تفسیر امام حسن عسکری (کتاب)

ویکی شیعہ سے
تفسیر منسوب امام حسن عسکریؑ
مشخصات
مصنفمنسوب بہ امام حسن عسکری
موضوعتفسیر
زبانعربی
تعداد جلد۱ جلد
طباعت اور اشاعت
ناشرعتبۃ العباسیۃ المقدسۃ، کربلا و مؤسسۃ تاریخ العربی، لبنان


تفسیر امام حسن عسکریؑ امامیہ کی روائی تفاسیر میں سے ہے جو تیسری صدی ہجری میں لکھی گئی۔ اس میں بعض آیات کی تاویل بیان ہوئی اور اکثر پیامبر ؐ و ائمہ کے معجزات کی تاویل بیان کی گئی ہے۔ آیات کے اسباب نزول کی طرف کم توجہ کی گئی اگرچہ آیات کے مصادیق بیان ہوئے ہیں۔ صرف، نحو اور بلاغت جیسے ادبیات عرب کے علوم اس میں موجود نہیں ہیں۔ اس کتاب کی سند کے سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھی اور پانچویں صدی کے فقہا و محدثین کے درمیان اس تفسیر سے مطالب نقل کئے جاتے تھے۔ یہ تفسیر سورہ بقرہ کی 282ویں آیت کے آخر تک موجود ہے۔

خصوصیات

  • یہ تفسیر قرآن کے فضائل سے متعلق روایات، تأویل اور آداب قرائت قرآن سے شروع ہوتی ہے نیز فضائل اہل بیت‌‌ؑ[1] اور دشمنان اہل بیتؑ کے معایب[2] پرمشتمل احادیث سے تسلسل جاری ہے۔
  • سیرت نبوی خاص طور پر مناسبات پیامبر اسلامؐ اور یہود سے متعلق متعدد ابحاث مذکور ہیں۔[3] مجموعی طور پر اس تفسیر میں 379 حدیثیں منقول ہوئی ہیں۔ حجم کے لحاظ سے اکثر و بیشتر روایات اس طرح طولانی اور مفصّل ہیں کہ چند صفحات پر مذکور ہیں اسی وجہ سے ان میں بعض مقامات پر یہ روایات حدیثی خد و خال سے باہر نکل گئی ہیں۔ بعض روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
  • یہ تفسیر بعض آیات کی تاویل پر مشتمل ہے اور اکثر معجزات پیامبر ؐ اور ائمہ کے معجزات کی تاویلیں بیان کرتی ہے۔[4] اس تفسیر میں آیات کے اسباب نزول کی طرف کم توجہ کی گئی ہے۔ ادبیات عرب کے علوم کی طرف اس تفسیر میں توجہ نہیں کی گئی۔[5]
  • اکثر آیات کی تفسیر آیت کے مفہوم کی شرح و توضیح سے شروع ہوتی ہے پھر معصومینؑ سے منقول روایات آیات کی تفسیر میں بیان ہوئی ہیں۔ بعض مقامات پر آیت کی تفسیر شان نزول کی روایات سے مخلوط ہیں۔[6] شیعہ،[7] رافضی،[8]، تقیہ،[9] صحابہ کے فضائل اور خبّاب بن ارّت اور عمار بن یاسر،[10] کی مانند کچھ عناوین ہیں جو آیات کی تفسیر کے حاشیے پر ذکر ہوئے ہیں۔ شجرۀ ممنوعہ[11] سے شجرۀ علم محمد ؐ اور اہل بیتؑ [12] کے فرق جیسے تفسیری نکات اس تفسیر کی خصوصیات میں سے ہیں۔

سند کتاب

اس کتاب کی سند کے سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھی اور پانچویں صدی میں قم کے فقہا اور محدثین کے درمیان اس تفسیر سے مطالب نقل کئے جانے کا رواج تھا۔[13] خطیب اور مشہور مفسر جرجانی محمد بن قاسم استر آبادی جو شاید تفسیر تدوین کرنے والا ہو، نے اس تفسیر کے دو راویوں یعنی ابو الحسن علی بن محمد بن سیار (یسار؟) اور ابو یعقوب یوسف بن محمد بن زیاد سے اس تفسیر کے مطالب نقل کئے ہیں۔

تفسیر کے مختصر مقدمے میں ان دونوں سے منقول ہے کہ حسن بن زید کی قدرت کے زمانے میں اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور ہم امام حسن عسکریؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔[14] اس لحاظ سے انکے سامرا میں پہنچنے کی تاریخ 254 کے بعد کی ہونی چاہئے چونکہ یہ سال امام کی امامت کے آغاز کا سال تھا۔

پھر کہتے ہیں کہ اس تفسیر کا متن امام نے ہمیں سات سال میں املا کروایا۔[15] جبکہ 260 قمری امام کی شہادت کا ذکر نہیں آیا ہے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ امام کی شہادت کے بعد یہ دونوں اپنے وطن واپس لوٹ گئے۔

اعتبار کتاب

موافقین

اس تفسیر کے قدیمی ہونے کے باوجود اس کی وثاقت علمائے امامیہ کے درمیان محل اختلاف ہے۔ شیخ صدوق (متوفی 381 ھ) نے اس کتاب سے اکثر مطالب اپنی کتابوں میں نقل کئے ہیں۔ اگرچہ اس کتاب کی وثاقت و عدم وثاقت کے متعلق کوئی بات نہیں کی ہے۔ البتہ شیخ صدوق نے اس تفسیر کا متن کسی واسطے کے بغیر استر آبادی سے ذکر کیا ہے۔ نیز اپنی فتاوا کی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ[16] اس بات کی جانب اشارہ کیا کیا ہے جو کچھ اس نے اس کتاب میں نقل کیا ہے اس کے نزدیک وہ صحیح ہے اور اس میں مذکور روایات معتبر اور مشہور کتب سے حاصل کیا ہے۔

اسی طرح باب تلبیہ میں استر آبادی سے حدیث نقل کی ہے اور آخر میں کہا: باقی کتاب تفسیر میں ذکر کیا ہے۔[17] اس بنا پر اگر شیخ صدوق خود اس تفسیر کو تدوین کرنے والے نہیں تو احتمال ہے کہ وہ اسے تہذیب کرنے والے ہیں۔ اس احتمال کے درست ہونے کی مؤید نجاشی متوفی 450[18] کی یہ بات ہے کہ وہ شیخ صدوق کے آثار میں دو اثر تفسیری: تفسیر القرآن و مختصر تفسیر القرآن ذکر کرتا ہے۔

اس نظریے کا دوسرا شاہد یہ ہے کہ شیخ صدوق اسی روایت کو اسی سند کے ساتھ کتاب التوحید[19] میں ذکر کرتے ہیں۔ نیز روایت کے آخر میں شیخ صدوق کہتے ہیں کہ اس حدیث کا کامل متن اپنی تفسیر میں لے کر آئے ہیں۔ [20]

مخالفین

سب سے پہلے جس شخصیت نے اس کتاب پر تنقید کی وہ احمد بن حسین بن عبیداللّه غضائری ہیں جو ابن غضائری کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔ اس نے الضعفاء میں محمد بن قاسم استر آبادی کو ایک ضعیف اور کذّاب شخص کہا ہے نیز کہا کہ سلسلۂ سند میں دو افراد جو اپنے باپ سے اور وہ امام حسن عسکری سے نقل کرتے ہیں، مجہول ہیں۔

ابن غضائری تفسیر کو موضوع اور جعلی سمجھتے ہیں اس کے وضع کرنے والے کا نام سہل بن احمد بن عبداللّہ دیباجی (متوفی 380 ھ) ذکر کیا ہے۔[21]

اس تفسیر کو معتبر جاننے والوں نے ابن غضائری کی کلام کے رد میں دلائل ذکر کئے ہیں مثلا ابن غضائری کی طرف اس کتاب الضعفاء کی نسبت میں تردید ہے [22] نیز تفسیر کے متن کے مطابق ابن سیار اور ابو یعقوب تفسیر کے متن کو کسی واسطے کے بغیر امام سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح تفسیر میں صراحت موجود ہے کہ ان دونوں کے والد کچھ مدت سامرا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد اپنے شہر واپس لوٹ گئے۔[23] نیز کتاب کی اسناد میں دونوں کے باپ کا تذکرہ نہیں ہے۔[24]

پس اس بنا بعض روایات میں ان دونوں کے باپوں کا تذکرہ کتابت کی غلطی ہے۔[25] لیکن یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ابن سیار اور ابو یعقوب کے باپوں کا نام شیخ صدوق کے اکثر آثار میں اس تفسیر سے نقل کردہ روایات میں آیا ہے۔[26]

سہل بن احمد کے متعلق نجاشی نے کسی قسم کا کوئی عیب و نقص ذکر نہیں کیا۔[27] نیز خطیب بغدادی[28] نے صرف اس کے تشیع ہونے کا ذکر کیا اور شیخ مفید کے اس پر نماز جنازہ ادا کرنے کا ذکر کیا۔ یہ اس کی جلالت پر دلالت کرتا ہے۔

نکتۂ جالب کہ جو توجہ کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ اسی سلسلۂ سند میں ابن غضائری کے باپ کا نام آنا متداول ہے۔[29]

بعض نے کہا ہے کہ اس تفسیر کی روایت میں شیخ صدوق کے طرق متعدد ہیں کیونکہ بعض جگہوں پر وہ اپنی تفسیر میں محمد بن قاسم استر آبادی کے بجائے محمد بن علی استر آبادی کا نام ذکر کرتے ہیں۔[30] البتہ یہ بھی بعید نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں کیونکہ جد کا نام باپ کی جگہ پر استعمال ہونا رائج تھا۔

اسی طرح ذکر ہوا ہے کہ حسن بن خالد برقی نے امام حسن عسکری کی املا کروائی ہوئی 120 اجزاء میں تفسیر لکھی تھی،[31] لیکن دوسری جانب شیخ طوسی (متوفی 460 ھ) [32] حسن بن خالد برقی کو ان افراد میں قرار دیتے ہیں جنہوں نے ائمہ کو درک نہیں کیا تھا اور یہ واسطے کے ساتھ امام سے روایت نقل کرتے تھے۔ محدّث نوری (متوفی 1320 ھ)،[33] ابن شہرآشوب متوفی (588 ھ) سے استناد کرتے ہوئے قطعی طور پر برقی کی تفسیر کو ایک اور طریق کی بنا پر متن تفسیر امام عسکریؑ سمجھتے ہیں ۔لیکن اس قول کے قبول نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس تفسیر کی کوئی روایت ایسی نہیں ہے کہ جس میں برقی کا نام آیا ہو ۔

اسی طرح آقا بزرگ تہرانی[34] نے اشارہ کیا ہے کہ امام عسکری سے ابن شہر آشوب کی مراد امام ہادی علیہ السلام ہیں اور حسن بن خالد کا امام حسن عسکری کے راویوں میں ہونا ناممکن ہے۔[35]

سید عبد العزیز طباطبائی (متوفی قم بہمن 1374 ھ) کے کتابخانے کی خطی نسخوں کی فہرست اور فیلموں میں تفسیر کے عنوان سے تین کتابیں ابو علی حسن بن خالد برقی نام سے ذکر ہیں۔[36] لیکن مقالہ لکھنے والے کے لائبریری میں مراجعہ سے معلوم ہوا کہ وہ یہی تفسیر امام حسن عسکری ہی اور متداول سند والی ہی تفاسیر ہیں اور کم سے کم ان نسخوں میں برقی سے منسوب ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ناقلین کتاب

شیخ صدوق کے بعد ابو منصور احمد بن علی طبرسی نے کتاب احتجاج میں اپنی کتاب کے منابع میں تفسیر امام حسن عسکریؑ کا ذکر کیا ہے لیکن اس کتاب کے غیر مشہور ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کتاب کی سند کو مکمل ذکر کیا ہے۔[37]

سعید بن ہبۃ اللّہ راوندی [38] نے بھی اس تفسیر کا نام لئے بغیر اس سے مطلب نقل کیا ہے۔ ابن شہر آشوب نیز اس تفسیر کا نام لے کر سند کے ذکر کے بغیر مطلب نقل کرتا ہے۔[39]

عبد الجلیل قزوینی نے 560 ھ میں کتاب النقض لکھی۔ اس میں شیعہ مشہور تفاسیر میں تفسیر امام حسن عسکریؑ کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن چونکہ اس سے کوئی مطلب ذکر نہیں کرتا لہذا اس بنا پر حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا اس سے مقصود یہی تفسیر امام حسن عسکری ہے۔[40]

ترجمہ

  • اس تفسیر کا قدیم ترین فارسی ترجمہ آثار الاخیار نام سے ہے جسے ابو الحسن علی بن حسن زواره (متوفی 984) نے کیا جس میں متن بھی اس کے ہمراہ موجود ہے۔[41]
  • قدرت اللّہ حسینی شاہ مرادی نے اس تفسیر کی سورہ فاتحہ بعنوان تفسیر فاتحۃ الکتاب از امام حسن عسکریؑ فارسی میں کیا اور اس کے بارے میں تحقیق (تہران 1404) سے ایک مبسوط مقدمے کے ساتھ چھاپا جس میں اس تفسیر کی وثاقت کو ثابت کیا ہے۔
  • سید شریف حسین بھریلوی (متوفی 1361 ھ) نے اس تفسیر کو اردو زبان میں ترجمہ کیا اور آثار حیدریہ کے نام سے اسے چھپوایا۔[42] اس تفسیر کا عربی متن چند مرتبہ چاپ ہوا[43] یہ کتاب چھ نسخوں کی مطابقت کے ساتھ سید محمد باقر ابطحی نے 1409 میں قم سے چھپوائی۔

حوالہ جات

  1. رجوع کریں: حدیث سدالابواب، ص ۱۷
  2. تفسیر امام عسکریؑ، ص ۴۷.
  3. تفسیر امام عسکریؑ، ص ۱۶۱ـ۱۶۳، ۱۹۰ـ ۱۹۲، ۴۰۶ـ۴۰۷.
  4. رک: ص ۴۲۹ـ۴۴۱، ۴۹۷ـ۵۰۰.
  5. رضوی، ص ۳۱۳.
  6. رضوی، ص ۴۷۷-۴۷۹.
  7. رضوی، ص ۳۰۷-۳۱۰.
  8. رضوی، ص ۳۱۰-۳۱۱.
  9. رضوی، ص ۳۲۰-۳۲۴.
  10. رضوی، ص ۶۲۴-۶۲۵.
  11. بقره، ۳۵.
  12. رضوی، ص ۲۲۱-۲۲۲.
  13. تفسیر امام عسکریؑ، ص ۷ـ ۸.
  14. التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری، ص ۹ـ۱۰؛ قس ابن جوزی، ج ۱۲، ص ۷۴؛ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج ۴، ص ۲۸۶ـ ۲۸۸.
  15. التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری ، ص ۱۲
  16. من لا یحضره الفقیہ،ج ۱، ص ۳،
  17. من لا یحضره الفقیہ، ج ۲، ص ۲۱۱ـ۲۱۲
  18. نجاشی ص ۳۹۱ـ۳۹۲
  19. صدوق ،التوحید ص ۴۷
  20. التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری ، ص ۵۰ ـ۵۲
  21. علامہ حلّی، ص ۲۵۶ـ۲۵۷؛ آقا بزرگ طہرانی، ج ۴، ص ۲۸۸،
  22. آقا بزرگ طہرانی، ج ۴، ص ۲۸۸ـ۲۸۹،
  23. تفسیر امام عسکریؑ ص ۱۲
  24. تفسیر امام عسکریؑ ص ۹
  25. آقا بزرگ طهرانی ، ج ۴، ص ۲۹۲
  26. من لا یحضرہ الفقیہ ۱۳۶۱ ش ، ص ۴، ۲۴، ۳۳
  27. نجاشی ص ۱۸۶
  28. خطیب بغدادی ج ۹، ص ۱۲۲
  29. مجلسی، ج ۱۰۵، ص ۷۸
  30. صدوق، ۱۴۱۷، ص ۲۴۰؛ آقا بزرگ طہرانی ، ج ۴، ص ۲۸۶،
  31. ابن شہر آشوب، معالم العلماء، ص ۳۴
  32. طوسی، ص ۴۶۲
  33. نوری ج ۵، ص ۱۸۸
  34. آقا بزرگ طہرانی ج ۴، ص ۲۸۳ـ ۲۸۵
  35. تستری ، ج ۳، ص ۲۲۸
  36. طیار مراغی، ص ۱۴۳۶، ۱۴۴۰، ۱۴۸۹
  37. طبرسی ج ۱، ص ۶ـ ۸
  38. راوندی ج ۲، ص ۵۱۹ ـ۵۲۱
  39. ابن شہر آشوب ، ج ۱، ص ۹۲
  40. عبد الجلیل قزوینی ص ۲۱۲، ۲۸۵
  41. بکائی ، ج ۱، ص ۲
  42. بکائی ، ج ۱، ص ۳
  43. آقا بزرگ طہرانی، ج ۴، ص ۲۹۲؛ بکائی، ج ۵، ص ۱۹۰۴

منابع

  • صدوق، علی بن محمد بن بابویہ، الامالی ، قم ۱۴۱۷.
  • صدوق، علی بن محمد بن بابویہ، التوحید، چاپ ہاشم حسینی طہرانی، قم، ۱۳۵۷ ش.
  • صدوق، علی بن محمد بن بابویہ، معانی الاخبار ، چاپ علی اکبر غفاری، قم ۱۳۶۱ ش.
  • صدوق، علی بن محمد بن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ ، قم ۱۴۱۳.
  • ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم ، چاپ محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲.
  • ابن شہر آشوب، معالم العلماء ، نجف ۱۳۸۰/ ۱۹۶۱.
  • ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، چاپ ہاشم رسولی محلاتی، قم بی تا.
  • رضا استادی، رسالۃ اخری حول التفسیر المنسوب الی الامام العسکری علیہ السلام در الرسائل الاربعہ عشرة، چاپ رضا استادی، قم: مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۱۵.
  • محمد حسن بکائی، کتابنامہ بزرگ قرآن کریم ،تہران ۱۳۷۴ ش.
  • حسن بن علیؑ، امام یازدہم، التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری، چاپ محمد باقر ابطحی، قم ۱۴۰۹.
  • نگاہی بہ تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری علیہ السلام» ، فصلنامہ پژوہش ہای قرآنی، ش ۵ ـ۶، بہار و تابستان ۱۳۷۵.
  • محمد کاظم بن عبد العظیم طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، بیروت ۱۴۰۹.
  • احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج ، چاپ ابراہیم بہاری و محمد ہادی بہ ، قم ۱۴۱۳.
  • محمد بن حسن طوسی، رجال الطوسی، نجف ۱۳۸۰/۱۹۶۱.
  • محمود طیار مراغی، فہرست نسخہ ہای عکسی و میکرو فیلم ہای کتابخانہ محقق طباطبائی، در المحقق الطباطبائی فی ذکراه السنویہ الاولی، ج ۳، قم: آل البیت، ۱۴۱۷.
  • عبد الجلیل قزوینی، نقض، چاپ جلال الدین محدّث ارموی، تہران ۱۳۵۸ ش.
  • حسن بن یوسف علامہ حلّی، رجال العلامہ الحلّی، چاپ محمد صادق بحر العلوم، نجف ۱۳۸۱/۱۹۶۱، چاپ افست قم ۱۴۰۲.
  • سعید بن ہبۃ اللّہ قطب راوندی، الخرائج و الجرائح ، قم ۱۴۰۹.
  • مجلسی.
  • احمد بن علی نجاشی، فہرست اسماء مصنّفی الشیعہ المشتہر ب رجال النجاشی، چاپ موسوی شبیری زنجانی، قم ۱۴۰۷.
  • حسین بن محمد تقی نوری، خاتمہ مستدرک الوسائل ، قم ۱۴۱۵ـ۱۴۲۰.

بیرونی روابط