مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 7: سطر 7:


'''حدیث غدیر'''  
'''حدیث غدیر'''  
اس خطبے کا ایک حصہ ہے جس میں پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: '''<font color=green>{{حدیث|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ }}</font>ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔''' چونکہ اس خطبے کا یہ حصہ 110 افراد سے زیادہ [[اصحاب]] اور 84 [[تابعین]] نے نقل کیا ہے اس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ [[حدیث]] [[حدیث متواتر|تواتر]] کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔
اس خطبے کا ایک حصہ ہے جس میں پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: '''<font color=green>{{حدیث|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ }}</font> ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔''' چونکہ اس خطبے کا یہ حصہ 110 افراد سے زیادہ [[اصحاب]] اور 84 [[تابعین]] نے نقل کیا ہے اس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ [[حدیث]] [[حدیث متواتر|تواتر]] کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔


[[عبدالحسین امینی|علامہ امینی]] نے اس خطبے کے سلسلہ [[سند]] کو اہل سنت کے منابع سے جمع کیا ہے اور دوسرے دلائل کے ساتھ [[واقعہ غدیر]] کو ثابت کرنے کی خاطر ۱۱ جلدوں پر مشتمل کتاب ''[[الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب]]'' کی تألیف کی ہے۔
[[عبدالحسین امینی|علامہ امینی]] نے اس خطبے کے سلسلہ [[سند]] کو اہل سنت کے منابع سے جمع کیا ہے اور دوسرے دلائل کے ساتھ [[واقعہ غدیر]] کو ثابت کرنے کی خاطر ۱۱ جلدوں پر مشتمل کتاب ''[[الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب]]'' کی تألیف کی ہے۔
سطر 19: سطر 19:
[[روز عرفہ]] کو پیغمبر اکرم(ص) نے حاجیوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہم امور منجملہ مسلمان کی جان و مال کا احترام، امانتداری، [[ربا]] کی [[حرام|حرمت]]، عورتوں کے حقوق اور [[ابلیس|شیطان]] کی اطاعت سے پرہیز وغیرہ پر سیر حاصل بحث فرمائی۔<ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج‌۳، ص۱۵۰-۱۵۲؛ ابن ہشام، ''السیرہ النبویہ''، ج۲، ص۶۰۳۶۰۴.</ref>
[[روز عرفہ]] کو پیغمبر اکرم(ص) نے حاجیوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہم امور منجملہ مسلمان کی جان و مال کا احترام، امانتداری، [[ربا]] کی [[حرام|حرمت]]، عورتوں کے حقوق اور [[ابلیس|شیطان]] کی اطاعت سے پرہیز وغیرہ پر سیر حاصل بحث فرمائی۔<ref> طبری، ''تاریخ الامم و الملوک''، ج‌۳، ص۱۵۰-۱۵۲؛ ابن ہشام، ''السیرہ النبویہ''، ج۲، ص۶۰۳۶۰۴.</ref>


حج کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد تمام مسلمان مکہ سے خارج ہو کر اپنے اپنے سرزمینوں کی طرف روانہ ہوئے لگے۔ حاجیوں کا یہ قافلہ [[18 ذوالحجہ]] کو [[غدیر خم]] نامی جگہے پر پہنچے۔ <ref> یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج۲، ص۱۱۸.</ref> غدیر خم، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہے کا نام ہے جو [[جحفہ|جُحفہ]] سے دو کلومیتر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں سے مختلف راستے جدا ہوتے ہیں۔<ref> یاقوت، ''معجم البلدان''، ج۲، ص۱۰۳.</ref> جب رسول اکرم(ع) کا قافلہ غدیر خم پہنچے تو [[جبرئیل|فرشتہ وحی]] [[سورہ مائدہ]] کی [[آیت]] نمبر 67 <font color=green>{{حدیث|یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیک مِنْ رَبِّک وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُک مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لایهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ}}</font> ے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ اور اسی سورے کی آیت نمبر 3 <font color=green>{{عربی|الْیوْمَ یئِسَ الَّذینَ کفَرُوا مِنْ دینِکمْ فَلاتَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً}}</font> آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ لے کر رسول اکرم (ص) پر نازل ہوا اور آپ(ص) کو [[امام علی(ع)|حضرت علی]](ع) کی [[ولایت]] و [[امامت]] کا اعلان کرنے پر مأمور کیا۔<ref>مفید، ''تفسیر القرآن''، ج۱، ص۱۸۴؛ عیاشی، ''تفسیر عیاشی''، ج۱، ص۳۳۲.</ref> اس موقع پر رسول اکرم(ص) نے آگے جانے والے قافلوں کو رکنے اور پیچھے والے قافلوں کی انتظار کا حکم دیا۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو رسول اکرم(ص) کی امامت میں نماز ظہر ادا کی گئی اس کے بعد اونٹوں کے پالانوں سے آپ کیلئے ایک ممبر تیار کیا گیا جس پر چڑھ کر آپ(ص) نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں عنقریب تمہارے درمیان سے جارہا ہوں لیکن میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں  ان میں سے ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت ہیں۔ اس موقع پر آپ نے لوگوں کے جانوں پر خود ان سے زیادہ آپ کو اختیار ہونے کا اقرار لیا۔<ref>یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج‌۲، ص۱ب۱۲.</ref> اس کے بعد حضرت علی(ع) کو اپنے پاس ممبر پر بلایا اور حضرت علی کا ہاتھ بلند کرکے لوگوں کو دکھا کر فرمایا:'''<font color=blue>{{عربی|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ }}</font>ترجمہ= جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔''' <ref>ابن اثیر، ''أُسدالغابۃ''،ج‌۵، ص۲۵۳؛ کلینی، ''الکافی''، ج۲، ص۲۷.</ref> اس کے بعد حضرت علی(ع) کے دوستوں کے حق میں [[دعا]] اور ان کے دشمنوں کے حق میں بد دعا فرمایا۔<ref> بلاذری،''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹؛ نسائی، ج۵، ص۴۵.</ref> اس وقت [[حسان بن ثابت]] نے آپ(ص) کی اجازت سے اس واقعے کے بارے میں ایک شعر کہا۔<ref>صدوق، ''الامالی''، ص۵۷۵؛ مفید، ''اقسام المولی''، ص۳۵؛ طوسی، ''الاقتصاد''، ص۳۵۱؛ طوسی، ''الرسائل''، ص۱۳۸.</ref> اس کے بعد [[عمر بن خطاب|خلیفہ دثانی]] نے اس مسئلے پر امام علی(ع) کو [[حدیث تہنیت|مبارک باد]] دیا۔<ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref>
حج کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد تمام مسلمان مکہ سے خارج ہو کر اپنے اپنے سرزمینوں کی طرف روانہ ہوئے لگے۔ حاجیوں کا یہ قافلہ [[18 ذوالحجہ]] کو [[غدیر خم]] نامی جگہے پر پہنچے۔ <ref> یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج۲، ص۱۱۸.</ref> غدیر خم، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہے کا نام ہے جو [[جحفہ|جُحفہ]] سے دو کلومیتر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں سے مختلف راستے جدا ہوتے ہیں۔<ref> یاقوت، ''معجم البلدان''، ج۲، ص۱۰۳.</ref> جب رسول اکرم(ع) کا قافلہ غدیر خم پہنچے تو [[جبرئیل|فرشتہ وحی]] [[سورہ مائدہ]] کی [[آیت]] نمبر 67 <font color=green>{{حدیث|یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیک مِنْ رَبِّک وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُک مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لایهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ}}</font> ے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ اور اسی سورے کی آیت نمبر 3 <font color=green>{{حدیث|الْیوْمَ یئِسَ الَّذینَ کفَرُوا مِنْ دینِکمْ فَلاتَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً}}</font> آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ لے کر رسول اکرم (ص) پر نازل ہوا اور آپ(ص) کو [[امام علی(ع)|حضرت علی]](ع) کی [[ولایت]] و [[امامت]] کا اعلان کرنے پر مأمور کیا۔<ref>مفید، ''تفسیر القرآن''، ج۱، ص۱۸۴؛ عیاشی، ''تفسیر عیاشی''، ج۱، ص۳۳۲.</ref> اس موقع پر رسول اکرم(ص) نے آگے جانے والے قافلوں کو رکنے اور پیچھے والے قافلوں کی انتظار کا حکم دیا۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو رسول اکرم(ص) کی امامت میں نماز ظہر ادا کی گئی اس کے بعد اونٹوں کے پالانوں سے آپ کیلئے ایک ممبر تیار کیا گیا جس پر چڑھ کر آپ(ص) نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں عنقریب تمہارے درمیان سے جارہا ہوں لیکن میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں  ان میں سے ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت ہیں۔ اس موقع پر آپ نے لوگوں کے جانوں پر خود ان سے زیادہ آپ کو اختیار ہونے کا اقرار لیا۔<ref>یعقوبی، ''تاریخ الیعقوبی''، ج‌۲، ص۱ب۱۲.</ref> اس کے بعد حضرت علی(ع) کو اپنے پاس ممبر پر بلایا اور حضرت علی کا ہاتھ بلند کرکے لوگوں کو دکھا کر فرمایا:'''<font color=green>{{حدیث|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ }}</font> ترجمہ= جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔''' <ref>ابن اثیر، ''أُسدالغابۃ''،ج‌۵، ص۲۵۳؛ کلینی، ''الکافی''، ج۲، ص۲۷.</ref> اس کے بعد حضرت علی(ع) کے دوستوں کے حق میں [[دعا]] اور ان کے دشمنوں کے حق میں بد دعا فرمایا۔<ref> بلاذری،''انساب الاشراف''، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹؛ نسائی، ج۵، ص۴۵.</ref> اس وقت [[حسان بن ثابت]] نے آپ(ص) کی اجازت سے اس واقعے کے بارے میں ایک شعر کہا۔<ref>صدوق، ''الامالی''، ص۵۷۵؛ مفید، ''اقسام المولی''، ص۳۵؛ طوسی، ''الاقتصاد''، ص۳۵۱؛ طوسی، ''الرسائل''، ص۱۳۸.</ref> اس کے بعد [[عمر بن خطاب|خلیفہ دثانی]] نے اس مسئلے پر امام علی(ع) کو [[حدیث تہنیت|مبارک باد]] دیا۔<ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref>


==خطبہ غدیر کا خلاصہ==
==خطبہ غدیر کا خلاصہ==
سطر 31: سطر 31:
* علی(ع)کی [[ولایت]] کا انکار غیر قابل بخشش گناہ ہے۔  
* علی(ع)کی [[ولایت]] کا انکار غیر قابل بخشش گناہ ہے۔  
* پیغمبر اکرم اور کسی بھی امام کی گفتار میں شک و تردید کرنے والا زمان [[جاہلیت]] کے کافروں کی طرح ہے۔
* پیغمبر اکرم اور کسی بھی امام کی گفتار میں شک و تردید کرنے والا زمان [[جاہلیت]] کے کافروں کی طرح ہے۔
* اس تاریخی جلمے کا بیان:<font color =blue>{{عربی| مَن کُنتَ مَولاهُ فهذا علی مَولاهُ}}</font>
* اس تاریخی جلمے کا بیان:<font color =green>{{حدیث| مَن کُنتَ مَولاهُ فهذا علی مَولاهُ}}</font>
* [[حدیث ثقلین]] کا بیان اور [[قرآن]] و [[اہل بیت]] کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا۔
* [[حدیث ثقلین]] کا بیان اور [[قرآن]] و [[اہل بیت]] کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا۔
* حضرت علی(ع) کی [[وصایت]]، [[خلافت]] اور پیغمبر کی جانشین ہونے کا اعلان
* حضرت علی(ع) کی [[وصایت]]، [[خلافت]] اور پیغمبر کی جانشین ہونے کا اعلان
* حضرت علی(ع) کے دوستوں کے حق میں [[دعا]] اور آپ کے دشمنوں کلئے نفرین : <font color =blue>{{عربی|اَللهمَّ والِ مَن والاهُ و عادِ مَن عاداهُ}}</font>
* حضرت علی(ع) کے دوستوں کے حق میں [[دعا]] اور آپ کے دشمنوں کلئے نفرین : <font color =green>{{حدیث|اَللهمَّ والِ مَن والاهُ و عادِ مَن عاداهُ}}</font>
* جبرئیل اور [[آیت اکمال|اکمال دین]] کا نزول۔  
* جبرئیل اور [[آیت اکمال|اکمال دین]] کا نزول۔  
* حضرت کی امامت کی اہمیت اور لوگوں کا آپ کے ساتھ [[حسد]] کرنا۔
* حضرت کی امامت کی اہمیت اور لوگوں کا آپ کے ساتھ [[حسد]] کرنا۔
سطر 51: سطر 51:


==حدیث غدیر==
==حدیث غدیر==
خطبہ غدیر کا مضمون صدیوں سے کئی صورتوں میں شیعہ سنی حدیثی اور تاریخی منابع میں نقل ہوتے رہے ہیں۔ اور ان تمام میں جو چیز مشترک ہے وہ  [[حضرت علی(ع)]] کی [[ولایت]] اور امامت کا اعلان ہے: <font color=blue>{{عربی|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ}}</font> ترجمہ: جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔ خطبہ غدیر کا یہ حصہ حدیث غدیر کے نام سے مشہور ہے۔
خطبہ غدیر کا مضمون صدیوں سے کئی صورتوں میں شیعہ سنی حدیثی اور تاریخی منابع میں نقل ہوتے رہے ہیں۔ اور ان تمام میں جو چیز مشترک ہے وہ  [[حضرت علی(ع)]] کی [[ولایت]] اور امامت کا اعلان ہے: <font color=green>{{حدیث|مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ}}</font> ترجمہ: جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔ خطبہ غدیر کا یہ حصہ حدیث غدیر کے نام سے مشہور ہے۔


=== اس حدیث کا براہ راست نقل ===
=== اس حدیث کا براہ راست نقل ===
سطر 149: سطر 149:
ب. اولی بالتصرف ہونے اور [[امامت]] و [[خلافت]] کے درمیان ملازمہ برقرار ہو۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج‌۲، ص۲۸۳.</ref>
ب. اولی بالتصرف ہونے اور [[امامت]] و [[خلافت]] کے درمیان ملازمہ برقرار ہو۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج‌۲، ص۲۸۳.</ref>


شیعوں کے مطابق اس حدیث کے متن میں ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے  کہ اس حدیث میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ہے۔ جب اولی بالتصرف ہونا ثابت ہو جائے تو امامت بھی ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ عرب "اولی بالتصرف" کے لفظ کو صرف اس مورد میں استعمال کرتے ہیں جہاں شخص مولی اپنے مولی علیہ کی سرپرستی کرتا ہو اور اس شخص کے احکامات ان کیلئے معتبر اور مورد قبول ہو۔ <ref>شریف مرتضی، الشافی، ج۲ ص۲۷۷</ref> جب اولی بالتصرف ثابت ہو جائے تو مسلمانوں کے زندگی کے تمام امور میں ان کی الویت ثابت ہوتی ہے جس طرح پیغمبر اکرم کو ایسی اولویت حاصل تھی۔ <font color=green>{{عربی|اَلنَّبِیُّ أَوْلی بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ}}</font> ترجمہ:پیغمبر مومنوں کے حوالے سے خود ان سے بھی زیادہ سزاوار ہے۔<ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 16۔</ref>
شیعوں کے مطابق اس حدیث کے متن میں ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے  کہ اس حدیث میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ہے۔ جب اولی بالتصرف ہونا ثابت ہو جائے تو امامت بھی ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ عرب "اولی بالتصرف" کے لفظ کو صرف اس مورد میں استعمال کرتے ہیں جہاں شخص مولی اپنے مولی علیہ کی سرپرستی کرتا ہو اور اس شخص کے احکامات ان کیلئے معتبر اور مورد قبول ہو۔ <ref>شریف مرتضی، الشافی، ج۲ ص۲۷۷</ref> جب اولی بالتصرف ثابت ہو جائے تو مسلمانوں کے زندگی کے تمام امور میں ان کی الویت ثابت ہوتی ہے جس طرح پیغمبر اکرم کو ایسی اولویت حاصل تھی۔ <font color=green>{{حدیث|اَلنَّبِیُّ أَوْلی بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ}}</font> ترجمہ:پیغمبر مومنوں کے حوالے سے خود ان سے بھی زیادہ سزاوار ہے۔<ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 16۔</ref>


اس مطلب کو ثابت کرنے کیلئے شیعہ حضرات اس حدیث کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ لفظ "مولی" جو اس حدیث میں کئی دفعہ استعمال ہوا ہے، لفظ "ولی" سے مشتق ہے جو خدا کے اسماء میں سے ہے۔ <ref>ابن منظور، ج۱۵، ص۴۰۷، مادہ ولی</ref><ref>ازہری، ج۱۵، ص۳۲۴-۳۲۷</ref> یہ لفظ چند معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک استعمال میں "ولی" فعیل کے وزن پر فاعل کے معنی میں آتا ہے۔<ref>فیومی، ج۱- ۲، ص۶۷۲</ref> اور والی، حاکم، سرپرست، مدبّر، امور میں تصرف کرنے والا اور ولی نعمت کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔<ref>ابن فارس، ''معجم مقاییس اللغہ''، ج۶، ص۱۴۱.</ref> اس لفظ کے دیگر استعمالات میں اولی و سزاوارتر، نزدیک، بغیر فاصلہ<ref>طریحی، ج۱، ص۴۶۲؛ بستانی، ص۹۸۵؛ فیروز آبادی، ص۱۲۰۹</ref> اور تبعیت کرنے والا اور دوستدار وغیرہ شامل ہیں <ref>ابن منظور، ج۱۵، ص۴۱۱</ref><ref>ازهری، ج۱۵، ص۳۲۲</ref><ref>طریحی، ج۱، ص۴۶۴- ۴۶۵</ref>
اس مطلب کو ثابت کرنے کیلئے شیعہ حضرات اس حدیث کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ لفظ "مولی" جو اس حدیث میں کئی دفعہ استعمال ہوا ہے، لفظ "ولی" سے مشتق ہے جو خدا کے اسماء میں سے ہے۔ <ref>ابن منظور، ج۱۵، ص۴۰۷، مادہ ولی</ref><ref>ازہری، ج۱۵، ص۳۲۴-۳۲۷</ref> یہ لفظ چند معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک استعمال میں "ولی" فعیل کے وزن پر فاعل کے معنی میں آتا ہے۔<ref>فیومی، ج۱- ۲، ص۶۷۲</ref> اور والی، حاکم، سرپرست، مدبّر، امور میں تصرف کرنے والا اور ولی نعمت کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔<ref>ابن فارس، ''معجم مقاییس اللغہ''، ج۶، ص۱۴۱.</ref> اس لفظ کے دیگر استعمالات میں اولی و سزاوارتر، نزدیک، بغیر فاصلہ<ref>طریحی، ج۱، ص۴۶۲؛ بستانی، ص۹۸۵؛ فیروز آبادی، ص۱۲۰۹</ref> اور تبعیت کرنے والا اور دوستدار وغیرہ شامل ہیں <ref>ابن منظور، ج۱۵، ص۴۱۱</ref><ref>ازهری، ج۱۵، ص۳۲۲</ref><ref>طریحی، ج۱، ص۴۶۴- ۴۶۵</ref>
سطر 159: سطر 159:
*''' جملہ "الست اولی بکم من انفسکم" اور "من کنت مولاه" کا تقارن:'''
*''' جملہ "الست اولی بکم من انفسکم" اور "من کنت مولاه" کا تقارن:'''


اس حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) نے مؤمنین کے جان و مال پر ان سے زیادہ پیغمبر کو الویت ہونے کے بارے میں تصریح فرمایا ہے۔ اس ملطب کی تائید قرآن کی آیت کے ذریعے بھی ہوا ہے۔ جہاں فرماتے ہیں:<font color=green>{{عربی|النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم}}</font> <ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 6</ref> اس آیت میں جس اولویت اور برتری کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد مؤمنین کی زندگی کے امور سے متعلق ہیں یعنی ان کی زندگی کے امور کے بارے میں حکم کرنے کا حق خود ان سے زیادہ پیغمبر کو حاصل ہے۔ جب کسی کو ہمارے بارے میں حکم کرنے کا حق اور الویت حاصل ہے تو ہم پر اس حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے۔<ref>طوسی، التبیان، ج۸، ص۳۱۷</ref> بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں مذکور اولویت مؤمنین کی [[دین]] اور دنیا دونوں سے مربوط امور میں ہے۔<ref>بیضاوی، ج۴، ص۲۲۵</ref><ref>زمخشری، ج۳، ص۵۲۳</ref>کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور کی اصلاح فرماتا ہے۔<ref>زمخشری، ج۳، ص۲۲۵</ref>
اس حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) نے مؤمنین کے جان و مال پر ان سے زیادہ پیغمبر کو الویت ہونے کے بارے میں تصریح فرمایا ہے۔ اس ملطب کی تائید قرآن کی آیت کے ذریعے بھی ہوا ہے۔ جہاں فرماتے ہیں:<font color=green>{{حدیث|النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم}}</font> <ref>سورہ احزاب، آیت نمبر 6</ref> اس آیت میں جس اولویت اور برتری کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد مؤمنین کی زندگی کے امور سے متعلق ہیں یعنی ان کی زندگی کے امور کے بارے میں حکم کرنے کا حق خود ان سے زیادہ پیغمبر کو حاصل ہے۔ جب کسی کو ہمارے بارے میں حکم کرنے کا حق اور الویت حاصل ہے تو ہم پر اس حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے۔<ref>طوسی، التبیان، ج۸، ص۳۱۷</ref> بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں مذکور اولویت مؤمنین کی [[دین]] اور دنیا دونوں سے مربوط امور میں ہے۔<ref>بیضاوی، ج۴، ص۲۲۵</ref><ref>زمخشری، ج۳، ص۵۲۳</ref>کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور کی اصلاح فرماتا ہے۔<ref>زمخشری، ج۳، ص۲۲۵</ref>


پس اس جملے کا حضرت علی(ع) کی ولایت و امامت کے اعلان کے ساتھ مقارن ہونا اس بات کی دلیل ہے ہے حدیث کے دوسرے جملے میں موجود لفظ "مولا" بھی مؤمین کے امور میں خود ان سے زیادہ حضرت علی(ع) کی اولویت کو بیان کرتا ہے۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج۲، ص۲۸۳</ref>
پس اس جملے کا حضرت علی(ع) کی ولایت و امامت کے اعلان کے ساتھ مقارن ہونا اس بات کی دلیل ہے ہے حدیث کے دوسرے جملے میں موجود لفظ "مولا" بھی مؤمین کے امور میں خود ان سے زیادہ حضرت علی(ع) کی اولویت کو بیان کرتا ہے۔ <ref>فخر رازی، ''الاربعین فی اصول الدین''، ج۲، ص۲۸۳</ref>
سطر 180: سطر 180:
اس حدیث کے بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ اس خطبے کے آخر میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] اور [[عمر بن خطاب]] نے [[امام علی(ع)]] کے پاس آکر انہیں [[ولایت]] اور امامت پر فائز ہونے پر مبارک باد دی۔<ref>مناوی، ج۶، ص۲۱۷</ref> عمر بن خطاب نے آپ(ع) سے کہا:
اس حدیث کے بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ اس خطبے کے آخر میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] اور [[عمر بن خطاب]] نے [[امام علی(ع)]] کے پاس آکر انہیں [[ولایت]] اور امامت پر فائز ہونے پر مبارک باد دی۔<ref>مناوی، ج۶، ص۲۱۷</ref> عمر بن خطاب نے آپ(ع) سے کہا:


{{عربی|بَخٍّ بَخٍّ لَکَ یا ابنَ أبی طالب، أصبَحتَ مَولای و مَولی کُلِّ مُسلمٍ}}:‌اے اباالحسن، آپ کو مبارک ہو آپ میرے اور تمام مسلمان مرد اور عورت کے مولا بن گئے ہو۔<ref>ابن حنبل، ''مسند احمد''، ج۴، ص۲۸۱.</ref><ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ج۱، ص۴۶؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref>
{{حدیث|بَخٍّ بَخٍّ لَکَ یا ابنَ أبی طالب، أصبَحتَ مَولای و مَولی کُلِّ مُسلمٍ}}:‌اے اباالحسن، آپ کو مبارک ہو آپ میرے اور تمام مسلمان مرد اور عورت کے مولا بن گئے ہو۔<ref>ابن حنبل، ''مسند احمد''، ج۴، ص۲۸۱.</ref><ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ج۱، ص۴۶؛ ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۴۹.</ref>


[[اصحاب]] کا اس طرح حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا خود ایک واضح نشانی ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان لفظ "مولا" سے [[خلافت]] اور اولی بالتصرف کے معنی سمجھتے تھے۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۷.</ref>
[[اصحاب]] کا اس طرح حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا خود ایک واضح نشانی ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان لفظ "مولا" سے [[خلافت]] اور اولی بالتصرف کے معنی سمجھتے تھے۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۷.</ref>
گمنام صارف