مندرجات کا رخ کریں

"برکت" کے نسخوں کے درمیان فرق

15,792 بائٹ کا اضافہ ،  2 دسمبر 2018ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>S.J.Mosavi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2: سطر 2:
'''برکت'''، اللہ کی ابدی نعمتوں اور بڑھتی ہوئی نیکیوں کا نام ہے۔ یہ لفظ [[قرآن مجید]] میں تین مرتبہ ذکر ہوا ہے اور ہر بار [[اللہ تعالی]] سے منسوب ہے نیز برکت ایجاد کرنے کو اللہ تعالی ہی پر منحصر کیا گیا ہے۔
'''برکت'''، اللہ کی ابدی نعمتوں اور بڑھتی ہوئی نیکیوں کا نام ہے۔ یہ لفظ [[قرآن مجید]] میں تین مرتبہ ذکر ہوا ہے اور ہر بار [[اللہ تعالی]] سے منسوب ہے نیز برکت ایجاد کرنے کو اللہ تعالی ہی پر منحصر کیا گیا ہے۔
انسان کے لیے برکت کے باعث ہونے والی خصوصیات میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: [[ایمان]] و [[تقوا]]، [[استغفار]]، [[ذکر]]، اللہ کی اطاعت، [[عدالت]] اور نرم مزاجی جبکہ ان کے مقابلے میں انسان کی بعض عادتیں ایسی بھی ہیں جو انسان کو برکت کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہیں جیسے: [[ارتکاب گناہ]] اور [[امر بالمعروف]] و [[نہی از منکر]] کو ترک کرنا۔
انسان کے لیے برکت کے باعث ہونے والی خصوصیات میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: [[ایمان]] و [[تقوا]]، [[استغفار]]، [[ذکر]]، اللہ کی اطاعت، [[عدالت]] اور نرم مزاجی جبکہ ان کے مقابلے میں انسان کی بعض عادتیں ایسی بھی ہیں جو انسان کو برکت کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہیں جیسے: [[ارتکاب گناہ]] اور [[امر بالمعروف]] و [[نہی از منکر]] کو ترک کرنا۔
قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے بعض کو برکت کی نشانیاں قرار دی گئی ہیں۔ مثلاً بعض انبیاء جیسے [[حضرت نوح]]، [[ایمان|صالح مومنین]]، [[قرآن کریم]]، بعض اوقات جیسے [[شب قدر]]، بعض مکانات، جیسے [[مکہ]]، بعض طبیعی جلوے جیسے بارش۔
قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے بعض کو برکت کی نشانیاں قرار دی گئی ہیں۔ مثلاً بعض انبیاء جیسے [[حضرت نوح]]، [[ایمان|صالح مومنین]]، [[قرآن کریم]]، بعض اوقات جیسے [[شب قدر]]، بعض مکانات، جیسے [[مکہ]] اور فطرت کے بعض جلوے جیسے بارش۔
<!--  
== مفہوم‌شناسی ==
خیر میں اضافہ کے معنی آنے والا برکت،<ref>دہخدا، امثال و حکم، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۱۰۴، ۱۱۴، ۳۵۹.</ref> کا لفظ ایک نسبی لفظ جانا گیا ہے اسی وجہ سے ہر چیز میں خیر اس کی ظرفیت اور کام کے مطابق ہے۔ مثلا نسل میں برکت سے مراد اولاد کی تعداد کا زیادہ ہونا ہے، وقت میں برکت سے مراد انسان کے کام کسی خاص وقت میں پھیل جانے کے معنی میں ہیں۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۷، ص۲۸۰-۲۸۱.</ref>
قرآن مجید میں برکات کی اصطلاح جاوید نعمتیں اور بڑھتی ہوئی نیکیوں کے لیے استعمال ہوئی ہے؛<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۶۹۷.</ref> اسی لیے آسمان کی برکات سے مراد بارش کی فراوانی، زمین کی برکات سے مراد نباتات اور میوہ جات کی فراوانی لیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، ۱۳۸۳ق، ج۴، ص۴۷۷.</ref> قرآن مجید میں تبارک کا لفظ صرف اللہ تعالی کے استعمال ہوا ہے<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۵، ۱۷۳.</ref>جبکہ اس کے مترادف دیگر الفاظ انسان، حادثات اور خاص مقامات کے لیے مشترک استعمال ہوئے ہیں۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۵۱۶، ۵۹۶.</ref>
برکت کا لفظ جمع کی شکل (برکات) میں قرآن مجید میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے<ref>سورہ اعراف، آیہ ۹۶؛ سورہ ہود، آیہ ۴۸ و ۷۳.</ref>جس کو بعض مفسرین اللہ کی فراوان برکت کی نشانی سمجھتے ہیں۔<ref>قدمی، «برکت: پیدایش، پایداری و فزونی خیر در پدیدہ ہا از سوی خداوند» ج۵، ص۴۸۶.</ref> برکت کے مترادف دیگر الفاظ جیسے «بارک»،<ref>سورہ فصلت، آیہ ۱۰.</ref> «بارکنا»،<ref>سورہ اعراف، آیہ ۱۳۷؛ سورہ اسراء، آیہ ۱؛ سورہ انبیا، آیہ ۷۱ و ۸۱؛ سورہ سبا، آیہ ۱۸؛ سورہ صافات، آیہ ۱۱۳.</ref> «بورک»،<ref>سورہ نمل، آیہ ۸.</ref> «مبارک»،<ref>سورہ انعام، آیہ ۹۲ و ۱۵۵؛ سورہ انبیاء، آیہ ۵۰؛ سورہ ص، آیہ ۲۹.</ref> «مبارکا»،<ref>سورہ آل عمران، آیہ ۳؛ سورہ مریم، آیہ ۳۱؛ سورہ مؤمنون، آیہ ۲۹؛ سورہ ق، آیہ ۹.</ref> «مبارکۃ»<ref>سورہ نور، آیہ ۶۱ و ۳۵؛ سورہ دخان، آیہ ۳.</ref> اور «تبارک»<ref>سورہ اعراف، آیہ ۵۴؛ سورہ فرقان، آیہ ۱ و ۱۰ و ۶۱؛ سورہ زخرف، آیہ ۶۵؛ سورہ الرحمن، آیہ ۷۸؛ سورہ ملک، آیہ ۱.</ref> ۳۲ مرتبہ قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔
 
«برک» سے مشتق ہونے والے الفاظ قرآن مجید میں ہمیشہ اللہ تعالی سے مستند ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ برکت ایجاد کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔<ref>قدمی، «برکت: پیدایش، پایداری و فزونی خیر در پدیدہ‌ہا از سوی خداوند» ج۵، ص۴۸۶.</ref> برکت کا لفظ اہل بیتؑ کی روایات میں بھی ذکر ہوا ہے اور اسے [[جنود عقل]] میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۲.</ref>
 
برکت کا مفہوم قرآن مجید اور اسلامی متون کے علاوہ اسلام سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں بھی استعمال ہوا ہے؛ اللہ تعالی کی طرف سے انبیاءؑ کو برکت عطا کرنا، انبیاء اور کاہنوں کی طرف سے دوسروں کو عطا کرنا، انہی موارد میں سے بعض ہیں۔<ref>قدمی، «برکت: پیدایش، پایداری و فزونی خیر در پدیدہ ہا از سوی خداوند» ج۵، ص۴۸۴.</ref> «برک یا برخ» سے مشتق ہونے والے الفاظ اور عبری لفظ «براخاہ» جو کہ برکت کے معنی میں ہے تقریباً 400 مرتبہ [[عہد عتیق]] اور متعدد بار [[عہد جدید]] میں استعمال ہوا ہے۔<ref>کریمی، برکت، ج۱۱، ص۷۴۴.</ref>
 
== عوامل ==
اسلامی تہذیب میں برکت انسان کے کردار، رفتار اور گفتار سے وابستہ ہے؛ اسی لیے قرآن مجید اور معصومینؑ کی روایات میں [[ایمان]]، [[تقوا]]، [[استغفار]]، [[شکر]]، اطاعت، [[ذکر|ذکر خدا]]،<ref>علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۰، ص۳۴۱.</ref> [[عدالت]]،<ref>لیثی واسطی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۱۸۸.</ref> سحرخیزی،<ref>نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خط ۱۲.</ref> نرم‌ مزاجی،<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۱۹.</ref> [[سلام|سلام کرنا]]،<ref>صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۵۸۳.</ref> [[صدقہ|صدقہ دینا]]،<ref>سورہ بقرہ، آیہ ۲۷۶؛ لیثی واسطی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۱۹۵؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۳ق، ج۴، ص۲.</ref> صفائی کا خیال رکھنا،<ref>علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۳، ص۱۱۰.</ref> شادی کے اخراجات کو کم کرنا،<ref>ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ق، ج۶، ص۸۲، ۱۴۵.</ref> [[صلہ رحم]]،<ref>نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ۱۴۱۴ق، ص۱۶۴، خطبہ ۱۱۰؛ کوفی اہوازی، الزہد، ۱۴۰۲ق، ص۳۹.</ref> خرید و فروخت میں سچائی،<ref>ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ق، ج۳، ص۴۰۲.</ref> ہمسایوں کا خیال رکھنا،<ref>علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۱، ص۹۷.</ref> دینی بھائیوں سے مواسات<ref>علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۱، ص۳۹۵.</ref> [[روزہ|روزہ رکھنا]] اور سحری کھانا<ref>ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ق، ج۳، ص۱۲.</ref> برکت نازل ہونے کے علل و عوامل میں سے ذکر ہوئے ہیں۔
 
=== ایمان و تقوا ===
[[سورہ اعراف]] کی آیت 96 میں قرآن مجید نے زمینی اور آسمانی برکات کے نزول کو اہل زمین یا شہر کے اکثر لوگوں کے ایمان اور تقوای سے مشروط کیا ہے؛ لہذا تفاسیر میں جو کچھ اس آیت کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا ایمان اور تقوی، سب پر آسمانی برکات کے نزول کا ضامن نہیں بن سکتا ہے۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص۲۰۱؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۴، ص۳۲۱؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۲۶۶.</ref>
 
=== استغفار ===
[[سورہ ہود]] آیت 52 اور [[سورہ نوح]] آیت 10 سے 13 تک کی آیات میں اللہ تعالی کی برکتوں کا نزول؛ جیسے بارش، کو موانع اور رکاوٹیں دور کرنے پر مبتنی کی ہے اور چونکہ گناہ کو موانع میں سے ایک شمار کیا گیا ہے اسی لیے بندوں کا استغفار کرنا رحمت الہی کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۴۴۴؛ ج۲۰، ص۴۵.</ref>
 
لہذا قرآن مجید میں اللہ تعالی نے نعمتوں کے حصول کو [[شکر]] سے مشروط کیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کفران نعمت کو عذاب زیادہ ہونے کے عوامل میں سے قرار دیا گیا ہے۔<ref>سورہ ابراہیم، آیہ ۷.</ref> [[امام علیؑ]] نے استغفار کو روزی اور رحمت الہی کے نزول کا دائمی وسیلہ قرار دیا ہے۔<ref>قمی مشہدی، تفسیر کنز الدقائق، ۱۳۶۸ش، ج۱۳، ص۴۵۴.</ref>
 
== موانع ==
اسلامی کلچر اور متون کے مطابق بعض کردار اور گفتار انسان کا اللہ کی برکتوں سے محروم ہونے کے باعث بنتے ہیں؛ [[گناہ|گناہ کا ارتکاب]]، نافرمانی، [[امر بہ معروف]] و [[نہی از منکر]] کا ترک کرنا، اور اللہ کی یاد سے غافل ہونا<ref>علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۳، ص۳۱۴.</ref> ان بعض عوامل میں سے ہیں جنکو قرآن اور روایات میں نزول برکات کے موانع میں سے قرار دیا ہے۔
===گناہ کا ارتکاب اور نافرمانی===
گناہ اور نافرمانی کو انسان کی عمر، مال اور زندگی سے برکت سلب ہونے کے عوامل میں سے قرار دیا گیا ہے؛ سورہ اعراف کی آیت 96 کی تفسیر میں قرآن کریم کے مفسروں نے گناہ کے مرتکب ہونے والے اور پیغمبروںؑ کو جھٹلانے والوں کی عاقبت کو عذابِ الہی کے علاوہ آسمانی اور زمینی برکات کے حصول سے بھی محرم سمجھا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲، ج۴، ص۶۹؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۴، ص۳۲۲.</ref>
وہ امور جو برکات الہی سے محروم کرنے کا سبب بنتے ہیں ان میں: ترک نماز،<ref>ابن طاووس، فلاح السائل، ۱۴۰۶ق، ص۲۲.</ref> کم‌فروشی،<ref>صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۵۸۴.</ref> [[زکات|زکات نہ دینا]]،<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۵۰۵.</ref> [[فضول خرچی]،<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۵۵.</ref> خیانت،<ref>لیثی واسطی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۱۳۴.</ref> [[چوری]]، [[شرب پینا]]، [[فحشا]]<ref>علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۶، ص۱۹، ۲۳.</ref> اور معاملات میں [[جھوٹی قسم]] شامل ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۱۶۲.</ref>
 
===امر بالمعروف اور نہی از منکر ترک کرنا===
امر بالمعروف اور نہی از منکر ترک کرنے کو برکت کے نزول کے لیے مانع قرار دیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی ایک روایت کے مطابق اللہ تعالی کی برکات کا حصول صرف اور صرف امر بالمعروف اور نہی از منکر انجام دینے اور نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے سے میسر ہوتا ہے لیکن اس کو ترک کرنے سے نعمتیں اور نیکیاں ان سے روکی جائیں گی۔<ref>شیخ مفید، المقنعہ، ۱۴۱۳ق، ص۸۰۸.</ref>
 
==مصادیق اور موارد==
قرآن مجید کی بعض آیات کے مطابق اللہ تعالی نے بعض مخلوقات کو برکت کی نشانی قرار دیا ہے، جیسے بعض انبیاء، مخلص مومنین، قرآن مجید، بعض اوقات، بعض مقامات اور فطری کچھ جلوے۔ ان میں سے قرآن مجید بابرکت ہونے کی دلیل<ref>سورہ انعام، آیہ ۹۲ و ۱۵۵؛ سورہ انبیاء، آیہ ۵۰؛ سورہ ص، آیہ ۲۹.</ref> اس کا ہادی ہونا ہے۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۷، ص۳۸۷.</ref>
 
انبیاء اور دوسرے لوگوں میں سے جن کو قرآن مجید میں بابرکت کہا گیا ہے ان میں [[کشتی نوح|کشتی]] نوح میں حضرت [[نوحؑ]] اور ان کے ساتھی،<ref>دیکھئے: طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ۲۵۵؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، ۱۴۱۸ق، ج۳، ص۱۳۷.</ref> حضرت [[ابراہیم]] اور ان کے بیٹے، حضرت [[اسماعیل (پیامبر)|اسماعیل]] اور حضرت [[اسحاق (پیامبر)|اسحاق]]،<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۷۰۹؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۵، ص۱۱۳؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، ۱۴۱۸ق، ج۵، ص۱۶؛ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۳۲۵.</ref> حضرت [[موسیؑ]]،<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ۳۳۰؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۹، ص۸۲.</ref> حضرت [[عیسیؑ]]،<ref>سورہ مریم، آیہ ۳۱؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۶، ص۶۶؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۱، ص۵۳۵؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۰، ص۷۰.</ref> [[پیغمبر اکرمؐ]]،<ref>سورہ کوثر، آیہ ۱؛ شیخ طوسی، التبیان، ۱۳۸۵ق، ج۱۰، ۴۱۷؛ ابن عربی، تفسیر القرآن الکریم، ۱۹۷۸م، ج۲، ص۴۶۰.</ref> [[مؤمنین]] اور صالحین.<ref>سورہ بقرہ، آیہ ۲۶۹؛ سورہ ہود، آیہ ۴۸.</ref>
 
اسی طرح بعض مقامات اور جگہے  جیسے [[مکہ]]،<ref>سورہ آل عمران، آیہ ۹۶؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۸۷؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۱۴.</ref> [[شام]]،<ref>سورہ اعراف، آیہ ۱۳۷؛ سورہ انبیا، آیہ ۷۱ و ۸۱؛ سورہ سبا، آیہ ۱۸؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۴، ص۳۴۸؛ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص۲۲۸؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۲، ۱۴۹؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۷، ص۲۷۲؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۲، ص۱۹۰-۲۰۱؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۲۵.</ref> [[بیت المقدس]]<ref>سورہ اسراء، آیہ ۱.</ref> اور [[طور سیناء|وادی طور]]<ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۴، ص۵۹۳.</ref>، مبارک اور بابرکت شمار ہوتی ہیں۔
 
اوقات میں سے [[شب قدر]]، ان اوقات میں سے ایک ہے جو [[استجابت دعا]]، [[گناہوں کی مغفرت]] اور اس میں [[قرآن|نزول قرآن]] ہونے کی وجہ سے<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۹، ص۹۳.</ref> مبارک اور بابرکت کہا گیا ہے۔<ref>سورہ دخان، آیہ ۳.</ref> اسی طرح بعض فطری حوادث اور جلوے بھی بابرکت شمار ہوئے ہیں جیسے قرآن مجید میں بارش کو «مبارک پانی» قرار دیا گیا ہے۔<ref>سورہ ق، آیہ ۹.</ref>
==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات2}}


== منابع ==
== مآخذ==
* ابن حنبل، احمد، مسند، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۶ھ۔
* ابن حنبل، احمد، مسند، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۶ھ۔
* ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، قم، بوستان کتاب، ۱۴۰۶ھ۔
* ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، قم، بوستان کتاب، ۱۴۰۶ھ۔
سطر 29: سطر 65:
* لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، قم، دار الحدیث، ۱۳۷۶شمسی ہجری۔
* لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، قم، دار الحدیث، ۱۳۷۶شمسی ہجری۔
* مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۱شمسی ہجری۔
* مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۱شمسی ہجری۔
-->
{{قرآنی اصطلاحات}}
{{قرآنی اصطلاحات}}


[[fa:برکت]]
[[fa:برکت]]
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,945

ترامیم