تربت

ویکی شیعہ سے
(تربت حسین(ع) سے رجوع مکرر)

تُربَت، [عربی میں: التُّربَةُ] شیعہ اصطلاح میں وہ خاک اور غبار ہے جو امام حسینؑ کی قبر شریف کے اطراف سے اٹھا لی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ حرم امام حسینؑ سے لے کر تقریبا 30 کلومیٹر تک کی زمین تربت سمجھی جاتی ہے لیکن جس قدر کہ حرم کے قریب تر ہو اس کے اثرات اتنے ہی زیادہ ہونگے۔ شیعہ اعتقادات کے مطابق بیماریوں سے صحت یابی، خوف سے چھٹکارا، رزق میں برکت، علم نافع کا حصول، عزت پانا، غربت اور ناداری سے نجات اور ہر قسم کا نیک اور پسندیدہ اثر، تربت کے اثرات میں سے ہیں اور روایات میں تربت پر سجدہ کرنے پر زور دیا گیا ہے اور تربت کا رائج ترین استعمال بھی سجدے کے لئے ہے۔

تربت لغت میں

لغت میں تربت کے معنی "خاک" (= مٹی) کے ہیں۔[1] بعض افراد نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ ہر مقدس قبر ـ جیسے رسول خداؐ اور ائمۂ معصومینؑ، شہداء اور صالحین کی قبروں سے اٹھائی گئی خاک "تربت" کے زمرے میں آتی ہے، تاہم اس کا رائج و مشہور مصداق قبر حسین کی خاک ہے اور یہ اصطلاح اسی خاک پر منحصر ہے؛ اور ائمۂ شیعہ سے مرویہ احادیث میں لفظ "الطین" اور "طین القبر" سے مراد بھی "تربت امام حسین" ہے۔[2]

ابوریحان البیرونی نے امام حسینؑ کی قبر شریف کو "تربت مسعودہ" کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[3] تربت ہمیشہ سے شیعیان اہل بیتؑ کے ہاں محترم اور مقدس اور ان کا پہچان رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔[4]

تربت احادیث کی روشنی میں

ایک حدیث کے مطابق، حضرت عیسیؑ نے حواریون کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی اور آپؑ کی تربت کی عظمت و فضیلت کی طرف اشارہ کیا۔[5] شیعہ اور اہل سنت کے منابع میں منقولہ متعدد احادیث کے مطابق رسول خداؐ شہادت امام حسینؑ سے باخبر تھے اور بعض احادیث میں ہے کہ جبرائیل (یا دوسرا فرشتہ) کربلا کی سرخ مٹی آپؐ کے پاس لایا جو آپؐ کے حزن و غم کا سبب بنی۔ ان احادیث میں ـ بالخصوص مٹی لانے والے فرشتے کے سلسلے میں ـ موجودہ اختلاف کے بموجب، کچھ راویوں کی رائے ہے کہ یہ واقعہ متعدد بار رونما ہوا ہے۔[6] یہ احادیث صحابی خواتین اور مردوں ـ منجملہ بعض ازواج رسول نے رسول اللہؐ سے نقل کی ہیں۔[7]

تربت کا خون کے رنگ میں رنگ جانا

کہا جاتا ہے کہ عاشورا کے دن اس شیشی میں رکھی گئی مٹی خون میں تبدیل ہوتی ہے۔

بعض مآخذ میں اس موضوع سے متعلق احادیث کا مضمون رسول اللہؐ کے معجزات کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔[8] ان احادیث کے مطابق ـ جن میں سے بیشتر حضرت ام سلمہ سے نقل ہوئی ہیں[9]، رسول خداؐ نے جبرائیل کی لائی ہوئی خاک ام سلمہ کے سپرد کردی اور انھوں نے اس کو ایک شیشی (یا اپنے پیراہن یا رومال) میں محفوظ کیا؛ اور رسول خداؐ نے فرمایا کہ یہ خاک عاشورا کے دن خون میں رنگ جائے گی اور یہ واقعہ امام حسینؑ کی شہادت کی علامت ہوگا۔[10] تربت کا خون میں رنگ جانے کے واقعات بعض دیگر روایات میں بھی نقل ہوئی ہیں۔[11]

شیعہ مآخذ میں یہ احادیث تقریبا 10 راویوں سے رسول اللہؐ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔[12] جن میں سے کچھ نے نقل کیا ہے کہ رسول خداؐ نے ام سلمہ کو تھوڑی سی مٹی دی تھی اور بعض دیگر نے لکھا ہے کہ یہ مٹی ام سلمہ کی وفات تک ان کے پاس تھی۔[13] نیز ایک روایت کے مطابق یہ مٹی امام باقرؑ کے پاس تھی۔[14] بعض دعاؤں میں اشارے یا واضح بیان کے ساتھ کہا گیا ہے کہ جبرائیل رسول خداؐ کے لئے تربت لائے تھے۔[15]

تربت کے بارے میں حضرت علیؑ سے منقولہ احادیث

تربت امام حسینؑ کے بارے میں امام علی علیہ السلام سے بھی بعض احادیث نقل ہوئی ہیں؛ منجملہ یہ کہ صفین کی طرف عزیمت کے دوران آپؑ کربلا سے گزرے تو اپنے اصحاب کے لئے کربلا کی تربت کی شان میں رسول اللہؐ کی حدیث نقل کر دی۔[16]

ظاہرا یہ حدیث صفین کی طرف عزیمت اور وہاں سے واپسی کے دوران کربلا کے مقام پر امیرالمؤمنینؑ سے سنی گئی ہے۔[17] ایک حدیث میں تصریح ہوئی ہے کہ امیرالمؤمنین اس امام حسینؑ کے مقام شہادت کی تربت کو جانتے تھے۔[18] حدیث میں ہے کہ امیرالمؤمنینؑ کربلا سے گذرتے ہوئے روئے اور واقعۂ عاشورا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہاں کی تربت کی حرمت کی یادآوری کرائی۔[19]

تربت کے بارے میں دوسرے ائمہ کی احادیث

امام حسینؑ بھی کربلا پہنچے تو تربت کے بارے میں ام سلمہ کی حدیث بیان فرمائی۔[20] ام سلمہ نے یہ حدیث امام حسینؑ کی مدینہ سے ہجرت کرتے وقت آپؑ کو سنائی۔[21]

تربت کے بارے میں دوسرے ائمہ معصومین کے ارشادات بھی مآخذ میں نقل ہوئے ہیں اور ائمہؑ نے تربت کو "مبارکہ" اور "مسکۃ مبارکہ" جیسے اوصاف سے متصف فرمایا ہے اور اس کی فضیلت پر تاکید کی ہے۔[22] امام رضاؑ نے تربت اٹھاتے وقت اس کو سونگھا اور گریہ کیا[23] بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ فرشتے تربت امام حسینؑ کو خاص توجہ دیتے ہیں۔[24]

تربت کے آثار روایات کی روشنی میں

شفا بخشی

حدیث اور فقہ کے مآخذ میں تربت کے لئے متعدد آثار بیان ہوئے ہیں۔ احادیث میں منقول ہے کہ تربت بیماریوں کے لئے شفا ہے اور اس کے شفا بخش اثرات امام حسینؑ کی امامت پر اعتقاد راسخ سے مشروط ہیں۔[25] بعض علماء نے تربت کے اٹھانے اور تناول کرنے کے انداز اور روش کو بھی مؤثر جانا ہے۔[26] تربت سے شفایابی کے بارے میں فقہائے امامیہ کے درمیان اجماع پایا جاتا ہے[27] اور اس کے آثار ان مآخذ میں مرقوم ہیں۔

تربت کے اثرات و برکات کے بارے میں موثق راویوں سے منقولہ احادیث دستیاب ہیں۔[28]

رسول خداؐ کے چچا حمزۂ سید الشہداء اور دوسرے صالحین اور شہداء کی تربت سے شفا خواہی قدیم الایام سے مسلمانوں کے درمیان رائج اور مرسوم تھی۔[29]

خوف سے حفاظت

تربت حسینی کا ایک اثر، خوف سے محفوظ رہنا ہے اور احادیث میں اسے ساتھ رکھنے پر تاکید ہوئی ہے۔[30] امام رضاؑ کپڑوں جیسے سامان میں تھوڑی سی تربت رکھا کرتے تھے[31] اور امام رضا ؑ کا یہ عمل اس کی حفاظت کے لئے تھا۔[32] نیز مآخذ حدیث کی رو سے تربت کا اپنے پاس رکھنا باعث برکت ہے۔[33]

احادیث میں نومولود بچوں کا تالو تربت امام حسینؑ سے اٹھانے کا عمل مستحب قرار دیا گیا ہے[34] اور تربت کا بطور پیشکش اور ہدیہ دینے کی سفارش کی گئی ہے۔[35]

میت کے ساتھ تربت رکھنا

فقہائے امامیہ کا اتفاق ہے کہ عذاب قبر سے نجات کے لئے میت کے ساتھ تربت امام حسینؑ رکھنا مستحب ہے،[36] لیکن اس عمل کی کیفیت کے سلسلے میں ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[37] بعض فقہاء نے اس استحباب کو محض تربت کا متبرک ہونے پر مبنی قرار دیا ہے،[38] جبکہ دوسرے فقہاء کا کہنا ہے کہ یہ عمل حدیث کے مطابق ہے۔[39]

تربت کے دیگر اثرات

تربت کے لئے دوسرے اثرات بھی ذکر ہوئے؛ جیسے روزی کا فراوان ہوجانا، علم نافع کا مالک بننا، عزت و عظمت پانا، غربت کا ختم ہوجانا، اور ہر قسم کے نیک اور پسندیدہ اثرات کا ظاہر ہونا۔[40]

خاک شفاء کے بعض اثرات سے متعلق یہ سوال زیر بحث لایا گیا ہے کہ کیا یہ اثرات اس کے تناول کرنے سے مرتب ہوتے ہیں یا اسے ساتھ رکھنے سے؟[41]

تربت پر سجدے کی فضیلت

تربت امام حسین

احادیث اور فقہی کتب کے مطابق، تربت حسینی بہترین چیز ہے جس پر سجدے کے دوران پیشانی رکھی جاسکتی ہے۔[42] بعض روایات میں منقول ہے کہ امام صادقؑ ایک پیلے رنگ کے تھیلے میں تربت امام حسینؑ اپنے پاس رکھتے تھے اور بوقت نماز اپنے مصلے پر ڈال دیتے تھے اور اس پر سجدہ کرتے تھے۔[43] فقہ اور حدیث کے بعض متون سے معلوم ہوتا ہے کہ تربت پر سجدہ اور تسبیح کرنا، رقت قلب کا سبب بنتا ہے۔[44]

تربت کے بارے میں سب سے پہلا متن ـ جو "لوحٌ مِنْ طینِ القبر" کے عنوان سے آیا ہے ـ سنہ 308 ہجری میں امام زمانہ(عج) کی ایک توقیع شریف میں مندرج ہے جو عبداللہ بن جعفر حمیری کے نام لکھی گئی تھی۔ اس حدیث سمیت متعدد دوسری حدیثوں میں تربت پر تسبیح کے استحباب پر تاکید ہوئی ہے۔[45] شہید اول کا کہنا ہے کہ یہ احادیث متواتر ہیں۔[46]

تربت کی تسبیح

امام صادقؑ نے فرمایا ہے کہ سیدہ فاطمہؑ کی تسبیح ابتداء میں اون کے دھاگے سے بنی ہوئی تھی جس پر تکبیرات کی تعداد کے مطابق گرہیں لگی ہوئی تھیں اور جب حمزہ بن عبد المطلب جنگ احد میں شہید ہوئے تو آپؑ نے ان کی قبر کی تربت کی تسبیح بنائی۔

اس کے بعد امام حسینؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی تربت سے تسبیح بنانا معمول بن گئی۔ امام صادقؑ سے منقولہ دوسری حدیث میں تربت حضرت حمزہ اور امام حسینؑ کی تربت کی تسبیح کا موازنہ کیا گیا ہے اور تربت حسینی کو برتر جانا گیا ہے۔[47] بعض روایات میں تربت حسینی کی تسبیح ہاتھ میں لینے ـ حتی ذکر کے بغیر ـ پر تاکید ہوئی ہے،[48] تاہم بظاہر سنہ 308 ہجری (یعنی امام زمانہ(عج) کے ساتھ حمیری کے مکاتبے[49]) تک تربت کی تسبیح کا استعمال بھی تربت سے بنی سجده گاه کے استعمال کی مانند عمومی سطح پر اپنائی گئی سنت نہ تھی۔

تربت کے فقہی احکام

تربت کے تقدس کو مد نظر رکھتے ہوئے، فقہی کتب میں بھی اس کے لئے خاص قسم کے احکام بیان ہوئے ہیں؛ منجملہ یہ کہ "تربت کو نجس کرنا حرام اور اس سے نجاست ہٹانا اور اس کی تطہیر کرنا واجب ہے؛ حتی کہ تربت کو نجس کرنا ممکن ہے کہ کفر کی علامت ہو۔[50] نیز میت کے ساتھ رکھی جانے والی تربت کو اس طرح سے رکھنا چاہئے کہ اس کی بےحرمتی نہ ہو۔[51] تربت کی توہیں ناخوشگوار دنیاوی اثرات کا سبب ہے۔[52]

مٹی کھانا حرام اور تربت کھانا ـ صرف شفاء کی نیت سے ـ جائز ہے۔[53] بعض احادیث اور فقہی فتاوی میں روزے کا افطار کرنا جائز ہے گو کہ بعض دوسرے فقہاء اس عمل کو جائز نہیں سمجھتے۔[54] شفا یابی کے لئے استعمال کی جانی والی تربت کی مقدار بہت کم اور زیادہ سے زیادہ ایک چنّے کے برابر تک بتائی گئی ہے۔[55]

بعض روایات کی رو سے دوسرے ائمہؑ نے بھی تربت حسینی تناول کرنے کو جائز قرار دیا ہے لیکن ان احادیث کو فقہاء نے قبول نہیں کیا ہے کیونکہ ان کی رائے کے مطابق یہ دوسری احادیث کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔[56]

فقہاء کی رائے کے مطابق تربت کی خرید و فروخت جائز ہے،[57] لیکن بعض دوسری روایات میں اس سے باز رہنے کا کہا گیا ہے.[58]

تربت کی حدود اور آداب

قبر امام حسینؑ کے اطراف میں تربت اٹھانے کی حدود مختلف روایات میں 20 ذراع، 25 ذراع، 70 ذراع، ایک میل (= 1830 میٹر) یا 4 میل (= 7320 میٹر)، 10 میل (= 18.30 کلومیٹر)، 1 فرسخ (= 5/5 کلومیٹر) اور 5 فرسخ (= 5/27 کلومیٹر) ۔[59] بیان ہوئی ہیں؛ جو فقہاء کی آراء کے مطابق، ساری حدود صحیح ہوسکتی ہیں اس تفصیل کے ساتھ کہ جو تربت قبر کے قریب تر ہو اس کا احترام اور اثر اتنا ہی زیادہ ہوگا۔[60]

تربت اٹھانے، تناول کرنے یا ساتھ رکھنے کے لئے خاص دعائيں اور اعمال منقول ہیں؛ جیسے غسل کرنا، قرآن کریم کی بعض آیات کریمہ کی تلاوت کرنا، بوسہ لینا اور آنکھوں پر رکھنا۔[61] فقہاء کے نزدیک یہ آداب و اعمال تربت کے اثرات میں اضافے اور سرعت کا سبب بنتے ہیں؛ گوکہ اصولی طور پر تربت کی تاثیر ان اعمال پر منحصر نہیں ہے۔[62]

تربت کے بارے میں تالیف شدہ کتب

مطبوعہ کتب

حدیث کے بہت سے مآخذ میں تربت کے بارے میں متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں[63] اور تربت کے بارے میں مستقل کتب بھی تحریر و تالیف ہوئی ہیں: جیسے:

غیر مطبوعہ کتب

  • محمد بن بکران رازی کی تالیف شرف التربۃ؛[66]
  • ابوالمفضل شیبانی کی تالیف شرف التربۃ؛[67]
  • فارسی میں سید علی رضوی لاہوری کی کتاب لمعۂ معانی؛[68]
  • تائب تبریزی کی منظوم تالیف مثنوی شفانامہ تربتِ سیدالشہدا کی اثر کے بارے میں۔[69]

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب ذیل مادہ "ت ر ب"؛ الفیروز آبادی، القاموس المحیط، ذیل مادہ "ت ر ب"۔
  2. شہید ثانی، الفوائد الملیۃ لشرح الرسالۃ النفلیۃ، ص211؛ البحراني، يوسف، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرۃ،ج 7، ص261
  3. البیرونی، آثارالباقیۃ، ص329
  4. آل کاشف الغطاء، الارض و التربۃ الحسینیۃ، ص32
  5. ابن بابویہ ، کمال الدین وتمام النعمۃ، ج2، ص531-532؛ صدری، خاک بہشت، ص18 و 23
  6. البحراني، عبداللہ ، عوالم العلوم والمعارف، ج17، ص124-131؛ امینی، سیرتنا و سنتنا، ص53-129۔
  7. ابن حنبل، المسند، ج11، ص207-208؛ مفید، الارشاد،ج 2، ص129؛ علوی شجری، فضل زیارۃ الحسین، ص90-92۔
  8. أبو نعيم الأصبہ اني، دلائل النبوۃ، ص553؛ البیہقی، دلائل النبوۃ، ج6، ص468-470۔
  9. موحد ابطحی اصفہانی، الامام الحسین علیہ ‌السلام فی احادیث الفریقین، ج4، ص218242۔
  10. ابو یعلی موصلی، مسند ابی یعلی، ج6، ص129-130؛ الخصیبی، الہدایۃ الکبری، ص202-203؛ ابن قولویہ، کامل الزيارات، ص59-61؛ الطبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص108؛ ابن شجری، الأمالی الخمیسبۃ، ج2، ص82، مجلس 29، ص139-140؛ الحاكم النیسابوري، المستدرك على الصحيحين، ج4، ص398۔
  11. میثمی عراقی، دارالسلام، (معجزہ 05) ص542؛ دستغیب، داستان ہ ای شگفت، ص123-124۔
  12. الطوسي، الامالی، ص314، 318، 330؛ فضل الطبرسی، اعلام الوری، ج1، ص428۔
  13. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص60۔
  14. الطوسي، الامالی، ص316۔
  15. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص280، 282، 284 285؛ مجلسی، بحار الانوار، ج98، ص118، 129۔
  16. نصربن مزاحم، وقعۃ صفین، ص140؛ ابن سعد، الطبقات (ترجمۃ الامام الحسین علیہ ‌السلام و مقتلہ )، ص4849؛ ابن حنبل، المسند، ج1، ص446؛ ابویعلی موصلی، المسند، ج1، ص298؛ ابن عساکر، ترجمۃ ریحانۃ رسول اللّہ الامام المَفْدی فی سبیل اللّہ ، ص23423۔
  17. موحد ابطحی اصفہانی، الامام الحسین علیہ ‌السلام فی احادیث الفریقین، ج4، ص365366۔
  18. ابن سعد، الطبقات (ترجمۃ الامام الحسین علیہ ‌السلام و مقتلہ )، ص48؛ ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص72۔
  19. الحميري، قرب الاسناد، ص26؛ ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص269-270۔
  20. سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص225۔
  21. الخصیبی، الہدایۃ الکبری، ص203؛ مسعودی، إثبات الوصیۃ، ص165؛ ابن حمزہ ، الثاقب في المناقب، ص330-331؛ موحد ابطحی اصفہ انی، الامام الحسین علیہ ‌السلام فی احادیث الفریقین، ج4، ص218-221۔
  22. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص267 268، 270-271؛ العصفری، الاصول الستۃ عشر، ص16-17؛ المجلسی، بحار الانوار، ج98، ص128-132۔
  23. المجلسی، بحار الانوار، ج98، ص131۔
  24. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص68؛ مفید، کتاب المزار، ص151؛ صدری، خاک بہ شت، ص49۔
  25. الکلینی، الکافی، ج4، ص588؛ العلوی الشجری، فضل زیارۃ الحسین، ص91؛ الطوسی، مصباح المتہجّد، ص732-734؛ ابن المشہدی، المزار الکبیر، ص361-363؛ المجلسی، بحار الانوار، ج98، ص118 اور بعد کے صفحات۔
  26. البرقی، المحاسن، ص500؛ کلینی، الکافی، ج4، ص243؛ الصدوق، علل الشرایع، ص410؛ الطوسی، الامالی، ص317۔
  27. شہید اول،البیان، ج2، ص25۔
  28. میثمی عراقی، دارالسلام، ص542؛ قمی، ج2، ص695؛ اعرجی فحّام، احسن الجزاء، ج2، ص204-206؛ صدری، خاک بہشت، ص109-110، 115-116۔
  29. السمہ ودی، وفاء الوفاء، ج1، ص69، 116، ج2، ص544؛ الأعرجي فحام، احسن الجزاء، ج2، ص179-182۔
  30. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص278280؛ الطوسي، تہذیب الاحکام، ج6، ص75؛ الطوسي، الامالی، ص318۔
  31. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص278۔
  32. کلباسی، الاستشفاء، ص130۔
  33. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص278؛ نجفی، ج18، ص162۔
  34. الکلینی، الکافی، ج6، ص24؛ المفید، المقنعۃ، ص521؛ سلاّر الدیلمی، المراسم العلویۃ فی الاحکام النبویۃ، ص156؛ ابن برّاج، المہذب، ج2، ص259؛ ابن حمزہ ، الوسیلۃ الی نیل الفضیلۃ، ص372؛ البحراني، یوسف، الحدائق الناضرۃ، ج7، ص131۔
  35. شہ ید اول، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، ج2، ص26۔
  36. الطوسي، الخلاف، ج1، ص706؛ المحقق الحلي، المعتبر فی شرح المختصر، ج1، ص299-300۔
  37. الفقہ المنسوب للامام الرضاؑ، ص184؛ الطوسي، مصباح المتہ جّد، ص20؛ الطوسي، الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد، ص250؛ ابن ادریس حلّی، کتاب السرائر، ج1، ص165؛ المحقق الحلي، المعتبر فی شرح المختصر، ج1، ص301؛ علامہ حلّی، تذکرۃ الفقہ اء، ج2، ص94 95؛ شہید اول، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، ج2، ص21۔
  38. شہید اول، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، ج2، ص21؛ الموسوي العاملي، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، ج2، ص139۔
  39. الطوسي، تہذیب الاحکام، ج6، ص76؛ الطوسي، مصباح المتہ جّد، ص735؛ احمد الطبرسی، الاحتجاج، ج2، ص582؛ البحراني، یوسف، الحدائق الناضرۃ، ج4، ص112؛ الحرّ العاملي، وسائل الشیعۃ، ج3، ص607-608؛ علامۃ الحلّی، تذکرۃ الفقہ اء، ج2، ص95؛ شہید اول، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، ج2، ص21۔
  40. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص277، 282 285؛ ابن بسطام، طب الائمۃ، ص52؛ نوری، مستدرک الوسائل، ج8، ص218؛ کلباسی، الاستشفاء، ص109؛ فرہاد میرزا قاجار، قمقام زخّار، ص6۔
  41. النراقی، مستند الشیعۃ، ج15، ص163؛ کلباسی، الاستشفاء، ص67، 77۔
  42. ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج1، ص268؛ شہید اول، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، ج2، ص26؛ البحراني، یوسف، الحدائق الناضرۃ، ج7، ص260؛ النراقی، مستند الشیعۃ، ج5، ص266۔
  43. الطوسي، مصباح المتہ جّد، ص733؛ الدیلمی، ارشاد القلوب، ج1، ص115؛ المجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج82، ص153؛ آل کاشف الغطاء، الارض و التربۃ الحسینیۃ، ص39۔
  44. المجلسی الاول، روضۃ المتقین، ج2، ص177۔
  45. المفید، کتاب المزار، ص150-151؛ حسن الطبرسی، مکارم الاخلاق، ص281؛ ابن المشہدي، المزار الکبیر، ص366-368؛ الحرّ العاملي، وسائل الشیعہ ، ج3، ص608؛ المجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج82، ص333، 340۔
  46. شہ ید اول، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، ج2، ص26۔
  47. المفید، الارشاد، ص150-151۔
  48. الطوسي، مصباح المتہ جّد، ص735؛ الطوسي، تہذیب الاحکام، ج6، ص75 76؛ احمد الطبرسی، الاحتجاج، ج2، ص583؛ المفید، کتاب المزار، ص152۔
  49. المفید، کتاب المزار، ص150-151۔
  50. علامہ حلّی، مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، ج1، ص267؛ علامہ حلی، تذکرۃ الفقہ اء، ج1، ص127؛النجفی، جواہ ر الکلام، ج8، ص335؛ آل کاشف الغطاء، الارض و التربۃ الحسینیۃ، ص175؛ سبزواری، ص18۔
  51. الطباطبائی یزدی، العروۃ الوثقی، ج1، ص315، مسئلۃ 9؛ الطباطبائی الحکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، ج4، ص199۔
  52. الطوسي، الامالی، ص320؛ النوری، دار السلام، ج2، ص283۔
  53. الکلینی، الکافی، ج6، ص265-266، 378؛ ابن برّاج، المہذب، ج2، ص433؛ ابن حمزہ ، الوسیلۃ الی نیل الفضیلۃ، ص433؛ الحلي، المحقق، شرائع الاسلام، ج3، ص176؛ النراقی، مستند الشیعۃ، ج15، ص162؛ کلباسی، الاستشفاء، ص2830۔
  54. الفقہ المنسوب للامام الرضاؑ، ص210؛ ابن شعبۃ الحراني، تحف العقول، ص448؛ابن بابویہ ، کتاب من لایحضرہ الفقیہ ، ج2، ص174؛ المفید، مسارّ الشیعۃ فی مختصر تواریخ الشریعۃ، ص31؛ابن طاؤوس، اقبال الاعمال، ص281؛ شہید اول، البیان، ص203؛وہی مؤلف، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، ج4، ص175176؛ المجلسي، محمد باقر، بحار الانوار، ج57، ص158-161۔
  55. الکلینی، الکافی، ج6، ص378؛ ابن برّاج، المہ ذب، ج2، ص429-430؛الحلّی، ابن ادریس، السرائر، ج1، ص318؛ المحقق الحلي، شرایع، ج3، ص176؛المجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج57، ص161-162؛ الکلباسی، الاستشفاء، ص45-47۔
  56. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص280281؛ابن بابویہ ، عیون اخبارالرضا، ج1، ص104؛المجلسي، محمد باقر، بحار الانوار، ج57، ص156۔
  57. شہ ید اول، الدروس، ج2، ص26؛آل کاشف الغطاء، الارض و التربۃ الحسینیۃ، ص376۔
  58. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ص286۔
  59. مسافت کی شرعی اکائیاں جاننے کے لئے رجوع کریں: فرسخ در فقہ اور برید۔
  60. الطوسي، تہ ذیب الاحکام، ج6، ص7172؛ الطوسي، مصباح المتہ جّد، ص731732؛ الحلّی، ابن فہ د، المہ ذب البارع في شرح المختصر النافع، ج4، ص220؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج7، ص327؛ مقدّس اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، ج2، ص313؛ المجلسي الاول، روضۃ المتقين، ج5، ص370-371؛ النراقی، مستند الشیعۃ، ج15، ص165167۔
  61. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، باب 9394۔؛ الطوسي، الامالی، ص318؛ ابن طاؤوس، الامان، ص47؛ وہی مؤلف، فلاح السائل، ص62-224-225؛ ابن المشہ دي، المزار الکبیر، ص363-366۔
  62. مقدّس اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہ ان، ج11، ص236۔
  63. ابن قولویہ ، کامل الزيارات، ابواب: 17، 91، 95۔
  64. آقا بزرگ الطہ راني، الذریعۃ، ج12، ص147۔
  65. آقابزرگ طہ رانی، الذریعۃ، ج12، ص147۔
  66. نجاشی، الرجال، ص394؛ آقابزرگ طہرانی، ج14، ص180۔
  67. نجاشی، الرجال، ص396؛ آقابزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج14، ص180۔
  68. آقا بزرگ الطہرانی، الذریعۃ، ج18، ص354۔
  69. آقا بزرگ الطہراني، الذریعۃ، ج19، ص84۔

مآخذ

  • آل کاشف الغطاء، محمد حسین، الارض و التربۃ الحسینیۃ، قم 1416 ہ ‍/ 1995 ع‍
  • ابن ادریس الحلي، محمد بن احمد بن إدريس بن حسين بن قاسم بن عيسی الحلي العجلي، السرائر الحاوی للفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1410 ہ ‍ ق
  • الصدوق، الشيخ محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، الامالی، تہ ران 1362 ہ ‍ ش
  • الصدوق، الشيخ محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، علل الشرایع، نجف 1386 ہ ‍ ق/ 1966 ع‍ چاپ افست قم، بی‌تا
  • الصدوق، الشيخ محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، عیون اخبارالرضا، تمہدی لاجوردی، قم 1363 ہ ‍ ش
  • الصدوق، الشيخ محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، کتاب من لایحضرہ الفقیہ ، چاپ علی اکبر غفاری، قم 1414 ہ ‍ ق
  • ابن بابویہ ، کمال الدین و تمام النعمۃ،ۃ علی اکبر غفاری، مؤسسة النشر الاسلامي (التابعۃ) لجامعۃ المدرسين بقم المشرفۃ (ايران) قم 1405 ہ ‍ ق / 1363 ہ ‍ ش
  • ابن البَرّاج الطرابلسي، القاضي سعد الدين ابو القاسم عبدالعزيز بن نحرير بن عبدالعزيز، المہ ذب، تحقیق: مؤسسۃ سید الشہ داء العلمیۃ، إشراف: جعفر السبحاني، سنۃ الطبع: 1406 ہ ‍ ق
  • ابنا بسطام، (حسین بن بسطام و عبداللّہ بن بسطام)، طب الائمۃ، نجف 1385، چاپ افست قم 1363 ہ ‍ ق
  • ابن حنبل، المسند، چاپ احمدمحمد شاکر، قاہ رہ 1416 ہ ‍ ق / 1995 ع‍
  • ابو حمزۃ، عماد الدين أبي جعفر محمّد بن علي الطوسي، الثّاقب في المناقب، المحقق: الشيخ نبيل رضا علوان، مؤسسۃ أنصاريان للطباعۃ والنشر، قم، الطبعۃ: الأولی، 1412 ہ ‍ ق
  • ابن حمزۃ، الشيخ محمد بن علي الطوسي المشہ دي، الوسيلۃ الی نيل الفضيلۃ، چاپ عبدالعظیم بکاء، جمعيۃ منتدى النشر النجف 1399 ہ ‍ ق / 1979 ع‍
  • ابن سعد، ترجمۃ الامام الحسین علیہ ‌السلام و مقتلہ ، من القسم غیرالمطبوع من کتاب الطبقات الکبیر لابن سعد، چاپ عبدالعزیز طباطبائی، قم 1415 ہ ‍ ق
  • ابن شجری، يحيى بن الحسين الشجري (499ہ ـ) يحيي بن حسين بن اسماعيل الجرجاني العلوي (499ہ ـ)، كتاب الامالی وہ ی الشہیرۃ بالامالی الخمیسیة، طبعۃ عالم الكتب - بيروت 1403 ہ ‍ ق / 1983 ع‍
  • ابن شعبۃ الحراني، الحسن بن علي، تحف العقول عن آل الرسولؐ، التصحيح: على اكبر الغفاري، مؤسسة النشر الاسلامي (التابعہ ) لجماعۃ المدرسين بقم المشرفۃ (ايران)، الطبعۃ الثانيۃ 1363 ہ ‍ ش / 1404 ہ ‍ ق
  • ابن شہ ر آشوب، مناقب آل ابی طالب، چاپ یوسف بقاعی، بیروت 1412 ہ ‍ ق / 1991 ع‍
  • ابن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنۃ، تصحیح: شیخ شہ ید فضل اللّہ نوری، ناشر، حسين قلي خان نظام السلطنہ ، تہ ران 1312 ہ ‍ ق محفوظ در کتابخانہ حرم عبدالعظیم حسنی ؑ، چاپ افست 1367 ہ ‍ ش
  • إبن طاووس، السيد رضي الدين علي بن موسى بن جعفر بن محمد، الأمان من أخطار الأسفار والأزمان، تحقيق ونشر: مؤسسۃ ال البيت عليہ م السلام لاحياء التراث، الطبعۃ الاولى 1409 ہ ‍ ق
  • ابن طاووس، کتاب فلاح السائل، بیروت: الدارالاسلامیہ ، بی‌تا.
  • ابن عساکر، ترجمۃ ریحانۃ رسول اللّہ الامام المَفْدی فی سبیل اللّہ الحسین بن علی بن ابی طالب صلوات اللّہ علیہ م من تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت 1398 ہ ‍ ق / 1978 ع‍
  • إبن فہد الحلي، العلامۃ، احمد بن محمد، المہ ذب البارع في شرح المختصر النافع، تحقيق: الشيخ مجتبى العراقي، مؤسسۃ النشر الاسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين بقم المشرفۃ، الطبعۃ الأولى 1407ہ ‍
  • إبن قولويہ القمي، ابو القاسم جعفر بن محمد (المتوفی 368 ہ ‍)، كامل الزيارات، المحقق: العلامۃ عبد الحسين الأميني، الطبعۃ الأولى، مرتضويۃ، نجف 1356 ہ ‍ ق
  • ابن المشہ دي، الشيخ ابو عبداللہ محمد بن جعفر، المزار الكبير، تحقيق: جواد القيومي الاصفہ اني، مؤسسۃ النشر الاسلامي ـ قم، الطبعۃ الأولى 1419ہ ‍
  • البیرونی، ابو ریحان محمد بن احمد الخوارزمي، (440-362 ہ ‍)، الآثار الباقيۃ عن القرون الخاليۃ، محقق: ایڈورڈ زاخاؤ /Dr. C. Eduard Sachau (1845- 1930) لایپزیگ (Leipzig) یونیورسٹی، برلن - 1878 ع‍
  • أبو نعيم الأصبہ اني، احمد بن عبد اللہ المہ رانی، دلائل النبوۃ، المحقق: محمد رواس قلعہ جي و عبد البر عباس، دار النفائس، بیروت، 1406 ہ ‍ / 1986 ع‍
  • ابویعلی الموصلی، احمد بن على بن المثنى التميمي (210 - 370 ہ ‍)، مسند ابى يعلى الموصلي، المحقق: حسين سليم اسد، دار الثقافۃ العربيۃ دمشق، الطبعۃ الثانيۃ 1412 ہ ‍ - 1992 ع‍
  • الأعرجي فحام، السيد محمّد رضا الحسيني، أحسن الجزاء في إقامۃ العزاء على سيد الشہ داء (عليہ السلام)، المطبعۃ العلميۃ. قم المقدّسۃ 1401 ہ ـ،
  • الأمینی، عبد الحسین (1281-1349)، سیرتنا و سنتنا، دارالغدير للمطبوعات؛ دارالكتاب الإسلامي ـ بيروت ـ 1412 ہ ‍ ق / 1992 ع‍
  • البحراني، عبد اللہ بن نور اللہ ، عوالم العلوم والمعارف والأحوال من الأیات والأخبار والأقوال، مستدرکہ ا: محمد باقر الموحد الابطحی الاصفہ انی. قم: موسسہ الامام المہ دی ، عطرعترت، 1429ہ ‍ ق / 1387 ہ ‍ ش
  • البحراني، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہ رۃ، قم 1363-1367 ش.
  • البرقي، الشيخ الثقۃ أبو جعفر أحمد بن محمد بن خالد، كتاب المحاسن، تصحيح: السيد جلال الدين الحسينى، [المشتہ ر بـ المحدث]، دار الكتب الاسلاميۃ ـ طہ ران - مكتبۃ المصطفوى 1370ہ ‍ ق/ 1330ہ ‍ ش
  • البیہ قی، ابوبکر احمد بن الحسین، دلائل النبوۃ في احوال الشریعۃ، المحقق: الدکتور عبد المعطی قلعجی، دار الکتب العلميۃ بیروت لبنان، 1408 ہ ‍ ق/ 1988 ع‍
  • الحاكم النيسابورى، محمد بن عبد اللہ (المتوفی ۴۰۵ہ ‍)، المستدرك على الصحيحين، تحقيق: يوسف المرعشلى، الطبعۃ الاولى ، دار المعرفۃ، بيروت - لبنان۔ 1406 ہ ‍ ق ‍
  • ہادی حائری خراسانی، معجزات و کرامات ائمۃ اطہ ار علیہ م السلام، قم 1417 ہ ‍ ق
  • الطباطبائی الحکیم، سید محسن بن مہ دی بن صالح، مستمسک العروۃ الوثقی، نجف 1388 ہ ‍ ق، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • الحميري، ابو العباس عبد اللہ بن جعفر (من اعلام القرن الثالث الہ جري)، قرب الاسناد، تحقيق: مؤسسۃ آل البيت عليہ م السلام لاحياء التراث، المطبعۃ: مہ ر - قم، الطبعۃ الأولى 1413 ہ ‍ ق
  • الخصیبی، حسین بن حمدان، الہ دایۃ الکبری، بیروت 1406 ہ ‍ ق / 1986 ع‍
  • داعی الاسلام، سید محمد علی، فرہ نگ نظام، چاپ سنگی حیدرآباد دکن 1346ہ ‍ ق، چاپ افست تہ ران 1362-1364 ہ ‍ ش
  • عبدالحسین دستغیب، داستانہ ای شگفت، تہ ران 1362 ہ ‍ ش.
  • دیلمی، حسین بن محمد ، ارشاد القلوب، بیروت 1398 ہ ‍ ق / 1978 ع‍
  • جعفر سبحانی، «مصاحبہ با آیت اللّہ جعفر سبحانی»، حوزہ ، ش 4344 (فروردین تیر 1370 ہ ‍ ش)
  • محمدباقر سبزواری، ذخیرۃ المعاد فی شرح الارشاد، چاپ سنگی تہ ران 1273-1274 ہ ‍ ق، چاپ افست قم، بی‌تا.
  • سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، مؤسسۃ أہ ل البيت، بیروت 1401 ہ ‍ ق /1981 ع‍
  • سلار الدیلمی، حمزۃ بن عبدالعزیز، المراسم العلویۃ فی الاحکام النبویۃ، چاپ محسن حسینی امینی، بیروت 1414/ 1994.
  • السمہودی، نور الدین علی بن احمد (المتوفی 911 ہ ‍ ق)، وفاء الوفاء باخبار المصطفی دار المصطفی، المحقق: خالد عبدالغنی محفوظ، دارالکتب العلميۃ - بیروت - لبنان الطبعۃ الاولی 2006 ع‍
  • محمد پادشاہ بن غلام محیی الدین شاد، آنندراج: فرہ نگ جامع فارسی، چاپ محمد دبیرسیاقی، تہ ران 1363 ہ ‍ ش
  • محمدبن مکی شہ یداول، البیان، ت محمد حسون، قم 1412 ہ ‍ ق
  • محمدبن مکی شہ یداول، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، قم 1414 ہ ‍ ق
  • محمدبن مکی شہ یداول، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، قم 1419 ہ ‍ ق
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہ یۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، چاپ محمد کلانتر، بیروت 1403 ہ ‍ ق /1983 ‍
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الفوائد الملیۃ لشرح الرسالۃ النفلیۃ، قم 1378 ہ ‍ ق
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی مسالک الافہ ام الی تنقیح شرایع الاسلام، قم 1413-1419 ہ ‍ ق
  • صدري، مہدي، (1347 ہ ‍)، خاك بہ شت، ‏مشخصات نشر : دليل ما‏، تہ ران 1381 ہ ‍ ش
  • علی طباطبائی، ریاض المسائل، قم 1412-1420 ہ ‍ ق
  • الطباطبائی الیزدی، محمد کاظم بن عبدالعظیم، العروۃ الوثقی، تہ ران 1358 ہ ‍ ش
  • الطبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، چاپ حمدی عبدالمجید سلفی، چاپ افست بیروت 1404 ہ ‍ ق
  • الطبرسی، احمدبن علی، الاحتجاج، چاپ ابراہ یم بہ ادری و محمدہ ادی بہ ، قم 1413 ہ ‍ ق
  • الطبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ط محمد حسین اعلمی، بیروت 1392 ہ ‍ ق /1972 ع‍
  • الطبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہ دی، قم 1417 ہ ‍ ق
  • الطوسي، محمد بن حسن، الاقتصاد الہ ادی الی طریق الرشاد، تہ ران 1400 ہ ‍ ق
  • الطوسي، محمد بن حسن، الامالی، قم 1414 ہ ‍ ق
  • الطوسي، محمد بن حسن، تہ ذیب الاحکام، چاپ حسن موسوی خرسان، بیروت 1401 ہ ‍ ق / 1981 ع‍
  • الطوسي، محمد بن حسن، کتاب الخلاف، قم 1407-1417 ہ ‍ ق
  • الطوسي، محمد بن حسن، مصباح المتہ جّد، علي أصغر مرواريد، مؤسسۃ فقہ الشيعۃ، بیروت الطبعۃ الأولى 1411/ 1991.
  • العصفري، ابو سعید عباد (قرن دوم ہ جری)، الأصول الستۃ عشر، الطبعۃ الثانيۃ، دار الشبستري للمطبوعات - قم - ايران 1405 ہ ‍ ق/ 1363 ہ ‍ ش
  • الحر العاملي، الشيخ محمد بن الحسن، وسائل الشيعۃ إلى تحصيل مسائل الشريعۃ، المحقق: الشيخ عبد الرحيم الربانى الشيرازي، دار احياء التراث العربي بيروت - لبنان۔
  • الحلّی، الحسن بن يوسف بن المطہ ر الأسدي، تذکرۃ الفقہ اء، ج1 و 2، قم 1414 ہ ‍ ق
  • الحلّی، الحسن بن يوسف بن المطہ ر الأسدي، مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، تحقيق مؤسسۃ النشر الاسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين، قم 1412 ہ ‍ ق
  • علوی، جواد، «آیۃ اللّہ بروجردی در بروجرد»، حوزہ ، سال 8، شمارہ 43-44 (فروردین تیر 1370 ہ ‍ ش).
  • العلوی الشجري، محمد بن علی، فضل زیارۃ الحسین (علیہ ‌السلام)، چاپ احمد حسینی، قم 1403 ہ ‍ ق
  • علی بن موسیؑ، امام ہ شتم، الفقہ المنسوب للامام الرضا علیہ ‌السلام، مشہد 1406 ہ ‍ ق
  • الفاضل الہ ندی، محمد بن حسن ، کشف اللثام عن قواعد الاحکام، ج2، قم 1418 ہ ‍ ق
  • قاجار، فرہ اد میرزا، قمقام زخّار و صمصام بتار، تہران 1377.
  • الفیروزآبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، بیروت 1407 ہ ‍ ق / 1987 ع‍
  • قاضی نعمان، نعمان بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، چاپ محمد حسینی جلالی، قم 1409-1412 ہ ‍ ق
  • عباس قمی، فوائد الرضویۃ: زندگانی علمای مذہب شیعہ ، تہران، 1327 ہ ‍ ش
  • محمدبن محمدابراہ یم کلباسی، الاستشفاء بالتربۃ الشریفۃ الحسینیۃ، چاپ حسین غیب غلامی، چاپ اول، قم، بي نا (چاپخانہ امين)، 1412 ہ ‍ ق
  • المجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحارالانوار، بیروت 1403 ہ ‍ ق /1983 ع‍
  • المجلسي الاول، محمد تقی بن مقصود علی، روضۃ المتقین فی شرح من لایحضرہ الفقیہ ، محققین: حسین موسوی کرمانی و علی پناہ اشتہاردی، بنیاد فرہنگ اسلامی، محمد حسین کوشانپور، قم 1406-1413 ہ ‍ ق
  • المحقق الحلّی، جعفربن حسن، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، چاپ عبدالحسین محمدعلی بقال، قم 1408 ہ ‍ ق
  • المحقق الحلّی، جعفربن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، ج1، قم 1364 ہ ‍ ش
  • محقق الکرکی، علی بن حسین، رسائل المحقق الکرکی، ت محمد حسون۔
  • رسالۃ السجود علی التربۃ المشویۃ، قم 1409.
  • المسعودي، ابو الحسن علي بن الحسين بن علي الہ ذلي، اثبات الوصيۃ للإمام علي بن أبي طالب عليہ السلام، قم: موسسۃ انصاریان، 1417 ہ ‍ ق / 1996 ع‍ / 1375 ہ ‍ ش
  • المفيد، الشيخ محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللّہ علی العباد، قم 1413 ہ ‍ ق
  • المفيد، الشيخ محمد بن محمد، کتاب المزار، تحقیق: محمدباقر ابطحی، قم 1413 ہ ‍ ق
  • المفيد، الشيخ محمد بن محمد، مسارّ الشیعۃ فی مختصر تواریخ الشریعۃ، چاپ مہ دی نجف، قم 1413 ہ ‍ ق
  • المفيد، الشيخ محمد بن محمد بن النعمان العكبري البغدادي (336 - 413 ہ ‍)، المقنعۃ، تحقيق: مؤسسۃ النشر الإسلامي، مؤسسۃ النشر الإسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين بقم المشرفۃ، الطبعۃ الثانيۃ 1410 ہ ‍ ق
  • مقدس اردبیلی، الشيخ احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہ ان فی شرح ارشاد الاذہان، تحقیق: مجتبی عراقی، علی پناہ اشتہ اردی، و حسین یزدی اصفہانی، قم، 1414 ہ ‍ ق
  • ابطحی اصفہانی، سید محمد باقر موحد ، الامام الحسین علیہ ‌السلام فی احادیث الفریقین من قبل الولادۃ الی بعد الشہ ادۃ، قم 1414-1415 ہ ‍ ق
  • الموسوي العاملي، محمد بن علی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، قم 1410 ہ ‍ ق
  • محمود میثمی عراقی، دارالسلام، تہران 1374 ہ ‍ ش
  • احمدبن علی نجاشی، فہ رست اسماء مصنفی الشیعۃ المشتہر برجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم 1407 ہ ‍ ق
  • النجفي، الشيخ محمد حسن بن باقر، جواہ ر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت 1981 ع‍
  • النراقي، العلامۃ الفقيہ المولي أحمد بن محمد مہ دي (ا1185 - 1245 ہ ‍ ق)، مستند الشيعۃ في أحكام الشريعۃ، تحقیق و طبع: مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لاحياء التراث قم المقدسۃ 1415 ہ ‍ ق
  • المنقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ت عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ 1382 ہ ‍ ق، چاپ افست قم 1404 ہ ‍ ق
  • النوري الطبرسي، خاتمۃ المحدثين الحاج ميرزا حسين بن محمد تقی (1320 ہ ‍)، دار السلام فیما یتعلق بالرؤیا والمنام، قم 1378 ہ ‍ ش
  • النوري الطبرسي، خاتمۃ المحدثين الحاج ميرزا حسين بن محمد تقی (1320 ہ ‍)، مستدرك الوسائل ومستنبط المسائل، تحقيق مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لاحياء التراث، بیروت 1408 ہ ‍ / 1987 ع‍