بشر حافی

ویکی شیعہ سے
بشر حافی
ذاتی کوائف
نام:بشر بن حارث مروزی
کنیت:بونصر
لقب:حافی
تاریخ پیدائش:150ہ.ق - بغداد
محل زندگی:بغداد
وفات:227ہ.ق - بغداد
مدفن:باب الحرب
حدیثی معلومات
مشایخ:فضیل بن عیاض • علی بن خُشْرَم
ان کے راوی:ابوخیثمہ
شہرت:زہد


بِشْر(بُشْر) بن حارث مَروزی (150ھ-227ھ) جو بِشر حافی کے نام سے مشہور ہے، تیسری صدی ہجری کے صوفی مشایخ میں سے تھے۔ آپ بغداد کے رہنے والے تھے۔ بعض منابع کے مطابق امام کاظمؑ کی باتوں سے متاثر ہو کر توبہ کیا اور توبہ کے بعد آپ نے کبھی بھی جوتا نہیں پہنا اسی بنا پر آپ کو حافی(پا برہنہ) کہا جاتا ہے۔

سوانح حیات

بشر بن حارث بن عبدالرحمن مروزی (مرو کے حکومتی عہدیداروں میں سے تھے) خراسان کے رہنے والے تھے۔[1] ابن خلکان کے مطابق وہ بعبور (عبداللہ) کے پڑپوتوں میں سے تھے جنہوں نے امام علیؑ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا تھا۔[2] بشر سن 150ہ.ق کو مرو کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے۔[3] لیکن وہ بغداد میں مقیم تھے۔[4] ابن کثیر کے مطابق ان کی پیدائش بھی بغداد میں ہوئی تھی۔[5]

لقب اور کنیت

آپ کی کنیت "ابونصر"[6] تھی اور چونکہ آپ بغیر جوتوں کے پھرتے تھے اسلئے "حافی"(پابرہنہ) کے لقب سے ملقب ہوئے۔[7] آپ کے بغیر جوتوں کے پھرنے کی علت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ: جس وقت انہوں نے امام کاظمؑ کے ساتھ ملاقات کی تھی اور اسی ملاقات کے نتیجے میں انہوں نے توبہ کی تھی، آپ بغیر جوتوں کے تھے، اس ملاقات کے احترام میں آپ ہمیشہ پا برہنہ پھرتے تھے۔[8] کہا جاتا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں جوتے نہیں پہنتے؟ تو انہوں نے جواب دیا:

"جس دن خدا کے ساتھ آشتی کی تھی پابرہنہ تھا اب مجھے جوتے پہنے میں شرم آتی ہے۔ یا یہ کہ وہ کہتے تھے "زمین بساطِ حق ہے اور یہ روا نہیں ہے کہ خدا کے فرش پر ہم جوتوں کے ساتھ چلتے پھریں"۔[9]

اس حوالے سے بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی موچی سے جوتے سینے کو کہا تو اس موچی نے نخرے کرنا شروع کیا اس وقت بشر نے اپنے جوتے پھینک دئے اور اس کے بعد جوتے نہ پہننے کی قسم کھائی۔[10]

نقل حدیث

بشر نے احادیث سننے کیلئے کوفہ، بصرہ اور مکہ کا سفر کیا۔[11] انہوں نے حماد بن زید، عبداللہ بن مبارک، مالک بن انس اور ابوبکر عیاش جیسی شخصیات سے حدیث سنی۔[12] اسی طرح ابراہیم بن سعد زہری، شریک بن عبداللہ،[13] فُضَیل بن عَیاض،[14] اور علی بن خُشْرَم(مامو زاد یا چچا زاد بھائی)[15] سے بھی انہوں نے استفادہ کیا۔ ابوخیثمہ، زہیر بن حرب، سری سقطی، عباس بن عبدالعظیم اور محمد بن حاتم نے بشر سے حدیث نقل کی ہیں۔[16]

بشر کو فقہ میں سفیان ثوری کا پیرو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے سفیان ثوری کے احادیث کو ایک کتاب میں جمع کیا تھا۔[17]

توبہ

بعض منابع کے مطابق بشر حافی نے امام کاظمؑ کے کلام سے متأثر ہو کر توبہ کیا۔ اپنی جوانی کے ایام میں وہ بغداد میں لہو و لعب میں مشغول رہتا تھا۔ ایک دفعہ امام کاظمؑ ان کے گھر کے قریب سے گزر رہے تھے، اس موقع پر اس کے گھر کے اندر سے ناچ گانے کی آوازیں آرہی تھی۔ امام کاظمؑ نے ان کے گھر سے باہر آنے والی ایک کنیز سے پوچھا: "اس گھر کا مالک آزاد شخص ہے یا غلام؟" کنیز نے جواب دیا: "وہ ایک آزاد شخص ہے"۔ امام نے فرمایا: "تم ٹھیک کہتی ہو! اگر یہ غلام ہوتا تو اپنے آقا سے خوف کھاتا"۔ جب کنیز گھر میں داخل ہوئی تو اس نے امام کاظمؑ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا حال بیان کیا(وہ کنیز امام کو نہیں پہچانتی تھی)۔ بشر ننگے پاؤں گھر سے باہر آیا اور امام کاظمؑ کے پیچھے چلا گیا اور امام سے ملاقات اور آپؑ سے ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں اس نے اپنے غلط کاموں سے توبہ کیا۔[18] بعض صوفیوں کی کتابوں میں بھی بشر کی حالات زندگی میں اس واقعے کو نقل کیا گیا ہے لیکن امام کاظمؑ کا نام نہیں لیا گیا ہے۔[19]

بعض مورخین اس کے توبہ کرنے کے بارے میں کچھ اور دلایل نقل کرتے ہیں من جملہ یہ کہ: بشر نے خدا کے اسماء حسینی لکھے ہوئے بعض کاغذ کے ٹکروں کو زمین سے اٹھایا انہیں خشبو سے معصر کیا اور کسی دیوار کی شگافت میں رکھ دیا۔ رات کو عالم خواب میں اس سے کہا چونکہ تم نے اسماء الہی کو زمین سے اٹھا کر معطر کیا، خدا بھی تمہیں دنیا اور آخرت میں نیک نام قرار دے گا، یہی خواب ان کی توبہ کا سبب بنا[20]

زہد

انار میں بشر حافی سے منسوب مقبرہ

تاریخی منابع میں بشر حافی کی زہد اور پارسایی کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ[21] توبہ کرنے کے بعد اس نے لوگوں سے کنارہ گیری اختیار کیا اور خدا کی عبادت میں مشغول ہو گیا۔[22] اسی طرح ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نقل حدیث کو پسند نہیں کرتے تھے اسی بنا پر جمع کردہ احادیث کو عمر کے آخری ایام میں زمین میں دفنا دیا۔[23] بشر کی شہرت اسی کی زہد کی وجہ سے تھی۔ البتہ ان کے اپنے بقول پیغمبر اکرمؐ نے خواب میں انہیں این کی شہرت کی وجہ کو سنت کی پیروی، نیکوں کا احترام، اہل بیتؑ اور ان کے چاہنے والوں سے محبت اور مودت کرنے کو قرار دیا ہے۔[24] کہا جاتا ہے کہ بشر اس دعا کا بہت زیادہ تکرار کیا کرتے تھے: خدایا اگر مجھے آخرت میں ذلیل کرنے کیلئے دنیا میں شہرت دی ہے تو اس شہرت کو مجھ سے واپس لے لیں۔[25]

گتوند میں بشر سے منسوب مقبرے کا بیرونی منظر

صوفیوں کا مقتدا

بشر کو صوفیوں کے مشایخ اور مقتدا میں سے قرار دیتے ہیں۔[26] ان کی حالات زندگی، اقوال اور ان سے متعلق بعض حکایتوں کو صوفیوں کی کتابوں من جملہ کتاب تذکرۃ الاولیا،[27] حلیۃ الاولیاء[28] اور طبقات الصوفیہ [29] وغیرہ میں نقل کیا گیا ہے۔ اسی طرح صوفیوں کے منابع کے مطابق بغداد کے لوگ انہیں ایک نبی سمجھتے تھے۔[30]

درگذشت و مدفن

بشر سن 227 ہجری قمر کو بغداد میں رحلت کر گئے۔[31] اور بغداد میں باب الحرب نامی مقام پر دفن ہوئے۔[32] ان کی وفات سن 226 ہجری قمری[33] کو مرو میں ہونے کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہوئی ہے۔ ابن کثیر قول اول کو صحیح‌ قرار دیتے ہیں۔[34] ایران کے بعض مناطق جیسے کرمان میں انار، کردستان میں بیجار اور خوزستان میں گتوند نامی مقامات پر ان سے منسوب مقبرہ جات موجود ہیں۔ کرمان میں بشرآباد انار نامی مقام پر بشر سے منسوب مقبرہ ایلخانیوں کے دور کا بنایا ہوا ہے۔[حوالہ درکار]

حوالہ جات

  1. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۷۶؛ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۵۲۵؛ عطار، تذکرۃ الاولیاء، لیدن، ص۱۰۷۔
  2. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۲۷۴۔
  3. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۲۷۶۔
  4. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۲۷۴؛ بغدادی، تاریخ بغداد، دارالکتب العلمیہ، ج۷، ص۷۱۔
  5. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱۰، ص۲۹۸۔
  6. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، دارالکتب العلمیہ، ج۷، ص۷۱۔
  7. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱۰، ص۲۹۸۔
  8. مناوی، طبقات الصوفیہ، ۱۹۹۹م، ص۵۵۷-۵۵۸۔
  9. عطار، تذکرۃ الاولیاء، لیدن، ص۱۰۷۔
  10. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۲۷۵؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱۰، ص۲۹۸۔
  11. ابن جوزی، صفوۃ الصفوہ، دارالکتب العلمیہ، ج۲، ص۲۲۰۔
  12. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱۰، ص۲۹۷؛ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۵۲۵۔
  13. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، دارالفکر، ج۱۰، ص۱۸۱۔
  14. ابن جوزی، صفوۃ الصفوہ، دارالکتب العلمیہ، ج۲، ص۲۲۰۔
  15. عطار، تذکرۃ الاولیاء، لیدن، ص۱۰۶۔
  16. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱۰، ص۲۹۷۔
  17. شیرازیان، دانشنامہ جہان اسلام، مدخل بشر حافی۔
  18. حلی، منہاج الکرامہ، ۱۳۷۹ش، ص۵۹؛ حاج حسن، باب الحوائج، ۱۴۲۰ق، ص۲۸۱۔
  19. مناوی، طبقات الصوفیہ، ۱۹۹۹م، ص۵۵۷۔
  20. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۲۷۵؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱۰، ص۲۹۸؛ عطار، تذکرۃ الاولیاء، لیدن، ص۱۰۷؛ مناوی، طبقات الصوفیہ، ۱۹۹۹م، ۵۵۷-۵۵۸؛ ابن جوزی، صفوۃ الصفوہ، دارالکتب العلمیہ، ج۲، ص۲۱۴-۲۱۵۔
  21. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱۰، ص۲۹۷؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، دارالکتب العلمیہ، ج۷، ص۷۱۔
  22. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱۰، ص۲۹۷؛ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۵۲۵۔
  23. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، دارالفکر، ج۱۰، ص۱۸۱۔
  24. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، دارالفکر، ج۱۰، ص۱۹۳۔
  25. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۲۷۵۔
  26. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۲۷۵۔
  27. عطار، تذکرۃ الاولیاء، لیدن، ص۱۰۶-۱۱۴۔
  28. ابونعیم اصفہانی، حلیۃ الاولیاء، دارالفکر، ج۸، ص۳۳۶-۳۶۰۔
  29. مناوی، طبقات الصوفیہ، ۱۹۹۹م، ص۵۵۷-۵۵۸۔
  30. مناوی، طبقات الصوفیہ، ۱۹۹۹م، ص۵۵۸۔
  31. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱۰، ص۲۹۷؛ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۵۲۵؛ مروج الذہب، ج۳، ص۴۷۶؛ ابن جوزی، صفوۃ الصفوہ، دارالکتب العلمیہ، ج۲، ص۲۲۰؛ ابن تغری بردی، النجوم الزاہرہ، درالکتب، ج۲، ص۲۴۹۔
  32. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۱، ص۳۰۷؛ مقدسی، احسن التقاسیم، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م، ص۱۳۰۔
  33. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۲۷۶
  34. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱۰، ص۲۹۸۔

منابع

بیرونی روابط