حلق و تقصیر

ویکی شیعہ سے
(تقصیر سے رجوع مکرر)
حجاج حلق یا تقصیر انجام دیتے ہوئے

حَلْق (سر کے بالوں کا تراشنا) اور تقصیر (سر کے بالوں کا چھوٹا کرنا یا ناخن تراشنا) حج اور عمرہ‌ کے واجبات میں سے ہیں۔ مختلف موارد میں ان میں سے ایک انجام دینا واجب ہے۔ حلق اور تقصیر بھی حج اور عمرہ کے دوسرے اعمال کی طرح عبادات میں شمار ہوتی ہیں اس بنا پر قصد قربت کے محتاج ہیں۔

حلق اور تقصیر کے معنی

راغب اصفہانی مفردات میں کہتے ہیں:[1] حلق کے اصل معنی گلہ ہے اور بالوں کو تراشنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں صرف دو مورد میں آیا ہے اور دونوں موارد حج سے مربوط ہے۔پہلا مورد آیہ وَ لاتَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ حَتَّی یبْلُغَ الْہدْی مَحِلَّہ (ترجمہ: اور اس وقت تک سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے)[2]اور دورسا مورد آیہ لَقَدْ صَدَقَ اللَّہ رَسُولَہ الرُّؤْیا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّہ آمِنِینَ مُحَلِّقِینَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِینَ لاتَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِیبًا (ترجمہ: بیشک خدا نے اپنے رسول کو بالکل سچا خوب دکھلایا تھا کہ خدا نے چاہا تو تم لوگ مسجد الحرام میں امن و سکون کے ساتھ سر کے بال منڈا کر اور تھوڑے سے بال کاٹ کر داخل ہوگے اور تمہیں کسی طرح کا خوف نہ ہوگا تو اسے وہ بھی معلوم تھا جو تمہیں نہیں معلوم تھا تو اس نے فتح مکہّ سے پہلے ایک قریبی فتح قرار دے دی [3] تقصیر نیز از مادہ «قصر» بہ معانی کوتاہ کردن و زندانی کردن است.[4]

فقہی اصطلاح میں "حلق" سے مراد حج اور عمرہ کے موقع پر سر کے بالوں کو بلیڈ سے تراشنا جبکہ"«تقصیر" سے مراد سر کے بالوں کو چھوٹا کرنا یا ناخن تراشنا ہے۔

بعض مفسرین نے سورہ حج کی آیت نمبر 29 : ثُمَّ لْیقْضُوا تَفَثَہمْ وَلْیوفُوا نُذُورَہمْ وَلْیطَّوَّفُوا بِالْبَیتِ الْعَتِیقِ (ترجمہ: پھر لوگوں کو چاہئے کہ اپنے بدن کی کثافت کو دور کریں اور اپنی نذروں کو پورا کریں اور اس قدیم ترین مکان کا طواف کریں) میں لفظ "تَفَث" کو حج اور عمرہ میں حلق یا تقصیر کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔[5]

حلق اور تقصیر کے احکام

حلق اور تقصیر کے حوالے سے مختلف موارد میں مختلف احکام بار ہوتے ہیں:

  • عمرہ مفردہ: واجب تخییری، یعنی عمرہ میں حاجی حلق اور تقصیر میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے میں مخیر ہے لیکن حلق کو زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ عمرہ میں حلق یا تقصیر سعی بن صفا و مروہ کے بعد انجام دیا جاتا ہے۔[6] حق یا تقصیر کے بعد تمام محرمات احرام حلال ہو جاتی ہے سوائے "استمتاع" کے جو موقوف ہے "طواف نساء" کے اوپر۔ [7]
  • عمرہ تمتع: بنابر نظر مشہور عمرہ تمتع میں حلق جایز نہیں ہے لہذا "تقصیر" واجب عینی ہے۔[8] عمرہ تمتع میں "تقصیر" کی بعد تمام محرمات احرام حلال ہو جاتی ہے۔[9]
  • حج تمتع: مشہور فقہا کے مطابق "حج تمتع" میں حلق واجب ہے اور "تقصیر" کافی نہیں ہے۔ یہ فتوا اس شخص کیلئے ہے جو پہلی بار حج انجام دے رہا ہو جسے اصطلاح میں "صَرورَہ" کہتے ہیں۔[10] اس کام کو منا میں قربانی کے بعد انجام دیا جاتا ہے اور قول مشہور کی بنا پر عید قربان کے دن انجام دینا ضروری ہے۔[11] اس کے بعد تمام محرمات احرام حلال ہوجاتی ہے سوائے "استمتاع" اور "خوشبو" کے جو "طواف نساء" اور "سعی" پر موقوف ہے.[12]

بعض مراجع تقلید "تقصیر" میں ناخن کاٹنے کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ سر کے بالوں کے ایک حصے کو بھی کاٹنا واجب سمجھتے ہیں۔ [13] "حلق" مردوں سے مختص ہے اور خواتین پر تمام موارد میں صرف "تقصیر" انجام دینا ضروری ہے۔ حج اور عمرہ کے دوسرے اعمال کی طرح "حلق اور تقصیر" بھی عبادات میں سے ہے لہذا نماز کی طرح قصد قربت ضروری ہے۔[14]

احرام کی حالت میں حلق اور تقصیر سے پہلے بدن سے کسی بال کا اکھیڑنا یا اسے تراشنا اسی طرح ناخن کا کاٹنا وغیرہ حرام ہے اور اگر ان میں سے کسی کام کو انجام دیا تو اس پر کفارہ واجب ہوجاتا ہے۔[15]

حلق اور تقصیر کا فلسفہ

سر کے بال انسان کی ظاہری زینت میں شمار ہوتی ہے اور انسان ظاہری زینت سے دلچسپی رکھتا ہے۔ "حج" میں انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح دنیا سے اپنی دلچسپی اور وابستگی جو انسان کے معنوی سیر و سلوک میں مانع بنتی ہیں، کو کم سے کم یا ختم کیا جائے۔ ان دلچسپیوں سے ہاتھ اٹھانے سے انسانی سرشت اور نفس میں رسوخ ہونے والے بری عادات سے ہاتھ اٹھانے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ امام صادقؑ فرماتے ہیں: "وَ احْلِقِ الْعُیوبَ الظاہرة وَ الباطِنَة بِحَلْقِ شَعْرِكَ" (ترجمہ: سر کے بالوں کو تراشنے کے ذریعے اپنی ظاہری اور باطنی تمام بری عادات کو بھی ختم کریں۔)[16]

امام سجادؑ حج کے باطنی آداب کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: "فَعِنْدَ مَا حَلَقْتَ رَأْسَكَ نَوَیتَ أَنَّكَ تَطَہرْتَ مِنَ الْأَدْنَاسِ وَ مِنْ تَبِعَة بَنِی آدَمَ وَ خَرَجْتَ مِنَ الذُّنُوبِ كَمَا وَلَدَتْكَ أُمُّك؟" (ترجمہ: آیا اپنے سر کے بالوں کو تراشتے ہوقت اپنے اندر سے گناہ اور معصیت کی آلودگی کو پاک کرکے جس دن ماں سے متولد ہوا ہے اس دن کی طرح تمام برے اعمال اور معصیتوں سے دور ہونے کا ارادہ کیا ہے یا نہیں؟)[17]

مآخذ

  • مناسک حج مطابق فتاوای امام خمینی و مراجع معظم تقلید، محمدرضا محمودی، مرکز تحقیقات حج بعثہ مقام معظم رہبری، نشر مشعر، چاپ چہارم، ۱۳۸۷ش
  • قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، ناشر‌دار الکتب اسلامی، تہران، ۱۳۷۱ ہجری شمسی۔
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، مؤسسہ آل البیت: لاحیاء التراث، طبعۃ الاولی، قم، ۱۴۰۷ ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، سوم، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ ھ۔
  • نراقی، احمد بن محمد مہدی، مستند الشیعۃ، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، مشہد.
  • نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، انتشارات دایرۃ المعارف فقہ اسلامی.
  • ابن زہرہ حلبی، حمزۃ بن علی، غنیۃ النزوع إلی علمی الأصول و الفروع، مؤسسہ امام صادق(ع)، قم، چاپ اول، ۱۴۱۷ ھ۔
  • القمی، علی بن محمد، جامع الخلاف و الوفاق، انتشارات پاسدار اسلام، قم، ۱۴۲۱ ھ۔
  • محقق سبزواری، ذخیرۃ المعاد فی شرح إرشاد الأذہان، مؤسسۀ آل البیت.
  • بہاء الدین محمد بن الحسن الاصفہانی، الفاضل الہندی، کشف اللثام عن قواعد الاحکام، مؤسسۃ النشر الاسلامی، قم، چاپ اول، ۱۴۲۴ق

حوالہ جات

  1. قاموس قرآن، ج۲، ص۱۶۷
  2. بقرہ-۱۹۶
  3. فتح-۲۷
  4. قاموس قرآن، ج۲، ص: ۱۶۶
  5. غنیۃ النزوع، ص۱۹۲؛ جامع الخلاف و الوفاق، ص۲۱۸-۲۱۹؛ ذخیرۃ المعاد، ج۲، ص۶۸۰-۶۸۱
  6. جواہرالکلام، ج۲۰، ص۴۶۶
  7. جواہر الکلام ج۲۰، ص۴۶۷
  8. جواہرالکلام، ج۲۰، ص۴۵۰
  9. کشف اللثام ج۶، ص۳۰
  10. جواہرالکلام، ج۱۹، ص۲۳۴
  11. جواہر الکلام،ج۱۹، ص۲۳۲-۲۳۳
  12. جواہر الکلام ج۱۹، ص۲۵۱-۲۵۵
  13. مناسک حج (مراجع)، ص۴۶۷، پانویس
  14. مناسک حج، ص۴۶۷، مسئلہ ۱۱۲۷
  15. جواہر الکلام، ج۲۰، ص۴۰۶-۴۱۰
  16. بحارالانوار، چاپ بیروت، ج۹۶، ص۱۲۵
  17. مستدرک الوسائل، چاپ آل البیت، ج۱۰، ص۱۷۱