مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 223: سطر 223:


*''آیت تبلیغ کا نزول:'''
*''آیت تبلیغ کا نزول:'''
[[ملف:آیه تبلیغ.jpg|LEFT|تصغیر|سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67۔ (آیت تبلیغ]]
بعض احادیث <ref>قمی، ج۱، ص۱۷۱</ref><ref>طبرسی، ''جوامع الجامع''، ج۱، ص۳۴۳</ref> اور مفسرین کے مطابق <ref>سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref><ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۲</ref> سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر 67،[[حجۃ الوداع]] کے موقع پر [[مکہ]] اور [[مدینہ]] نازل ہوئی۔ جس میں ایک اہم کام کی تبلیغ کی ذمہ داری رسول اکرمؐ کے گردن پر ڈالا گیا جو پیغمبرؐ کی 23 سالہ زندگی میں انجام دینے والی رسالت کے کام کے برابر تھا۔ چنانچہ اگر اس کام کی تبلیغ نہیں کی گئی تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔ البتہ یہ تبلیغ بہت ساری مشکلات اور خطرات سے روبروی ہوں گے لیکن خداوند عالم نے خود پیغمبرؐ کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے۔ اس آیت میں استعمال ہونے والی تاکیدیں اور سفارشیں بھی اس کام کی اہمیت اور مقام و منزلت پر واضح دلیل ہے اور یہ آیت جس امر مہم کی تبلیغ کا حکم دی رہی ہے وہ صرف اور صرف حضرت علیؑ کی امامت اور ولایت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔<ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۱</ref><ref>طبرسی، ''مجمع البیان''، ج۱، ص۳۳۴.</ref> [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]]، [[براء بن عاذب]] و محمد بن علی وغیرہ اسی عقیدے پر قائم تھے۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۱</ref>
بعض احادیث <ref>قمی، ج۱، ص۱۷۱</ref><ref>طبرسی، ''جوامع الجامع''، ج۱، ص۳۴۳</ref> اور مفسرین کے مطابق <ref>سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref><ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۲</ref> سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر 67،[[حجۃ الوداع]] کے موقع پر [[مکہ]] اور [[مدینہ]] نازل ہوئی۔ جس میں ایک اہم کام کی تبلیغ کی ذمہ داری رسول اکرمؐ کے گردن پر ڈالا گیا جو پیغمبرؐ کی 23 سالہ زندگی میں انجام دینے والی رسالت کے کام کے برابر تھا۔ چنانچہ اگر اس کام کی تبلیغ نہیں کی گئی تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔ البتہ یہ تبلیغ بہت ساری مشکلات اور خطرات سے روبروی ہوں گے لیکن خداوند عالم نے خود پیغمبرؐ کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے۔ اس آیت میں استعمال ہونے والی تاکیدیں اور سفارشیں بھی اس کام کی اہمیت اور مقام و منزلت پر واضح دلیل ہے اور یہ آیت جس امر مہم کی تبلیغ کا حکم دی رہی ہے وہ صرف اور صرف حضرت علیؑ کی امامت اور ولایت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔<ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۱</ref><ref>طبرسی، ''مجمع البیان''، ج۱، ص۳۳۴.</ref> [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]]، [[براء بن عاذب]] و محمد بن علی وغیرہ اسی عقیدے پر قائم تھے۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۱</ref>


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,945

ترامیم