ام فروہ امام صادقؑ کی والده

ویکی شیعہ سے
ام فروہ مادر امام جعفر صادقؑ
کوائف
نام:فاطمہ یا قریبہ
والد:قاسم بن محمد بن ابی بکر
والدہ:اسماء بنت عبد الرحمن بن ابو بکر
اولاد:امام جعفر صادق ؑ
وجہ شہرت:زوجہ امام باقر ؑ و مادر امام صادق ؑ
محل زندگی:مدینہ
مدفن:جنت البقیع، امام صادق ؑ کے پہلو میں
علمی خدمات:راوی حدیث


ام فروہ امام صادق علیہ السلام کی والدہ، قاسم بن محمد بن ابی بکر کی بیٹی اور امام محمد باقر ؑ کی زوجہ ہیں۔ آپ ایک نیک خاتون تھیں اور آپ کے والد قاسم امام سجاد ؑ کے مورد اطمینان اصحاب میں سے تھے۔ ام فروہ کو ان کی وفات کے بعد مدینے کے بقیع نامی قبرستان میں ان کے بیٹے امام صادق ؑ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ ان کا شمار روات حدیث میں کیا گیا ہے۔

تعارف

ام فروہ حضرت امام صادق ؑ کی والدہ اور حضرت امام باقر ؑ کی زوجہ تھیں۔ ان کے والد کا نام قاسم بن محمد بن ابی بکر تھا۔[1] وہ حضرت امام سجاد ؑ کے مورد اطمینان اصحاب میں سے شمار ہوتے تھے[2] اور اہل حجاز کے فقیہ کے نام سے شہرت رکھتے تھے۔[3] ۔

ام فروہ کا نام فاطمہ یا قریبہ اور کنیت ام فروہ یا ام قاسم تھی۔[4] ام فروہ کی والدہ کا نام اسماء بنت عبد الرحمن بن ابو بکر تھا۔[5] حضرت امام جعفر صادق ؑ کا سلسلہ نسب دو طریق یعنی ام فروہ اور ان کی والدہ کے ذریعے ابوبکر تک پہنچنے کی وجہ سے اس قول ولدنی ابو بکر مرتین یعنی میں ابو بکر سے دو بار متولد ہوا ہوں، کو حضرت امام جعفر صادق ؑ سے منسوب کیا جاتا ہے۔

ولدنی ابو بکر مرتین کی حقیقت

شیعہ مآخذ میں سے اربلی نے کشف الغمہ میں ولدنی ابوبکر مرتین کے الفاظ امام جعفر صادق کے حوالے سے نقل کئے ہے:
عبد العزیز جنابذی کہتے ہیں : ابو عبد اللہ جعفر بن محمد بن على بن الحسين بن على بن أبى طالب عليہم السلام الصادق ہیں، ان کی والدہ ام فروہ ہے اور ان کا نام قریبہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر ہے اور ام فروہ کی والدہ کا نام اسماء بنت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق ہے۔ اسی وجہ (یعنی ماں اور نانی کی طرف سے ابو بکر تک نسب پہنچنے کی وجہ) سے جعفر صادق نے کہا :ولقد ولدنی ابو بکر مرتین۔وقال الحافظ عبد العزيز بن الأخضر الجنابذى رحمه الله أبو عبد الله جعفر بن محمد بن على بن الحسين بن على بن أبى طالب عليهم السلام الصادق وأمه أم فروة واسمها قريبة بنت القاسم بن محمد بن أبى بكر الصديق رضى الله عنه وأمها أسماء بنت عبد الرحمن بن أبى بكر الصديق ولذلك قال جعفر عليه السلام ولقد ولدنى أبو بكر مرتين[6]

یہ روایت کسی سند کے بغیر مرسلہ صورت میں منقول ہے کیونکہ

  • عبد العزیز جنابذی 524 ھ میں پیدا اور 611 ھ میں فوت ہوا۔[7] اس نے سند کے بغیر امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے لہذا یہ روایت مرسلہ ہے۔
  • یہ سنی مسلک پر کار بند تھا۔ اس کی واضح دلیل کشف الغمہ کی روایت میں جنابذی کی طرف سے ابو بکر کیلئے لفظ صدیق کا استعمال کرنا ہے جبکہ شیعہ حضرات کے نزدیک یہ لقب حضرت علی ؑ سے مخصوص ہے۔ نیز ذہبی کا اسے اپنے شیوخ میں سے شمار کرنا اس کی تائید کرتا ہے۔[8]
  • کشف الغمہ کے علاوہ شیعہ کے دیگر مصادر میں اس کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
اہل سنت مآخذ میں ذہبی، مزی اور ابن عساکر نے اسے نقل کیا ہے لیکن
  • ذہبی نے اسے کسی سند کے بغیر ذکر کیا ہے۔[9]
  • مزی نے تہذیب الکمال میں سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔[10] لیکن اس سند میں حفص بن غیاث مذکور ہے جس کی روایات کو کتاب تعدیل و تراجیح میں قبول نہیں کیا گیا ہے۔[11]
  • ابن عساکر اسے اس اسماعیل بن محمد بن فضل سے نقل کرتا ہے[12] کہ جس کے متعلق ذہبی نے کہا ہے کہ ابن عساکر نے جب اسماعل کو دیکھا تو وہ بوڑھا ہو چکا تھا اور اس کا حافظہ اچھا کام نہیں کرتا تھا[13] نیز ابن عساکر کی سند میں معاذ بن مثنی ہے جس کی عدالت احمد بن حنبل کے نزدیک ساقط ہے۔[14] ۔

پس ان وجوہات کے پیش نظر اس روایت کی بنا پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امام جعفر صادق اپنے نسب میں ابوبکر کا نام دو دفعہ آنے کی وجہ سے فخر کیا کرتے تھے۔

فضائل

امام صادق ؑ اپنی والدہ کے بارے میں فرماتے ہیں: میری والدہ مؤمنہ، متقی اور ایک نیک خاتون تھیں اور خدا نیک لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔[15] مسعودی نے انہیں اپنے زمانے کی پرہیزگار ترین خواتین میں سے شمار کیا ہے۔[16] مامقانی نے بھی انہیں متقی اور ایک نیک صالح خاتوں کہا ہے۔[17]ام فروہ کے فضائل اس قدر تھے کہ بعض نے امام صادق ؑ کو ان کی والدہ کے ان فضائل کی بنا پر ابن المکرمہ کہا ہے۔[18]

نقل حدیث

برقی نے ام فروہ کو حضرت امام صادق ؑ کے راویوں میں سے شمار کیا ہے۔[19] مسعودی کے بقول ام فروہ علی بن الحسین سے روایت نقل کرتی ہیں[20] نیز مامقانی نے ان کی وثاقت کی تائید کی ہے۔[21]

امام صادق ؑ فرماتے ہیں: میری والدہ میرے والد سے نقل کرتی ہیں کہ اے ام فروہ! میں دن اور رات میں ہزار بار اپنے شیعوں کیلئے خدا سے ان کے گناہوں کی طلب مغفرت کرتا ہوں کیونکہ ہم مشکلات اور مصائب کے مقابلے میں صبر کرتے ہیں جن کے ثواب کا ہمیں علم ہوتا ہے جبکہ ہمارے شیعہ کسی علم کے بغیر صبر کرتے ہیں۔[22]

ام فروہ کی ایک کنیز سعیدہ کے نام سے تھی جو اپنے فضل اور عبادت کی وجہ سے مشہور تھی۔[23]

مجلس عزائےامام حسین ؑ

شاعرِ اہل بیت ابو محمد سفیان بن مصعب عبدی نقل کرتا ہے کہ ایک دن میں حضرت امام جعفر صادق ؑ کی خدمت میں تھا۔ امامؑ نے مجھ سے حضرت امام حسین ؑ کی مصیبت کے بارے میں اشعار پڑھنے کا تقاضا کیا۔ اس سے پہلے کہ میں اشعار کا آغاز کروں، امام صادق نے فرمایا: ام فروہ کو کہو کہ وہ آئے اور اپنے جد پر نازل ہونے والے مصائب کو سنے۔ ام فروہ آئیں اور پردے کے پیچھے تشریف فرما ہوئیں تو امام نے فرمایا: اب ہمارے لئے اشعار پڑھو۔[24]

مقام دفن

ام فروہ کو مدینے میں موجود قبرستان بقیع میں اپنے بیٹے امام صادق ؑ کے پہلو میں دفن کیا گیا ہے۔[25]

حوالہ جات

  1. مفید، ۱۳۸۰ه‍.ش.ص۵۲۶.
  2. الأنوار البہیہ،ص:۲۲۹
  3. بحار الأنوار، المجلسی، ج‌۴۲،ص:۱۶۲
  4. کافی،ج۱، ص۴۷۲
  5. الکلینی، ۱۳۸۸، ج۱،ص۳۹۳، باب مولد أبی عبد اللہ جعفر بن محمد علیہ السلام
  6. اربلی،کشف الغمہ ج 2 ص 374۔
  7. ذہبی، سیر اعلام النبلاء ج 22 ص31۔
  8. ذہبی، سیر اعلام النبلاء ج 22 ص31۔
  9. سیر أعلام النبلاء، ج ۶،ص۲۵۵
  10. تہذیب الکمال،المزی، ج۵، ص۷۱
  11. التعدیل و الترجیج، ج۱، ص۵۱۳
  12. تاریخ مدینہ دمشق، ج۴۴، ص۴۵۳-۴۵۴
  13. سیر اعلام النبلاء،ج۲۰،ص۸۶
  14. المقصد الأرشد فی ذکر اصحاب الامام احمد، ج۳، ص۳۵
  15. کافی،ج۱،ص۴۷۲.
  16. مسعودی، ص۱۵۲
  17. مامقانی، ج۳، ۷۳
  18. رجال الکشی، ص:۲۱۲.الأنوار البہیہ، ص۲۲۹
  19. برقی، ص۶۲
  20. مسعودی، ص۱۵۲
  21. مامقانی، ج۳، ۷۳
  22. کافی، ج۱ص ۷۲۔مسعودی، ص۱۵۳
  23. الأنوار البہیہ، ص:۲۳۰ پاورقی۔
  24. الغدیر،ج‌۴،ص:۱۶۸
  25. کافی،ج۱، ص۴۷۲

مآخذ

  • ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۵ق.
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، مکتبہ بنی ہاشمی، تبریز، ۱۳۸۱ق.
  • برقی، ابو جعفر احمد بن محمد بن خالد، رجال برقی، نسخہ خطی، شمار ۱۸/۶۹۵۵، کتابخانہ مرکزی ۴۹ دانشگاه تہران، و انتشارات دانشگاه تہران، شماره۸۵۷، ہمراه رجال ابن داوود، ۱۳۴۲ش.
  • ذہبی، محمد بن احمد بن عثمان، سیر اعلام النبلاء، مؤسسہ الرسالہ، بیروت، ۱۴۰۵ق.
  • شہیدی، سید جعفر، زندگانی امام صادق جعفر بن محمد (ع)، تہران: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۸۴ش.
  • قمی، شیخ عباس، انوار البہیہ، مترجم محمدی اشتہاردی، ناصر، قم، ۱۳۸۰ق، چاپ سوم.
  • کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی (اختیار معرفہ الرجال)، دانشگاه مشہد، ۱۳۴۸ش
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول الکافی، ج۱، مصصح علی اکبر الغفاری، صححہ و قابلہ الشیخ نجم الدین العاملی، طہران: المکتبہ الاسلامیہ، ۱۳۸۸ق.
  • مامقانی، عبدالله بن محمد بن حسن، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف، ۱۳۵۲ق.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۱۰، مؤسسہ الوفاء بیروت، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابی طالب، نجف، مکتبہ مرتضویہ، بی‌تا.
  • مفید، الارشاد، ترجمہ و شرح فارسی: محمد باقر ساعدی، تصحیح: محمد باقر بہبودی، بی‌جا، انتشارات اسلامیہ، ۱۳۸۰ش.