"آیت انفال" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 30: | سطر 30: | ||
|(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ انفال اللہ اور اللہ کے رسول کے لئے ہیں۔ پس اگر تم مؤمن ہو تو اللہ سے ڈرو۔ اور اپنے باہمی تعلقات و معاملات کی اصلاح کرو۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ }} | |(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ انفال اللہ اور اللہ کے رسول کے لئے ہیں۔ پس اگر تم مؤمن ہو تو اللہ سے ڈرو۔ اور اپنے باہمی تعلقات و معاملات کی اصلاح کرو۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ }} | ||
== انفال کے معنی == | == انفال کے معنی == | ||
[[ | شیعہ مفسرین [[علامہ طباطبایی]] اور [[مکارم شیرازی|آیت اللہ مکارم شیرازی]] اس بات کے معتقد ہیں کہ انفال میں وہ تمام اموال شامل ہیں جن کا کوئی خاص مالک نہیں۔ انفال کا اختیار [[خدا]]، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] اور [[ائمہ شیعہ|ائمہ معصومینؑ]] کے پاس ہوتا ہے۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۱۔</ref> اس بنا پر جنگی غنائم انفال کے مصادیق میں سے ایک مصداق شمار ہوتا ہے۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۱۔</ref> | ||
[[ | دسویں صدی ہجری [[صفویہ|سلسلہ صفویہ]] کے شیعہ مفسر [[ملا فتحاللہ کاشانی]] اپنی کتاب [[منہج الصادقین فی الزام المخالفین (کتاب)|تفسیر منہج الصادقین]] میں انفال اور نفل سے مراد [[جنگی غنائم]] لیتے ہیں اور انہیں خدا کی طرف سے مجاہدین کے لئے ہدیہ قرار دیتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ ہدیہ چونکہ فرائض اور [[واجبات]] کے علاوہ ہے اس لئے اسے نفل یا انفال کہا جاتا ہے۔<ref>قمی کاشانی، منہج الصادقین، ۱۳۳۰ش، ج۴، ص۱۶۷۔</ref> | ||
انفال جمع | انفال نفل کا جمع ہے جس کے معنی ہر اضافی چیز کے ہیں؛ اس بنا پر ہر وہ چیز جو اس کے اصل سے زیادہ ہو نفل یا نافلہ کہا جاتا ہے، مثلاً وہ مستحب [[نماز|نمازیں]] جو [[واجب نماز|واجب نمازوں]] سے پہلے یا بعد میں پڑھی جاتی ہیں [[واجب|واجبات]] کے علاوہ ہونے کی وجہ سے [[نافلہ]] کہا جاتا ہے۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۳؛ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۱۔</ref> | ||
== شأن نزول == | == شأن نزول ==<!-- | ||
در تفاسیر | در تفاسیر شیعہ دربارہ اینکہ آیہ انفال در چہ شرایطی نازل شدہ و [[اسباب نزول|شأن نزول]] آن چیست، دو دیدگاہ وجود دارد؛ بیشتر تفاسیرْ شأن نزول آیہ را اختلاف مسلمانان بر سر دستیابی بہ سہم بیشتر دانستہاند و تفاسیر معدودی نیز بہ تمایل عدہای از [[مہاجران]] برای نپرداختن خمس اموال خود اشارہ کردہاند: | ||
* بنابر تفسیر [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|مجمع البیان]] | * بنابر تفسیر [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|مجمع البیان]] نوشتہ [[فضل بن حسن طبرسی]]، [[التبیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|التبیان]]، تألیف [[شیخ طوسی]]، [[منہج الصادقین فی الزام المخالفین (کتاب)|تفسیر منہج الصادقین]]، اثر [[ملافتحاللہ کاشانی]]، و [[تفسیر نمونہ (کتاب)|تفسیر نمونہ]]، نوشتہ [[مکارم شیرازی]]، [[آیہ]] مذکور دربارہ غنائم [[غزوہ بدر|جنگ بدر]] است و پس از آن نازل شد کہ گروہی از مسلمانان [[مہاجرین|مہاجر]] و [[انصار]]، برای دستیابی بہ غنائم دچار اختلاف شدند و ہر کدام در پی گرفتن سہم بیشتری بودند و برای حل مسئلہ نزد پیامبر(ص) رفتند۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۹۶؛ شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۲؛ قمی کاشانی، منہج الصادقین، ۱۳۳۰ش، ج۴، ص۱۶۷؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۰۔</ref> | ||
* بنابر شأن نزولی | * بنابر شأن نزولی کہ تنہا در دو کتاب مجمع البیان طبرسی و التبیان شیخ طوسی آوردہ شدہ، آیہ انفال پس از آن نازل شد کہ عدہای از مہاجران قصد داشتند خمس اموال خود را پرداخت نکنند۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۹۷؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۲۔</ref> | ||
== عدم پذیرش نَسخ با | == عدم پذیرش نَسخ با آیہ خمس == | ||
بر اساس | بر اساس آنچہ [[شیخ طوسی]] در [[التبیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر تبیان]] گزارش کردہ است، پارہای از مفسران [[اہل سنت]] از جملہ [[مجاہد بن جبر]] (۲۱-۱۰۴ق) از شاگردان [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]] در تفسیر قرآن، و ابوعلی جبایی (۲۳۵-۳۰۳ق)، متکلم معتزلی، بر آن بودہاند کہ آیہ اول سورہ انفال، با [[آیہ خمس]] نَسخ شدہ است۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۳-۷۴۔</ref> با این حال دیگر مفسران شیعہ و سنی از پذیرش حکم [[نسخ]] دربارہ آیہ انفال خودداری کردہاند۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۴۔</ref> | ||
شیخ طوسی نسخ | شیخ طوسی نسخ آیہ انفال را نپذیرفتہ است، چرا کہ معتقد است پذیرفتن نسخ نیازمند دلیل است و علاوہ بر آن، میان آیہ انفال و آیہ خمس ہم تنافی و تضادی وجود ندارد کہ لازم باشد دومی را منسوخ بپنداریم۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۴۔</ref> مفسرانی مانند [[فضل بن حسن طبرسی]]، [[ناصر مکارم شیرازی]] و [[سید محمدحسین طباطبائی|سید محمدحسین طباطبایی]] نیز تنافی میان دو آیہ را نپذیرفتہاند۔<ref>طبرسی، مجمعالبیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۹۸؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج۵، ص۷۳-۷۴؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۸۱-۸۲، طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۹-۱۰۔</ref> | ||
[[ | [[علامہ طباطبایی]] معتقد است کہ آیہ ۴۱ سورہ انفال کہ بہ آیہ خمس مشہور شدہ است، تبیین و تفسیر آیہ اول سورہ انفال است؛ چرا کہ در آیہ اول، ابہام دربارہ ملکیت [[انفال]] حل شدہ است: بدین صورت کہ ہیچکس مالک انفال نیست و انفال کہ غنائم جنگی یکی از موارد آن است، متعلق بہ خداوند و رسولش دانستہ شدہ است، اما در آیہ ۴۱، در چہار-پنجم غنائم اجازہ تصرف بہ مسلمانان دادہ شدہ و یکپنجم آن نیز بہ خدا و رسولش اختصاص دادہ شدہ است۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۹-۱۰۔</ref> بہ نظر طباطبایی، با چنین تفسیری ہیچ تضاد و ابہامی دربارہ محتوای این دو آیہ بہ وجود نمیآید تا اعتقاد بہ [[نسخ]] لازم شود۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۹-۱۰۔</ref> | ||
--> | --> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== | ||
{{حوالہ جات2}} | {{حوالہ جات2}} |