شیخ بہائی

ویکی شیعہ سے
(بہاء الدین عاملی سے رجوع مکرر)
شیخ بہائی
کوائف
لقببہائی
نسبحارثی ہَمْدانی
آبائی شہربعلبک، لبنان
مدفنمشہد، آستان امام رضا(ع)
شریک حیاتدختر شیخ الاسلام شیخ علی منشار العاملی
اولادلا ولد
مذہبشیعہ اثنا عشری
سیاسی کوائف
علمی و دینی معلومات
اساتذہملاّ عبد اللہ یزدی، ملاّ علی مُذَہّب، ملاّ علی قائنی، ملاّ محمد باقر یزدی، شیخ احمد گچایی، شیخ عبد العالی کرکی، محمّد بن محمّد بن ابی اللّطیف مقدسی شافعی؛ انھوں نے میر محمد باقر داماد المعروف میر داماد سے روایت کی ہے۔ علوم غریبہ ان کے استاد محمود دہدار۔
تالیفاتشیخ بہائی نے حدیث، ادعیہ و مناجات، اصول عقائد، اصول الفقہ، رجال و اجازات، عربی ادب و علوم، ریاضیات، حکمت و فلسفہ، علوم غریبہ پر متعدد کتب تالیف کی ہیں۔


محمد بن عزّ الدین حسین (953۔1031 ھ)، تخلص بہائی، شیخ بہائی و بہاء الدین عاملی کے نام سے مشہور، اپنے زمانے کے فقیہ، محدّث و حکیم، دسویں اور گیارہویں صدی ہجری کے ریاضی دان، ذوالفنون عالم و سائنسدان تھے۔ شیخ بہائی کی علمی اور ادبی کاوشوں کی تعداد 123 تک پہنچتی ہے۔ جامع عباسی، کشکول، موش و گربہ، نان و پنیر وغیرہ ان کی کاوشوں میں شامل ہیں۔

شیخ بہائی نے فن تعمیر کے حوالے سے بھی متعدد آثار چھوڑے ہیں۔ اصفہان کا مینار جنبان (متحرک منارہ)، زایندہ رود نامی دریا کے پانی کی تقسیم بندی کے تعمیراتی منصوبے، مسجد امام اصفہان کے گنبد کے نقشے کی تیاری اور نجف اشرف کی بیرونی باڑ کے نقشے کی تیاری، ان ہی کے آثار میں سے ہیں۔

انھوں نے دنیا کے مختلف علاقوں کا سفر کیا اور شاہ عباس صفوی کے ساتھ اصفہان سے مشہد مقدس کے مشہور تاریخی سفر میں ان کے ہمراہ تھے؛ انھوں نے یہ سفر پیدل طے کیا تھا۔ نیز شیخ بہائی صفوی حکومت میں اعلی ترین دینی منصب "شیخ الاسلامی" پر فائز رہے۔

ولادت اور نسب

بہاء الدین العاملی سترہ یا ستائیس ذوالحجۃ الحرام سنہ 953 ہجری کو (موجودہ لبنان کے شہر) بعلبک میں پیدا ہوئے۔ آبائی گاؤں جبل عامل کا جَبَع یا جَباع[1]، نامی گاؤں تھا۔[2]

ان کے والد کا نام عزّ الدین حسین بن عبد الصمد الحارثی (متوفی' 984 ہجری)، شہید ثانی (متوفی' 966 ہجری) کے دوستوں اور شاگردوں میں سے تھے۔

ان کا سلسلۂ امام علی (ع) کے صحابی حارث ہَمْدانی (متوفی' 65 ہجری) تک پہنچتا ہے اسی بنا پر وہ حارثی ہَمْدانی کے عنوان سے مشہور تھے۔

آپ کے سفر

شیخ بہائی سے منسوب ان کا گھر

بعلبک میں پیدائش کے ایک سال بعد اپنے خاندان کے ہمراہ جبل عامل چلے گئے۔ ان کے والد نے شہید ثانی کی شہادت کے بعد جبل عامل میں شدید بد امنی محسوس کی چنانچہ صفوی بادشاہ شاہ طہماسب اور اصفہان کے شیخ الاسلام علی بن منشار کرکی (المعروف علی بن ہلال کرکی کی دعوت و ترغیب پر اپنا کنبہ لے کر اصفہان میں آ بسے۔

وہ جبل عامل کے ان پہلے علماء میں سے ہیں جو ایران میں شیعہ صفوی حکومت معرض وجود میں آنے کے بعد ہجرت کرکے ایران آگئے۔[3]

سنہ 969 ہجری میں شہر قزوین میں شیخ بہائی کے تحریر کردہ ایک قلمی نسخے میں مرقوم ہے کہ وہ ایران آمد کے موقع پر 13 سالہ تھے تاہم بعض دیگر منابع نے[4] غلطی سے لکھا ہے کہ وہ سات سال کی عمر میں ایران آئے تھے۔

اصفہان میں تین سال قیام کے بعد شاہ طہماسب نے اصفہان کے شیخ الاسلام شیخ علی منشار عاملی کی تجویز و تاکید پر، ان کے والد شیخ عز الدین حسین کو قزوین آنے کی دعوت دی اور انہيں اس شہر کے شیخ الاسلام کے منصب پر تعینات کیا اور شیخ بہائی نے بھی اس شہر میں مختلف علوم کا حصول جاری رکھا۔

شیخ خود لکھتے ہیں کہ [5]، وہ سنہ 971 ہجری میں اپنے والد کے ہمراہ مشہد مقدس میں تھے۔[6]

چند سال بعد ان کے والد ہرات کے شیخ الاسلام بنے مگر وہ خود قزوین میں ہی تھے اور سنہ 979 ہجری اور 981 ہجری کے دوران انھوں نے اپنے والد کو اشعار لکھ کر روانہ کئے جن میں انھوں نے والد کے دیدار اور شہر ہرات کو قریب سے دیکھنے کے دلی اشتیاق کا اظہار کیا تھا۔[7] سنہ 983 ہجری کو ان کے والد قزوین واپس آئے شاہ سے سفر حج کی اجازت مانگی تو شاہ نے انہیں اجازت دے دی مگر بہاء الدین العاملی کو ان کے ساتھ سفر حج پر جانے سے روکا اور انہیں مختلف علوم کی تدریس کا فریضہ سونپا۔[8]

شیخ بہائی سنہ 984 میں بحرین میں اپنے والد کے انتقال کے بعد[9] شاہ طہماسب کے حکم پر ہرات چلے گئے اور اپنے والد کی جگہ شیخ الاسلام کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ شیخ کا پہلا سرکاری منصب تھا۔[10]

شیخ نے اپنے سسر اور اصفہان کے شیخ الاسلام شیخ علی منشار العاملی کی وفات کے بعد اسی سال اصفہان کے شیخ الام کا عہدہ سنبھالا؛ چنانچہ شیخ عباس کے حکم پر شیخ بہائی کااصفہان کے شیخ الاسلام بننے کا مشہور قول درست نہیں ہے کیونکہ شاہ عباس سنہ 996 ہجری میں برسر اقتدار آئے تھے، بلکہ شاہ اسمعیل ثانی (حکومت: 984 تا 985 ہجری) یا سلطان محمد خدا بندہ (حکومت 985 تا 995 ہجری) انہیں یہ منصب عطا کیا تھا؛ [حتی] ممکن ہے کہ شاہ عباس صفوی نے بھی دوبارہ اس عہدے پر ان کی تقرری کا حکم دیا ہو۔[11]

شیخ بہائی کچھ عرصہ بعد سفر حج کے شوق میں شیخ الاسلامی سے کنارہ کش ہوئے اور اپنے طویل سفر کا آغاز کیا اور سنہ 1025 ہجری میں اصفہان لوٹ کر آئے اور اس کے بعد آخر عمر تک شاہ عباس کے ساتھ رہے۔

انھوں نے اس سفر کے دوران عراق، حلب، شام، مصر، سراندیب، حجاز اور بیت المقدّس کے دورے کئے اور اپنی اس سیاحت میں بہت سے علماء اور صوفیہ کے اکابرین کی مصاحبت سے بہرہ مند ہوئے۔ شیخ بہائی اپنی اس طویل سیاحت میں فقر اور درویشی کے لباس میں مصروف سیر و سفر تھے اور اسلامی مذاہب نیز دیگر ادیان کے اکابرین کے ساتھ بحث و مناظروں کا اہتمام کرتے تھے اور بعض مواقع پر تقیہ اختیار کرتے تھے۔[12]

شیخ سنہ 991 ہجری میں [بھی] سفر حج پر گئے اور واپسی پر سنہ 992 ہجری میں تبریز آئے اور ایک سال تک اس شہر میں قیام کیا۔[13]

انھوں نے ایک بار جبل عامل کے علاقے کَرْک نوح کا دورہ کرکے شہید ثانی کے فرزند اور کتاب معالم الاصول کے مصنف، ابو منصور حسن بن زین الدین، ملقب بہ جمال الدین، مشہور بہ "صاحب معالم" (متوفی' 1011 ہجری) سے ملاقات کی ہے۔.[14] ان کے آثار و تالیفات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے کاظمین، ہرات، آذربائیجان، قم اور شیروان کا سفر بھی کیا ہے۔[15]

شاہ عباس صفوی کے ساتھ مشہد کا سفر

شیخ بہائی کے اہم اور تاریخی سفروں میں سے ایک شاہ عباس صفوی کے ساتھ مشہد کا پیدل سفر ہے۔ 25 ذی الحجہ سنہ 1008 ہجری کو شاہ عباس نے فتح خراسان کے شکرانے کے طور پر طوس سے پیدل، مشہد چلے گئے۔

تین سال بعد بھی شیخ بہائی نے سنہ 1010 میں نذر ادا کرتے ہوئے اسی کیفیت سے پیدل اصفہان سے مشہد مقدس چلے گئے اور مشہد میں تین مہینے قیام کیا۔ شیخ بہائی غالبا ان دونوں مواقع پر شاہ عباس کے ہمراہ تھے۔[16]

تیرہویں صدی ہجری کے نقاش محمد علی بیک نقاشباشی کا شیخ بہائی کی نقش کشی۔

زوجہ اور اولاد

شیخ کی شریک حیات شیخ الاسلام شیخ علی منشار عاملی کی بیٹی اور ایک عالمہ فاضلہ خاتون تھیں جنہیں والد کی وفات پر 4000 ہزار عمدہ کتب پر مشتمل کتب خانہ ورثے میں ملا تھا اور شیخ بہائی نے مذکورہ کتب خانہ سنہ 1030 ہجری میں وقف کردیا، تاہم شیخ بہائی کی وفات کے بعد یہ کتب خانہ دیکھ بھال میں غفلت کی وجہ سے ختم ہوگیا۔[17]

شیخ بہائی نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ تنہا اور سفر اور سیاحت میں گذارا ہے چنانچہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ زیادہ تر تاریخی منابع نے ان کی اولاد کا کوئی ذکر نہيں کیا ہے اور بعض نے انہيں بانجھ قرار دیا ہے۔[18]

حصول تعلیم اور اساتذہ

قزوین میں اس دور میں ایک فعال حوزہ علمیہ موجود تھا اور شیخ بہائی نے زیادہ تر تعلیم وہیں حاصل کی ہے اور مزید تعلیم کے حصول کے لئے اصفہان چلے گئے ہیں۔

شیخ بہائی کے سب سے پہلے نیز سب سے اہم استاد ان کے والد شیخ عز الدین حسین تھے جن سے انھوں نے تفسیر، حدیث اور عربی ادب اور کسی حد تک معقول (منطق و فلسفہ) کی تعلیم حاصل کی اور نقل روایت کا اجازت نامہ وصول کیا۔

شیخ بہائی کے دیگر اساتذہ:

  1. ملاّ عبد اللہ یزدی (متوفی' 981 ہجری)، جنہوں نے تفتازانی کی تہذیب المنطق پر حاشیہ لکھا ہے، جو "حاشیہ ملا عبدا اللہ" کے نام سے مشہور اور حوزات علمیہ میں منطق کی رائج درسی کتب میں شمار ہوتا ہے۔ شیخ بہائی نے ملا عبد اللہ سے حکمت، علم کلام، علم طِبّ نیز کسی حد تک علم منقول میں فیض حاصل کیا ہے اور اپنی تالیفات میں ان کو علامہ یزدی کے عنوان سے یاد کیا ہے۔
  2. ملاّ علی مُذَہّب
  3. ملاّ علی قائنی
  4. ملاّ محمد باقر یزدی جن سے شیخ نے ریاضیات اور ہیئت میں کسبِ فیض کیا۔
  5. شیخ احمد گچایی، جو پیراحمد قزوینی کے عنوان سے مشہور تھے اور شیخ بہائی نے حکمت اور ریاضيات میں ان کی شاگردی اختیار کی۔
  6. شیخ عبد العالی کرکی (متوفی 993 ہجری) (جو محقق کرکی (متوفی' 940 ہجری) کے فرزند تھے)۔
  7. محمّد بن محمّد بن ابی اللّطیف مقدسی شافعی؛ شیخ بہائی الجامع الصحیح اور محمد بن اسماعیل بخاری نیز الجامع الصحیح مسلم ان ہی سے نقل کرتے ہیں۔ صحیح بخاری سے شیخ بہائی کی نقل روایت کا اجازت نامہ، کمیاب دستاویزات میں سے ہے۔[19]
  8. شیخ بہائی نے میر محمد باقر داماد المعروف میر داماد سے روایت نقل کی ہے۔[20]
  9. وہ علوم غریبہ میں محمود دہدار (متوفی 1016 ہجری) کے شاگرد تھے۔[21]

شاگرد

شیخ بہائی کی علمی شہرت اور سماجی منزلت کی وجہ سے بہت سے طالب علم ان کے حضور جمع ہوئے تھے۔ علامہ امینی، [22] نے شیخ ہہائی کے شاگردوں اور ان سے روایت نقل کرنے والے افراد کی مکمل ترین فہرست تالیف کی ہے۔ انھوں نے اس فہرست میں 97 نام سند اور ماخذ کے ساتھ، اس فہرست میں ذکر کئے ہیں جن میں مشہور ترین کے نام حسب ذیل ہیں:

معاشرتی منزلت

شیخ بہائی نے صفوی بادشاہوں کی درخواست پر اعلی ترین دینی اور سرکاری عہدہ شیخ الاسلام کو قبول کیا اور عمر کے آخری حصے تک اس منصب پر فائز رہے۔ وہ اپنے اس عہدے سے خوش نہيں تھے اور ان کا اپنا رجحان ہمیشہ گوشہ نشینی کی جانب تھا اور زہد و درویشی کی زندگی بسر کرتے تھے۔[26] حتی کہ شیخ الاسلامی کے عہدے سے کنارہ کشی اور اور استعفا کی طرف مائل تھے۔

شیخ بہائی پر بننے والی فلم میں ایرانی فنکار علی نصیریان شیخ بہائی کے روپ میں۔

شیخ کو شیخ الاسلام کے عہدے کے علاوہ بھی صفویہ دربار میں بڑی منزلت حاصل تھی۔ انہیں علم و تقوی اور مہارت و اہلیت کے لحاظ سے شاہ عباس کا مکمل اعتماد حاصل تھا اور تمام معاملات میں ان سے مشورہ کیا جاتا تھا۔ اسکندر منشی[27] کے مطابق بادشاہ شیخ بہائی کے وجود سے فائدہ اٹھاتا تھا اور اور ان کی موجودگی کو غنیمت سمجھتا تھا۔ حتی کہ جب شیخ اپنی طویل سیاحت سے پلٹ کر اصفہان واپس آئے تو بادشاہ نے ان کا استقبال کیا اور انہیں علمائے ایران کی سربراہی کا عہدہ پیش کیا جو انھوں نے قبول نہ کیا۔[28]

گھریلو شرعی امور میں بھی صفوی بادشاہ شیخ سے رجوع کرتا تھا۔[29]

اصفہان میں نماز جمعہ بپا کرنے کی ذمہ داری بھی شیخ کو سونپ دی گئی تھی۔[30]

مذہب اور عقیدہ

شیخ بہائی بلاشک فقہائے امامیہ میں سے ہیں اور ان کی تالیفات ان کے تشیع کا ناقابل انکار ثبوت ہیں۔ چنانچہ اہل سنت کے بعض منابع کا اس دعوے پر اصرار ـ کہ وہ سنی ہیں ـ لا حاصل اور بیہودہ ہے۔

محبّی[31] اور خَفاجی[32] کا کہنا ہے کہ شیخ بہائی اپنا سنی ہونے کو شاہ عباس سے ـ جو ایک شیعہ بادشاہ تھا ـ چھپا کر رکھتے تھے اور انہیں صرف اس وجہ سے شیعہ مانا گیا ہے کہ وہ ائمۂ شیعہ سے انتہا پسندی کی حد تک محبت کرتے تھے۔[33]

ظاہرا اس غلطی کا سبب شیخ بہائی کا اپنا رویہ اور طرز سلوک ہی تھا جو سفر و سیاحت کے دوران تقیہ اختیار کرتے تھے اور اپنے عرفانی مشرب کی بنا پر ہر ملت کے ساتھ اس کے مذہب کے تقاضوں کی روشنی میں پیش آتے تھے۔

بعض شیعہ علماء نے دوسرے مذاہب کے ساتھ شیخ بہائی کی مسامحت رواداری پر تنقید کی ہے اور اور ان کی توثیق میں شک ظاہر کیا ہے۔[34] تاہم یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ شیخ بہائی اعتدال پسند شیعہ فقیہ تھے اور قدماء کی روش کے مطابق عامہ کی کتب و آثار پر بھی نظر رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر انھوں نے زمخشری کی تفسیر الکشاف پر حاشیہ تحریر کیا ہے اور تفسیر البیضاوی پر ان کا تحریر کردہ حاشیہ ـ ناتمام ہونے کے باوجود ـ اس تفسیر پر تحریر شدہ حواشی میں بہترین قرار دیا گیا ہے۔[35]

بہاء الدین العاملی نے اپنے عربی اشعار میں ائمۂ شیعہ سے عقیدت اور اخلاص کامل کا اظہار کرتے ہوئے ان کی قبور کی زیارت کی آرزو اور خواہش ظاہری کی ہے اور [36] بعض جگھوں پر ان کے مخالفین سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔[37]

دوسری طرف سے شیخ بہائی فقر اور درویشی کے عالم میں تھے اور صفوی دربار کے ساتھ تعلق کے باوجود عرفانی اور صوفیانہ روش پر کاربند تھے؛ یہاں تک کہ بعض صوفی منابع میں انہیں صوفی کامل کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔

بعض منابع میں شیخ بہائی کے علاوہ، میر داماد، میر فندرسکی، ملا صدرا، مجلسی اول اور فیض کاشانی جیسے شیعہ اکابرین کو بھی سلسلۂ نور بخشیہ اور نعمۃ اللہیہ سے منسوب کیا ہے۔ جس چیز نے شیخ بہائی کے تصوف کو سب سے زيادہ تقویت پہنچائی ہے وہ ان کے اپنے اشعار ہیں۔[38]

انھوں نے اپنی تالیفات میں محیی الدّین ابن عربی کو جمال العارفین، شیخ الجلیل، کامل، عارف اور واصلِ صمدانی جیسے القاب دے کر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔[39]

بعض شیعہ علماء نے تصوف کی طرف میلان اور جھکاؤ رکھنے اور بعض دوسرے مسائل کی بنا پر، شیخ بہائی پر تنقید کی ہے۔ [40]

امر مسلم یہ ہے کہ شیخ بہائی، عرفان کی طرف، دوسرے شیعہ فقہاء اور علماء سے زیادہ، مائل تھے۔ علامہ مجلسی کے بقول: شیخ بہائی چلہ نشینی اور شرعی ریاضتوں والے تھے اور انھوں نے [میرے والد] محمد تقی مجلسی کو "ذکر" کی تعلیم دی ہے۔[41]

اس کے باوجود بعض کتب ميں منقول ہے کہ شیخ بہائی اپنے زمانے کے دراویش اور ان کے آداب و عقائد سے بیزاری کا اظہار کرتے رہے ہیں۔[42]

شیخ بہائی نے اپنی اشارتی داستان "موش و گربہ" خود بہائی نیز در داستان رمزی گربه و موش[43] نیز اپنے اشعار میں و در اشعارش منافق، ریاکار اور فریبی صوفیوں پر کڑی تنقید کی ہے۔ اسی بنا پر بعض شیعہ علماء نے شیخ بہائی کا دفاع کرتے ہوئے اصطلاحی تصوّف سے ان کے عدم انتساب کے بارے میں بعض شواہد نقل کئے ہیں۔[44]

بالآخر، تصوف سے شیخ بہائی کا انتساب اس لئے نہيں ہے کہ انھوں نے اصطلاحی تصوف کی تائید یا صفوی دور میں رائج محاوراتی درویشی کی تصدیق کی ہے بلکہ اس کا واحد سبب ان کی تصنیفات و تالیفات اور اشعار میں نمایاں عرفانی رجحانات ہیں۔[45]

علمی مرتبت

شیخ بہائی کی علمی شخصیت اس بنا پر قابل توجہ اور حیرت انگیز ہے کہ وہ اپنے زمانے کے رائج الوقت تمام علوم سے واقفیت رکھتے تھے اور بعض علوم میں اپنی مثال آپ تھے۔

شیخ بہائی کی تالیفات پر مشتمل سافٹ وئیر جسے نور ڈیجیٹل سنٹر نے نشر کیا ہے۔

وہ دینیات اور اسلامی علوم میں استاد تھے۔ نقل حدیث کے سلسلۂ اجازات میں گیارہویں صدی ہجری کے نمایاں شیعہ امامیہ محدثین میں شمار ہوتے ہیں اور حالیہ صدیوں کے بہت سے اجازتناموں کا سلسلہ شیخ بہائی، ان کے والد شیخ عز الدین حسین اور شہید ثانی تک پہنچتے ہیں۔[46]

انھوں نے 20 سال کے مرحلۂ شباب سے 50 سال کی عمر تک تفسیر قرآن میں غور خوض اور تدقیق و تامل کیا ہے اور تفسیر قرآن کو اشرفِ علوم سمجھتے تھے۔[47] شیخ بہائی کی اہم ترین کوشش متأخرین کی طرف سے احادیث کی تقسیم بندی کے لئے نئے معانی وضع کرنے کے لئے علل و اسباب فراہم کرنے سے عبارت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ متاخرین اور سلف صالح (قدما) کے درمیان زمانی فاصلے (Temporal Distance)، اصول کی کتب کے ناپید ہوجانے اور قدماء اور غیر قدماء کی قابل اعتماد احادیث مشتبہ ہوجانے ـ المختصر قدماء کے نزدیک قابل اعتماد احادیث کی تشخیص اور شناخت کے ذرائع بند ہوجانے ـ کے باعث متاخرین نے حسن، صحیح اور موثق جیسی اصطلاحات کے لئے نئے معانی وضع کئے، اور روایات و احادیث کی تمیز و تشخیص کے لئے نئے معیار متعارف کرائے ۔ نیز شیخ بہائی قدما کے نزدیک تقیسم روایات کی جڑوں اور ان کے نزدیک حسن، صحیح اور موثق کی تعریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔[48] اسلامی علوم و معارف کے علاوہ، علمی حوالے سے شیخ بہائی، زیادہ تر ریاضی، فن تعمیر اور مہندسی (Engineering) میں سرگرم عمل رہے ہیں، نیز بہاء الدین العاملی جغرافیہ اور نجوم میں بھی ماہر تھے۔

علمی آثار

تفصیلی مضمون: فہرست آثار شیخ بہائی

شیخ بہائی، تالیف و تصنیف اور مختلف النوع موضوعات میں قلم فرسائی کے لحاظ سے عالم اسلام کے نہایت محنتی علماء میں سے تھے؛ ان کی تالیفات کی تعداد، رسائل، اور کتب پر حاشیہ نگاری اور تعلقہ نویسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ـ 123 تک پہنچتی ہے۔ شیخ بہائی کی علمیت کے پیش نظر آپ کی تالیفات بھی مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں۔ فقہ، علوم قرآنی، دعا اور مناجات، اصول عقائد سے لے کر حکمت اور فلسفہ بلکہ ریاضیات اور علوم غریبہ میں بھی آپ نے تالیفات لکھی ہیں۔ ان میں سے مشہور تالیف جامع عباسی ہے جسے شاہ عباس صفوی (اول) کی درخواست پر لکھی ہے جو فارسی زبان میں فقہی احکام پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب فقہی کتابوں میں ایک نئے طرز تحریر پر مشتمل ہے اور بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ فارسی زبان میں پہلا فقہی غیر استدلالی دورہ ہے جسے رسالہ عملیہ کی صورت میں لکھا ہے۔

فن تعمیر

فن تعمیر اور مہندسی میں شیخ بہائی کے آثار کو انکی طرف نسبت دینے کے حوالے سے تین زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  1. وہ آثار جن کی نسبت ان سے قوی اور مستحکم ہے؛ جیسے:
    1. اصفہان "زایندہ رود" نامی دریا کے پانی کی سات علاقوں میں تقسیم کا منصوبہ، جس کی تفصیلات اور خصوصیات "طومار شیخ بہائی" کے نام سے مشہور دستاویز میں محفوظ ہیں۔
  2. وہ آثار جو تاریخی منابع میں شیخ بہائی سے منسوب کئے گئے ہیں؛ جیسے:
    1. نجف آباد کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے "زرین کمر" نامی "کاریز" کا منصوبہ
    2. اصفہان کی مسجد امام کے لئے قبلہ کا صحیح اور دقیق تعین
    3. نجف کے لئے بیرونی حصار (باڑ) کا نقشہ تیار کرنا
    4. اصفہان کی مسجد شاہ کے مغرب میں "ظہر شرعی" کا مظہار (indicator)؛ نیز مشہد مقدس میں واقع حرم امام رضا علیہ علیہ السلام کے صحن میں ظہر شرعی کے تعین کے لئے مظہار (indicator) کی تیاری۔
    5. نجف اشرف میں واقع آستان امیرالمؤمنین(ع) کے صحن میں ای دیوار کا منصوبہ جو سال کے تمام دنوں میں "زوال شمس" کو واضح کرتی ہے۔
    6. حرم امام رضا علیہ السلام کا نقشہ مسدسی(چھ ضلعی یا Hexagonal) شکل میں تیار کرنا۔
    7. سفیدآب[49] ایجاد کرنا، جو اصفہان میں"سفیدآبِ شیخ بہائی" کے نام سے مشہور ہے۔
    8. منارجنبان متحرک مینار کی تعمیر
    9. صفہان کی مسجد امام کے گنبد کا منصوبہ جو آواز کو ساتھ مرتبہ منعکس کرتا ہے۔
    10. ایسی گھڑی کی ایجاد جس کو چابی دینے (اور Tuning) کی ضرورت نہ تھی۔[50]
  3. وہ آثار جن کی شیخ بہائی سے نسبت افسانہ آمیز ہے اور اور شیخ بہائی کی نادر شخصیت کے نبوغ اور غیر معمولی ذہانت اس قسم کے خوارق عادات اور تاریخی افسانوں کی بنیاد ٹھہری ہے؛ جیسے:
    1. اصفہان میں مشہور حمام جسے "حمّامِ شیخ بہائی"؛ کہا جاتا ہے یہ حمام طویل عرصے تک ایک شمع یا موم بتی کے ذریعے گرم رہا تھا۔[51]

وفات

حرم امام رضاؑ میں شیخ بہائی کی قبر

کہا جاتا ہے کہ "بہاد الدین العاملی (شیخ بہائی)" اپنی وفات سے کچھ دن قبل اپنے بعض شاگردوں اور دوستوں کے ہمراہ بابا رکن الدین شیرازی کے مزار پر گئے اور وہاں ان پر مکاشفے کی کیفیت طاری ہوئی جس سے انھوں نے اپنی موت قریب ہونے کا مطلب لیا۔محمد تقی مجلسی، [52] نے اس مکاشفے کو نقل کیا ہے جو خود بھی شیخ کے شاگردوں کے زمرے میں ان کے ہمراہ تھے۔[53]

شیخ نے اس کے بعد خلوت اختیار کی اور سات دن بعد دنیا سے رخصت ہوئے اور ان کی میت ان کی وصیت کے مطابق مشہد منتقل کی گئی اور امام رضا(ع) کے پیروں کی جانب، ان کے اپنے ہی سابق مَدْرس میں، کی گئی جائے۔[54]

شاہ عباس کے روزنامچہ نویس "اسکندر منشی"، [55] نیز اس زمانے کے مشہور ماہر نجوم "مظفر بن محمد قاسم گُنابادی" نے اس واقعے کے چند ماہ بعد تنبیہات المنجّمین[56] میں شیخ بہائی کا سال وفات سنہ 1030 ہجری، ثبت کیا ہے۔[57]

تاہم شیخ بہائی کے شاگرد نظام الدین ساوجی ـ جنہوں نے جامع عباسی کو مکمل کیا ـ نے ان کا سال وفات 1031 ہجری، قرار دیا۔[58] اور بہت سے تذکرہ نگاروں نے ان کے قول کو زیادہ معتبر جانا ہے۔[59]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. [جبل عامل کے دیہی علاقے [1]۔
  2. مجلسـی، محمدباقر، ج104، ص1، 14، 20، 24، 27، 34، 47، 208، 211؛ مهاجر، ص145؛ مدنی، الحدائق، ص3؛ بحرانی، ص16؛ برهان آزاد، ص143 ـ 144
  3. مهاجر، ص95، 146؛ افندی اصفہانی، ریاض العلماء، ج2، ص119؛ عاملی، ص30؛ امین، ج8، ص369؛ اسکندر منشی، ج1، ص155؛ میر احمدی، ص54
  4. اعتماد السلطنہ، ص447؛ بحرانی، ص26
  5. بہائی، الاربعون ص63
  6. بہائی، کلیات، مقدمہ نفیسی، ص26
  7. مدنی، سلافہ، ص259، 296؛ بہائی، کشکول، ج1، ص28 ـ 29، 46
  8. افندی اصفهانی، ریاض، ج2، ص120؛ بحرانی، ص26 ـ 27؛ بہائی، کلیات، مقدمہ نفیسی، ص29
  9. بحرانی، ص26 ـ 27؛ بہائی، کلیات، مقدمہ نفیسی، ص29
  10. مهاجر، ص156؛ بہائی، کلیات، مقدمہ نفیسی، ص34؛ خوانساری، ج7، ص58
  11. اسکندر منشی، ج1، ص156؛ افندی اصفهانی، ریاض، ج5، ص94؛ حبیب آبادی، ج3، ص822؛ امین، ج8، ص369؛ آقا بزرگ طہرانی، طبقات، ص163
  12. محبّی، خلاصة الاثر، ج3، ص440؛ اسکندر منشی، ج1، ص156ـ 157؛ مدرس تبریزی، ج3، ص303
  13. بہائی، کلیات، مقدمہ نفیسی، ص30۔
  14. حرّ عاملی، امل، ج1، ص58
  15. بہائی، مشرق، ص480؛ بہائی، الاربعون، ص507؛ بہائی، کشکول، ج1، ص29، 70، 236 و ج2، ص33؛ بہائی، الحدیقہ، ص156؛ بہائی، مفتاح، ص800
  16. اسکندر منشی، ج1، ص568 و ج2، ص610 ـ 612؛ فلسفی، ج3، ص859 ـ 860، 863 ـ 864؛ مدرّس تبریزی، ج3، ص304؛ بہائی، کلیات، مقدمہ نفیسی، ص32؛ شاملو، ج1، ص183ـ 184؛ خراسانی، ص570؛ اعتماد السلطنہ، ص611 ـ 613
  17. نوری، خاتمه، ج2، ص231 ـ 232؛ قمی، فوائد الرضویه، ج2، ص510
  18. امین، ج9، ص242
  19. اسکندر منشی، ج1، ص156، 168؛ افندی اصفہانی، ریاض، ج5، ص95؛ بحرانی، ص434 ـ 435؛ محبّی، خلاصة الاثر، ج3، ص440؛ امینی، ج11، ص250 ـ 251؛ امین، ج9، ص243؛ آقا بزرگ طهرانی، الروضہ، ص75؛ آقا بزرگ طهرانی، الذریعہ، ج15، ص378، ج1، ص519؛ میرزا حسين نوری طبرسی، خاتمۃ المستدرک، ج2، ص252۔
  20. میرزا حسين نوری وہی ماخذ۔
  21. میر جہانی طباطبائی، ص100
  22. ج 11، ص252 ـ 260
  23. امینی، ج11، ص262
  24. مجلسی، محمد باقر، ج107، ص23 ـ 24
  25. مجلسی، محمد باقر، ج106، ص146 ـ 151؛ آقا بزرگ طهرانی، الذریعہ، ج1، ص237 ـ 239
  26. مدرّس تبریزی، ج3، ص303؛ مدنی، سلافة، ص290 ـ 291؛ محبّی، نفحة الرّیحانة، ج2، ص292؛ امین، ج9، ص237
  27. ج 1، ص157
  28. طوقان، ص474
  29. فلسفی، ج2، ص563، 574؛ منجم یزدی، ص109، 268، 301، 347
  30. اسکندر منشی، ج1، ص156
  31. محبی، خلاصة الاثر، ج3، ص440 ـ 441
  32. ص 104
  33. بستانی، ج11، ص463؛ امینی، ج11، ص252
  34. امین، ج9، ص242 ـ 243
  35. امین، ج9، ص244؛ خوانساری، ج7، ص59
  36. خوانساری، ج7، ص70 ـ 71؛ حرّ عاملی، امل، ج1، ص159؛ امینی، ج11، ص273 ـ 279
  37. جزایری، ج1، ص124 ـ 125؛ خوانساری، ج7، ص72
  38. معصوم علیشاه، طرائق الحائق، ج 1، ص183 و ج2، ص322 و ج3، ص215
  39. کشکول، ج1، ص47 و ج2، 335، 349 و ج3، ص56، 321؛ بہائی، الاربعون حدیثاً، ص114، 116، 434
  40. میرزا محمد بن سلیمان تنکابنی، قصص العلماء ص240 ـ 242
  41. جعفریان، دین، ص266؛ جعفریان، رویارویی، ص125؛ معصوم علیشاه، ج1، ص284
  42. کشمیری، نجوم السماء فی تراجم العلماء، ص33؛ کرمانشاهی،خیراتیہ در ابطال طریقہ صوفیہ، ج2، ص397
  43. مینوی،موش و گربة مجلسی، ص49 ـ 55؛ فهرست نسخه‌های خطی فارسی، منزوی، ج2، ص1726
  44. حرّ عاملی، الاثناعشریہ، ص16، 34، 53؛ کشمیری، ص32 ـ 33؛ امین، ج9، ص242؛ قمی، سفینة البحار، ج2، ص58؛ بهاءالدین عاملی، کلیات، مقدمہ نفیسی، ص46 ـ 47؛ امینی، ج11، ص283 ـ 284
  45. معصوم علیشاه، ج1، ص203، 228
  46. خوانساری، ج7، ص60؛ بہائی، الاربعون حدیثاً، ص63 ـ 65
  47. بہائی، العروة الوثقی، ص42 ـ 43
  48. بہائی، مشرق الشمسین، ص24، 35؛ نوری، خاتمه، ج3، ص481 ـ 482
  49. سفیدآب چہرے کو سفید کرنے والا مادہ ہے جس کو عربی میں بھی سفیداب ہی کہا جاتا ہے اور اس کے ذریعے کھال کی نہایت پتلی تہہیں اتاری جاتی ہیں اور اس کا رنگ سفید ہوجاتا ہے۔
  50. مدرّس تبریزی، ج3، ص305؛ امین، ج9، ص240؛ نعمه، ص55 ـ 56؛ بہائی، کلیات، مقدمة نفیسی، ص51؛ هنرفر، ص455؛ رفیعی مهرآبادی، ص467، 471؛ همایی، ج1، ص17
  51. نعمہ، ص55؛ بہائی، کلیات، مقدمه نفیسی، ص52؛ رفیعی مهر آبادی، ص397، 407
  52. مجلسی، محمد تقی، روضہ، ج14، ص434 ـ 435
  53. مدنی، سلافہ، ص291؛ اسکندر منشی، ج2، ص967؛ محبّی، خلاصة الاثر، ج3، ص454 ـ 455
  54. اسکندر منشی، ج2، ص967 ـ 968؛ اعتماد السلطنہ، ص445 ـ 447؛ افندی اصفهانی، ریاض، ج5، ص97
  55. ج 2، ص967
  56. ص 223 ـ 224
  57. مجلسی، محمدتقی، روضه، ج14، ص435؛ حسینی استرآبادی، ص217؛ آقا بزرگ طهرانی، الروضہ، ص85 ـ 86
  58. بہائی، جامع عباسی، ص96
  59. تنکابنی، ص245؛ خراسانی، ص640؛ اعتماد السلطنہ، ص447، 676

منابع

  • آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت، 1403 ہجری۔
  • آقا بزرگ طہرانی، الروضة النضرة فی علماءِ القرن الحادی عشرة، بیروت، 1411 ہجری۔
  • آقا بزرگ طہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، چاپ علی نقی منزوی، تہران، 1366 ہجری شمسی۔
  • ابن صابونی، کتاب تکملة اکمال الاکمال فی الانساب و الاسماء و الالقاب، بیروت، 1406 ہجری۔
  • استرآبادی، حسن، تاریخ سلطانی، چاپ احسان اشراقی، تہران، 1364 ہجری شمسی۔
  • اسفندیار، کیخسرو، دبستان مذاہب، چاپ رحیم رضا زادة ملک، تہران، 1362 ہجری شمسی۔
  • اسکندر منشی، تاریخ عالم آرای عباسی، تہران، 1350 ہجری شمسی۔
  • اعتمادالسلطنہ، تاریخ منتظم ناصری، چاپ محمد اسماعیل رضوانی، تہران، 1367 ہجری شمسی۔
  • افندی اصفہانی، عبد الله، تعلیقة امل الامل، چاپ احمد حسینی، قم، 1410 ہجری۔
  • افندی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، چاپ احمد حسینی، قم، 1401 ہجری۔
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، چاپ حسن امین، بیروت، 1403 ہجری۔
  • امینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، بیروت، 1387ق
  • بحرانی، یوسف، لؤلؤة البحرین، چاپ محمد صادق بحر العلوم، قم.
  • تنکابنی، محمد، کتاب قصص العلماء، تہران.
  • ثابتیان، ذبیح الله، اسناد و نامه‌های تاریخی دورة صفویہ، تہران، 1343 ہجری شمسی۔
  • جاپلقی بروجردی، علی، ظرائف المقال فی معرفة طبقات الرجال، چاپ مہدی رجائی، قم، 1410 ہجری۔
  • جزایری، نعمت الله، الانوار النعمانیہ، چاپ محمد علی قاضی طباطبایی، تبریز، 1382 ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، دین و سیاست در دورة صفوی، قم، 1370 ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، رویارویی فقیہان و صوفیان در عصر صفویان، کیہان اندیشہ، آذر و دی 1369 ہجری شمسی۔
  • جہانگیری، محسن، شرح احوال و ذکر آثار و نقل افکار شیخ بہائی، فلسفہ، نشریہ اختصاصی گروه آموزشی فلسفہ، ش 1، ضمیمہ مجلہ دانشکده ادبیات و علوم انسانی دانشگاه تہران، بہار 1355 ہجری شمسی۔
  • حبیب آبادی، محمد علی، مکارم الا´ثار در احوال رجال دو قرن 13 و 14 ہجری، اصفہان 1351 ہجری شمسی۔
  • حرّ عاملی، الاثنا عشریة، چاپ مہدی لازوردی و محمد درودی، قم، 1400 ہجری۔
  • حر عاملی، امل الا´مل، چاپ احمد حسینی، بغداد، تاریخ مقدمہ 1385 ہجری شمسی۔
  • خراسانی، محمد ہاشم، کتاب منتخب التواریخ، تہران، 1317 ہجری شمسی۔
  • خفاجی، احمد، ریحانة الالباء و زہرة الحیاة الدنیا، چاپ سنگی بولاق، 1273.
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، چاپ اسدالله اسماعیلیان، قم، 1390.
  • دیباجی، ابراہیم، کفارة روزه ایکه خوردم رمضان: شرح از جامی، شیخ بہائی، و اسیری لاہیجی، وحید، سال 4، ش 4، فروردین 1346 ہجری شمسی۔
  • رفیعی مہر آبادی، ابو القاسم، آثار ملی اصفہان، تہران، 1352 ہجری شمسی۔
  • جرجی زیدان، تاریخ آداب اللغہ العربیہ، بیروت، 1978 ع
  • سبکی، عبد الوہاب، طبقات الشافعیة الکبری، چاپ محمود محمد طناحی و عبد الفتاح محمد حلو، قاہره
  • سرکیس، معجم المطبوعات العربیہ و المعربہ، چاپ افست قم، 1410 ہجری۔
  • سمیعی، کیوان، تسامحات ادبی، یادگار، سال 2، ش 2، مهر 1324 ہجری شمسی۔
  • شاردن، جان، سفر نامہ شاردن، ترجمہ اقبال یغمایی، تہران، 1375 ہجری شمسی۔
  • شاملو، قصص الخاقانی، چاپ حسن سادات ناصری، تہران، 1371 ہجری شمسی۔
  • شریعتی، علی، راہنمای خراسان، تہران، 1363 ہجری شمسی۔
  • شیخ بہائی، الاربعون حدیثاً، قم، 1415 ہجری۔
  • شیخ بہائی، جامع عباسی، چاپ سنگی تہران، 1328 ہجری شمسی۔
  • شیخ بہائی، الحدیقة الہلالیة، چاپ علی موسوی خراسانی، قم، 1410 ہجری۔
  • شیخ بہائی، العروة الوثقی، چاپ اکبر ایرانی قمی، قم، 1412 ہجری۔
  • شیخ بہائی، کتاب المخلاة، مصر، 1317 ہجری شمسی۔
  • شیخ بہائی، الکشکول، بیروت، 1403 ہجری۔
  • شیخ بہائی، مشرق الشمسین و اکسیر السعادتین، مع تعلیقات محمد اسماعیل بن حسین مازندرانی خواجوئی، چاپ مہدی رجائی، مشہد 1372 ہجری شمسی۔
  • شیخ بہائی، مفتاح الفلاح، مع تعلیقات محمد اسماعیل بن حسین مازندرانی خواجوئی، چاپ مهدی رجائی، قم، 1415 ہجری۔
  • صبا، محمد مظفر، تذکر روز روشن، چاپ محمد حسین رکن زادة آدمیت، تہران، 1343 ہجری شمسی۔
  • طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، 1390 ہجری۔
  • عاملی، حسین، وصول الاخیار الی اصول الاخبار، چاپ عبد اللطیف کوہکمری، قم، 1401 ہجری۔
  • عبرت نائینی، محمد علی، تذکرة مدینة الادب، تہران، 1376 ہجری شمسی۔
  • فلسفی، نصرالله، زندگانی شاه عباس اول، تهران، 1364 ہجری شمسی۔
  • محمد قصری، سیمایی از شیخ بہائی در آئینة آثار، مشهد، 1374 ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، سفینة البحار و مدینة الحکم و الا´ثار، بیروت.
  • قمی، عباس، فوائد الرضویه، تہران، تاریخ مقدمہ 1327 ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، کتاب الکنی والالقاب، صیدا، 1358 ہجری شمسی۔
  • کرمان شاهی، آقا محمد علی، خیراتیه در ابطال طریقة صوفیہ، چاپ مہدی رجائی، قم، 1412 ہجری۔
  • کشمیری، محمد علی، کتاب نجوم السماء فی تراجم العلماء، قم.
  • گنابادی، مظفر، تنبیہات المنجمین، چاپ سنگی، 1284.
  • گوپاموی، محمد، کتاب تذکرة نتایج الافکار، بمبئی 1336 ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، 1403 ہجری۔
  • مجلسی، محمد تقی، روضة المتقین فی شرح من لایحضره الفقیہ، چاپ حسین موسوی کرمانی و علی پناه اشتہاردی، قم، 1413 ہجری۔
  • مجلسی، محمد تقی، لوامع صاحبقرانی، قم، 1414 ہجری۔
  • محبی، محمد امین، خلاصة الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر، بیروت.
  • محبی، محمد امین، نفحة الریحانة و رشحة طلاءالحانة، چاپ عبد الفتاح محمد حلو، قاہره، 1387 ہجری۔
  • مدرس تبریزی، محمد علی، ریحانة الادب، تہران، 1369 ہجری شمسی۔
  • مدنی، علی خان، الحدائق الندیة فی شرح فواید الصمدیة، چاپ سنگی، تہران 1297 ہجری شمسی۔
  • مدنی، علی خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین، قم، 1415 ہجری۔
  • مدنی، علی خان، سلافة العصر فی محاسن الشعراء بکل مصر، مصر، 1324 ہجری۔
  • معصوم علی شاه، طرائق الحقائق، چاپ محمد جعفر محجوب، تہران، 1339 ہجری شمسی۔
  • منجم یزدی، جلال الدین، تاریخ عباسی، چاپ سیف الله وحیدنیا، تہران، 1366 ہجری شمسی۔
  • منزوی، احمد، فہرست نسخہ های خطی فارسی، تہران، 1351 ہجری شمسی۔
  • موسوی حسینی، عباس، نزهة الجلیس و منیة الادیب الانیس، نجف1387 ہجری۔
  • مہاجر، جعفر، الہجرة العاملیة الی ایران فی العصر الصفوی، بیروت، 1410 ہجری۔
  • میر جہانی طباطبائی، محمد حسن، روایح النسمات در شرح دعای سمات، تہران، 1370 ہجری شمسی۔
  • مینوی، مجتبی، موش و گربة مجلسی، یغما، ش 2، اردیبهشت 1334 ہجری شمسی۔
  • نصرآبادی، محمد طاہر، تذکرة نصر آبادی، چاپ وحید دستگردی، تهران، 1361 ہجری شمسی۔
  • نعمہ، عبد الله، فلاسفة شیعہ، ترجمہ جعفر غضبان، تہران، 1367 ہجری شمسی۔
  • نوری، حسین، خاتمہ مستدرک الوسائل، قم، 1416 ہجری۔
  • نوری، حسین، الفیض القدسی فی ترجمة العلامہ المجلسی، بیروت، 1403 ہجری۔
  • ہنرفر، لطف الله، گنجینہ آثار تاریخی اصفہان، اصفہان، 1344 ہجری شمسی۔

بیرونی ربط

مضمون کا ماخذ: دانشنامه جهان اسلام