مندرجات کا رخ کریں

"قیام زید بن علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
===قیام کے رہبر===
===قیام کے رہبر===
{{اصلی|زید بن علی}}
{{اصلی|زید بن علی}}
زید [[شیعوں کے چوتھے امام]] کے فرزند ہیں۔ زید کی والدہ [[ام ولد]] تھیں کہ جنہیں [[مختار ثقفی]] نے ۳۰ ہزار درہم میں خریدا اور امام سجادؑ کو ہدیہ کر دیا تھا۔ <ref>ملاحظہ کیجئے: ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۲۴۔</ref> زید کی تاریخ ولادت درست طور پر مشخص نہیں ہے البتہ ان کی شہادت ۱۲۰ <ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۴۔</ref> ۱۲۱ یا ۱۲۲ھ میں نقل کی گئی ہے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۰۔</ref>  
زید [[شیعوں کے چوتھے امام]] کے فرزند ہیں۔ زید کی والدہ [[ام ولد]] تھیں کہ جنہیں [[مختار ثقفی]] نے ۳۰ ہزار درہم میں خریدا اور امام سجادؑ کو ہدیہ کر دیا تھا۔<ref>ملاحظہ کیجئے: ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۲۴۔</ref> زید کی تاریخ ولادت درست طور پر مشخص نہیں ہے البتہ ان کی شہادت ۱۲۰<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۴۔</ref> ۱۲۱ یا ۱۲۲ھ میں نقل کی گئی ہے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۰۔</ref>  
زیدی، زید بن علی کو اپنا پانچواں امام مانتے ہیں اور [[زیدی| زیدی فرقہ]] انہی سے منسوب ہے۔ <ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۴۸۔</ref> زید کو اس اعتبار سے امام مانا گیا ہے کہ [[امام حسینؑ]] کی شہادت کے بعد کچھ [[علویوں]] نے [[امامت]] کی ایک شرط مسلح جدوجہد کو قرار دیا۔ <ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ۱۴۱۱ق، ص۴۸ـ۵۲؛ خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵۔</ref> اور زید کی [[شہادت]] کے بعد جو شیعہ [[قیام بالسیف]] اور ظالم حکمران کے خلاف خروج کا عقیدہ رکھتے تھے، انہوں نے انہیں اپنا امام کہا اور وہ زیدی کے نام سے مشہور ہو گئے۔<ref>ملاحظہ کیجئے: خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵</ref>
زیدی، زید بن علی کو اپنا پانچواں امام مانتے ہیں اور [[زیدی| زیدی فرقہ]] انہی سے منسوب ہے۔<ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۴۸۔</ref> زید کو اس اعتبار سے امام مانا گیا ہے کہ [[امام حسینؑ]] کی شہادت کے بعد کچھ [[علویوں]] نے [[امامت]] کی ایک شرط مسلح جدوجہد کو قرار دیا۔<ref>صبحی، فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ج۳، ۱۴۱۱ق، ص۴۸ـ۵۲؛ خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵۔</ref> اور زید کی [[شہادت]] کے بعد جو شیعہ [[قیام بالسیف]] اور ظالم حکمران کے خلاف خروج کا عقیدہ رکھتے تھے، انہوں نے انہیں اپنا امام کہا اور وہ زیدی کے نام سے مشہور ہو گئے۔<ref>ملاحظہ کیجئے: خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵</ref>
===قیام کا آغاز اور اس کے وقت میں تبدیلی===
===قیام کا آغاز اور اس کے وقت میں تبدیلی===
تاریخ طبری کے مطابق سنہ ۱۲۲ھ کے ماہ صفر کی پہلی بدھ کو زید نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قیام کا آغاز کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱۔</ref> مگر قیام اپنے مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ وہ منگل کی شام کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہر سے خارج ہوئے اور جنگ کیلئے تیار ہو گئے<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱-۱۸۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref> جب عراق کے گورنر یوسف بن عمر کو زید اور ان کے دو ساتھیوں کی آمد و رفت کی اطلاع ملی<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> تو اس نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا لیکن اس کے باوجود سپاہی زید کا سراغ نہ لگا سکے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> مگر زید اور ان کے ساتھی جلد ہی لڑائی کیلئے تیار ہو گئے کیونکہ حکام کو زید کے پڑاؤ کی جگہ کا پتہ چل چکا تھا، ان کے دو قریبی ساتھی گرفتار کر لیے گئے تھے اور دشمن کی جانب سے حملے کا احتمال بھی تھا <ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref>  
تاریخ طبری کے مطابق سنہ ۱۲۲ھ کے ماہ صفر کی پہلی بدھ کو زید نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قیام کا آغاز کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱۔</ref> مگر قیام اپنے مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ وہ منگل کی شام کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہر سے خارج ہوئے اور جنگ کیلئے تیار ہو گئے<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱-۱۸۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref> جب عراق کے گورنر یوسف بن عمر کو زید اور ان کے دو ساتھیوں کی آمد و رفت کی اطلاع ملی<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> تو اس نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا لیکن اس کے باوجود سپاہی زید کا سراغ نہ لگا سکے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰۔</ref> مگر زید اور ان کے ساتھی جلد ہی لڑائی کیلئے تیار ہو گئے کیونکہ حکام کو زید کے پڑاؤ کی جگہ کا پتہ چل چکا تھا، ان کے دو قریبی ساتھی گرفتار کر لیے گئے تھے اور دشمن کی جانب سے حملے کا احتمال بھی تھا<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۰؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۲۔</ref>  
===بیعت کنندگان کی عدم حمایت===
===بیعت کنندگان کی عدم حمایت===
جب زید بن علی شام سے کوفہ واپس پہنچے تو لوگوں نے استقبال کیا اور لوگوں نے اپنی بہت سی درخواستوں میں قیام کا مطالبہ کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۲-۱۶۶۔</ref> اور [[شیخ مفید]] کی نقل کے مطابق ان کی ملاقات کو جانے والے لوگوں نے ان کی بیعت بھی کی<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔</ref> مگر [[زید بن علی]] کے خروج اور قیام کے آغاز سے ایک دن قبل عراق کے گورنر نے کوفہ کے والی کو حکم دیا کہ اہل کوفہ مسجد میں جمع ہوں۔ والی نے قبائل کے سرداروں اور قوم کی بڑی شخصیات کو مسجد میں اکٹھا کرنے کے بعد شہر میں اعلان کرا دیا کہ جو مسجد میں نہیں آئے گا اس کا خون مباح ہو گا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱۔</ref> نتیجہ یہ کہ ان سب میں سے صرف ۳۰۰ افراد اور ایک نقل کے مطابق ان سے بھی کم لوگوں نے زید بن علی کا ساتھ دیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۷۷م، ج۳، ص۲۴۴۔</ref> منابع میں منقول ہے کہ وہ رات زید بن علی اور ان کے ساتھیوں نے صحرا میں بسر کی اور وہ [[یا منصور امت|یا منصور اَمِت]] کا نعرہ لگا رہے تھے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۲۔</ref>
جب زید بن علی شام سے کوفہ واپس پہنچے تو لوگوں نے استقبال کیا اور لوگوں نے اپنی بہت سی درخواستوں میں قیام کا مطالبہ کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۲-۱۶۶۔</ref> اور [[شیخ مفید]] کی نقل کے مطابق ان کی ملاقات کو جانے والے لوگوں نے ان کی بیعت بھی کی<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔</ref> مگر [[زید بن علی]] کے خروج اور قیام کے آغاز سے ایک دن قبل عراق کے گورنر نے کوفہ کے والی کو حکم دیا کہ اہل کوفہ مسجد میں جمع ہوں۔ والی نے قبائل کے سرداروں اور قوم کی بڑی شخصیات کو مسجد میں اکٹھا کرنے کے بعد شہر میں اعلان کرا دیا کہ جو مسجد میں نہیں آئے گا اس کا خون مباح ہو گا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۱۔</ref> نتیجہ یہ کہ ان سب میں سے صرف ۳۰۰ افراد اور ایک نقل کے مطابق ان سے بھی کم لوگوں نے زید بن علی کا ساتھ دیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۷۷م، ج۳، ص۲۴۴۔</ref> منابع میں منقول ہے کہ وہ رات زید بن علی اور ان کے ساتھیوں نے صحرا میں بسر کی اور وہ [[یا منصور امت|یا منصور اَمِت]] کا نعرہ لگا رہے تھے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۲۔</ref>
سطر 17: سطر 17:
===پہلا دن: کامیابی===
===پہلا دن: کامیابی===
زید بن علی اور والی کوفہ کی فوج کے درمیان لڑائی [[صفر]] ۱۲۲ھ بروز بدھ کی صبح شروع ہوئی۔ زید نے اپنی فوج کو شہر کی طرف پیشقدمی کا حکم دیا اور انہیں جنگ کی ترغیب دلا رہے ھے۔ پہلی مڈ بھیڑ کوفہ کے مضافات میں صیادین (صائدین) کے مقام پر ہوئی اور اس میں زید کے ساتھی کامیاب ہوئے۔ پھر جنگ کوفہ میں منتقل ہو گئی۔<ref>ابن مسکویہ، تجارب الامم، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۴۲-۱۴۴۔</ref> زید نے اپنے ساتھیوں کی قلت کو دیکھتے ہوئے ان کے سامنے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ کوفی انہیں بھی امام حسینؑ کی طرح تنہا چھوڑ دیں گے لیکن نصر بن خزیمہ نے زید بن علی کے ہمرکاب جانفشانی سے لڑنے کا عزم ظاہر کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۴۔</ref>
زید بن علی اور والی کوفہ کی فوج کے درمیان لڑائی [[صفر]] ۱۲۲ھ بروز بدھ کی صبح شروع ہوئی۔ زید نے اپنی فوج کو شہر کی طرف پیشقدمی کا حکم دیا اور انہیں جنگ کی ترغیب دلا رہے ھے۔ پہلی مڈ بھیڑ کوفہ کے مضافات میں صیادین (صائدین) کے مقام پر ہوئی اور اس میں زید کے ساتھی کامیاب ہوئے۔ پھر جنگ کوفہ میں منتقل ہو گئی۔<ref>ابن مسکویہ، تجارب الامم، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۴۲-۱۴۴۔</ref> زید نے اپنے ساتھیوں کی قلت کو دیکھتے ہوئے ان کے سامنے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ کوفی انہیں بھی امام حسینؑ کی طرح تنہا چھوڑ دیں گے لیکن نصر بن خزیمہ نے زید بن علی کے ہمرکاب جانفشانی سے لڑنے کا عزم ظاہر کیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۴۔</ref>
زید بن علی نے نصر بن خزیمہ، معاویہ بن اسحاق اور اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مسجد کا رخ کیا تاکہ اسے اموی سپاہیوں کے چنگل سے آزاد کرا سکیں۔ اگرچہ وہ لوگ مسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اپنے جھنڈے اور علم مسجد میں لہرا چکے تھے۔ <ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۴-۱۸۵۔</ref> مگر اموی سپاہیوں نے ان کی پیشقدمی روک دی اور یوسف بن عمر کے تازہ دم لشکر کے پہنچنے سے، مسجد کے اطراف میں ایک شدید جنگ چھڑ گئی۔ آخر کار جنگ اور لڑائی دار الرزق نامی محلے تک پھیل گئی اور اس میں پہلے دن زید اور ان کے ساتھیوں کو کامیابی نصیب ہوئی<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۴۔</ref>
زید بن علی نے نصر بن خزیمہ، معاویہ بن اسحاق اور اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مسجد کا رخ کیا تاکہ اسے اموی سپاہیوں کے چنگل سے آزاد کرا سکیں۔ اگرچہ وہ لوگ مسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اپنے جھنڈے اور علم مسجد میں لہرا چکے تھے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۴-۱۸۵۔</ref> مگر اموی سپاہیوں نے ان کی پیشقدمی روک دی اور یوسف بن عمر کے تازہ دم لشکر کے پہنچنے سے، مسجد کے اطراف میں ایک شدید جنگ چھڑ گئی۔ آخر کار جنگ اور لڑائی دار الرزق نامی محلے تک پھیل گئی اور اس میں پہلے دن زید اور ان کے ساتھیوں کو کامیابی نصیب ہوئی<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۴۔</ref>
===دوسرا دن: شکست===
===دوسرا دن: شکست===
جنگ کے دوسرے دن کے آغاز میں ہی نصر بن خزیمہ نائل بن فروہ کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۴-۱۸۵۔</ref> ان کے قتل کا زید پر بہت اثر ہوا۔ <ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۶۔</ref> اس کے باوجود اس صبح میں زید اور ان کے ساتھیوں کی سخت جنگ کامیابی پر تمام ہوئی۔ <ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۹۶۵م، ج۵، ص۱۳۵۔</ref> یوسف بن عمر نے ایک اور لشکر تیار کیا تاکہ زید کے ساتھیوں پر حملہ کر سکے، مگر زید اور ان کے ساتھیوں نے یوسف بن عمر کی فوج کو تتر بتر کر دیا۔ تاہم یوسف بن عمر کی فوج کیساتھ تیراندازوں کا اضافہ ہونے کیساتھ زید کی فوج کا کام دشوار ہو گیا اور اسی صورتحال میں زید کے ایک اور سپہ سالار معاویہ بن اسحاق بھی قتل ہو گئے۔ اس دن غروب کے وقت زید بھی پیشانی پر تیر لگنے سے شدید زخمی ہو گئے<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۵-۱۸۶۔</ref> اور اس کے بعد تین صفر سنہ ۱۲۲ھ بروز جمعہ کو شہید ہو گئے۔<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۹۔</ref>
جنگ کے دوسرے دن کے آغاز میں ہی نصر بن خزیمہ نائل بن فروہ کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۴-۱۸۵۔</ref> ان کے قتل کا زید پر بہت اثر ہوا۔<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۶۔</ref> اس کے باوجود اس صبح میں زید اور ان کے ساتھیوں کی سخت جنگ کامیابی پر تمام ہوئی۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۹۶۵م، ج۵، ص۱۳۵۔</ref> یوسف بن عمر نے ایک اور لشکر تیار کیا تاکہ زید کے ساتھیوں پر حملہ کر سکے، مگر زید اور ان کے ساتھیوں نے یوسف بن عمر کی فوج کو تتر بتر کر دیا۔ تاہم یوسف بن عمر کی فوج کیساتھ تیراندازوں کا اضافہ ہونے کیساتھ زید کی فوج کا کام دشوار ہو گیا اور اسی صورتحال میں زید کے ایک اور سپہ سالار معاویہ بن اسحاق بھی قتل ہو گئے۔ اس دن غروب کے وقت زید بھی پیشانی پر تیر لگنے سے شدید زخمی ہو گئے<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۵-۱۸۶۔</ref> اور اس کے بعد تین صفر سنہ ۱۲۲ھ بروز جمعہ کو شہید ہو گئے۔<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۳۹۔</ref>


[[ملف:مقبرہ زید بن علی۔jpg|280px|بندانگشتی|چپ|مقبرہ منسوب بہ زید بن علی در کوفہ]]  
[[ملف:مقبرہ زید بن علی۔jpg|280px|بندانگشتی|چپ|مقبرہ منسوب بہ زید بن علی در کوفہ]]  


زید کے ساتھیوں نے حکومتی سپاہیوں کی دسترس سے زید کا بدن دور رکھنے کی غرض سے ایک چشمے کا رخ تبدیل کیا، زید کو دفن کیا اور پھر دوبارہ چشمے کو اپنے مقام پر جاری کر دیا مگر جو غلام ان کے ہمراہ تھا، اس نے [[حکم بن صلت]] کو بتا دیا۔ <ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۶-۱۸۷۔</ref> امویوں نے زید کا بدن نکالا اور یوسف بن عمر کے حکم پر ان کا بدن سولی پر لٹکا دیا اور ان کا سر اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے پاس بھیج دیا۔ <ref>ابن مسکویہ، تجارب الامم، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۴۷۔</ref>
زید کے ساتھیوں نے حکومتی سپاہیوں کی دسترس سے زید کا بدن دور رکھنے کی غرض سے ایک چشمے کا رخ تبدیل کیا، زید کو دفن کیا اور پھر دوبارہ چشمے کو اپنے مقام پر جاری کر دیا مگر جو غلام ان کے ہمراہ تھا، اس نے [[حکم بن صلت]] کو بتا دیا۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۸۶-۱۸۷۔</ref> امویوں نے زید کا بدن نکالا اور یوسف بن عمر کے حکم پر ان کا بدن سولی پر لٹکا دیا اور ان کا سر اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے پاس بھیج دیا۔<ref>ابن مسکویہ، تجارب الامم، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۴۷۔</ref>


===امام صادقؑ کا موقف===
===امام صادقؑ کا موقف===
زید بن علی کا قیام، امام صادق ؑ کی [[امامت]] کے دوران واقع ہوا مگر امام صادق نے اس قیام میں شرکت نہیں کی۔ <ref>خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵۔</ref> زید اور ان کے قیام کے بارے میں مختلف روایات اور آرا موجود ہیں لیکن امام صادقؑ سے ان کے قیام کی بابت کوئی واضح موقف نقل نہیں ہوا ہے۔ کتاب [[کفایۃ الاثر]] کے مصنف نے نقل کیا ہے کہ کچھ شیعوں نے امام صادق کی جانب سے قیام زید کا ساتھ نہ دینے کو زید کی مخالفت کے باب سے قرار دیا ہے، تاہم مذکورہ کتاب کے مصنف کی رائے میں امام صادقؑ کے زید بن علی کے قیام کا ساتھ نہ دینے کا سبب ایک طرح کی حکمت عملی اور تدبیر تھا۔<ref>خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵۔</ref>  
زید بن علی کا قیام، امام صادق ؑ کی [[امامت]] کے دوران واقع ہوا مگر امام صادق نے اس قیام میں شرکت نہیں کی۔<ref>خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵۔</ref> زید اور ان کے قیام کے بارے میں مختلف روایات اور آرا موجود ہیں لیکن امام صادقؑ سے ان کے قیام کی بابت کوئی واضح موقف نقل نہیں ہوا ہے۔ کتاب [[کفایۃ الاثر]] کے مصنف نے نقل کیا ہے کہ کچھ شیعوں نے امام صادق کی جانب سے قیام زید کا ساتھ نہ دینے کو زید کی مخالفت کے باب سے قرار دیا ہے، تاہم مذکورہ کتاب کے مصنف کی رائے میں امام صادقؑ کے زید بن علی کے قیام کا ساتھ نہ دینے کا سبب ایک طرح کی حکمت عملی اور تدبیر تھا۔<ref>خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۵۔</ref>  
کچھ شیعہ علما منجملہ [[شہید اول]]،<ref>شہید اول، القواعد، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۲۰۷۔</ref> [[سید ابوالقاسم خویی|آیت اللہ خوئی]]،<ref>خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۷، ص۳۶۵۔</ref> اور [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]]<ref>مامقانی، تنقیح المقال، ۱۴۳۱ق، ج۹، ص۲۶۱۔</ref> کا خیال ہے ک زید بن علی امام صادقؑ کے اذن کے حامل تھے۔ اسی طرح کچھ محققین نے مذکورہ تین علما کے اقوال کے علاوہ امام رضا سے منقول ایک روایت سے استناد کیا ہے اور قیام زید کو امام صادق کے اذن کا حامل قرار دیا ہے۔ <ref>رضوی اردکانی، شخصیت و قیام زید بن علی، دفتر انتشارات اسلامی، ص۱۲۲-۱۲۳۔</ref> مذکورہ روایت کی بنیاد پر زید بن علی نے امام صادقؑ سے مشورہ کیا اور اور اہل تشیع کے چھٹے امام نے ان سے فرمایا: اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہی شخص ہوں جسے [[کناسہ کوفہ]] میں سولی پر لٹکایا جائے گا، تو اس کا راستہ یہی ہے۔ <ref>شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا علیہ‌السلام، ۱۳۷۸ق، ج‌۱، ص‌۲۔</ref> مگر کچھ دوسرے محققین نے اسی روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ زید اپنے قیام میں سچے تھے اور اگر کامیاب ہو جاتے تو خلافت کو اس کی اہلیت رکھنے والوں کے سپرد کر دیتے مگر امام صادقؑ نے انہیں قیام کرنے سے منع فرمایا تھا۔ <ref>رجبی، [https://www۔mehrnews۔com/news/1695689/ «مواجہہ امام صادقؑ با نہضت ترجمہ/ چرا امام از قیام زید حمایت نکرد»]۔</ref> [[علامہ طہرانی]] نے بھی [[ابان بن عثمان]] کی روایت جو [[مومن طاق]] سے [[کافی]] میں نقل ہوئی ہے <ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۷۴۔</ref> قیام زید کو امام کے اذن سے فاقد قرار دیا ہے۔<ref>تہرانی، امام‌شناسی، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۲۰۴-۲۰۵۔</ref>
کچھ شیعہ علما منجملہ [[شہید اول]]،<ref>شہید اول، القواعد، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۲۰۷۔</ref> [[سید ابوالقاسم خویی|آیت اللہ خوئی]]،<ref>خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۷، ص۳۶۵۔</ref> اور [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]]<ref>مامقانی، تنقیح المقال، ۱۴۳۱ق، ج۹، ص۲۶۱۔</ref> کا خیال ہے ک زید بن علی امام صادقؑ کے اذن کے حامل تھے۔ اسی طرح کچھ محققین نے مذکورہ تین علما کے اقوال کے علاوہ امام رضا سے منقول ایک روایت سے استناد کیا ہے اور قیام زید کو امام صادق کے اذن کا حامل قرار دیا ہے۔<ref>رضوی اردکانی، شخصیت و قیام زید بن علی، دفتر انتشارات اسلامی، ص۱۲۲-۱۲۳۔</ref> مذکورہ روایت کی بنیاد پر زید بن علی نے امام صادقؑ سے مشورہ کیا اور اور اہل تشیع کے چھٹے امام نے ان سے فرمایا: اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہی شخص ہوں جسے [[کناسہ کوفہ]] میں سولی پر لٹکایا جائے گا، تو اس کا راستہ یہی ہے۔<ref>شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا علیہ‌السلام، ۱۳۷۸ق، ج‌۱، ص‌۲۔</ref> مگر کچھ دوسرے محققین نے اسی روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ زید اپنے قیام میں سچے تھے اور اگر کامیاب ہو جاتے تو خلافت کو اس کی اہلیت رکھنے والوں کے سپرد کر دیتے مگر امام صادقؑ نے انہیں قیام کرنے سے منع فرمایا تھا۔<ref>رجبی، [https://www۔mehrnews۔com/news/1695689/ «مواجہہ امام صادقؑ با نہضت ترجمہ/ چرا امام از قیام زید حمایت نکرد»]۔</ref> [[علامہ طہرانی]] نے بھی [[ابان بن عثمان]] کی روایت جو [[مومن طاق]] سے [[کافی]] میں نقل ہوئی ہے<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۷۴۔</ref> قیام زید کو امام کے اذن سے فاقد قرار دیا ہے۔<ref>تہرانی، امام‌شناسی، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۲۰۴-۲۰۵۔</ref>
امام صادقؑ<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۶۴۔</ref> اور اسی طرح امام رضاؑ،<ref>شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا علیہ‌السلام، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۴۹۔</ref> سے منقول بعض روایات کے مطابق کامیابی کی صورت میں زید بن علی کا قصد یہ تھا کہ خلافت، امام صادقؑ کے سپرد کر دیں۔ شیخ مفید کے بقول زید بن علی نے [[الرضا من آل محمد]] کو اپنا شعار قرار دیا تھا اور لوگوں کی سوچ کے برخلاف خلافت کو اپنے لیے نہیں چاہتے تھے بلکہ کامیابی کے بعد اسے اس کی اہلیت رکھنے والوں کے سپرد کر دیتے<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔</ref> [[علامہ مجلسی]] نے اکثر شیعہ علما سے یہی عقیدہ منسوب کیا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ انہیں ان کے کسی دوسرے قول کا سراغ نہیں ملا۔<ref>مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۱۱۸۔</ref> بروایت شیخ مفید جب امام صادقؑ کو شہادت زید کی خبر ملی تو آپ پر بہت اثر ہوا اور حکم دیا کہ کچھ مال ان افراد کے خاندانوں میں تقسیم کر دیں جو قیام زید میں شہید ہوئے تھے۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔</ref>  
امام صادقؑ<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۶۴۔</ref> اور اسی طرح امام رضاؑ،<ref>شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا علیہ‌السلام، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۴۹۔</ref> سے منقول بعض روایات کے مطابق کامیابی کی صورت میں زید بن علی کا قصد یہ تھا کہ خلافت، امام صادقؑ کے سپرد کر دیں۔ شیخ مفید کے بقول زید بن علی نے [[الرضا من آل محمد]] کو اپنا شعار قرار دیا تھا اور لوگوں کی سوچ کے برخلاف خلافت کو اپنے لیے نہیں چاہتے تھے بلکہ کامیابی کے بعد اسے اس کی اہلیت رکھنے والوں کے سپرد کر دیتے<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔</ref> [[علامہ مجلسی]] نے اکثر شیعہ علما سے یہی عقیدہ منسوب کیا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ انہیں ان کے کسی دوسرے قول کا سراغ نہیں ملا۔<ref>مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۱۱۸۔</ref> بروایت شیخ مفید جب امام صادقؑ کو شہادت زید کی خبر ملی تو آپ پر بہت اثر ہوا اور حکم دیا کہ کچھ مال ان افراد کے خاندانوں میں تقسیم کر دیں جو قیام زید میں شہید ہوئے تھے۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔</ref>  
   
   
===قیام کا پس منظر اور ہدف===
===قیام کا پس منظر اور ہدف===
[[شیخ مفید]] نے زید بن علی کے قیام کا اصل ہدف بنو امیہ کی حکومت کے خلاف جدوجہد اور امام حسینؑ کے خون کا بدلہ قرار دیا ہے۔ <ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۲-۱۷۱۔</ref> وہ [[امر بالمعروف اور نہی عن المنکر]] کو بھی زید کے اہداف میں سے قرار دیتے ہوئے تصریح کرتے ہیں کہ اموی خلیفہ [[ہشام بن عبد الملک]] کے ان کیساتھ اہل دربار کی موجودگی میں ناروا سلوک سے بھی ان میں قیام کا جذبہ پیدا ہوا۔ <ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔</ref>{{یادداشت| ان کی نقل کے مطابق زید بن علی شام میں (خلیفہ وقت) ہشام بن عبد الملک کے پاس پہنچے۔ خلیفہ نے اپنے درباریوں سے کہا: یوں سمٹ کر بیٹھو کہ جب زید آئے تو وہ میرے نزدیک بیٹھنے کی جگہ نہ پائے۔ جب زید نے یہ منظر دیکھا تو خلیفہ کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی۔ پھر خلیفہ نے زید پر یہ تہمت لگائی کہ تم خود خلافت کیلئے شائستہ سمجھتے ہو لیکن خلافت کنیز زادہ کو نہیں مل سکتی! زید نے جواب میں خلیفہ کو مخاطب کیا کہ آیا خلافت کا مقام بالاتر ہے یا پیغمبری کا مقام؟ جبکہ حضرت اسماعیل اپنی ماں کے کنیز ہونے کے باوجود پیغمبر بنے؛ پھر انہوں نے والد کی جانب سے اپنے نسب کے امام علیؑ اور [[رسول خداؐ]] تک پہنچنے کا ذکر کیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ اسے باہر نکال دو۔ زید باہر جاتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے: شمشیر سے خائف کوئی بھی گروہ ایسا نہیں ہے جو خوار نہ ہو۔ جب کوفہ پہنچے تو اہل کوفہ ان کے گرد جمع ہو گئے اور جب تک بیعت نہ کر لی ان سے جدا نہیں ہوئے۔ (شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔)}}
[[شیخ مفید]] نے زید بن علی کے قیام کا اصل ہدف بنو امیہ کی حکومت کے خلاف جدوجہد اور امام حسینؑ کے خون کا بدلہ قرار دیا ہے۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۲-۱۷۱۔</ref> وہ [[امر بالمعروف اور نہی عن المنکر]] کو بھی زید کے اہداف میں سے قرار دیتے ہوئے تصریح کرتے ہیں کہ اموی خلیفہ [[ہشام بن عبد الملک]] کے ان کیساتھ اہل دربار کی موجودگی میں ناروا سلوک سے بھی ان میں قیام کا جذبہ پیدا ہوا۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔</ref>{{یادداشت| ان کی نقل کے مطابق زید بن علی شام میں (خلیفہ وقت) ہشام بن عبد الملک کے پاس پہنچے۔ خلیفہ نے اپنے درباریوں سے کہا: یوں سمٹ کر بیٹھو کہ جب زید آئے تو وہ میرے نزدیک بیٹھنے کی جگہ نہ پائے۔ جب زید نے یہ منظر دیکھا تو خلیفہ کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی۔ پھر خلیفہ نے زید پر یہ تہمت لگائی کہ تم خود خلافت کیلئے شائستہ سمجھتے ہو لیکن خلافت کنیز زادہ کو نہیں مل سکتی! زید نے جواب میں خلیفہ کو مخاطب کیا کہ آیا خلافت کا مقام بالاتر ہے یا پیغمبری کا مقام؟ جبکہ حضرت اسماعیل اپنی ماں کے کنیز ہونے کے باوجود پیغمبر بنے؛ پھر انہوں نے والد کی جانب سے اپنے نسب کے امام علیؑ اور [[رسول خداؐ]] تک پہنچنے کا ذکر کیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ اسے باہر نکال دو۔ زید باہر جاتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے: شمشیر سے خائف کوئی بھی گروہ ایسا نہیں ہے جو خوار نہ ہو۔ جب کوفہ پہنچے تو اہل کوفہ ان کے گرد جمع ہو گئے اور جب تک بیعت نہ کر لی ان سے جدا نہیں ہوئے۔ (شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۳۔)}}
اسی طرح بعض محققین نے ہشام بن عبد الملک کے دور میں بالائے منبر [[امام علیؑ پر سب،]] <ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۵۷۔</ref> [[خاندان پیغمبر]] پر امویوں کے ظلم و ستم اور زید بن علی کے نقطہ نظر سے بنو امیہ کے [[کفر]] و الحاد کو قیام زید کے عوامل میں سے شمار کیا ہے۔<ref>کریمان، سیرہ و قیام زید بن علی، ۱۳۶۴ش، ص۲۶۰-۲۶۸۔</ref> محمد بن جریر طبری نے قیام زید میں اختلاف کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے؛<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۰۔</ref> انہوں نے مالی بے ضابطگیوں کے الزامات، [[مدینہ]] میں [[عبد اللہ محض]] کے ساتھ امام علیؑ کے اوقاف پر تنازعہ کہ جو خالد بن عبد الملک کی حکمیت پر منتہی ہوا اور اسی طرح مالی بے ضابطگیوں کے الزامات جو یوسف بن عمر کی حکومت میں زید پر لگائے گئے اور اسی طرح [[اہل کوفہ]] کی دعوت کو زید کے قیام کے عوامل میں سے قرار دیا ہے۔ <ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۰-۱۶۷۔</ref> منابع کے مطابق، زید لوگوں سے جو بیعت لیتے تھے، اس میں ظالموں کے خلاف جدوجہد، کمزوروں کے دفاع، غنائم کی مساویانہ تقسیم، [[رد مظالم]] اور اہل بیت کی ان کے مخالفین کے مقابلے میں نصرت پر زور دیا جاتا تھا۔ <ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۷۷م، ج۳، ص۲۳۷-۲۳۸؛ طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۷۲-۱۷۳۔</ref> مامقانی قیام سے زید کا ہدف بنو امیہ سے خلافت لے کر امام صادقؑ کے سپرد کرنے کو قرار دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ زید اس غرض سے اپنا ہدف آشکار نہیں کرتے تھے تاکہ امام صادقؑ کو نقصان نہ پہنچے۔ <ref>مامقانی، تنقیح المقال، ۱۴۳۱ق، ج۹، ص۲۳۳-۲۳۴۔</ref>
اسی طرح بعض محققین نے ہشام بن عبد الملک کے دور میں بالائے منبر [[امام علیؑ پر سب،]]<ref>ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۵۷۔</ref> [[خاندان پیغمبر]] پر امویوں کے ظلم و ستم اور زید بن علی کے نقطہ نظر سے بنو امیہ کے [[کفر]] و الحاد کو قیام زید کے عوامل میں سے شمار کیا ہے۔<ref>کریمان، سیرہ و قیام زید بن علی، ۱۳۶۴ش، ص۲۶۰-۲۶۸۔</ref> محمد بن جریر طبری نے قیام زید میں اختلاف کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے؛<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۰۔</ref> انہوں نے مالی بے ضابطگیوں کے الزامات، [[مدینہ]] میں [[عبد اللہ محض]] کے ساتھ امام علیؑ کے اوقاف پر تنازعہ کہ جو خالد بن عبد الملک کی حکمیت پر منتہی ہوا اور اسی طرح مالی بے ضابطگیوں کے الزامات جو یوسف بن عمر کی حکومت میں زید پر لگائے گئے اور اسی طرح [[اہل کوفہ]] کی دعوت کو زید کے قیام کے عوامل میں سے قرار دیا ہے۔<ref>طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۶۰-۱۶۷۔</ref> منابع کے مطابق، زید لوگوں سے جو بیعت لیتے تھے، اس میں ظالموں کے خلاف جدوجہد، کمزوروں کے دفاع، غنائم کی مساویانہ تقسیم، [[رد مظالم]] اور اہل بیت کی ان کے مخالفین کے مقابلے میں نصرت پر زور دیا جاتا تھا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۷۷م، ج۳، ص۲۳۷-۲۳۸؛ طبری، تاريخ الأمم و الملوك، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۷۲-۱۷۳۔</ref> مامقانی قیام سے زید کا ہدف بنو امیہ سے خلافت لے کر امام صادقؑ کے سپرد کرنے کو قرار دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ زید اس غرض سے اپنا ہدف آشکار نہیں کرتے تھے تاکہ امام صادقؑ کو نقصان نہ پہنچے۔<ref>مامقانی، تنقیح المقال، ۱۴۳۱ق، ج۹، ص۲۳۳-۲۳۴۔</ref>


===قیام کے نتائج===
===قیام کے نتائج===
گمنام صارف