدیر خم]] نامی جگہے پر پہنچے۔ <ref> یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج۲، ص۱۱۸.</ref> غدیر خم، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہے کا نام ہے جو [[جحفہ|جُحفہ]] سے دو کلومیتر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں سے مختلف راستے جدا ہوتے ہیں۔<ref> یاقوت، ''معجم البلدان''، ج۲، ص۱۰۳.</ref> جب رسول اکرم(ع) کا قافلہ غدیر خم پہونچا تو [[جبرئیل|فرشتہ وحی]] [[سورہ مائدہ]] کی [[آیت]] نمبر 67 <font color=green>{{حدیث|یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیک مِنْ رَبِّک وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُک مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لایهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ}}</font> اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ اور اسی سورے کی آیت نمبر 3 <font color=green>{{حدیث|الْیوْمَ یئِسَ الَّذینَ کفَرُوا مِنْ دینِکمْ فَلاتَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً}}</font> آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ لے کر رسول اکرم (ص) پر نازل ہوا اور آپ(ص) کو [[امام علی(ع)|حضرت علی]](ع) کی [[ولایت]] و [[امامت]] کا اعلان کرنے پر مأمور کیا۔<ref>مفید، ''تفسیر القرآن''، ج۱، ص۱۸۴؛ عیاشی، ''تفسیر عیاشی''، ج۱، ص۳۳۲.</ref> اس موقع پر رسول اکرم(ص) نے آگے جانے والے قافلوں کو رکنے اور پیچھے والے قافلوں کی انتظار کا حکم دیا۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو رسول اکرم(ص) کی امامت میں نماز ظہر ادا کی گئی اس کے بعد اونٹوں کے پالانوں سے آپ کیلئے ایک ممبر تیار کیا گیا جس پر چڑھ کر آپ(ص) نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں عنقریب تمہارے درمیان سے جارہا ہوں لیکن میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں  ان میں سے ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت ہیں۔ اس موقع پر آپ نے لوگوں کے جانوں پر خود ان سے زیادہ آپ کو اختیار ہونے کا اقرار لیا۔<ref>یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج‌۲، ص۱ب۱۲.</ref> اس کے بعد حضرت علی(ع) کو اپنے پاس ممبر پر بلایا اور حضرت علی کا ہاتھ بلند کرکے لوگوں کو دکھا کر فرمایا:'''<font color=green>{{حدیث|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ }}</font> ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔''' <ref>ابن اثیر، ''أُسدالغابۃ''،ج‌۵، ص۲۵۳؛ کلینی، ''الکافی''، ج۲، ص۲۷.</ref> اس کے بعد حضرت علی(ع) کے دوستوں کے حق میں [[دعا]] اور ان کے دشمنوں کے حق میں بد دعا فرمائی۔<ref> بلاذری،''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹؛ نسائی، ج۵، ص۴۵.</ref> اس وقت [[حسان بن ثابت]] نے آپ(ص) کی اجازت سے اس واقعے کے بارے میں ایک شعر کہا۔<ref>صدوق، ''الامالی''، ص۵۷۵؛ مفید، ''اقسام المولی''، ص۳۵؛ طوسی، ''الاقتصاد''، ص۳۵۱؛ طوسی، ''الرسائل''، ص۱۳۸.</ref> اس کے بعد [[عمر بن خطاب|خلیفہ دثانی]] نے اس مسئلے پر امام علی(ع) کو [[حدیث تہنیت|مبارک باد]] دیا۔<ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref>


==خطبہ غدیر کا خلاصہ==
==خطبہ غدیر کا خلاصہ==
گمنام صارف