مندرجات کا رخ کریں

"صاحب زنج" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>Mudabbirhusainrizvi
سطر 34: سطر 34:
علی بن محمد بن عبدالرحیم قبیلہ عبد القیس سے تھے۔<ref> ابو الفداء، المختصر فی أخبار البشر، مصر، ج۲، ص۴۶؛ ابن‌ خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۳۷۷۔</ref> علی ابن حسین مسعودی کے مطابق شہر ری کے نزدیک ایک گاؤں ورزنین میں پیدا ہوئے۔<ref> مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۱۰۸۔</ref> اسی وجہ سے انہیں ورزنینی بھی کہا جاتا تھا۔<ref> زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹ھ، ج۴، ص۳۲۴۔</ref> ان کی ماں کا نام «قرّۃ» تھا۔<ref> صفدی، الوافی بالوفیات، ۱۴۰۱ھ، ج۲۱، ص۴۰۶۔</ref> بعض کے مطابق صاحب زنج ایرانی تھے اور ان کا نام «یہبود» تھا۔<ref> مقدیش، نزہۃ الأنظار، ۱۹۸۸م، ج۱، ص۲۶۰۔</ref>
علی بن محمد بن عبدالرحیم قبیلہ عبد القیس سے تھے۔<ref> ابو الفداء، المختصر فی أخبار البشر، مصر، ج۲، ص۴۶؛ ابن‌ خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۳۷۷۔</ref> علی ابن حسین مسعودی کے مطابق شہر ری کے نزدیک ایک گاؤں ورزنین میں پیدا ہوئے۔<ref> مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۱۰۸۔</ref> اسی وجہ سے انہیں ورزنینی بھی کہا جاتا تھا۔<ref> زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹ھ، ج۴، ص۳۲۴۔</ref> ان کی ماں کا نام «قرّۃ» تھا۔<ref> صفدی، الوافی بالوفیات، ۱۴۰۱ھ، ج۲۱، ص۴۰۶۔</ref> بعض کے مطابق صاحب زنج ایرانی تھے اور ان کا نام «یہبود» تھا۔<ref> مقدیش، نزہۃ الأنظار، ۱۹۸۸م، ج۱، ص۲۶۰۔</ref>


علی بن محمد قیام زنگیان کے رہبر و پیشوا تھے۔<ref> روحانی،‌ «نہضت صاحب الزنج»، ص۸۳۔</ref> اسی وجہ سے انہیں «صاحب زنج» بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے باپ نے زید بن علی کے قیام شرکت کی تھی۔<ref> ابن‌ اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ھ، ج۷، ص۲۰۶۔</ref> اور زید کی شہادت کے بعد [[عراق]] سے ہجرت کر کے شہر ری آ گئے۔
علی بن محمد قیام زنگیوں کے رہبر و پیشوا تھے۔<ref> روحانی،‌ «نہضت صاحب الزنج»، ص۸۳۔</ref> اسی وجہ سے انہیں «صاحب زنج» بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے باپ نے زید بن علی کے قیام میں شرکت کی تھی۔<ref> ابن‌ اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ھ، ج۷، ص۲۰۶۔</ref> اور زید کی شہادت کے بعد [[عراق]] سے ہجرت کر کے شہر ری آ گئے تھے۔


[[آٹھویں صدی]] کے مورخ [[ابن‌ طقطقی|ابن‌ طَقطَقی]] کے مطابق صاحب کو مرد فاضل کے عنوان سے پہچنوایا ہے۔<ref> ابن‌الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ھ، ص۲۴۶۔</ref> اس کے بر خلاف [[نویں صدی]] کے مورخ ابن عنبہ کے مطابق صاحب زنج ایک قسی القلب انسان تھا جو بیہودہ کام انجام دیا کرتا تھا۔<ref> ابن‌ عنبہ، عمدۃ الطالب، ۱۴۱۷ھ، ص۲۶۹۔</ref>
[[آٹھویں صدی]] کے مورخ [[ابن‌ طقطقی|ابن‌ طَقطَقی]] کے مطابق صاحب کو مرد فاضل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔<ref> ابن‌الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ھ، ص۲۴۶۔</ref> اس کے بر خلاف [[نویں صدی]] کے مورخ ابن عنبہ کے مطابق صاحب زنج ایک قسی القلب انسان تھا جو بیہودہ کام انجام دیا کرتا تھا۔<ref> ابن‌ عنبہ، عمدۃ الطالب، ۱۴۱۷ھ، ص۲۶۹۔</ref>


بعض صاحب زنج کو شاعر اور ادیب بھی کہتے ہیں<ref> ابن‌ الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ھ، ص۲۴۵-۲۴۶۔</ref> جنہوں نے اپنی تقاریر سے بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔<ref> جعفریان، از طلوع طاہریان تا غروب خوارزمشاہیان، ۱۳۷۹ش، ص۵۹۔</ref> انہوں نے [[بنی عباس|خلیفہ عباسی]] کی تعریف میں بھی اشعار لکھتے تھے۔ ان کے نام سے شاعری کا ایک دیوان بھی تھا جو نویں صدی تک موجود تھا۔ بعض مصنفین کے مطابق وہ [[معجزہ|معجزات]] و [[کرامت|کرامات]] کا بھی دعوی کرتے تھے۔<ref> علی‌ بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاہ خلافت عباسی»، ص۸۵۔</ref>
بعض صاحب زنج کو شاعر اور ادیب بھی کہتے ہیں<ref> ابن‌ الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ھ، ص۲۴۵-۲۴۶۔</ref> جنہوں نے اپنی تقاریر سے بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔<ref> جعفریان، از طلوع طاہریان تا غروب خوارزمشاہیان، ۱۳۷۹ش، ص۵۹۔</ref> انہوں نے [[بنی عباس|خلیفہ عباسی]] کی تعریف میں بھی اشعار لکھے ہیں۔ ان کے نام سے شاعری کا ایک دیوان بھی تھا جو نویں صدی تک موجود تھا۔ بعض مصنفین کے مطابق وہ [[معجزہ|معجزات]] و [[کرامت|کرامات]] کا بھی دعوی کرتے تھے۔<ref> علی‌ بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاہ خلافت عباسی»، ص۸۵۔</ref>


ایک معاصر مصنف، زرین کوب کا خیال ہے کہ صاحب زنج کے بارے میں اکثر خبریں جو نقل ہوئی ہیں وہ مبالغہ سے خالی نہیں ہیں۔<ref> زرین‌ کوب، تاریخ ایران بعد از اسلام، ۱۳۶۸ش، ص۴۷۶۔</ref> بعض مصنفین کے مطابق طبری، ابن اثیر اور مسعودی نے جو بھی ان کے بارے میں نقل کیا ہے وہ دشمنی کی بنا پر ہے۔<ref> علی‌ بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاہ خلافت عباسی»، ص۸۳۔</ref> صاحب زنج کے ہم عصر مورخ، طبری نے صاحب زنج کو «خبیث»<ref> طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۹، ص۴۷۳۔</ref>  اور «فاسق»<ref> طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۹، ص۶۴۲۔</ref> کے القاب سے یاد کیا ہے۔ آٹھویں صدی کے مورخ ذہبی<ref> ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ھ، ج۲۰، ص۳۴۔</ref> اور نویں صدی کے متفکر ابن خلدون<ref> ابن‌ خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۴۰۸۔</ref> نے انہیں «خبیث» نام سے یاد کیا ہے۔ اسی طرح بعض مورخین نے انہیں «لَعَنَہ اللہ؛ خدا اس پر لعنت کرے» سے تعبیر یاد کیا ہے۔<ref> ابن‌ تغری،‌ النجوم الزاہرۃ، ج۳، ص۴۷۔</ref>
ایک معاصر مصنف، زرین کوب کا خیال ہے کہ صاحب زنج کے بارے میں اکثر خبریں جو نقل ہوئی ہیں وہ مبالغہ سے خالی نہیں ہیں۔<ref> زرین‌ کوب، تاریخ ایران بعد از اسلام، ۱۳۶۸ش، ص۴۷۶۔</ref> بعض مصنفین کے مطابق طبری، ابن اثیر اور مسعودی نے جو بھی ان کے بارے میں نقل کیا ہے وہ دشمنی کی بنا پر ہے۔<ref> علی‌ بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاہ خلافت عباسی»، ص۸۳۔</ref> صاحب زنج کے ہم عصر مورخ، طبری نے صاحب زنج کو «خبیث»<ref> طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۹، ص۴۷۳۔</ref>  اور «فاسق»<ref> طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۹، ص۶۴۲۔</ref> کے القاب سے یاد کیا ہے۔ آٹھویں صدی کے مورخ ذہبی<ref> ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ھ، ج۲۰، ص۳۴۔</ref> اور نویں صدی کے متفکر ابن خلدون<ref> ابن‌ خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۴۰۸۔</ref> نے انہیں «خبیث» نام سے یاد کیا ہے۔ اسی طرح بعض مورخین نے انہیں «لَعَنَہ اللہ؛ خدا اس پر لعنت کرے» سے تعبیر یاد کیا ہے۔<ref> ابن‌ تغری،‌ النجوم الزاہرۃ، ج۳، ص۴۷۔</ref>
گمنام صارف