جماع

ویکی شیعہ سے
(جنسی ملاپ سے رجوع مکرر)

جماع انسان کے کسی دوسرے انسان یا حیوان کے ساتھ ملاپ کو کہتے ہیں۔ اسلامی فقہ میں جماع، مواقعہ، وطی اور دخول جیسے الفاظ کو جنسی ملاپ کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ فقہی مسائل میں جماع کے احکام کے بارے میں بہت سے مطالب پر بحث کی جاتی ہے اور اس سے مراد ایسا جنسی ملاپ ہے کہ جس میں حد اقل مقام ختنہ تک دخول کیا گیا ہو۔ فقہا نے جنسی ملاپ کو تین قسموں حلال جیسے ازدواج، حرام جیسے زنا اور مشتبہ میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے مختلف احکام بیان کیے جاتے ہیں۔ ان کے فتاویٰ کے مطابق جنسی ملاپ خواہ آگے سے ہو یا پیچھے سے، یہ جنابت کا موجب ہے اور اس سے پاکی حاصل کرنے کیلئے غسل جنابت کرنا ضروری ہے۔ باب جماع میں فقہا کا ایک فتویٰ یہ ہے کہ مرد کی مرد سے بدفعلی (لواط) اور عورت کی عورت سے چپٹی (مساحقہ) حرام ہے۔

تعریف

فقہ میں جنسی ملاپ کو جماع، مواقعہ، وطی اور دخول کے عنوان سے ذکر کیا جاتا ہے کہ جس کا معنی ایک انسان کی دوسرے انسان یا حیوان کیساتھ نزدیکی ہے۔[1] جماع کے احکام پر فقہ کے بہت سے ابواب جیسے طہارت، روزہ، اعتکاف، حج، ازدواج، طلاق، ظِہار، ایلاء اور حدود میں بحث کی جاتی ہے۔[2] البتہ یہ احکام اس جماع سے مخصوص ہیں کہ جس میں کم از کم مقام ختنہ گاہ تک دخول کیا گیا ہو۔[3]

جماع کی انواع

جماع فقہی اعتبار سے تین اقسام حلال، مشتبہ اور حرام میں تقسیم ہوتا ہے کہ جن میں سے ہر ایک کے احکام مختلف ہیں۔[4]

حلال جماع

وہ جماع جو شرعی اسباب کی فراہمی کے بعد کیا جائے، حلال جماع ہے۔ حلال جماع کے شرعی اسباب یہ ہیں: دائمی ازدواج، موقت ازدواج، ملکیت (کنیز کا مالک ہونا) اور تحلیل (اپنی کنیز سے جنسی استفادہ دوسرے کیلئے حلال کرنا)[5]

مشتبہ جماع

مرد اور عورت کے اس گمان کہ جماع کے شرعی اسباب فراہم ہو چکے ہیں، سے ملاپ کو مشتبہ ملاپ یا فقہی اصطلاح میں وطی بالشبھہ کہا جاتا ہے؛ مثال کے طور پر جب کوئی شخص غلط فہمی کی بنیاد پر کسی عورت کو اپنی بیوی سمجھ کر اس سے ہمبستری کر لے۔[6] فقہا کے فتویٰ کی رو سے مشتبہ جماع پر حد جاری نہیں ہوتی۔[7] اسی طرح عورت کیلئے ضروری ہے کہ اس کیلئے عدت رکھے[8] اور اسے مَہرالمثل دیا جائے گا۔[9] البتہ صاحب جواہر کے بقول اگر اشتباہ فقط مرد کی طرف سے ہو، یعنی عورت کو معلوم ہو کہ وہ اس کی مَحرم نہیں ہے تو اس کیلئے مہر المثل نہیں ہے۔[10]

حرام جماع

وہ جماع جو شرعی اسباب کی فراہمی کے بغیر اور حالت احتیار میں کیا جائے، اسے حرام جماع کہتے ہیں۔[11] حرام جماع کے کچھ مصداق یہ ہیں: زنا، لواط، مساحقہ، حیوان سے جماع،[12] حیض، نفاس، روزہ اور احرام کی حالت میں جماع۔[13]

جماع کے سبب جنابت

جنابت فقہا کے فتویٰ کی رو سے جماع خواہ آگے سے ہو یا پیچھے سے، جنابت کی موجب ہے۔[14] مرد کا مرد کیساتھ جنسی ملاپ اور اسی طرح حیوان کیساتھ نزدیکی بھی جنابت کی موجب ہے۔[15] جماع اور جنابت کے کچھ احکام ہیں؛ منجملہ قرآن کے خط کو مس کرنے کی حرمت، اسم خدا اور احتیاط واجب کی بنا پر آئمہؑ کے ناموں کو مس کرنے کی حرمت، مساجد میں ٹھہرنے اور واجب سجدوں والی قرآنی سورتیں پڑھنے کی حرمت۔[16] جماع کرنے والا اگر کم سے کم مقام ختنہ تک دخول کرے[17] تو اس پر لازم ہے کہ نماز اور روزے کیلئے غسل جنابت بجا لائے۔[18]

جماع کے بعض احکام

مراجع تقلید کے فتاویٰ کی رو سے جماع کے احکام اس وقت جاری ہوتے ہیں کہ جب ان میں دخول کم از کم ختنہ گاہ کی مقدار تک کیا گیا ہو۔[19] فقہی کتب میں منقول جماع کے بعض احکام یہ ہیں:

  • دائمی ازدواج میں چار ماہ سے زیادہ جماع کو ترک کرنا حرام ہے۔
  • حیوان کیساتھ نزدیکی حرام ہے اور اس پر تعزیر ہے۔
  • ایسی خاتون کیساتھ نزدیکی جو بالغ نہ ہوئی ہو، حرام ہے۔
  • اگر کوئی مرد کسی دوسرے مرد کیساتھ جنسی ملاپ کرے تو یہ حرام ہے۔ اسی طرح ماں، بہن یا بیٹی کیساتھ نکاح حرام ہے۔
  • بیوی کیساتھ دبر میں وطی جائز ہے؛ مگر سخت مکروہ ہے۔
  • سوموار، منگل، جمعرات، جمعہ اور جمعرات کی دوپہر میں جماع کرنا مستحب ہے۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390شمسی، ج1، ص161۔
  2. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390 شمسی، ج1، ص161۔
  3. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392 شمسی، ج1، ص267۔
  4. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390 شمسی، ج1، ص161۔
  5. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390 شمسی، ج1، ص161۔
  6. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390 شمسی، ج1، ص161۔
  7. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج3، ص35۔
  8. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج3، ص35۔
  9. طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، 1409ھ، ج2، ص808۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج32، ص378-379۔
  11. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390 شمسی، ج1، ص162۔
  12. شہید اول، القواعد و الفوائد، 1400ھ، ج1، ص175۔
  13. مؤسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390 شمسی، ج1، ص162۔
  14. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392 شمسی، ج1، ص267۔
  15. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392 شمسی، ج1، ص267و268۔
  16. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392 شمسی، ج1، ص269۔
  17. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392 شمسی، ج1، ص267۔
  18. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392 شمسی، ج1، ص273۔
  19. ملاحظہ کیجئے:بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392 شمسی، ج1، ص267۔

مآخذ

  • بنى‌ ہاشمى خمينى‌، سيد محمد حسين، توضیح‌ المسائل مراجع مطابق با فتاوای شانردہ نفر از مراجع معظم تقلید، قم، ‌دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ہشتم، 1424ھ۔‌
  • شہید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، تحقیق سید عبد الہادی حکیم، قم، کتاب فروشی مفید، چاپ اول، 1400ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیہ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ، شرح سید محمد کلانتر، قم، کتاب‌ فروشی داوری، چاپ اول، 1410ھ۔
  • طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبد الحسین محمد علی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مؤسسہ دائرۃالمعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم ‌السلام، قم، موسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ سوم، 1392شمسی۔
  • نجفى، محمد حسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔