مندرجات کا رخ کریں

"صارف:Hakimi/تختہ مشق" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 22: سطر 22:
میسور کے آس پاس نواب محمد علی کی حکومت بھی تھی جسے نواب کرناٹک اور بھی کہتے ہیں۔ سترہویں صدی عیسوی میں مغلوں نے اس علاقے کو فتح کر کے اس کا نام کرناٹک رکھا جو اس زمانے میں سرا کے مقابلے میں ایک پورا صوبہ تھا۔ سنہ 1711ء تک سرا اور ارکاٹ کا ایک ہی گورنر ہوا کرتا تھا لیکن اس کے دونوں کے الگ الگ گورنر مقرر ہوئے۔ لیکن سعادت اللہ خان نے دکن کے نظام الملک کی مدد سے دوبارہ سرا کی گورنری پر بھی قبضہ کرلیا۔ سنہ 1743ء میں انوار الدین نے ارکاٹ سلطنت پر قبضہ کیا لیکن سنہ 1749ء میں وہ مارا گیا اور اس کا بیٹا محمد علی حکومت کا دعویدار نکلا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد کی امید سے ایک بڑا علاقہ محمد علی نے انگریزوں کے قبضے میں دیدیا اور یوں یہ نواب بھی ہمیشہ کے لئے انگریزوں کا حلیف بن گیا اور سلطنت خداداد کے خلاف انگریزوں کی جنگوں میں بالواسطہ شریک رہا۔
میسور کے آس پاس نواب محمد علی کی حکومت بھی تھی جسے نواب کرناٹک اور بھی کہتے ہیں۔ سترہویں صدی عیسوی میں مغلوں نے اس علاقے کو فتح کر کے اس کا نام کرناٹک رکھا جو اس زمانے میں سرا کے مقابلے میں ایک پورا صوبہ تھا۔ سنہ 1711ء تک سرا اور ارکاٹ کا ایک ہی گورنر ہوا کرتا تھا لیکن اس کے دونوں کے الگ الگ گورنر مقرر ہوئے۔ لیکن سعادت اللہ خان نے دکن کے نظام الملک کی مدد سے دوبارہ سرا کی گورنری پر بھی قبضہ کرلیا۔ سنہ 1743ء میں انوار الدین نے ارکاٹ سلطنت پر قبضہ کیا لیکن سنہ 1749ء میں وہ مارا گیا اور اس کا بیٹا محمد علی حکومت کا دعویدار نکلا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد کی امید سے ایک بڑا علاقہ محمد علی نے انگریزوں کے قبضے میں دیدیا اور یوں یہ نواب بھی ہمیشہ کے لئے انگریزوں کا حلیف بن گیا اور سلطنت خداداد کے خلاف انگریزوں کی جنگوں میں بالواسطہ شریک رہا۔
میسور کی وجہ تسمیہ
==میسور کی وجہ تسمیہ==
میسور کا پرانا نام مہیش کنورو بتایا جاتا ہے جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور مہیش کے معنی بھینس اور کنورو کے معنی شہر کے ہیں۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہاں پہلے کثرت سے بھینسیں پائی جاتی تھیں اس وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے اور پھر بگڑ کر میسور بن گیا ہے۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص72۔</ref> اس وقت میسور ہندوستان میں صوبہ نہیں بلکہ ایک شہر اور ضلع کا نام ہے<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص72۔</ref>  شہر میسور میں تقریبا ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص72۔</ref>
==میسور میں اسلام==
میسور میں عرب تاجروں کے ذریعے اسلام پہنچاپہلی صدی ہجری میں ہی حجاز و یمن سے تجارتی قافلے پہنچے جن کا سلسلہ اسلام سے پہلے بھی تھا۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص75۔</ref> یہاں پر وجے نگر کی ہندو سلطنت تھی اور اس کے قریب میں مسلم ریاستوں میں سب سے مضبوط بیجاپور کی عادل شاہی حکومت تھی۔ وجے نگر کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ متعصب اور ظالم حکمران تھا جس نے مسلمانوں پر بڑا ظلم کیا جس کی وجہ سے مسلم سلاطین سمجھ گئے کہ یہ شکست اور فتح کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے وجود و عدم کا مسئلہ ہے سب متحد ہوئے اور سنہ 1565ء میں وجے نگر کی حکومت کو شکست دی<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص76-83۔</ref> سنہ 1687 میں جب مغل حکمران اورنگزیب کا یہاں قبضہ ہوا تو  میسور بھی اس کے قبضے میں آگی<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص84۔</ref>ا
میسور میں اسلام
==سلطنت خداداد کے قیام کے وقت میسور کے حالات==
سنہ 1761ء میں جب نواب حیدرعلی خان نے حکومت سنبھالی تو اس وقت میسور کی حکومت 33 گاوں پر مشتمل سلطنت مغلیہ کی باج گذار تھی، ایک مخصوص طبقہ خوشحال تھا، غلامی کا رواج تھا، ہندو عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی، مندروں میں انسانی بھینٹ چڑھائی جاتی تھیں، عورتیں نیم عریان ہوکر بازاروں میں گھومتی تھیں،ایک ہندو عورت کے چار شوہر ہوتے تھے، منشیات عام تھا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی توحید خالص سے دور خرافات اور بدعتوں کے مرتکب تھے اور کسی اجنبی کے لئے ہندو اور مسلمان میں تفریق دشوار تھا۔<ref>ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، ص84-85۔</ref>
میسور کی تاریخی حیثیت
سلطنت خداداد کے قیام کے وقت میسور کے حالات


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات2}}
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,688

ترامیم