ابو لبابہ انصاری

ویکی شیعہ سے
(ابو لبابہ سے رجوع مکرر)
ابو لبابہ انصاری
کوائف
مکمل نامبشیر بن عبد المنذر بن رفاعہ
کنیتابو لبابہ
محل زندگیمدینہ
مہاجر/انصارانصار
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتجنگ بدر، غزوہ سویق و غزوہ بنی قینقاع
دیگر فعالیتیںغزوات بدر، سویق و بنی قینقاع میں مدینہ میں جانشینی پیغمبر خداؐ، سورہ انفال کی27 ویں و سورہ توبہ 102 ویں آیت آپ کے حق میں نازل ہوئی، راوی۔


بشیر بن عبد المنذر بن رفاعہ، اَبولُبابہ انصاری کے نام سے مشہور پیغمبر اکرم (ص) کے وہ صحابی ہیں جو مدینہ میں جنگ بدر، غزوہ سویق اور غزوہ بنی قینقاع میں آپؐ کے نائب رہے اور دوسرے غزوات میں آنحضرتؐ کی رکاب میں مختلف جنگوں میں شرکت کی۔ ابو لبابہ غزوہ بنی قریظہ کے دوران ایک خطا کا شکار ہوئے لہذا اس خطا سے توبہ کے لئے خود کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ لیا۔ یہاں تک کہ سورہ انفال کی 27 ویں اور سورہ توبہ کی 102 ویں آیت ان کے حق میں نازل ہوئی اور ان کی توبہ کو قبولیت کا درجہ عطا ہوا۔

تعارف

ابو لبابہ کا نام بشیر است.[1] بعض نے انہیں رفاعہ کے نام سے یاد کیا ہے۔[2] ابولُبابہ ان کی کنیت ہے؛ ان کی ایک بیٹی کا نام لباباہ تھا اسی مناسبت سے انہیں ابو لبابہ کی کنیت ملی ہے۔[3] ان کا تعلق قبیلہ اوس و خزرج کے بنی عمرو بن عوف سے تھا.[4] کہتے ہیں کہ ابو لبابہ مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد پیغمبر خداؐ کے معجزات دیکھ کر اسلام قبول کیا۔[5]

ابولبابہ کی تاریخ وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق قتل عثمان یا حضرت علیؑ کے دوران خلافت میں ان کا انتقال ہوا۔[6] ایک اور روایت کے مطابق وہ 50ویں ہجری قمری کے بعد بھی زندہ تھے۔[7]

تاریخی منابع میں ایک اور ابو لبابہ انصاری کا ذکر بھی ملتا ہے جن کا نام مروان تھا۔[8]

برادران

ابو لبابہ کے دو بھائی تھے۔ بعض تاریخی منابع میں ان کے درمیان غلط فہمی ہوئی ہے:

  • رفاعۃ ابن‌ عبدالمنذر جنہوں نے بیعت عقبہ دوم، جنگ بدر اور جنگ احد میں شرکت کی اور موخر الذکر جنگ میں شہید ہوئے[10] ایک اور قول کے مطابق وہ انصار کے نقباء میں سے ایک تھے[11] ایک دوسرے ماخذ نے انہیں بھی ابو لبابہ کے نام سے نقل کیا ہے۔[12]

پیغمبرؐ کی ہمراہی اور نیابت

جب جنگ بدر چھڑی گئی تو ابولبابہ انصاری اس میں شرکت کے لئے ایک دوسرے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے۔ لیکن پیغمبر اکرم (ص) نے اثنائے راہ میں انہیں واپس بلایا اور مدینہ میں اپنا جانشین متعین کیا۔ بعد میں جنگی غنائم میں سے ان کا حصہ بھی انہیں دیا گیا۔[13]

غزوہ سویق[14] اور اسی طرح سے غزوہ بنی قینقاع[15] میں بھی وہ مدینہ میں رسول خدا (ص) کے جانشین رہے۔

ابو لبابہ انصاری نے دیگر غزوات میں آنحضرتؐ کے ہمراہ شرکت کی[16] اور فتح مکہ کے موقع پر وہ بنی عمرو بن عوف کے علمبردار تھے۔[17]

ماجرائے خطاء

جب بنی قریظہ کے یہودیوں نے جنگ احزاب میں پیغمبر اکرمؑ کے ساتھ سے غداری کی؛ مشرکین مکہ کی شکست کے بعد رسول خداؐ نے ان کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ بنی قریظہ کی جنگ میں ابولبابہ جنگ کے سپہ سالار تھے۔ یہودیوں نے ایک شخص کو رسول خداؐ کے پاس بھیجا اور آپؐ سے درخواست کی کہ آپؐ ابولبابہ کو جو ان کے ہم پیمانوں میں سے تھا، ان کے پاس بھیج دیں۔[18]

ابو لبابہ قلعہ کے اندر گئے اور قلعہ والوں نے ان سے پوچھا کہ وہ لوگ رسول اکرمؐ کے سامنے تسلیم ہو جائیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ لیکن اپنے ہاتھ سے اپنی گردن کی طرف اشارہ کر کے انہیں سمجھایا کہ اگر وہ تسلیم ہوتے ہیں تو انہیں قتل کر دیے جائیں گے۔ اس اشارہ کی وجہ سے وہ لوگ تسلیم ہونے سے رک گئے۔ کچھ دیر کے بعد وہ اپنے اس کام سے اس قدر شرمندہ ہوئے کہ مسجد کی طرف گئے اور خود کو مسجد نبوی کے ستونوں میں سے ایک ستون لے ساتھ باندھ لیا اور قسم کھائی کہ جب تک اللہ تعالی ان کی توبہ قبول نہیں کرتا ہے وہ اسی حالت میں باقی رہے گا۔[19]

صرف وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لیے ابولبابہ کی بیٹی اس کی رسی کو کھول لیتی تھی، وہ مختصر غذا کھاتا اور مسلسل اللہ کی درگاہ میں دعا و تضرع میں مشغول رہتا تھا۔[20] کہا جاتا ہے کہ ابولبابہ نے 15دن اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ رکھا تھا اس کے بعد اس کی توبہ قبول ہوگئی۔ توبہ قبول ہونے کے بعد جب رسی کھول دی گئی تو اس کے ہاتھوں پر رسی کی گہری نشانیاں پڑ گئی تھیں، عرصہ دراز تک وہ اس کا علاج کرتا رہا۔[21]

نقل ہوا ہے کہ اسی سبب سورہ انفال کی 27ویں آیت: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔ ترجمہ: اے ایمان والو، اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو اور تم خود جانتے ہو (کہ امانت میں خیانت نہیں کرنا چاہیے۔) اور سورہ توبہ کی 102ویں آیت: وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔ ترجمہ: اور دیگر افراد ہیں جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور نیک کام کو برے کام سے مخلوط کرتے ہیں۔ امید ہے کہ خداوند عالم ان کی توبہ کو قبول کرے کہ بےشک اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے؛ ان کے حق میں نازل ہوئی۔[22] زوجہ رسول خداؐ ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک دن رسول خداؐ کو مسکراتے دیکھا اور اس کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا: ابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی ہے۔ ام سلمہ نے رسول خداؐ کی اجازت سے ابولبابہ کو یہ خبر دی۔ لوگ آئے تاکہ ان کی رسیاں کھول دی جائے؛ لیکن ابولبابہ خود چاہتے تھے کہ نبی اکرمؐ یہ کام خود انجام دیں، اس لیے آپؐ نے ہی انہیں ستون سے کھول دیا۔[23] ستون توبہ مسجد نبوی کے ستونوں میں سے ایک ستون کا نام ہے؛ چونکہ ابولبابہ بشیر بن عبدالمنذر اوسی کی توبہ اسی ستون کے پاس سے قبول ہوئی تھی اس لیے یہ ستون «استوانۃ ابی لبابہ» کے نام سے مشہور ہے۔[24]

البتہ دیگر تاریخی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کام کا سبب ان کا غزوہ تبوک میں شامل ہونے سے پرہیز کرنا تھا۔[25]

فاطمہ(س) پیغمبرؐ کے جگر کا ٹکڑا

بعض مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت زہرا (س) نے ابولبابہ کی توبہ قبول ہونے کی خبر سنی تو آپ(س) مسجد میں گئیں اور ابولبابہ کو ستون سے کھولنا چاہا لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے روک دیا اور کہا: میں نے قسم کھائی ہے کہ مجھے رسول خداؐ کے سوا کوئی نہ کھولے۔ پیغمبر خداؐ تشریف لائے اور رسی کھول دی تب فرمایا: «انما فاطمة بضعة منی».[26]

ستون ابولبابہ

ابولبابہ نے جس ستون کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ لیا، بعد میں وہ ستون توبہ[27] یا ستون ابولبابہ[28] کے نام سے مشہور ہوا۔ بعض اوقات اسے ستون مُخَلَّقہ بھی کہا جاتا ہے؛ کیونکہ یہ ستون، ستون مخلقہ (خَلوق یا خَلاق کا مطلب ہے خوشگوار خوشبو، اور ستون مُخَلّق سے مراد مسجد کا وہ ستون ہے جسے مسجد میں خوشبودار فضا پیدا کرنے کے لیے مختلف عطریں لگائے جاتے تھے) کی مانند خوشبودار ستون تھا۔[29] مسجد نبوی میں یہ ستون افضل مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق پیغمبر خداؐ بعض مستحب نمازوں کو اسی ستون کے پاس پڑھا کرتے تھے۔[30]

روایت ابولبابہ

ابولبابہ نے پیغمبر خداؐ سے چند حدیث نقل کی ہے۔[31] ان کے دو بیٹوں سائب اور عبدالرحمن اسی طرح عبداللہ بن عمر اور عبدالله بن کعب قرظی نے ابولبابہ سے حدیث نقل کی ہے۔ [32]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. ابن‌سعد٬ الطبقات الکبری٬ ۱۳۷۴ہجری شمسی٬ ج۴، ص۳۸۳
  2. ابن‌معین٬ تاریخ یحیی بن معین، دارالقلم٬‌ ج۱، ص۱۰۸.
  3. ابن‌سعد٬ الطبقات الکبری٬ ۱۳۷۴ہجری شمسی٬ ج۴، ص۳۸۳
  4. ابن‌اثیر، اسد الغابه، ۱۲۸۰ھ٬ ج۱، ص۱۹۵
  5. تفسیر منسوب به امام عسکری(ع)، ۱۴۰۹ھ٬ ص۹۲-۹۶.
  6. ابن‌اثیر، اسد الغابه، ۱۲۸۰ھ٬ ج۱، ص۱۹۶ و ج۵، ص۲۸۵ ؛ ابن‌حجر، الاصابة، ۱۳۲۸ھ٬ ج۴، ص۱۶۸
  7. ابن‌حجر، الاصابة، ۱۳۲۸ھ٬ ج۴، ص۱۶۸
  8. نک‍: یحیی بن معین، تاریخ، ج ۲، ص ۵۵۷؛ ابن‌حجر، تقریب التهذیب، ۱۳۹۵ھ٬ ج۲، ص۴۶۷؛ قس: نووی، تفسیر النووی، ج ۱، ص ۳۵۳؛ ابن‌حجر، تهذیب التهذیب، ۱۳۲۷ھ، ج۱۲، ص۲۱۴
  9. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ج ۳، ص ۴۵۶؛ قس: مقریزی، امتاع الاسماع ج ۱، ص ۳۷
  10. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج ۳، ص ۴۵۶- ۴۵۷؛ قس: بلاذری، انساب الاشراف، ج ۱، ص ۲۴۱
  11. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۵، ص۲۸۴
  12. رجوع کریں: یحیی بن معین، التاریخ، ج ۲، ص ۷۲۳؛ مسلم بن حجاج، الکنی و الاسماء، ص ۱۷۰؛ ابن قیسرانی، الجمع بین کتابی...، ج ۱، ص ۱۳۸؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۵، ص ۲۸۴
  13. ابن سعد، اسد الغابہ، ج ۳، ص ۴۵۷؛ طبری، تاریخ، ج ۲، ص۴۷۸؛ ابو نعیم، معرة الصحابہ، ج ۳، ص۱۰۹
  14. ابن ہشام، سیرة النبویہ، ج ۳، ص ۴۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج ۱، ص ۳۱۰
  15. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۱، ص ۳۰۹؛ طبری، تاریخ، ج ۲، ص ۴۸۱
  16. ابن اثیر، اسد الغابه، ج ۵، ص ۲۸۴
  17. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج ۳، ص ۴۵۷؛ قس: یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص ۵۸
  18. واقدی، المغازی، ۱۹۶۶م٬ ج ۲، ص ۵۰۷
  19. واقدی، المغازی، ج۲، ص ۵۰۷
  20. واقدی، مغازی، ج۲، ص۵۰۸.
  21. واقدی، مغازی، ج۲، ص۵۰۸.
  22. عروة بن زبیر، ۱۸۷؛ واقدی، المغازی، ج ۲، ص ۵۰۵- ۵۰۷؛ ابن هشام، سیرة النبویة، ج ۳، ص ۲۴۷- ۲۴۸
  23. ابن‌سید الناس٬ عیون الاثر، ج۲، ص۵۱
  24. جعفریان، آثار اسلامی مکّه و مدينه، ص۲۲۵.
  25. رجوع کریں: زہری، المغازی النبویہ، ص ۱۱۱- ۱۱۲
  26. مقريزي، إمتاع الأسماع، ج۱۰، ص۲۷۳ ؛ الحلبی، السیرة الحلبیة فی سیرة الامین المامون، ج۲، ص۶۷۴.
  27. ابن‌خزیمه٬ صحیح ابن‌خزیمه، ج۳، ص۳۵۰
  28. الصالحی٬ سبل الهدی، ج۱۲، ص۳۹۲
  29. زکی یمانی٬ موسوعة مکة المکرمه، ج۲، ص۴۲۳.
  30. السمهودی٬‌ وفاء الوفاء، ج۲، ص۴۲.
  31. نک‍: احمدبن حنبل، مسند، ج ۳، ص ۴۵۲- ۴۵۳؛ مزی، تحفة الاشراف، ج ۹، ص ۲۷۵- ۲۷۸
  32. نک‍: ابن‌حنبل، مسند، ج ۶، ص ۳۲۸؛ ابن‌حجر، تهذیب التهذیب، ج ۱۲، ص ۲۱۴

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، قاہره، ۱۲۸۰ھ۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ، قاہره، ۱۳۲۸ھ۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقریب التہذیب، بہ کوشش عبدالوہاب عبد اللطیف، بیروت، ۱۳۹۵ق/۱۹۷۵ء۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، حیدر آباد دکن، ۱۳۲۷ھ۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، ۱۹۶۰مء۔
  • ابن سعد، محمد بن سعد کاتب واقدی طبقات، ترجمہ محمود مہدوى دامغانى، تہران، انتشارات فرہنگ و انديشہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔
  • ابن قیسرانی، محمد بن نصر، الجمع بین کتابی…، حیدر آباد دکن، ۱۳۲۳ھ۔
  • ابن ہشام، عبد الملک، سیره النبوبہ بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، بیروت، دار احیاء التراث العربی۔
  • ابو نعیم اصفہانی، احمد بن عبدالله، معرفہ الصحابہ، بہ کوشش محمد راضی عثمان، مدینہ/ریاض، ۱۴۰۸۔/۱۹۸۸ء۔
  • احمد بن حنبل، مسند، قاهره، ۱۳۱۳ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بہ کوشش محمد حمیدالله، قاہره، ۱۹۵۹ء۔
  • زہری، محمد بن مسلم، المغازی النبوبہ، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ء۔
  • طبری، تاریخ، عروه بن زبیر، مغازی رسول الله(ص)، بہ کوشش محمد مصطفی اعظمی، ریاض، ۱۴۰۱ھ/۱۹۸۱ء۔
  • مزی، یوسف بن عبدالرحمن، تحفہ الاشراف، بہ کوشش عبد الصمد شرف الدین، بمبئی، ۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ء۔
  • مسلم بن حجاج، الکنی و الاسماء، بہ کوشش مطاع طابیشی، دمشق، ۱۴۰۴ھ/۱۹۸۴ء۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، بہ کوشش محمود محمد شاکر، قاہره، ۱۹۴۱ء۔
  • نووی، محمد بن عمر، تفسیر النووی، بیروت، ۱۳۹۸ھ/۱۹۷۸ء۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶ء۔
  • یحیی بن معین، التاریخ، بہ کوشش احمد محمد نورسیف، مکہ، ۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹ء۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ، بیروت، ۱۳۷۹ھ/۱۹۶۰ء۔