افطار

ویکی شیعہ سے
(افطاری دینا سے رجوع مکرر)
حرم امام رضاؑ میں افطار کی ضیافت

افطار روزہ کھولنا یا ماہ مبارک رمضان میں اذان مغرب کے بعد کھانا کھانے کو کہا جاتا ہے۔ اسلام میں مغرب کی اذان سے پہلے ماہ رمضان یا ایسے نذر کا روزہ توڑنا حرام ہے جس کا دن معین ہے۔ لیکن جس شخص کے لیے روزہ رکھنا مضر ہے یا مشقت اور سختی کا باعث بنتا ہے اس پر افطار کرنا واجب ہے۔

افطار کرتے ہوئے سورہ قدر کی تلاوت اور مخصوص دعائیں پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ گرم پانی اور دودھ سے افطار کرنے کو بھی مستحب قرار دیا گیا ہے۔ دینی منابع کے مطابق روزے داروں کو افطاری دینا بہت زیادہ ثواب رکھتا ہے۔

معنی اور مفہوم

افطار، اذان مغرب کے وقت روزہ کھولنے کو کہا جاتا ہے۔[1] عید الفطر کے دن بھی عید کی نماز سے پہلے کھانے کو افطار کہا گیا ہے اور اسے مستحب قرار دیا ہے۔ [2] روزے کو توڑنا یا افطار کرنے کے مختلف احکام ہیں

  1. واجب: اگر کوئی شخص دن کو متوجہ ہو کہ روزہ اس کے لئے نقصان دہ ہے، یا روزہ دار ظہر سے پہلے سفر کرے تو ایسی حالت میں روزہ توڑنا اور افطار کرنا واجب ہے۔[3] اسی طرح ایسی حاملہ عورت کا روزہ افطار کرنا واجب ہے جس کا وضع حمل نزدیک ہے یا وہ عورت جو بچے کو دودھ پلاتی ہے جب کہ روزہ اس کے لئے یا اس کے بچے کے لیے مضر ہے۔[4] اور اگر کسی بوڑھے مرد یا عورت جو کہ پیاس کی بیماری میں مبتلا ہیں، اکثر فقہاء کی نگاہ میں ان کا روزہ افطار کرنا واجب ہے.[5]
  2. حرام: واجب روزہ کا افطار کرنا حرام ہے؛ جیسے ماہ رمضان کا روزہ یا نذر کا روزہ اور اسی طرح ماہ رمضان کے قضا روزے کو ظہر کے بعد افطار کرنا اور ماہ رمضان کا وہ روزہ جو سفر میں ہو جب کہ سفر کا آغا ظہر کے بعد کیا ہو اور اسی طرح اعتکاف کا روزہ اس کے واجب ہونے کے بعد باطل کرنا یہ سب حرام ہیں اور کفارے کا باعث بنتے ہیں۔[6]
  3. مکروہ: مستحب روزے کو ظہر کے بعد افطار کرنا مکروہ ہے۔[7]
  4. مستحب: جس نے مستحب روزہ رکھا ہو اور کسی مومن کا مہمان بنے، تو مستحب ہے کہ اس سے قبل کہ میزبان اس کے روزہ کے بارے میں متوجہ ہو، روزہ افطار کر دے۔[8]
  5. مباح: قول مشہور، اگر کسی نے ماہ رمضان کا قضا روزہ رکھا ہو، ظہر سے پہلے افطار کر سکتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ دوسرے رمضان تک پہلے سال کے روزے کی قضا بجا لانے کا وقت ہو۔[9] اسی طرح مستحب روزے کو ظہر سے پہلے افطار کرنا مباح ہے۔[10]
ہندوستان میں افطار کی ضیافت

آداب

افطار کے کچھ آداب ذکر ہوئے ہیں من جملہ افطار کے وقت دعا پڑھنا اور سورہ قدر کی تلاوت کرنا، نماز مغرب کے بعد افطار کرنا،[11] نیم گرم پانی، دودھ یا میٹھی چیزیں خاص کر کھجور سے افطار کرنے کو مستحب قرار دیا گیا ہے۔[12]

مفطرات

جو چیزیں جن سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ان کو فقہی اصطلاح میں مفطرات (روزہ باطل کرنے والی) کہتے ہیں اور مشہور مفطرات مندرجہ ذیل ہیں:

کراچی میں راہگزروں کے لئے روڑ پر ہی افطار کا اہتمام
  • کھانا اور پینا؛
  • جماع؛
  • خدا، پیغمبر(ص) اور اماموں کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا؛
  • مشہور فقہاء کے مطابق پورا سر پانی میں ڈبونا؛ اگرچہ بعض اسے مبطلات میں سے نہیں سمجھتے ہیں۔[13]
  • مشہور فقہاء کے فتوے کے مطابق غلیظ غبار کا حلق تک پہنچانا؛
  • مشہور فقہاء کے بقول صبح کی اذان تک جنابت، حیض یا نفاس کی حالت میں باقی رہنا؛
  • استمناء[14]
  • مایعات کے ساتھ امالہ کرنا، البتہ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[15]
  • جامد اشیاء سے امالہ کرنا اکثر فقہاء کے نزدیک مکروہ ہے اور روزے کے باطل ہونے کا سبب بنتا ہے۔[16]

افطار کے احکام

  1. سورج غروب ہونے سے پہلے اگر جان بوجھ کر روزہ افطار کیا جائے، تو یہ روزے کے باطل ہونے کا باعث بنتا ہے اور ماہ رمضان کے روزے کی صورت میں قضا بھی ضروری ہے. جان بوجھ کر واجب روزہ ظہر کے بعد افطار کرنا جیسے ماہ رمضان، نذر وغیرہ کا روزہ اس صورت میں کفارہ بھی واجب ہو گا.
  2. اگر کوئی شخص عمدی طور پر اور جانتے ہوئے ماہ رمضان کا روزہ افطار کرے، تو وہ پہلی اور دوسری بار سزا پانے کا حقدار ہے اور تیسری اور چوتھی بار (اقوال میں اختلاف پایا جاتا ہے) افطار کرنے والے کو قتل کیا جائے، اگرچہ شرط یہ ہے کہ پہلی اور دوسری بار سزا دی گئی ہو.[17]
  3. وہ روزے جو اس نے افطار کئے ہیں وہ واجب ہیں کہ بغیر فاصلے کے رکھے جائیں (یعنی 60 دن روزے اور کفارہ) لیکن اگر کوئی شرعی عذر ہو، جیسے حیض، تو اس صورت میں عذر دفع ہونے کے بعد باقی روزے رکھے. لیکن اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو بغیر فاصلے کے 60 دن روزے رکھنے ہوں گے.[18]
  4. اگر روزہ دار کو زبردستی افطار کریا جائے اور اس کا کوئی اختیار نہ رہے تو اس صورت میں اس کا روزہ باطل نہیں ہے، اور کفارہ بھی نہیں ہے، لیکن اگر اسے ڈرایا جائے اور دھمکی دی جائے اور وہ ڈر کی وجہ سے اپنے اختیار سے روزہ افطار کرے تو، اس کا روزہ باطل ہو گا، لیکن کفارہ نہیں ہے.[19]
  5. اگر روزہ دار تقیہ کی بناء پر روزہ افطار کرے، اس روزے کے صحیح اور باطل ہونے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے. وہ قول جس کے مطابق روزہ باطل ہے، اس میں روزے کی قضاء واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے.[20]
  6. مسلمان کی طرف سے ماہ رمضان کا روزہ افطار کرنا اگر حلال ہو تو وہ اس کے مرتد ہونے کا سبب ہو گا.[21]

افطار کا وقت

افطار کرنے اور کھانا کھانے کے لئے ضروری ہے کہ مغرب ہونے کے بعد کچھ امساک کریں تاکہ یقین ہو جائے کہ اب مغرب ہو چکی ہے۔ وقت کے لحاظ افطار کی دو قسمیں ہیں:

الف. روزے دار کا افطار کرنا: افطار کا وقت، سورج غروب ہونا ہے مشہور فقہاء کی نگاہ میں مشرق کی طرف کی جانب سے سرخی کا زائل ہونا ہے۔[22]

ب. غیر روزہ دار کا افطار: مستحب ہے کہ عید فطر کے دن نماز عید سے پہلے اور عید قربان کے دن نماز عید کے بعد افطار کیا جائے۔[23]

حوالہ جات

  1. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج16، ص384.
  2. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج11، ص354؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ج2، ص102 .
  3. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج17، ص133 و ج16، ص347، ج17، ص150-154.
  4. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج17،ص154-151
  5. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج17، ص150
  6. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج16، ص264 266 و ج29، ص50
  7. یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروة الوثقی، ج2، ص242؛ نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ص17، ص115
  8. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج29، ص50-51؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 10، ص152
  9. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج17،ص51-53
  10. نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، ج17، ص115؛ یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروۃ الوثقی، ج2، ص242
  11. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1414ق، ج10، ص149-151؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج16، ص384 385.
  12. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1414ق، ج10، ص156-161.
  13. https://www.sistani.org/urdu/book/61/3644/
  14. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج16، ص217-253؛ یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروة الوثقی، ج2، ص176-193
  15. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج16، ص274-275
  16. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج16، ص275
  17. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج16، ص307-308
  18. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج17، ص71 77 و ج33، ص255-256
  19. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج16، ص258 267؛ یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروۃ الوثقی، ج2، ص198
  20. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ج1، ص287؛ خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، ج1، ص269
  21. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج16، ص307
  22. نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، ج16، ص384
  23. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج11، ص354؛ یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروة الوثقی، ج2، ص102

مآخذ

  • منبع مقالہ: فرہنگ فقہ فارسی، ج1، ص626-624.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیتِ لإحیاء التُّراثِ، بیروت، 1414ق.
  • امام خمینی، تحریر الوسیلہ (ترجمہ فارسی)، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، 1386ش.
  • خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، نشر مدینہ العلم، قم، 1410ق.
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام،‌ دار احیاءالثراث العربی، بیروت، 1404ق.
  • یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروہ الوثقی فیما تعم بہ البلوی (محشی)، جامعہ مدرسین، 1419ق.