حافظ بشیر حسین نجفی

ویکی شیعہ سے
(بشیر نجفی سے رجوع مکرر)
آیت اللہ حافظ بشیر حسین نجفی
کوائف
مکمل نامحافظ بشیر حسین نجفی
تاریخ ولادت1942ء (جالندھر ہندوستان)
آبائی شہرجالندھر (ہند)، لاہور (پاکستان)
علمی معلومات
اساتذہشیخ محمد کاظم تبریزی، شیخ محمد حسین اصفہانی، سید محمد روحانی، سید ابو القاسم خوئیؒ۔
تالیفاتمِرقاۃ الاُصول • مُصْطَفَی الدَّین القَیِّم • َالشَّعائِرُ الحُسَینیَّۃ و مَراسیمُ العَزاء ...
خدمات
سماجیاسکولوں کا قیام، مؤسسہ انوار النجفیہ، درسی کتب کی طباعت، ...
ویب سائٹآفیشل ویب سائٹ


حافظ بشیر حسین نجفی (ولادت: 1942ء) شیخ بشیر نجفی کے نام سے معروف دنیائے تشیع کے مرجع تقلید، اہل پاکستان و مقیم نجف اشرف ہیں۔ شیخ بشیر نجفی معصومینؑ کے چہروں کی تصویر برداری کو حرام اور امام حسینؑ کی مصیبت میں قمہ زنی کو مخصوص شرائط کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں۔

آپ عراق کے سیاسی امور میں وحدت مرجعیت کے قائل ہیں۔ اسی بنا پر عراق کے سیاسی مسائل میں لوگوں کو آیت‌ اللہ سیستانی کی طرف رجوع کی دعوت دیتے ہیں۔ "شیعہ سنی اتحاد" اور "عراق کے سیاسی احزاب کی حمایت میں غیر جانبداری" من جملہ آپ کے سیاسی موقف میں شمار کئے جاتے ہیں۔

مِرقاۃ الاُصول، الشَعائر الحسنیۃ و مَراسیم العَزاء اور الغدیر اِطالۃ و اَعمال آپ کے علمی آثار میں سے ہیں۔

سوانح حیات

حافظ بشیر حسین نجفی فرزند صادق علی، شیخ بشیر نجفی کے نام سے معروف ہیں۔[1] آپ سنہ 1942ء کو جالندھر (تقسیم پاک و ہند سے پہلے پنجاب کے مشرقی شہر) میں پیدا ہوئے۔[2] آپ کے دادا محمد ابراہیم بن عبداللہ (متوفی 1962ء)، معروف بہ شیخ محمد ابراہیم پاکستانی اور آپ کے چچا مولانا خادم حسین (متوفی 1402ھ) بھی اس وقت کے علماء میں سے تھے۔ آپ کے خاندان نے سنہ 1947ء کو تقسیم پاک و ہند کے بعد ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور لاہور کے مضافاتی شہر باتاپور میں مقیم ہوئے۔ آپ کے خاندان کی تلیغ سے وہاں اہل تشیع کی آبادی میں اضافہ ہوا۔[3]

شیخ بشیر نجفی سنہ 1965ء کو اعلی تعلیم کے لئے نجف چلے گئے۔[4] عراق کے صدر صدام کے دور میں غیر عراقی شیعہ علماء جنہیں معاودین کہا جاتا تھا کو ملک بدر کیا گیا۔ لیکن آپ عراق سے خارج نہیں ہوئے۔[5] روزنامہ اینْدیپِنْدِنْت آیت‌ اللہ خویی سے نقل کرتے ہیں کہ سنہ 1999ء کو آپ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جو ناکام رہا۔[6] بعض کے مطابق یہ حملے آپ کو عراق سے باہر نکلنے پر مجبور کرنے کے لئے کیا گیا۔[7] پاکستان میں آپ کے نمائندہ سبطین سبزواری کے مطابق آپ نجف جانے کے بعد کبھی پاکستان واپس نہیں آئے ہیں۔[8]

آپ کے چار بیٹے ہیں جن میں سے علی بشیر نجفی آپ کے نمایندہ ہیں۔[9]

تعلیم

ابتدائی دینی تعلیم اپنے دادا محمد ابراہیم بن عبد اللہ اور چچا خادم حسین کے پاس حاصل کی اور پھر قرآن حفظ کیا۔ 1961ء سے لے کر 1965ء تک لاہور کے دینی مدرسے جامعۃ المنتظر (موجودہ جامع المنتظر) میں داخل ہوئے جہاں مولانا شیخ اختر عباس سے تعلیم حاصل کی۔[10] پاکستان میں آپ کے دوسرے اساتذہ میں سید ریاض حسین نقوی اور سید صفدر حسین نجفی کا نام لیا جا سکتا ہے۔[11] آپ جامعۃ المنتظر میں تدریس میں بھی مشغول تھے۔[12]

سنہ 1965ء میں آپ اعلی تعلیم کے لئے نجف اشرف چلے گئے۔ نجف میں آپ کے اساتذہ میں درج ذیل علماء و ففہاء کا نام لیا جا سکتا ہے:

شیخ بشیر نجفی نے سنہ 1968ء سے حوزہ علمیہ نجف اشرف میں سطوح کی تدریس شروع کی۔[15] اور عراق کے صدر صدام کے سقوط سے پہلے اور بعد میں باقاعدہ فقہ و اصول کے درس خارج بھی دیتے ہیں۔[16]

تصانیف

شیخ بشیر نجفی فقہ،‌ اصول، فلسفہ، کلام، تفسیر اور حدیث میں عربی زبان میں مختلف کتابوں کے مولف ہیں جن میں سے تقریبا 20 کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔[17] کتاب مِرقاۃ الاُصول علم اصول فقہ میں آپ کی تصنیف ہے۔[18] اس کتاب میں آپ نے علم اصول مقدماتی بحثوں کے ساتھ ساتھ علم اصول کے عمدہ مباحث جیسے اوامر و نواہی، عام و خاص، اُصول عَمَلِیّہ اور تَعادُل و تَراجیح سے بحث کی ہیں۔[19]

آپ کی بعض شایع ہونی والی کتابیں درج ذیل ہیں:

  • وَقْفَةٌ مَعَ مُقَلِّدِی الْمَوْتَی
  • مَناسِکُ الحَج
  • خَیرُ الصَّحائِف فی اَحکام العِفاف
  • سَتبقی النَّجَف رائِدَة حَوْزاتِ العالم
  • مُصْطَفَی الدِّينِ الْقَيِّمِ
  • بُحُوثٌ فِقْهِیَّةٌ‌ مُعاصِرَه
  • اَلتَّائِبُ حَبیبُ الله
  • َالشَّعائِرُ الحُسَینیَّة و مَراسیمُ العَزاء
  • ولادةُ الامام المَهدی(ع)
  • الغدیر اِطالة و اَعمال[20]
  • تعلیقةٌ علی شرح التجرید العلامة

مرجعیت

شیخ بشیر نجفی کو آیت‌ اللہ سیستانی کے بعد نجف اشرف میں مقیم تین مشہور مراجع تقلید (سید محمد سعید حکیم، اسحاق فیاض و حافظ بشیر نجفی) میں شمار کیا جاتا ہے۔[21] آپ کی توضیح المسائل "الدِّينُ الْقَیِّم" کے نام سے عربی میں شایع ہو چکی ہے جس کا انگریزی، اردو اور گُجَراتی زبان میں ترجمہ ہوا ہے۔[22]

مشہور فتوے

  • شیخ بشیر نجفی کے مطابق مخصوص شرائط کے ساتھ امام حسینؑ کی مصیبت میں قمہ زنی جائز بلکہ بہتر ہے وہ شرائط یہ ہیں: "متعلقہ شخص کو اس کام سے موت واقع ہونے یا بدن کے اعضاء میں سے کسی عضو کو نقصان پہنچنے کا یقین یا اطمینان نہ ہو"؛ "کسی ایسی جگہ پر نہ ہو جہاں اس کام سے لوگ دین سے بیزاری اختیار کر جائیں"؛ "متعلقہ شخص کی نیّت امام حسین ؑ کی مظلومیت اور دشمنان اہل بیتؑ کے ظلم و ستم کو اجاگر کرنا ہو"۔[23]
  • شیخ بشیر نجفی کے مطابق معصومینؑ اور بعض غیر معصومین جیسے حضرت عباس کے چہرے کی تصویر بنوانا حرام ہے اور ان تصاویر کو معصومینؑ کی طرف نسبت دینے کو گناہان کبیرہ سمجھتے ہیں۔[24]
  • آپ کے فتوے کے مطابق جو شخص توحید، نبوت اور معاد پر ایمان رکھتا ہو اور اسلام کے ضروری تعلیمات میں سے کسی ایک کا انکار نہ کرتا ہو، مسلمان ہے، اور اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں ہے اور تمام مسلمانوں پر اس کی جان، مال اور عزت و ناموس کا دفاع واجب ہے۔[25]

سیاسی موقف

شیخ بشیر حسین نجفی کے بعض سیاسی موقف درج ذیل ہیں:

  • شیعہ سنی اتحاد: کتاب "ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق" کے مطابق آیت اللہ شیخ بشیر نجفی شیعہ اور اہل سنت کو اتحاد و اتفاق کی طرف دعوت دیتے ہیں۔[26] آپ وہابیوں کے افراطی نظریات کے مخالف ہیں[27] اور مسلمانوں کو شدت پسندانہ اعمال سے پرہیز کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔[28]
  • اتحاد مرجعیت عراق: معاصر مورخ رسول جعفریان کتاب "تشیع در عراق، مرجعیت و ایران" میں لکھتے ہیں کہ شیخ بشیر نجفی، سید محمد سعید حکیم اور محمد اسحاق فیاض عراق کے سیاسی مسائل میں آیت‌ اللہ سیستانی کی طرف ارجاع دیتے ہیں۔[29] کتاب "ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق" کے مصنف کے مطابق حزب بعث کے سقوط کے بعد عراق کے سیاسی مسائل میں شیخ بشیر نجفی کی سرگرمیاں کم ہو گئی ہیں۔ مصنف کے مطابق اس کی علت عراق کی مرجعیت کا ایک دوسرے پر اعتماد اور سیاسی مسائل میں آیت ‌اللہ سیستانی کی طرف ارجاع دینا ہے۔[30]
  • انقلاب اسلامی ایران کے بارے میں آپ کا موقف: آپ نے ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کو دنیا میں شیعہ اور حقیقی مسلمانوں کی آواز قرار دیا ہے۔[31] اسی طرح آپ ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں ایران اور عراق کے باہمی مفاہمت پر زور دیتے ہیں۔[32]

عراق سے غیر ملکی طاقتوں خاص کر امریکہ کے انخلاء[33] اور عراق کے سیاسی احزاب کی حمایت میں غیر جانبداری[34] کو آپ کے دیگر سیاسی اور سماجی موقف میں شمار کیا جاتا ہے۔

دوسرے نظریات

شیخ بشیر نجفی حوزہ علمیہ کے درسی نظام میں قدیم کتابوں کی جگہ نئی اور آسان کتابوں کی تبدیلی پر تنقید کرتے ہیں۔[35] آپ کے مطابق شیخ انصاری کی کتاب رسائل اور آخوند خراسانی کی کتاب کفایۃ الاصول کی کوئی متبادل کتاب موجود ہی نہیں ہے۔[36] اسی طرح آپ شیخ مُظَفَّر کی کتاب اصول الفقہ کو بھی فرزند شہید ثانی کی کتاب معالم الاصول کا نعم البدل نہیں قرار دیتے ہیں۔[37]

آپ اس بات کے معتقد ہیں کہ علم اصول کو فلسفہ سے جدا ہونا چاہئے لیکن اس کے باوجود آپ فلسفہ کو علم اصول سے پہلے سیکھنے کو لازمی قرار دیتے ہوئے علم اصول کے بعض ابحاث میں فلسفی مباحث کو ضروری سمجھتے ہیں۔[38]

حوالہ جات

  1. «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  2. نقوی، تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، ص۶۵۔
  3. نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، ص۶۵؛ «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  4. نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، ص۶۵ و ۶۶۔
  5. قاسمی، ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق، ۱۳۹۳ش، ص۲۲۰۔
  6. Cockburn, "Baghdad riots over killing of Ayatollah", In The Independent, 21 February 1999, Archived from the original
  7. قاسمی، ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق، ۱۳۹۳ش، ص۲۲۰.
  8. «قاسم سلیمانی کا جنازہ پڑھانے والے پاکستانی آیت اللہ بشیر حسین نجفی»، googlynews.tv، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  9. «قاسم سلیمانی کا جنازہ پڑھانے والے پاکستانی آیت اللہ بشیر حسین نجفی»، googlynews.tv، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  10. نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، ص۶۵ و ۶۶۔
  11. «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  12. «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  13. «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  14. نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، ص۶۵ و ۶۶۔
  15. «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  16. «حوزہ نجف، تلاش ‌ہا و مظلومیت‌ ہا»، ص۷۹۔
  17. «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  18. «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  19. «من أنباء التراث»، ص۳۹۳ و ۳۹۴۔
  20. «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  21. نادری‌ دوست، شیعیان عراق، ۱۳۸۶ش، ص۱۷۵۔
  22. «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  23. بشیر نجفی، الشعائر الحسینیۃ و مراسیم العزاء، ۱۴۳۳ق، ص۱۱۷ و ۱۱۸؛ اسی طرح ملاحظہ کریں:‌ بشیر نجفی، الشعائر الحسینیۃ و مراسیم العزاء، ۱۴۳۳ق، ص۳۶ و ۳۷۔
  24. بشیر نجفی، الشعائر الحسینیۃ و مراسیم العزاء، ۱۴۳۳ق، ص۱۴۳؛ اسی طرح ملاحظہ کریں: بشیر نجفی، «الاستفتاءات»، موقع المکتب المرکزی لبشیر حسین النجفی، تم أرشفۃ ہذا الصفحۃ من النسخۃ الاصلیۃ۔
  25. میرآقایی، التعددیۃ المذہبیۃ فی الاسلام و آراء العلماء فیہا، ۱۴۲۸ق، ص۱۰۹ و ۱۱۰؛ معہد الحج و الزیارۃ، حرمۃ تکفیر المسلمین، ۱۴۳۴ق، ص۴۵۔
  26. قاسمی، ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق، ۱۳۹۳ش، ص۲۲۰۔
  27. قاسمی، ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق، ۱۳۹۳ش، ص۲۲۳ و ۲۲۴، بہ نقل از خبرگزاری رسا نیوز۔
  28. قاسمی، ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق، ۱۳۹۳ش، ص۲۲۳ و ۲۲۴، بہ نقل از خبرگزاری حوزہ نیوز۔
  29. جعفریان، تشیع در عراق، ۱۳۸۶ش، ص۱۳۲-۱۳۴.
  30. قاسمی، ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق، ۱۳۹۳ش، ص۲۲۰؛ اسی طرح ملاحظہ کریں: زارعان، «تحلیل کنش سیاسی مرجعیت شیعیان عراق در دورہ پساصدام»، ص۱۰۔
  31. «روحانی در دیدار بشیر نجفی...»، خبرگزاری دانشگاہ آزاد اسلامی آنا، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  32. قاسمی، «مرجعیت و سیاست در عراق پس از اشغال؛ با تأکید بر اندیشہ آیت ‌اللہ سیستانی»، ص۱۱۹۔
  33. قاسمی، ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق، ۱۳۹۳ش، ص۲۲۰؛ قاسمی، ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق، ۱۳۹۳ش، ص۲۲۲، بہ نقل از پایگاہ تبیان۔
  34. قاسمی، ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق، ۱۳۹۳ش، ص۲۲۲۔
  35. «زندگی‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی۔
  36. «دانش اصول و وضع درسی آن در حوزہ نجف»، ص۱۰۴ و ۱۱۱ و ۱۱۲۔
  37. «دانش اصول و وضع درسی آن در حوزہ نجف»، ص۱۱۲۔
  38. «دانش اصول و وضع درسی آن در حوزہ نجف»، ص۱۰۴ و ۱۰۵؛ اسی طرح ملاحظہ کریں: «دانش اصول و وضع درسی آن در حوزہ نجف»، ص۱۰۶۔

مآخذ

  • جعفریان، رسول، تشیع در عراق مرجعیت و ایران، تہران، مؤسسہ مطالعات تاریخ معاصر ایران، ۱۳۸۶ش۔
  • «حوزہ نجف، تلاش ‌ہا و مظلومیت‌ ہا»، در فصل نامہ پژوہش و حوزہ،‌ مصاحبہ با سید علی‌ اکبر حائری، قم، معاونت پژوہش ‌ہای حوزہ ‌ہای علمیہ، شمارہ ۱۶، زمستان ۱۳۸۲ش۔
  • «دانش اصول و وضع درسی آن در حوزہ نجف»، در فصلنامہ پژوہش و حوزہ، مصاحبہ با بشیر نجفی، سال چہارم، شمارہ ۱۶، زمستان ۱۳۸۲، ص۱۰۲-۱۱۳۔
  • «روحانی در دیدار بشیر نجفی: علاقہ‌ مندیم روابط تہران بغداد بیش از پیش گسترش یابد»، خبر گزاری دانشگاہ آزاد اسلامی آنا، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی، تاریخ درج مطلب:‌ ۲۲ اسفند ۱۳۹۷، تاریخ بازدید: ۲۱ شہریور ۱۳۹۹۔
  • زارعان، احمد، «تحلیل کنش سیاسی مرجعیت شیعیان عراق در دورہ پسا صدام»، در فصلنامہ مطالعات راہبردی جہان اسلام، تہران، مؤسسہ مطالعات اندیشہ ‌سازان نور، سال ہفدہم، شمارہ ۴، پیاپی ۶۸، زمستان ۱۳۹۵، ۵-۳۶۔
  • «زندگی ‌نامہ»، سایت دفتر مرکزی شیخ بشیر حسین النجفی، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی، تاریخ بازدید:‌ ۲۳ شہریور ۱۳۹۹۔
  • «قاسم سلیمانی کا جنازہ پڑھانے والے پاکستانی آیت اللہ بشیر حسین نجفی»، googlynews.tv the uncensored media، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی، تاریخ بازدید: ۲۳ شہریور ۱۳۹۹۔
  • قاسمی، فرج ‌اللہ، ساختار سیاسی-اجتماعی شیعیان عراق، تہران، مشعر، ۱۳۹۳ش۔
  • قاسمی، فرج ‌اللہ، «مرجعیت و سیاست در عراق پس از اشغال؛ با تأکید بر اندیشہ آیت‌اللہ سیستانی»، در فصل نامہ علوم سیاسی، قم، دانشگاہ باقر العلوم، سال دوازدہم، شمارہ ۴۵، بہار ۱۳۸۸ش، ص۱۱۹۔
  • معہد الحج و الزیارۃ، حرمۃ تکفیر المسلمین و الاساءۃ الی مقدسات الامۃ الاسلامیۃ فی فتاوا و آراء مراجع الدین و العلماء المسلمین الشیعہ، تہران، مشعر، ۱۴۳۴ق۔
  • «من أنباء التراث»، تراثنا، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)‌ لاحیاء‌ التراث، رجب و ذوالحجۃ 1427، السنۃ الثانیۃ و العشرون، العدد 3 و 4، ص۳۸۰-۳۹۸۔
  • میر آقایی، جلال، التعددیۃ المذہبیۃ فی الاسلام و آراء العلماء فیہا، تہران، المجمع العالمی لتقریب بین المذاہب الاسلامیہ، المعاونیۃ الثقافیہ، ۱۴۲۸ق۔
  • نجفی، حافظ بشیر حسین، «الاستفتاءات»، موقع المکتب المرکزی لبشیر حسین النجفی، تم أرشفۃ ہذا الصفحۃ من النسخۃ الاصلیۃ، اطلع عليہ: ۲۴ /۹/ ۲۰۲۰م۔
  • نجفی، حافظ بشیر حسین، الشعائر الحسینیۃ و مراسیم العزاء فی ضوء الفتاوا، نجف، مؤسسۃ الانوار النجفیۃ (للثقابۃ و التنمیۃ)، ۱۴۳۳ق۔
  • نقوی، سید حسین‌ عارف، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان، اسلام ‌آباد، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، بی‌تا۔
  • Cockburn, patrick, "Baghdad riots over killing of Ayatollah", In The Independent, 21 February 1999, Archived from the original, Retrieved 12 september 2020.